اس صفحہ میں سورہ Al-Mursalaat کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المرسلات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا۔ } ”قسم ہے ان ہوائوں کی جو چلائی جاتی ہیں بڑی آہستگی سے۔“ اللہ تعالیٰ ان ہوائوں کو خاص مقاصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چلاتا ہے۔
آیت 4{ فَالْفٰرِقٰتِ فَرْقًا۔ } ”پھر تقسیم کرتی ہیں جدا جدا۔“ سورة الذاریات میں ہوائوں کی اس خصوصیت کا ذکر { فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا۔ } کے الفاظ میں ہوا ہے۔ یعنی ہوائیں سمندر سے بخارات کو بادلوں کی صورت میں دور دراز علاقوں تک لے جاتی ہیں ‘ پھر وہ اس پانی کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مختلف علاقوں میں بارش کی صورت میں تقسیم کرتی ہیں۔ اس تقسیم میں ان کا معاملہ ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا بلکہ ُ جدا جدا ہوتا ہے۔ کہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے َجل تھل ہوجاتا ہے اور کوئی علاقہ خشک رہ جاتا ہے۔
آیت 5{ فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْرًا۔ } ”پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو ذکر کا القاء کرتے ہیں۔“ گزشتہ چار آیات کے بارے میں تقریباً تمام مفسرین متفق ہیں کہ ان میں ہوائوں کا ذکر ہے۔ البتہ اس آیت کے حوالے سے زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے فرشتے مراد ہیں ‘ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لے کر آتے ہیں۔ البتہ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں بھی ہوائوں ہی کا تذکرہ ہے۔ اس حوالے سے ان مفسرین کا استدلال یہ ہے کہ کسی نبی یا کسی داعی کی آواز بھی تو ہوا ہی کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچتی ہے۔ یعنی پیغامات و معلومات کی ترسیل و تقسیم کا ذریعہ medium تو بہرحال ہوا ہی ہے۔
آیت 6{ عُذْرًا اَوْ نُذْرًا۔ } ”عذر کے طور پر یا خبردار کرنے کے لیے۔“ وحی یا ذکر یاد دہانی کا ابلاغ یا تو اس لیے ہوتا ہے کہ لوگوں پر اتمامِ حجت ہو اور ان کا عذر ختم ہوجائے۔ جیسا کہ سورة النساء کی آیت 165 میں انبیاء و رسل - کی بعثت کا مقصد واضح کرتے ہوئے فرمایا گیا : { لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِط } ”تا کہ نہ رہ جائے لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت دلیل رسولوں علیہ السلام کے آنے کے بعد“۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں علیہ السلام کو دنیا میں اسی لیے بھیجا تھا کہ ان کی بعثت کے بعد لوگوں کے پاس اس کے ہاں پیش کرنے کے لیے کوئی عذرنہ رہ جائے۔ وحی یا یاددہانی کا دوسرا مقصد یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگوں کو خبردار کرنے نُذْرًا کے لیے ہوتی ہے کہ اگر وہ جاگنا چاہیں تو جاگ جائیں اور راہ راست پر آنا چاہیں تو آجائیں۔ اب اگلی آیت میں ان قسموں کے مقسم علیہ کا ذکر ہے کہ یہ قسمیں کس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کھائی گئی ہیں :
آیت 7{ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَـوَاقِعٌ۔ } ”جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ واقع ہو کر رہے گی۔“ یعنی جس قیامت کے بارے میں تم لوگوں کو بار بار متنبہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور آکر رہے گی۔ واضح رہے کہ سورة قٓ سے لے کر سورة الناس تک مکی سورتوں کا موضوع انذارِ آخرت ہے۔ اس لیے سورة الذاریات کی قسموں کا مقسم علیہ بھی انذارِ آخرت ہی سے متعلق تھا : { اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ - وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ۔ } ”جو وعدہ تمہیں دیا جا رہا ہے وہ یقینا سچ ہے۔ اور جزا و سزا ضرور واقع ہو کر رہے گی“۔ البتہ سورة الصافات کے آغاز میں مذکور قسموں کا انداز تو بالکل ایسا ہی ہے لیکن وہاں ان قسموں کے مقسم علیہ کا تعلق توحید سے ہے : { اِنَّ اِلٰہَکُمْ لَوَاحِدٌ۔ } ”یقینا تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے“۔ اس لیے کہ سورة الصافات کا تعلق سورتوں کے جس گروپ سے ہے اس گروپ کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔
آیت 8{ فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ۔ } ”پس جب ستارے مٹا دیے جائیں گے۔“ یعنی بےنور کردیے جائیں گے اور ان کی روشنی ختم ہوجائے گی۔
آیت 9{ وَاِذَا السَّمَآئُ فُرِجَتْ۔ } ”اور جب آسمان میں شگاف پڑجائیں گے۔“ ایسی آیات ہمارے لیے آیات متشابہات کا درجہ رکھتی ہیں۔ البتہ توقع کی جاسکتی ہے کہ جیسے جیسے سائنسی ترقی کی بدولت انسان کی معلومات بڑھیں گی ‘ ان آیات کا مفہوم بتدریج واضح ہوتا چلا جائے گا۔
آیت 10{ وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ۔ } ”اور جب پہاڑ ریت بنا کر اُڑا دیے جائیں گے۔“ قیامت کے زلزلے کے باعثپہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ریت کے ٹیلوں کی مانند ہوجائیں گے اور ان ٹیلوں کے ذرّات ہوا میں اڑتے پھریں گے۔
آیت 1 1{ وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ۔ } ”اور جب رسولوں علیہ السلام کے کھڑے ہونے کا وقت آپہنچے گا۔“ جب انبیاء ورسل - اللہ تعالیٰ کی عدالت میں شہادتیں دینے کے لیے کھڑے ہوں گے۔
آیت 13{ لِیَوْمِ الْفَصْلِ۔ } ”فیصلے کے دن کے لیے۔“ یعنی انبیاء و رسل - کی اپنی اپنی قوموں کے خلاف گواہی کہ اے اللہ ! ہم نے تیرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا ‘ اب یہ لوگ خود جوابدہ ہیں اور خود متعلقہ اقوام کے افراد سے پوچھ گچھ جیسے معاملات اسی فیصلے کے دن کے لیے موخر کیے گئے ہیں۔
آیت 15{ وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔ } ”ہلاکت اور بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔“ لفظ ”ویل“ کے معنی تباہی اور بربادی کے بھی ہیں اور یہ جہنم کی ایک وادی کا نام بھی ہے ‘ جس کی سختیوں سے خود جہنم بھی پناہ مانگتی ہے۔
آیت 17{ ثُمَّ نُتْبِعُہُمُ الْاٰخِرِیْنَ۔ } ”پھر ہم ان کے پیچھے لگاتے رہے بعد میں آنے والوں کو۔“ اس سے نوع انسانی کی مختلف نسلوں کا یکے بعد دیگرے معمول کے مطابق دنیا میں آنا بھی مراد ہے اور ایک قوم کی تباہی کے بعد اس کی جگہ دوسری قوم کا اٹھایا جانا بھی۔ جیسے قوم نوح علیہ السلام کی ہلاکت کے بعد قوم عاد اور قوم عاد کی بربادی کے بعد قوم ثمود کو پیدا کیا گیا۔
آیت 19{ وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔ } ”ہلاکت اور بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔“ یہ اس سورت کی ترجیعی بار بار دہرائی جانے والی آیت ہے جو اس میں دس مرتبہ آئی ہے۔