سورة الدخان (44): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ad-Dukhaan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الدخان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة الدخان کے بارے میں معلومات

Surah Ad-Dukhaan
سُورَةُ الدُّخَانِ
صفحہ 496 (آیات 1 سے 18 تک)

حمٓ وَٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ إِنَّآ أَنزَلْنَٰهُ فِى لَيْلَةٍ مُّبَٰرَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ أَمْرًا مِّنْ عِندِنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ رَبِّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَآ ۖ إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ ءَابَآئِكُمُ ٱلْأَوَّلِينَ بَلْ هُمْ فِى شَكٍّ يَلْعَبُونَ فَٱرْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِى ٱلسَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ يَغْشَى ٱلنَّاسَ ۖ هَٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ رَّبَّنَا ٱكْشِفْ عَنَّا ٱلْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ أَنَّىٰ لَهُمُ ٱلذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ ثُمَّ تَوَلَّوْا۟ عَنْهُ وَقَالُوا۟ مُعَلَّمٌ مَّجْنُونٌ إِنَّا كَاشِفُوا۟ ٱلْعَذَابِ قَلِيلًا ۚ إِنَّكُمْ عَآئِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ ٱلْبَطْشَةَ ٱلْكُبْرَىٰٓ إِنَّا مُنتَقِمُونَ ۞ وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَآءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ أَنْ أَدُّوٓا۟ إِلَىَّ عِبَادَ ٱللَّهِ ۖ إِنِّى لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ
496

سورة الدخان کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة الدخان کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

اردو ترجمہ

قسم ہے اِس کتاب مبین کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalkitabi almubeeni

اردو ترجمہ

کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna anzalnahu fee laylatin mubarakatin inna kunna munthireena

عظیم الشان قرآن کریم کا نزول اور ماہ شعبان اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس عظیم الشان قرآن کریم کو بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ جیسے ارشاد ہے آیت (اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ښ) 97۔ القدر :1) ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ اور یہ رات رمضان المبارک میں ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ01805) 2۔ البقرة :185) رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ سورة بقرہ میں اس کی پوری تفسیر گذر چکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ نہیں لکھتے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لیلہ مبارکہ جس مے قرآن شریف ہوا وہ شعبان کی پندرہویں رات ہے یہ قول سراسر بےدلیل ہے۔ اس لئے کہ نص قرآن سے قرآن کا رمضان میں نازل ہونا ثابت ہے۔ اور جس حدیث میں مروی ہے کہ شعبان میں اگلے شعبان تک کے تمام کام مقرر کر دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ نکاح کا اور اولاد کا اور میت کا ہونا بھی وہ حدیث مرسل ہے اور ایسی احادیث سے نص قرآنی کا معارضہ نہیں کیا جاسکتا ہم لوگوں کو آگاہ کردینے والے ہیں یعنی انہیں خیر و شر نیکی بدی معلوم کرا دینے والے ہیں تاکہ مخلوق پر حجت ثابت ہوجائے اور لوگ علم شرعی حاصل کرلیں اسی شب ہر محکم کام طے کیا جاتا ہے یعنی لوح محفوظ سے کاتب فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے تمام سال کے کل اہم کام عمر روزی وغیرہ سب طے کرلی جاتی ہے۔ حکیم کے معنی محکم اور مضبوط کے ہیں جو بدلے نہیں وہ سب ہمارے حکم سے ہوتا ہے ہم رسل کے ارسال کرنے والے ہیں تاکہ وہ اللہ کی آیتیں اللہ کے بندوں کو پڑھ سنائیں جس کی انہیں سخت ضرورت اور پوری حاجت ہے یہ تیرے رب کی رحمت ہے اس رحمت کا کرنے والا قرآن کو اتارنے والا اور رسولوں کو بھیجنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان زمین اور کل چیز کا مالک ہے اور سب کا خالق ہے۔ تم اگر یقین کرنے والے ہو تو اس کے باور کرنے کے کافی وجوہ موجود ہیں پھر ارشاد ہوا کہ معبود برحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہر ایک کی موت زیست اسی کے ہاتھ ہے تمہارا اور تم سے اگلوں کا سب کا پالنے پوسنے والا وہی ہے اس آیت کا مضمون اس آیت جیسا ہے (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا01508) 7۔ الاعراف :158) ، یعنی تو اعلان کر دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ جس کی بادشاہت ہے آسمان و زمین کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو جلاتا اور مارتا ہے۔

اردو ترجمہ

یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Feeha yufraqu kullu amrin hakeemin

اردو ترجمہ

ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amran min AAindina inna kunna mursileena

اردو ترجمہ

تیرے رب کی رحمت کے طور پر یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rahmatan min rabbika innahu huwa alssameeAAu alAAaleemu

اردو ترجمہ

آسمانوں اور زمین کا رب اور ہر اُس چیز کا رب جو آسمان و زمین کے درمیان ہے اگر تم لوگ واقعی یقین رکھنے والے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbi alssamawati waalardi wama baynahuma in kuntum mooqineena

اردو ترجمہ

کوئی معبود اُس کے سوا نہیں ہے وہی زندگی عطا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے تمہارا رب اور تمہارے اُن اسلاف کا رب جو پہلے گزر چکے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La ilaha illa huwa yuhyee wayumeetu rabbukum warabbu abaikumu alawwaleena

اردو ترجمہ

(مگر فی الواقع اِن لوگوں کو یقین نہیں ہے) بلکہ یہ اپنے شک میں پڑے کھیل رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal hum fee shakkin yalAAaboona

دھواں ہی دھواں اور کفار فرماتا ہے کہ حق آچکا اور یہ شک شبہ میں اور لہو لعب میں مشغول و مصروف ہیں انہیں اس دن سے آگاہ کر دے جس دن آسمان سے سخت دھواں آئے گا حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ کوفے کی مسجد میں گئے جو کندہ کے دروازوں کے پاس ہے تو دیکھا کہ ایک حضرت اپنے ساتھیوں میں قصہ گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جس دھوئیں کا ذکر ہے اس سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کے دن منافقوں کے کانوں اور آنکھوں میں بھر جائے گا اور مومنوں کو مثل زکام کے ہوجائے گا۔ ہم وہاں سے جب واپس لوٹے اور حضرت ابن مسعود سے اس کا ذکر کیا تو آپ لیٹے لیٹے بےتابی کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمانے لگے اللہ عزوجل نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے میں تم سے اس پر کوئی بدلہ نہیں چاہتا اور میں تکلف کرنے والوں میں نہیں ہوں۔ یہ بھی علم ہے کہ انسان جس چیز کو نہ جانتا ہو کہہ دے کہ اللہ جانے سنو میں تمہیں اس آیت کا صحیح مطلب سناؤں جب کہ قریشیوں نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی اور حضور ﷺ کو ستانے لگے تو آپ نے ان پر بددعا کی کہ یوسف کے زمانے جیسا قحط ان پر آپڑے۔ چناچہ وہ دعا قبول ہوئی اور ایسی خشک سالی آئی کہ انہوں نے ہڈیاں اور مردار چبانا شروع کیا۔ اور آسمان کی طرف نگاہیں ڈالتے تھے تو دھویں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ بوجہ بھوک کے ان کی آنکھوں میں چکر آنے لگے جب آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تو درمیان میں ایک دھواں نظر آتا۔ اسی کا بیان ان دو آیتوں میں ہے۔ لیکن پھر اس کے بعد لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ہلاکت کی شکایت کی۔ آپ کو رحم آگیا اور آپ نے جناب باری تعالیٰ میں التجا کی چناچہ بارش برسی اسی کا بیان اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ عذاب کے ہٹتے ہی پھر کفر کرنے لگیں گے۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ یہ دنیا کا عذاب ہے کیونکہ آخرت کے عذاب تو ہٹتے کھلتے اور دور ہوتے نہیں۔ حضرت ابن مسعود کا قول ہے کہ پانچ چیزیں گذر چکیں۔ دخان، روم، قمر، بطشہ، اور لزام (صحیحین) یعنی آسمان سے دھوئیں کا آنا۔ رومیوں کا اپنی شکست کے بعد غلبہ پانا۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونا بدر کی لڑائی میں کفار کا پکڑا جانا اور ہارنا۔ اور چمٹ جانے والا عذاب بڑی سخت پکڑ سے مراد بدر کے دن لڑائی ہے حضرت ابن مسعود، نخعی، ضحاک، عطیہ، عوفی، وغیرہ کا ہے اور اسی کو ابن جریر بھی ترجیح دیتے ہیں۔ عبدالرحمن اعرج سے مروی ہے کہ یہ فتح مکہ کے دن ہوا۔ یہ قول بالکل غریب بلکہ منکر ہے اور بعض حضرات فرماتے ہیں یہ گذر نہیں گیا بلکہ قرب قیامت کے آئے گا۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ صحابہ قیامت کا ذکر کر رہے تھے اور حضور ﷺ آگئے۔ تو آپ نے فرمایا جب تک دس نشانات تم نہ دیکھ لو قیامت نہیں آئے گی سورج کا مغرب سے نکلنا، دھواں، یاجوج ماجوج کا آنا، مشرق مغرب اور جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسایا جانا، آگ کا عدن سے نکل کر لوگوں کو ہانک کر ایک جا کرنا۔ جہاں یہ رات گذاریں گے آگ بھی گذارے گی اور جہاں یہ دوپہر کو سوئیں گے آگ بھی قیلولہ کرے گی۔ (مسلم) بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابن صیاد کے لئے دل میں آیت (فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ 10 ۙ) 44۔ الدخان :10) چھپا کر اس سے پوچھا کہ بتا میں نے اپنے دل میں کیا چھپا رکھا ہے ؟ اس نے کہا (دخ) آپ نے فرمایا بس برباد ہو اس سے آگے تیری نہیں چلنے کی۔ اس میں بھی ایک قسم کا اشارہ ہے کہ ابھی اس کا انتظار باقی ہے اور یہ کوئی آنے والی چیز ہے چونکہ ابن صیاد بطور کاہنوں کے بعض باتیں دل کی زبان سے بتانے کا مدعی تھا اس کے جھوٹ کو ظاہر کرنے کے لئے آپ نے یہ کیا اور جب وہ پورا نہ بتا سکا تو آپ نے لوگوں کو اس کی حالت سے واقف کردیا کہ اس کے ساتھ شیطان ہے کلام صرف چرا لیتا ہے اور یہ اس سے زیادہ پر قدرت نہیں پانے کا۔ ابن جریر میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے اولین نشانیاں یہ ہیں۔ دجال کا آنا اور عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کا نازل ہونا اور آگ کا بیچ عدن سے نکلنا جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی قیلولے کے وقت اور رات کی نیند کے وقت بھی ان کے ساتھ رہے گی اور دھویں کا آنا۔ حضرت حذیفہ نے سوال کیا کہ حضور ﷺ دھواں کیسا ؟ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ دھواں چالیس دن تک گھٹا رہے گا جس سے مسلمانوں کو تو مثل نزلے کے ہوجائے گا اور کافر بیہوش و بدمست ہوجائے گا اس کے نتھنوں سے کانوں سے اور دوسری جگہ سے دھواں نکلتا رہے گا۔ یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو پھر دخان کے معنی مقرر ہوجانے میں کوئی بات باقی نہ رہتی۔ لیکن اس کی صحت کی گواہی نہیں دی جاسکتی اس کے راوی رواد سے محمد بن خلف عسقلانی نے سوال کیا کہ کیا سفیان ثوری سے تو نے خود یہ حدیث سنی ہے ؟ اس نے انکار کیا پوچھا کیا تو نے پڑھی اور اس نے سنی ہے ؟ کہا نہیں۔ پوچھا اچھا تمہاری موجودگی میں اس کے سامنے یہ حدیث پڑھی گئی ؟ کہا نہیں کہا پھر تم اس حدیث کو کیسے بیان کرتے ہو ؟ کہا میں نے تو بیان نہیں کی میرے پاس کچھ لوگ آئے اس روایت کو پیش کی پھر جا کر میرے نام سے اسے بیان کرنی شروع کردی بات بھی یہی ہے یہ حدیث بالکل موضوع ہے ابن جریر اسے کئی جگہ لائے ہیں اور اس میں بہت سی منکرات ہیں خصوصًا مسجد اقصیٰ کے بیان میں جو سورة بنی اسرائیل کے شروع میں ہے واللہ اعلم۔ اور حدیث میں ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تین چیزوں سے ڈرایا، دھواں جو مومن کو زکام کر دے گا اور کافر کا تو سارا جسم پھلا دے گا۔ روئیں روئیں سے دھواں اٹھے گا دابتہ الارض اور دجال۔ اس کی سند بہت عمدہ ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں دھواں پھیل جائے گا مومن کو تو مثل زکام کے لگے گا اور کافر کے جوڑ جوڑ سے نکلے گا یہ حدیث حضرت ابو سعید خدری کے قول سے بھی مروی ہے اور حضرت حسن کے اپنے قول سے بھی مروی ہے حضرت علی فرماتے ہیں دخان گذر نہیں گیا بلکہ اب آئے گا۔ حضرت ابن عمر سے دھویں کی بابت اوپر کی حدیث کی طرح روایت ہے ابن ابی ملکیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت حضرت ابن عباس کے پاس گیا۔ تو آپ فرمانے لگے رات کو میں بالکل نہیں سویا میں نے پوچھا کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ لوگوں سے سنا کہ دم دار ستارہ نکلا ہے تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہی دخان نہ ہو پس صبح تک میں نے آنکھ سے آنکھ نہیں ملائی۔ اس کی سند صحیح ہے اور (حبرالامتہ) ترجمان القرآن حضرت ابن عباس کے ساتھ صحابہ اور تابعین بھی ہیں اور مرفوع حدیثیں بھی ہیں۔ جن میں صحیح حسن اور ہر طرح کی ہیں اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ دخان ایک علامت قیامت ہے جو آنے والی ہے ظاہری الفاظ قرآن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کیونکہ قرآن نے اسے واضح اور ظاہر دھواں کہا ہے جسے ہر شخص دیکھ سکے اور بھوک کے دھوئیں سے اسے تعبیر کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ وہ تو ایک خیالی چیز ہے بھوک پیاس کی سختی کی وجہ سے دھواں سا آنکھوں کے آگے نمودار ہوجاتا ہے جو دراصل دھواں نہیں اور قرآن کے الفاظ ہیں آیت (دخان مبین) کے۔ پھر یہ فرمان کہ وہ لوگوں کو ڈھانک لے گی یہ بھی حضرت ابن عباس کی تفسیر کی تائید کرتا ہے کیونکہ بھوک کے اس دھوئیں نے صرف اہل مکہ کو ڈھانپا تھا نہ کہ تمام لوگوں کو پھر فرماتا ہے کہ یہ ہے المناک عذاب یعنی ان سے یوں کہا جائے گا جیسے اور آیت میں ہے (يَوْمَ يُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا 13؀ۭ) 52۔ الطور :13) ، جس دن انہیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا کہ یہ وہ آگ ہے جسے تم جھٹلا رہے تھے یا یہ مطلب کہ وہ خود ایک دوسرے سے یوں کہیں گے کافر جب اس عذاب کو دیکھیں گے تو اللہ سے اس کے دور ہونے کی دعا کریں گے جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27؀) 6۔ الانعام :27) ، یعنی کاش کے تو انہیں دیکھتا جب یہ آگ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے کاش کے ہم لوٹائے جاتے تو ہم اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور باایمان بن کر رہتے اور آیت میں ہے لوگوں کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا اس دن گنہگار کہیں گے پروردگار ہمیں تھوڑے سے وقت تک اور ڈھیل دے دے تو ہم تیری پکار پر لبیک کہہ لیں اور تیرے رسولوں کی فرمانبرداری کرلیں پس یہاں یہی کہا جاتا ہے کہ ان کے لئے نصیحت کہاں ؟ ان کے پاس میرے پیغامبر آچکے انہوں نے ان کے سامنے میرے احکام واضح طور پر رکھ دئیے لیکن ماننا تو کجا انہوں نے پرواہ تک نہ کی بلکہ انہیں جھوٹا کہا ان کی تعلیم کو غلط کہا ان کی تعلیم کو غلط کہا اور صاف کہہ000دیا کہ یہ تو سکھائے پڑھائے ہیں، انہیں جنوں ہوگیا ہے جیسے اور آیت میں ہے اس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا لیکن اب اس کے لئے نصیحت کہاں ہے ؟ اور جگہ فرمایا ہے آیت (وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ ۚ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ 52؀ښ) 34۔ سبأ :52) ، یعنی اس دن عذابوں کو دیکھ کر ایمان لانا سراسر بےسود ہے پھر جو ارشاد ہوتا ہے اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ اگر بالفرض ہم عذاب ہٹا لیں اور تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں تو بھی تم پھر وہاں جا کر یہی کرو گے جو اس سے پہلے کر کے آئے ہو جیسے فرمایا آیت (وَلَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّـــلَجُّوْا فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ 75؀) 23۔ المؤمنون :75) ، یعنی اگر ہم ان پر رحم کریں اور برائی ان سے ہٹا لیں تو پھر یہ اپنی سرکشی میں آنکھیں بند کر کے منہمک ہوجائیں گے اور جیسے فرمایا آیت (وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ 28؀) 6۔ الانعام :28) ، یعنی اگر یہ لوٹائے جائیں تو قطعًا دوبارہ پھر ہماری نافرمانیاں کرنے لگیں گے اور محض جھوٹے ثابت ہوں گے۔ دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اگر عذاب کے اسباب قائم ہو چکنے اور عذاب آجانے کے بعد بھی گو ہم اسے کچھ دیر ٹھہرا لیں تاہم یہ اپنی بد باطنی اور خباثت سے باز نہیں آنے کے اس سے یہ لازم آتا کہ عذاب انہیں پہنچا اور پھر ہٹ گیا جیسے قوم یونس کی حضرت حق تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قوم یونس جب ایمان لائی ہم نے ان سے عذاب ہٹا لیا۔ گویا عذاب انہیں ہونا شروع نہیں ہوا تھا ہاں اس کے اسباب موجود و فراہم ہوچکے تھے ان تک اللہ کا عذاب پہنچ چکا تھا اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ اپنے کفر سے ہٹ گئے تھے پھر اس کی طرف لوٹ گئے۔ چناچہ حضرت شعیب اور ان پر ایمان لانے والوں سے جب قوم نے کہا کہ یا تو تم ہماری بستی چھوڑ دو یا ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ تو جواب میں اللہ کے رسول نے فرمایا کہ گو ہم اسے برا جانتے ہوں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے رکھی ہے پھر بھی اگر ہم تمہاری ملت میں لوٹ آئیں تو ہم سے بڑھ کر جھوٹا اور اللہ کے ذمے بہتان باندھنے والا اور کون ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ حضرت شعیب ؑ نے اس سے پہلے بھی کبھی کفر میں قدم نہیں رکھا تھا اور حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ تم لوٹنے والے ہو۔ اس سے مطلب اللہ کے عذاب کی طرف لوٹنا ہے بڑی اور سخت پکڑ سے مراد جنگ بدر ہے حضرت ابن مسعود اور آپ کے ساتھ کی وہ جماعت جو دخان کو ہوچکا مانتی ہے وہ تو (بطشہ) کے معنی یہی کرتی ہے بلکہ حضرت ابن عباس سے حضرت ابی بن کعب سے ایک اور جماعت سے یہی منقول ہے گو یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے لیکن بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن کی پکڑ ہے گو بدر کا دن بھی پکڑ کا اور کفار پر سخت دن تھا ابن جریر میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ گو حضرت ابن مسعود اسے بدر کا دن بتاتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس سے مراد قیامت کا دن ہے اس کی اسناد صحیح ہے حضرت حسن بصری اور عکرمہ سے بھی دونوں روایتوں میں زیادہ صحیح روایت یہی ہے واللہ اعلم۔

اردو ترجمہ

اچھا انتظار کرو اُس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fairtaqib yawma tatee alssamao bidukhanin mubeenin

اردو ترجمہ

اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا، یہ ہے درد ناک سزا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaghsha alnnasa hatha AAathabun aleemun

اردو ترجمہ

(اب کہتے ہیں کہ) " پروردگار، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana ikshif AAanna alAAathaba inna muminoona

اردو ترجمہ

اِن کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے؟ اِن کا حال تو یہ ہے کہ اِن کے پاس رسول مبین آ گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Anna lahumu alththikra waqad jaahum rasoolun mubeenun

اردو ترجمہ

پھر بھی یہ اُس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا کہ "یہ تو سکھایا پڑھایا باولا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma tawallaw AAanhu waqaloo muAAallamun majnoonun

اردو ترجمہ

ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں، تم لوگ پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna kashifoo alAAathabi qaleelan innakum AAaidoona

اردو ترجمہ

جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma nabtishu albatshata alkubra inna muntaqimoona

اردو ترجمہ

ہم اِن سے پہلے فرعون کی قوم کو اِسی آزمائش میں ڈال چکے ہیں اُن کے پاس ایک نہایت شریف رسول آیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad fatanna qablahum qawma firAAawna wajaahum rasoolun kareemun

قبطیوں کا انجام ارشاد ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے پہلے مصر کے قبطیوں کو ہم نے جانچا ان کی طرف اپنے بزرگ رسول حضرت موسیٰ کو بھیجا انہوں نے میرا پیغام پہنچایا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ کردو انہیں دکھ نہ دو میں اپنی نبوت پر گواہی دینے والے معجزے اپنے ساتھ لایا ہوں اور ہدایت کے ماننے والے سلامتی سے رہیں گے مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا امانت دار بنا کر تمہاری طرف بھیجا ہے میں تمہیں اس کا پیغام پہنچا رہا ہوں تمہیں رب کی باتوں کے ماننے سے سرکشی نہ کرنی چاہئے اس کے بیان کردہ دلائل و احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ اس کی عبادتوں سے جی چرانے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم واصل ہوتے ہیں میں تو تمہارے سامنے کھلی دلیل اور واضح آیت رکھتا ہوں میں تمہاری بدگوئی اور اہتمام سے اللہ کی پناہ لیتا ہوں۔ ابن عباس اور ابو صالہ تو یہی کہتے ہیں اور قتادہ کہتے ہیں مراد پتھراؤ کرنا پتھروں سے مار ڈالنا ہے یعنی زبانی ایذاء سے اور دستی ایذاء سے میں اپنے رب کی جو تمہارا بھی مالک ہے پناہ چاہتا ہوں اچھا اگر تم میری نہیں مانتے مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ پر ایمان نہیں لاتے تو کم از کم میری تکلیف دہی اور ایذاء رسانی سے تو باز رہو۔ اور اس کے منتظر رہو جب کہ خود اللہ ہم میں تم میں فیصلہ کر دے گا پھر جب اللہ کے نبی کلیم اللہ حضرت موسیٰ نے ایک لمبی مدت ان میں گذاری خوب دل کھول کھول کر تبلیغ کرلی ہر طرح کی خیر خواہی کی ان کی ہدایت کے لئے ہرچند جتن کر لئے اور دیکھا کہ وہ روز بروز اپنے کفر میں بڑھتے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے انکے لئے بددعا کی جیسے اور آیت میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اس کے امراء کو دنیوی نمائش اور مال و متاع دے رکھی ہے اے اللہ یہ اس سے دوسروں کو بھی تیری راہ سے بھٹکا رہے ہیں تو ان کا مال غارت کر اور ان کے دل اور سخت کر دے تاکہ دردناک عذابوں کے معائنہ تک انہیں ایمان نصیب ہی نہ ہو اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ اے موسیٰ اور اے ہارون میں نے تمہاری دعا قبول کرلی اب تم استقامت پر تل جاؤ یہاں فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ میرے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو راتوں رات فرعون اور فرعونیوں کی بیخبر ی میں یہاں سے لے کر چلے جاؤ۔ یہ کفار تمہارا پیچھا کریں گے لیکن تم بےخوف و خطر چلے جاؤ میں تمہارے لئے دریا کو خشک کر دوں گا اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو لے کر چل پڑے فرعونی لشکر مع فرعون کے ان کے پکڑنے کو چلا بیچ میں دریا حائل ہوا آپ بنی اسرائیل کو لے کر اس میں اتر گئے دریا کا پانی سوکھ گیا اور آپ اپنے ساتھیوں سمیت پار ہوگئے تو چاہا کہ دریا پر لکڑی مار کر اسے کہہ دیں کہ اب تو اپنی روانی پر آجا تاکہ فرعون اس سے گزر نہ سکے وہیں اللہ نے وحی بھیجی کہ اسے اسی حال میں سکون کے ساتھ ہی رہنے دو ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بتادی کہ یہ سب اسی میں ڈوب مریں گے۔ پھر تو تم سب بالکل ہی مطمئن اور بےخوف ہوجاؤ گے غرض حکم ہوا تھا کہ دریا کو خشک چھوڑ کر چل دیں (رھواً) کے معنی سوکھا راستہ جو اصلی حالت پر ہو۔ مقصد یہ ہے کہ پار ہو کہ دریا کو روانی کا حکم نہ دینا یہاں تک کہ دشمنوں میں سے ایک ایک اس میں آ نہ جائے اب اسے جاری ہونے کا حکم ملتے ہی سب کو غرق کر دے گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو کیسے غارت ہوئے۔ باغات کھتیاں نہریں مکانات اور بیٹھکیں سب چھوڑ کر فنا ہوگئے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مصر کا دریائے نیل مشرق مغرب کے دریاؤں کا سردار ہے اور سب نہریں اس کے ماتحت ہیں جب اس کی روانی اللہ کو منظور ہوتی ہیں تو تمام نہروں کو اس میں پانی پہنچانے کا حکم ہوتا ہے جہاں تک رب کو منظور ہو اس میں پانی آجاتا ہے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اور نہروں کو روک دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اب اپنی اپنی جگہ چلی جاؤ اور فرعونیوں کے یہ باغات دریائے نیل کے دونوں کناروں پر مسلسل چلے گئے تھے رسواں سے لے کر رشید تک اس کا سلسلہ تھا اور اس کی نو خلیجیں تھیں۔ خلیج اسکندریہ، دمیاط، خلیج سردوس، خلیج منصف، خلیج منتہی اور ان سب میں اتصال تھا ایک دوسرے سے متصل تھیں اور پہاڑوں کے دامن میں ان کی کھیتیاں تھیں جو مصر سے لے کر دریا تک برابر چلی آتی تھیں ان تمام کو بھی دریا سیراب کرتا تھا بڑے امن چین کی زندگی گذار رہے تھے لیکن مغرور ہوگئے اور آخر ساری نعمتیں یونہی چھوڑ کر تباہ کر دئیے گئے۔ مال اولاد جاہ و مال سلطنت و عزت ایک ہی رات میں چھوڑ گئے اور بھس کی طرح اڑا دئیے گئے اور گذشتہ کل کی طرح بےنشان کر دئیے گئے ایسے ڈبوئے گئے کہ ابھر نہ سکے جہنم واصل ہوگئے اور بدترین جگہ پہنچ گئے ان کی یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دے دیں۔ جیسے اور آیت میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کمزوروں کو ان کے صبر کے بدلے اس سرکش قوم کی کل نعمتیں عطا فرمادیں اور بےایمانوں کا بھرکس نکال ڈالا یہاں بھی دوسری قوم جسے وارث بنایا اس سے مراد بھی بنی اسرائیل ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زمین و آسمان نہ روئے کیونکہ ان پاپیوں کے نیک اعمال تھے ہی نہیں جو آسمانوں پر چڑھتے ہوں اور اب ان کے نہ چڑھنے کی وجہ سے وہ افسوس کریں نہ زمین میں ان کی جگہیں ایسی تھیں کہ جہاں بیٹھ کر یہ اللہ کی عبادت کرتے ہوں اور آج انہیں نہ پا کر زمین کی وہ جگہ ان کا ماتم کرے انہیں مہلت نہ دی گئی۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے ہر بندے کے لئے آسمان میں دو دروازے ہیں ایک سے اس کی روزی اترتی ہے دوسرے سے اس کے اعمال اور اس کے کلام چڑھتے ہیں۔ جب یہ مرجاتا ہے اور وہ عمل و رزق کو گم شدہ پاتے ہیں تو روتے ہیں پھر اسی آیت کی حضور ﷺ نے تلاوت کی ابن ابی حاتم میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ اسلام غربت سے شروع ہوا اور پھر غربت پر آجائے گا یاد رکھو مومن کہیں انجام مسافر کی طرح نہیں مومن جہاں کہیں سفر میں ہوتا ہے جہاں اس کا کوئی رونے والا نہ ہو وہاں بھی اس کے رونے والے آسمان و زمین موجود ہیں پھر حضور ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا یہ دونوں کفار پر روتے نہیں حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ آسمان و زمین کبھی کسی پر روئے بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا آج تو نے وہ بات دریافت کی ہے کہ تجھ سے پہلے مجھ سے اس کا سوال کسی نے نہیں کیا۔ سنو ہر بندے کے لئے زمین میں ایک نماز کی جگہ ہوتی ہے اور ایک جگہ آسمان میں اس کے عمل کے چڑھنے کی ہوتی ہے اور آل فرعون کے نیک اعمال ہی نہ تھے اس وجہ سے نہ زمین ان پر روئی نہ آسمان کو ان پر رونا آیا اور نہ انہیں ڈھیل دی گئی کہ کوئی نیکی بجا لاسکیں، حضرت ابن عباس سے یہ سوال ہوا تو آپ نے بھی قریب قریب یہی جواب دیا بلکہ آپ سے مروی ہے کہ چالیس دن تک زمین مومن پر روتی رہتی ہے حضرت مجاہد نے جب یہ بیان فرمایا تو کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا آپ نے فرمایا سبحان اللہ اس میں تعجب کی کونسی بات ہے جو بندہ زمین کو اپنے رکوع و سجود سے آباد رکھتا تھا جس بندے کی تکبیر و تسبیح کی آوازیں آسمان برابر سنتا رہا تھا بھلا یہ دونوں اس عابد اللہ پر روئیں گے نہیں ؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں فرعونیوں جیسے ذلیل و خوار لوگوں پر یہ کیوں روتے ؟ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں دنیا جب سے رچائی گئی ہے تب سے آسمان صرف دو شخصوں پر رویا ہے ان کے شاگرد سے سوال ہوا کہ کیا آسمان و زمین ہر ایمان دار پر روتے نہیں ؟ فرمایا صرف اتنا حصہ جس حصے سے اس کا نیک عمل چڑھتا تھا سنو آسمان کا رونا اس کا سرخ ہونا اور مثل نری کے گلابی ہوجانا ہے سو یہ حال صرف دو شخصوں کی شہادت پر ہوا ہے۔ حضرت یحییٰ کے قتل کے موقعے پر تو آسمان سرخ ہوگیا اور خون برسانے لگا اور دوسرے حضرت حسین کے قتل پر بھی آسمان کا رنگ سرخ ہوگیا تھا (ابن ابی حاتم) یزید ابن ابو زیاد کا قول ہے کہ قتل حسین کی وجہ سے چار ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے اور یہی سرخی اس کا رونا ہے حضرت عطا فرماتے ہیں اس کے کناروں کا سرخ ہوجانا اس کا رونا ہے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قتل حسین کے دن جس پتھر کو الٹا جاتا تھا اس کے نیچے سے منجمند خون نکلتا تھا۔ اس دن سورج کو بھی گہن لگا ہوا تھا آسمان کے کنارے بھی سرخ تھے اور پتھر گرے تھے۔ لیکن یہ سب باتیں بےبنیاد ہیں اور شیعوں کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نواسہ رسول ﷺ کی شہادت کا واقعہ نہایت درد انگیز اور حسرت و افسوس والا ہے لیکن اس پر شیعوں نے جو حاشیہ چڑھایا ہے اور گھڑ گھڑا کر جو باتیں پھیلا دی ہیں وہ محض جھوٹ اور بالکل گپ ہیں۔ خیال تو فرمائیے کہ اس سے بہت زیادہ اہم واقعات ہوئے اور قتل حسین سے بہت بڑی وارداتیں ہوئیں لیکن ان کے ہونے پر بھی آسمان و زمین وغیرہ میں یہ انقلاب نہ ہوا۔ آپ ہی کے والد ماجد حضرت علی بھی قتل کئے گئے جو بالاجماع آپ سے افضل تھے لیکن نہ تو پتھروں تلے سے خون نکلا اور کچھ ہوا۔ حضرت عثمان بن عفان کو گھیر لیا جاتا ہے اور نہایت بےدردی سے بلاوجہ ظلم و ستم کے ساتھ انہیں قتل کیا جاتا ہے فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب کو صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے نماز کی جگہ ہی قتل کیا جاتا ہے یہ وہ زبردست مصیبت تھی کہ اس سے پہلے مسلمان کبھی ایسی مصیبت نہیں پہنچائے گئے تھے لیکن ان واقعات میں سے کسی واقعہ کے وقت اب میں سے ایک بھی بات نہیں جو شیعوں نے مقتل حسین کی نسبت مشہور کر رکھی ہے۔ ان سب کو بھی جانے دیجئے تمام انسانوں کے دینی اور دنیوی سردار سید البشر رسول اللہ ﷺ کو لیجئے جس روز آپ رحلت فرماتے ہیں ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا اور سنئے جس روز حضور ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوتا ہے اتفاقاً اسی روز سورج گہن ہوتا ہے اور کوئی کہہ دیتا ہے کہ ابراہیم کے انتقال کی وجہ سورج کو گہن لگا ہے۔ تو حضور ﷺ گہن کی نماز ادا کر کے فوراً خطبے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور فرماتے ہیں سورج چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت زندگی کی وجہ سے انہیں گہن نہیں لگتا اس کے بعد کی آیت میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ ہم نے انہیں فرعون جیسے متکبر حدود شکن کے ذلیل عذابوں سے نجات دی اس نے بنی اسرائیل کو پست و خوار کر رکھا تھا ذلیل خدمتیں ان سے لیتا تھا اور اپنے نفس کو تولتا رہتا تھا خودی اور خود بینی میں لگا ہوا تھا بیوقوفی سے کسی چیز کی حد بندی کا خیال نہیں کرتا تھا اللہ کی زمین میں سرکشی کئے ہوئے تھا۔ اور ان بدکاریوں میں اس کی قوم بھی اس کے ساتھ تھی پھر بنی اسرائیل پر ایک اور مہربانی کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس زمانے کے تمام لوگوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ہر زمانے کو عالم کہا جاتا ہے یہ مراد نہیں کہ تمام اگلوں پچھلوں پر انہیں بزرگی دی یہ آیت بھی اس آیت کی طرح ہے جس میں فرمان ہے آیت (قَالَ يٰمُوْسٰٓي اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ڮ فَخُذْ مَآ اٰتَيْتُكَ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ01404) 7۔ الاعراف :144) اس سے بھی یہی مطلب ہے کہ اس زمانے کی تمام عورتوں پر آپ کو فضیلت ہے اس لئے کہ ام المومنین حضرت خدیجہ ان سے یقینا افضل ہیں یا کم ازکم برابر۔ اسی طرح حضرت آسیہ بنت مزاحم جو فرعون کی بیوی تھیں اور ام المومنین حضرت عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسی فضیلت شوربے میں بھگوئی روٹی کی اور کھانوں پر پھر بنی اسرائیل پر ایک اور احسان بیان ہو رہا ہے کہ ہم نے انہیں وہ حجت وبرہان دلیل و نشان اور معجزات و کرامات عطا فرمائے جن میں ہدایت کی تلاش کرنے والوں کے لئے صاف صاف امتحان تھا۔

اردو ترجمہ

اور اس نے کہا "اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو، میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

An addoo ilayya AAibada Allahi innee lakum rasoolun ameenun
496