سورہ طٰہٰ (20): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Taa-Haa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ طه کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ طٰہٰ کے بارے میں معلومات

Surah Taa-Haa
سُورَةُ طه
صفحہ 312 (آیات 1 سے 12 تک)

سورہ طٰہٰ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ طٰہٰ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

طٰہٰ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Taha

سورة طہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

طہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہ الاسمآء الحسنی (1 : 8) ” “۔

نہایت ہی نرم و نازک اور تروتازہ آغاز ہے ‘ حروف مقطعات طا۔ ہا۔ اشارہ یہی ہے کہ یہ وپری سورة ایسے ہی حروف مقطعات سے مرکب ہے۔ جس طرح یہ قرآن ایسے ہی حروف سے مرکب ہے جیسا کہ دوسری سورتوں کے آغاز میں بھی یہی اشارہ ان حروف کے ذریعہ دیا گیا ہے۔ یہاں جو دو حروف چنے گئے ہیں ان میں ایک مزید یہ اشارہ بھی پیش نظر ہے کہ انکے تلفظ کے آخر میں الف مقصورہ آتا ہے جس طرح اس پوری سورة میں فواصل الف مقصورہ پر ختم ہوتے ہیں۔ حروف مقطعات کے بعد قرآن کریم کا ذکر آتا ہے ‘ جس طرح پورے قرآن میں جس سورة کا آغازحروف مقطعات سے ہوتا ہے ‘ ان کے بعد متصلاً قرآن کریم کا ذکر ہوتا ہے۔ یہاں حضور اکرم ﷺ کو خطاب کی شکل میں تبصرہ ہے قرآن مجید اور اس کی دعوت پر کہ یہ مصیبت نہیں ہے۔

مآ انزلنا۔۔۔۔ لتشقی (02 : 2) ” ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مصیبت میں پڑ جائو “ یعنی یہ قرآن آپ پر نازل ہوا کہ آپ اس کی تبلیغ کریں ‘ اس کی وجہ سے تم پر کوئی مصیبت نہ آئے گی۔ یہ نہیں کہ اس کی تلاوت میں آپکو تکلیف ہو ‘ یہ نہیں کہ اس پر عمل میں آپ کو کوئی مشقت ہو ‘ یہ تو یاد دہانی اور نصیحت آموزی کے لئے آسان کردیا گیا ہے۔ اس کے اندر جو احکام دیئے گئے ہیں وہ انسانی طاقت کی حدد کے اندر اندر ہیں۔ یہ نعمت خداوندی ہے ‘ مصیبت و عذاب خداوندی نہیں ہے۔ اس کے ذریعہ تو عالم بالا سے انسان کا رابطہ ہوتا ہے اور انسان کو عالم بالا کی تائید حاصل ہوتی ہے اور وہ قوت و اطمینان حاصل کرتا ہے۔ اللہ کی رضا مندی کا شعور ‘ اللہ کے ساتھ انس و محبت کا شعور ‘ اور اللہ کے ساتھ صلے اور رابطے کا شعور اس سے حاصل ہوتا ہے۔

یہ قرآن اس لئے بھی نازل نہیں ہوا کہ اگر لوگ اسے نہیں مانتے تو آپ پر یشان ہوں کیونکہ یہ آپ کے فرائض میں نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں۔ نہ اس لئے نازل ہوا ہے کہ آپ ان لوگوں کے عدم ایمان کی وجہ سے دل کو حسرتوں کا خزانہ بنادیں۔ یہ تو صرف اس لیے ہے کہ آپ نصیحت کرتے چلے جائیں اور لوگوں کو انجام بد سے ڈراتے چلے جائیں۔

الا تذکرۃ المن یخشی (02 : 3) ” یہ تو ایک یاد دہانی ہے ‘ ہر اس شخص کے لئے جو ڈرے “۔ جو شخص ڈرتا ہے ‘ جب اسے نصیحت کی جائے تو وہ اثر قبول کرتا ہے ‘ اللہ سے ڈرتا ہے اور اللہ سے معافی طلب کرتا ہے بس یہاں تک رسول اور داعی کے فرائض پورے ہوجاتے ہیں۔ رسولوں اور داعیوں کا یہ فریضہ نہیں ہے کہ وہ دلوں کو لگے ہوئے تالے کھول دیں یا لوگوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوں۔ یہ کام تو اللہ کا ہے جس نے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو اس پوری کائنات کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے ‘ اس پر محیط ہی اور اس کو دلوں کے خفیہ ارادے اور راز تک معلوم ہیں۔

تنیزلا ممن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وما تحتا الثری (6) (02 : 4 تا 6) ” نازل کیا گیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمن (کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں “۔ کیونکہ جس نے اس قرآن کو نازل کیا ہے وہی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ‘ ان بلند ترین آسمانوں کو ‘ کیونکہ یہ قرآن بھی اسی طرح ایک تکوینی مظہر ہے جس طرح زمین و آسمان مظاہر کو نیہ ہیں۔ یہ بھی عالم بالا سے اترا ہے۔ یہاں قرآن مجید ان قوانین قدرت کو جو اس کائنات میں کار فرما ہیں اور ان قوانین کو جو اس قرآن میں ضبط کیے گئے ہیں یکجا کر کے بیان کرتا ہے۔ آسمانوں کا پر تو زمین پر پڑتا ہے اور اس طرح قرآن بھی ملاء اعلیٰ سے زمین کی طرف آتا ہے۔

جس ذات نے ملا اعلیٰ کی طرف سے یہ قرآن نازل کیا ہے اور جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ کون ہے ؟ رحمن ہے اور رحمن جو نہایت ہی مہربان ہوتا ہے ‘ اس کی جانب سے اترا ہوا قرآن کبھی بھی باعث مشقت اور مصیبت نہیں ہوسکتا۔ قرآن اور رحمن دونوں میں صفت رحمت قدر مشرک ہے۔ اور یہ رحمت ہی ہے جس نے اس پوری کائنات کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma anzalna AAalayka alqurana litashqa

اردو ترجمہ

یہ تو ایک یاد دہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa tathkiratan liman yakhsha

اردو ترجمہ

نازل کیا گیا ہے اُس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tanzeelan mimman khalaqa alarda waalssamawati alAAula

اردو ترجمہ

وہ رحمان (کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alrrahmanu AAala alAAarshi istawa

الرحمن علی العرش استوی (02 : 5) ” رحمن کا ئنات کے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے “۔ استوائے عرش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا اس کائنات پر پوری طرح کنٹرول ہے اور یہ اس کی مکمل گرفت میں ہے۔ لہٰذا لوگوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ‘ رسول کا کام صرف یہ ہے کہ جو ڈرتا ہے اسے ڈرائے۔

اس کائنات پر مکمل کنٹرول اور گرفت کے ساتھ ساتھ لہ ما فی السموت۔۔۔۔۔۔۔ وما تحت الشری (02 : 6) ” وہ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمان و زمین میں ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں “۔ یہ کائناتی مناظر یہاں اس لئے دیئے گئے کہ اللہ کی ملکیت اور اس کی قدرت کو اس طرح پیش کیا جائے کہ یہ انسانی تصور کے قریب تر ہوجائیں جبکہ اللہ کی ملکیت اور اس کی ضرورت کا تصور اس سے عظیم تر ہے۔ زمین اور آسمانوں اور مٹی کے نیچے کا ذکر محض اس لئے کیا گیا ہے کہ عوام اس بات کو اچھی طرح سمجھ جائیں کہ اللہ کی گرفت میں جو کائنات ہے اس کی وسعت کا ادراک آہستہ آہستہ وسیع ہو رہا ہے اور بہت بڑا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کو یہ خطاب اس لیے کیا جارہا ہے کہ آپ کا دل مطمئن ہوجائے اور وہ یہ سمجھ لیں کہ رب ان کے ساتھ ہے۔ رب تعالیٰ ان کو اکیلا نہیں چھوڑتا کہ وہ تکالیف منصب نبوت کی وجہ سے مشقت میں پڑجائیں۔ کافروں کا مقابلہ آپ بلا سند نہیں کررہے ‘ اگر آپ اللہ کو جہراً پکاریں تو بھی حرج نہیں لیکن اللہ سراً اور جہراً دونوں پکارنے والوں کو جانتا ہے۔ انسانی دل و دماغ اور شعور میں جب یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اللہ اس کے قریب ہے ‘ اور اس کی دلی دنیا سے بھی واقف ہے تو انسان مطمئن ہوجاتا ہے اور راضی برضا ہوتا ہے۔ پھر وہ اس قرآن کو پڑھ کر مطمئن ہوجاتا ہے اور وہ جھٹلا نے ولے مخالفوں کے درمیان تنہائی محسوس نہیں کرتا اور وہ مخالفین کے درمیان اپنے آپ کو یکہ و تنہا بھی محسوس نہیں کرتا۔

یہ ابتدائی آیات ‘ جو تمہیدی بھی ہیں ‘ اس اعلان پر ختم ہوتی ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور کائنات اس کے کنٹرول میں ہے۔ وہ اس کائنات کا مالک ہے اور اس کائنات کے بارے میں پوری پوری خبرداری اسے حاصل ہے۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ یہ قصہ نمونہ ہے اس بات کا کہ اللہ اپنے داعیوں کی حفاظت اور حمایت کس طرح کرتا ہے۔ نبیوں اور رسولوں کے جو قصص قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں ‘ فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ان سب کے مقابلے میں قرآن مجید کے اندر زیادہ جگہ لیتا ہے۔ اس قصے کی مختلف کڑیاں قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں آتی ہیں۔ ان کڑیوں کا انتخاب ہر سورة کے مضمون اور موضوع کی مناسبت سے کیا جاتا ہے اور اس کا انداز بیان بھی اسی رنگ میں ہوتا ہے جس رنگ میں پوری سورة کا انداز بیان ہوتا ہے۔ اس سے قبل اس قصے کی کچھ کڑیاں ‘ سورة بقرہ ‘ سورة مائدہ ‘ سورة اعراف ‘ سورة یونس ‘ سورة اسرائ ‘ سورة کہف میں آچکی ہیں اور دوسری سورتوں میں بھی اس قصے کی طرف اشارات موجود ہیں۔

مائدہ میں جو کچھ آیا وہ صرف ایک کڑی ہے یعنی یہ کڑی کہ بنی اسرائیل جب بیت المقدس میں آئے تو یہ لوگ شہر کے باہر کھڑے ہوگئے اور شہر کے اندر داخل ہونے سے رک گئے ‘ اس لئے کہ اس شہر میں ایک جبار قوم رہتی ہے۔ سورة کہف میں بھی اس کی ایک ہی کڑی ہے ‘ یعنی حضرت موسیٰ اور عبد صالح کے ساتھ ان کی ملاقات اور مختصر صحبت۔

بقرہ ‘ اعراف ‘ یونس اور طہ میں قصہ موسیٰ و فرعون کی گئی کڑیاں آئی ہیں لیکن ان میں سے بھی مختلف سورتوں میں آنے والی کڑیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس طرح اس قصے کی کڑیاں مختلف ہیں۔ اسی طرح مختلف سورتوں میں ان کڑیوں کے مختلف پہلو موقع و مناسبت سے مختلف دیئے گئے ہیں اور انداز بیان بھی مختلف ہے۔

سورة بقرہ میں جب یہ قصہ آیا تو اس سے قبل قصہ آدم و ابلیس تھا اور اس میں آدم (علیہ السلام) کو عالم بالا میں اعزاز بخشا گیا تھا۔ آدم (علیہ السلام) کو خلافت ارضی سپرد کی گئی تھی اور آدم کو معاف کر کے ان پر رحمت خداوندی کا نزول ہوا تھا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے واقعات بیان ہوئے ‘ یہ یاد دلانے کے لئے کہ اے بنی اسرائیل ذرا غور کرو تم پر اللہ نے کیسی کیسی مہربانیاں کیں۔ تمہارے ساتھ عہد کیا ‘ تمہیں فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی۔ تمہیں صحرا میں پانی پلایا اور تمہارے لئے پتھروں سے چشمے نکالے ‘ تمہیں صحرا میں من وسلوی کی شکل میں کھانا فراہم کیا۔ پھر موسٰی (علیہ السلام) کی ہمارے ساتھ ملاقات اور ہم کلامی کا وقت آیا اور پیچھے سے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی لیکن اللہ نے تمہیں پھر بھی معاف کردیا۔ پہاڑ کے نیچے تم سے عہد لیا۔ پھر سبت کے معاملے میں تم نے حد سے تجاوز کیا۔ اور پھر گائے کے ذبح کرنے کا قصہ تو عجیب تر ہے۔

اعراف میں اس قصے سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ مکذبین پر اللہ کا عذاب حضرت موسیٰ سے قبل کیسے کیسے آیا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ کا قصہ آیا۔ پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کی تقریب ہے۔ اس کے بعد معجزات عصا ’‘ ید بیضا ‘ طوفان ‘ ٹڈی دل ‘ جو میں اور مینڈک اور خون ‘ اور اس کے بعد جادو گروں کے ساتھ مقابلہ ‘ اور فرعون کا بھی اسی طرح خاتمہ جس طرح پہلے کے مکذبین کا ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ واقعہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی میں انہوں نے پچھڑے کو خدا بنا لیا۔ اس کے بعد اس قصے کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت کی وراثت ان لوگوں کے لئے ہے جو نبی امی پر ایمان لے آئیں۔

سورة یونس میں جہاں یہ قصہ آیا ہے ‘ اس میں اس سے قبل ان اقوام کا ذکر ہے جو ہلاک کی گئیں۔ یہاں حضرت موسیٰ ﷺ کی رسالت کی کڑی ‘ جادوگروں کے ساتھ مقابلے کی کڑی اور فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کی کڑی بالتفصیل لائی گئی ہے۔

ہاں سورة طہ میں سورة کا آغاز ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ اللہ جن لوگوں کو رسول بنا کر بھیجتا ہے ان پر اس کی رحمت ہوتی ہے۔ اور وہ اللہ کی پناہ میں ہوتے ہیں اور ان پر رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ چناچہ قصے کا آغاز اس منظر سے ہوتا جس میں حضرت موسیٰ طور پر رب ذوالجلال سے ہم کلام ہیں ‘ اس کے بعد اس میں وہ مناظرآتے ہیں جن میں صاف نظر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ اللہ کی پناہ میں ہیں اور تائید ایز دی ان کی پشت پر ہے ۔ بچپن میں میں ہی رحمت ان کے شامل حال رہی اور ان کی پرورش اور نگرانی ہوتی رہی۔

والقیت۔۔۔۔۔۔۔۔ علی عینی (02 : 93) ” اور میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کردی اور ایسا انتظام کیا کہ تو میری نگرانی میں پالاجائے “۔

وھل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی النار ھدی (9 : 01) ” اور تمہیں کچھ موسیٰ ؐ کی خبر بھی پہنچی ہے ؟ جب کہ اس نے ایک آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ ” ذرا ٹھہرو ‘ میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ شاید کہ تمہارے لئے ایک آدھ انگارا لے آئوں ‘ یا اس آگ پر مجھے (راستے کے متعلق ) کوئی رہنمائی مل جائے ؟ “

کیا تمہیں موسیٰ ؐ کی کہانی معلوم ہے۔ اس کہانی سے یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ اللہ جن لوگوں کو منصب رسالت عطا کرتا ہے وہ ان لوگوں کو اپنی خاص پناہ میں رکھتا ہے اور ان کو بروقت ہدایت دیتارہتا ہے۔

اردو ترجمہ

مالک ہے اُن سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان میں ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahu ma fee alssamawati wama fee alardi wama baynahuma wama tahta alththara

اردو ترجمہ

تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تر بات بھی جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain tajhar bialqawli fainnahu yaAAlamu alssirra waakhfa

اردو ترجمہ

وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu la ilaha illa huwa lahu alasmao alhusna

اردو ترجمہ

اور تمہیں کچھ موسیٰؑ کی خبر بھی پہنچی ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahal ataka hadeethu moosa

وھل اتک حدیث موسیٰ (02 : 9) ” کیا موسیٰ ؐ کا قصہ تمہیں معلوم ہے “۔ اگر نہیں تو سنئے ‘ حضرت موسیٰ ؐ مدین سے واپسی مصر جارہے تھے۔ وہ طور کے دامن میں سفر کررہے تھے ‘ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی تھی اور ان کے اور اللہ کے نبی شعیب (علیہ السلام) کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ پوراہو گیا تھا۔ معاہدہ یہ تھا کہ حضرت شعیب اپنی بیٹیوں میں سے ایک کو انکے نکاح میں دے دے گا اگر وہ انکی آٹھ سال تک خدمت کرتا رہے یا دس سال تک۔ میعاد پوری کرنے کے بعد حضرت موسیٰ ؐ عازم مصر ہوئے تاکہ وہاں وہ اپنی بیوی کیساتھ مستقلاً زندگی گزاریں۔ مصر میں جہاں ان کی ولادت ہوئی اور جہاں ان کی قوم کے لوگ بنی اسرائیل آباد ہیں ‘ فرعون کے ظلم و ستم سہ رہے ہیں اور غلامانہ زندگی بسر کررہے ہیں۔

یہ کیوں واپس ہو رہے ہیں جبکہ مصر سے تو وہ خارج البلد ہوگئے تھے۔ مفرور ہوگئے تھے ‘ جب ایک بار انہوں نے دیکھا کہ ایک قبطی ان کے ہم قوم بنی اسرائیلی سے لزرہا ہے ‘ اس جھگڑے میں قبطی ان کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا۔ حضرت موسیٰ ؐ مصر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے جبکہ بنی اسرائیل پر انواع والوان کے مصائب کے پہاڑ توڑے جارہے تھے۔ مدین میں اللہ کے نبی شعیب (علیہ السلام) کے ہاں ان کو پناہ مل گئی جہاں انہوں نے دامادی اختیار کرلی اور ان کی ایک بیٹی سے ان کا نکاح ہوگیا۔

دست قدرت نے حضرت موسیٰ ؐ کے لئے ایک اہم رول تجویز کر رھکا تھا لیکن بظاہر وطن کی محبت اور اہل و عیال اور قوم کی کشش ان کو مجبور کررہی ہے کہ وہ مدین سے مصر کی طرف واپس ہوجائیں۔ اس دنیا میں بطور انسان ہم لوگ اسی طرح ادھر ادھر گھومتے رہتے ہیں ‘ جذبات ‘ میلانات اور محبتیں ہمیں ادھر ادھر گھماتی رہتی ہیں ‘ جدوجہد اور منافع ‘ مصائب اور امیدیں ‘ یہ باتیں ہمیں ادھر ادھر حرکت دیتی رہتی ہیں ‘ لیکن یہ محض ظاہری چیزیں ہیں ‘ دراصل محرک ایک خفیہ دست قدرت ہے جسے ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ یہ دست قدرت پوشیدہ مقاصد کے لئے ہمیں حرکت دے رہا ہے۔ یہ مدبرکائنات ‘ اور عزیز اور جبار کا دست قدرت ہے جس کے پاس ہماری ڈائری ہے۔

غرض دست قدرت نے حضرت موسیٰ ؐ کو مدین سے اٹھایا۔ صحرائے سینا میں وہ راہ گم کر بیٹھے ‘ ان کی بیوی ان کے ساتھ ہے ‘ ممکن ہے کوئی خادم بھی ساتھ ہو ‘ رات کا وقت ہے ‘ اندھیری رات ہے ‘ اور صحرا وسیع ہے۔ یہ صورت حال اس آیت سے معلوم ہوتی ہے انہوں نے اہلیہ سے کہا : انی انست نارا۔۔۔۔۔۔۔۔ علی النار ھدی (02 : 01) ” ذرا ٹھہرو ‘ میں نے ایک آگے دیکھی ہے ‘ شاید میں تمہارے لئے ایک آدھ انگارا لے آئوں یا اس آگ پر مجھے کوئی راہنمائی مل جائے۔ کیونکہ دیہاتی لوگ اونچی جگہ آگ جلایا کرتے ہیں تاکہ صحرا میں چلنے والے گم کردہ راہ لوگ اسے دیکھ لیں اور ان کو راستہ معلوم ہوجائے یا ان کو کھانے پینیکا سامان مل جائے یا ایسا شخص مل جائے جو انہیں سیدھی راہ بتلادے۔

حضرت موسیٰ ؐ نے ایک ٹیلے پر آگ دیکھی تو خوش ہوئے ‘ اس طرف چل دیئے تاکہ وہاں سے کوئی انگارہ لے آئیں اور اس سے آگ جلا کر رات کے وقت یہ لوگ تاپیں۔ رات سرد ہے اور صحرائوں کی راتیں تو بہت سرد ہوتی ہیں یا کوئی راہنما مل جائے یا اسے آگ کی روشنی میں راستہ دیکھا جاسکے۔

وہ گئے تو اس لئے کہ آگ کا انگارہ لے آئیں یا صحرا میں کوئی راہنمائی کرنے والا مل جائے لیکنوہاں وہ اچانک ایک عظیم الشان واقعہ سیدوچار ہوگئے۔ یہاں انہیں ایسی آگ ملی جو جسم کے تاپنے کے کام نہ آتی تھی بلکہ روح کی تپانے کے لیے کار گر تھی۔ یہ آگ صرف صحرا میں رہنمائی کے لئے مفید مطلب نہ تھی بلکہ یہآگ زندگی کے عظیم سفر کے لئے راہ دکھانے والی تھی۔

اردو ترجمہ

جب کہ اس نے ایک آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ " ذرا ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں، یا اِس آگ پر مجھے (راستے کے متعلق) کوئی رہنمائی مل جائے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith raa naran faqala liahlihi omkuthoo innee anastu naran laAAallee ateekum minha biqabasin aw ajidu AAala alnnari hudan

اردو ترجمہ

وہاں پہنچا تو پکارا گیا "اے موسیٰؑ!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma ataha noodiya ya moosa

فلمآ اتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتردی (21 : 61) ’ اور میں نے تجھ و چن لیا ہے ‘ سن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ میں ہی اللہ ہوں ‘ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے ‘ پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر متنفس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے ‘ ورنہ تو ہلاکت میں پڑجائے گا “۔

انسان کا خون خشک ہوجاتا ہے اور جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ محض اس منظر کے تصور سے ‘ ایک غیر آباد پہاڑی پر موسیٰ اکیلے کھڑے ہیں۔ تاریک اور سیاہ رات ہے۔ ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ‘ عجیب اور خوفناک خاموشی ہے ‘ طور کے دامن سے انہوں نے آگ دیکھی تھی ‘ وہ اس کی تلاش میں نکلے تھے ‘ لیکن ان کو ہر طرف سے پوری کائنات کی طرف سے یہ ندا آرہی ہے :

انی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لما یوحی (31) (02 : 21۔ 31) ” اے موسیٰ میں تیرا رب ہوں ‘ جو تیاں اتار دے ‘ تو وادی مقدس طوی میں ہے اور میں نے تجھ کو چن لیا ہے “۔

یہ چھوٹا سا ذرہ ناچیز ‘ یہ محدود بشر لامحدود رب ذوالجلال کے سامنے کھڑا ہے ‘ جسے آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ وہ عظمت و جلال جس کے مقابلے میں یہ نظر آنے والی کائنات زیمن و آسمان سب حقیر ہیں یہ ذرہ ضعیف ‘ انسانی قوائے مدر کہ کے ساتھ ‘ ایک لامحود ذلت کے ساتھ مربوط ہوگیا ‘ اس کی آواز سن رہا ہے ‘ کس طرح ؟ اللہ کی خاص رحمت ہے ‘ ورنہ کیسے ممکن ہے۔ محدود اور لامحدود کا اتصال ؟

پوری انسانیت اب موسیٰ (علیہ السلام) کی شکل میں اٹھائی جارہی ہے ‘ سربلند کی جارہی ہے کہ ایک لمحے کے لئے وہ بشری شخصیت کو لئے ہوئے ہی لامحدود فیض و صول کررہی ہے۔ اس انسانیت کے لئے کیا یہ کوئی کم شرف ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کا اتصال اور رابطہ ‘ اس انداز میں ‘ رب ذوالجلال کے ساتھ ہوگیا ‘ لیکن ہم نہیں جانتے کہ کیونکر وہ گیا یہ ؟ کیونکہ انسانی قوائے مدر کہ اس حقیقت کا نہ ادراک کرسکتی ہیں اور نہ اس بارے میں کوئی فیصلہ دے سکتی ہیں۔ انسان کی قوائے مدرکہ کا بس یہ کام ہے کہ وہ حیران رہ کر اپنے قصور کا اعتراف کریں ‘ ایمان لائیں اور شہادت دیں کہ یہ حق ہے۔

فلما۔۔۔۔۔۔۔ یموسی (11) انی اناربک (21) (12 : 11۔ 21) ” جب وہاں پہنچا تو پکارا گیا اے موسیٰ ‘ میں ہی تیرا رب ہوں “۔ پکارا گیا ‘ ماضی مجہول کا صیغہ استعمال ہوا۔ کیونکہ آواز کے مصدر اور جہت کا تعین ممکن نہیں ہے۔ نہ آواز کی صورت اور کیفیت کا تعین ممکن ہے۔ نہ اس بات کا تعین ممکن ہے کہ کس طرح سنا اور کس طرح سمجھے۔ پکارا گیا جس طرح پکارا گیا اور انہوں نے سمجھا جس طرح سمجھا۔ کیونکہ یہ اتصال ان امور میں سے ہے جن پر ہم ایمان لاتے ہیں کہ ایسا ہوا مگر اس کی کیفیت کے بارے میں نہیں پوچھتے کیونکہ یہ کیفیت انسانی قوت مدر کہ اور انسانی دائرہ تصور سے وراء ہے۔

انی انا۔۔۔۔۔۔۔ طوی (02 : 21) ” اے موسیٰ ‘ میں ہی تیرا رب ہوں ‘ جو تیاں اتار دے تو وادی مقدس طوی میں ہے “۔ تم بار گاہ رب العزت میں ہو ‘ اس لیے پائوں سے جوتے اتار دو تاکہ تم ننگے پائوں آئو ‘ ایک ایسی وادی میں جس پر پاکیزہ انوار کا نزول ہورہا ہے۔ اس لیے اس وادی کو اپنے جوتوں سے نہ روندو۔

اردو ترجمہ

میں ہی تیرا رب ہوں، جوتیاں اتار دے تو وادی مقدس طویٰ میں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innee ana rabbuka faikhlaAA naAAlayka innaka bialwadi almuqaddasi tuwan
312