سورۃ الفجر: آیت 24 - يقول يا ليتني قدمت لحياتي... - اردو

آیت 24 کی تفسیر, سورۃ الفجر

يَقُولُ يَٰلَيْتَنِى قَدَّمْتُ لِحَيَاتِى

اردو ترجمہ

وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اِس زندگی کے لیے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaqoolu ya laytanee qaddamtu lihayatee

آیت 24 کی تفسیر

یقول .................... لحیاتی (24:89) ” وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اس زندگی کے لئے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا “۔ کچھ کمائی کرکے اس جہاں کے لئے جمع کی ہوتی ، حقیقی زندگی تو یہ ہے جسے زندگی کہا جاسکتا ہے۔ تیاریاں اور کمائی اور ذخیرہ تو اس زندگی کے لئے ضروری تھا ، اے کاش کہ میں نے کچھ کیا ہوتا ! یہ ہوگی حسرت ناک تمنا۔ اور وہاں انسان ان حسرتناک تمناﺅں کے سوا اور کر کیا سکے گا۔

ان دل دوز حسرتوں اور بےکار تمناﺅں کے بعد اب اس کا انجام مختصراً یہ ہوگا۔

آیت 24{ یَـقُوْلُ یٰــلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ۔ } ”وہ کہے گا : اے کاش میں نے اپنی زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا !“ یہاں لفظ حَیَاتِیْ میری زندگی خاص طور پر لائق توجہ ہے۔ یعنی اس وقت انسان کو معلوم ہوجائے گا کہ میری اصل زندگی تو یہ ہے جواَب شروع ہوئی ہے۔ میں خواہ مخواہ دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھتا رہا جو اس اصل زندگی کی تمہید تھی۔ دراصل انسانی زندگی عالم ارواح سے شروع ہوتی ہے اور دنیا سے ہوتی ہوئی ابد الاباد تک جاتی ہے۔ دنیا کے ماہ و سال اور شب و روز کی گنتی سے زندگی کے اس طویل سفر کا حساب ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے اس فلسفے کی ترجمانی یوں کی ہے : ؎تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی !چنانچہ انسان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس کی دنیوی زندگی اس کی جاودانی زندگی کے تسلسل کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے امتحان کے لیے منتخب فرمایا ہے اور اس وقفہ امتحان کے اختتام کی علامت کے طور پر اس نے موت کو تخلیق فرمایا ہے ‘ تاکہ ہر انسان کے اعمال کی جانچ کی جاسکے : { الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط } الملک : 2 ”اس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔“

آیت 24 - سورۃ الفجر: (يقول يا ليتني قدمت لحياتي...) - اردو