اس صفحہ میں سورہ Taa-Haa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ طه کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 2 مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْآٰی ” آپ ﷺ کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچا دینے کی حد تک ہے۔ اب اگر یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ ﷺ ان کے پیچھے خود کو ہلکان نہ کریں۔ یہی مضمون اس سے پہلے سورة الکہف میں اس طرح آچکا ہے : فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَآٰی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا ”تو اے نبی ﷺ ! آپ شاید اپنے آپ کو غم سے ہلاک کرلیں گے ان کے پیچھے ‘ اگر وہ ایمان نہ لائے اس بات قرآن پر“۔ سورة الشعراء میں بھی فرمایا گیا : لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ”شاید کہ آپ ﷺ ہلاک کر ڈالیں اپنے آپ کو اس وجہ سے کہ وہ ایمان نہیں لا رہے“۔ بہر حال یہ تو اس آیت کا وہ ترجمہ اور مفہوم ہے جو عمومی طور پر اختیار کیا گیا ہے ‘ لیکن میرے نزدیک اس کا زیادہ بہتر مفہوم یہ ہے کہ اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ ﷺ ناکام ہوں۔ اس لیے کہ شَقِیَ یَشْقٰی کے معنی ناکام و نامراد ہونے کے ہیں۔عربی زبان کے بہت سے مادے ایسے ہیں جن کے حروف کی آپس میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ مثلاً ”رب ب“ مادہ سے رَبَّ یَرُبُّ کا معنی ہے : مالک ہونا ‘ انتظام کرنا۔ اس سے لفظ ”رب“ بنا ہے۔ ”ر ب و“ سے رَبَا یَرْبُوْ رَبْوًاکا مفہوم ہے : مال زیادہ ہونا ‘ بڑھنا۔ اس سے ربا سود مستعمل ہے۔ جبکہ ”ر ب ی“ سے رَبّٰی یُرَبِّیْ تَرْبِیَۃً کا معنی و مراد ہے : پرورش کرنا ‘ نشوونما دینا۔ ان مادوں کے معنی اگرچہ الگ الگ ہیں مگر حروف کے اشتراک کی وجہ سے ان میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ”ش ق ی“ اور ”ش ق ق“ بھی دو مختلف المعانی لیکن باہم مشابہ مادے ہیں۔ ایسے مشابہ مادوں سے مشتق اکثر اسماء و افعال بھی باہم مشابہ ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے بہت سے الفاظ ذو معنی بھی قرار پاتے ہیں۔ چناچہ تَشْقٰی کو اگر ”ش ق ق“ سے مشتق مانا جائے تو اس کے معنی مشقت اور محنت کے ہوں گے اور اگر اس کا تعلق ”ش ق ی“ سے تسلیم کیا جائے تو معنی ناکامی و نامرادی کے ہوں گے۔ یہاں اگر اس لفظ کا دوسرا ترجمہ مراد لیا جائے تو یہ آیت حضور ﷺ کے لیے گویا ایک بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اے نبی ﷺ یہ قرآن قول فیصل بن کر نازل ہوا ہے ‘ لہٰذا آپ ﷺ کے اس مشن میں ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عنقریب کامیابی آپ ﷺ کے قدم چومے گی۔
آیت 3 اِلَّا تَذْکِرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی ”یعنی جن کے دلوں میں کچھ خوف خدا ہے ان کے لیے یہ نصیحت ہے۔
آیت 6 لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰی ”الثَّرٰی کے معنی گیلی مٹی کے ہیں ‘ یعنی گیلی مٹی کے نیچے بھی جو کچھ ہے وہ بھی اللہ ہی کی ملکیت ہے۔
آیت 7 وَاِنْ تَجْہَرْ بالْقَوْلِ ”اللہ کو پکارتے ہوئے ‘ اس سے دعایا مناجات کرتے ہوئے اگر تم لوگ اپنی آوازوں کو بلند کرو یا آہستہ رکھو ‘ اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا :
آیت 8 اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَط لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی ”اب یہاں سے آگے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ شروع ہو رہا ہے جس کے بارے میں بیشتر تفصیلات سورة الاعراف کے مطالعے کے دوران گزر چکی ہیں۔ چناچہ یہاں وہ تفصیلات پھر سے دہرائی نہیں جائیں گی۔
آیت 10 اِذْ رَاٰ نَارًا ”یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی اہلیہ کے ساتھ مدین سے مصر کی طرف واپس آ رہے تھے۔ اندھیری رات تھی ‘ سردی کا موسم تھا اور راستے کے بارے میں بھی ان کے پاس یقینی معلومات نہیں تھیں۔ اس صورت حال میں جب آپ علیہ السلام کو آگ نظر آئی ہوگی تو یقیناً آپ علیہ السلام بہت خوش ہوئے ہوں گے۔لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی ”ممکن ہے مجھے وہاں سے کوئی چنگاری مل جائے جس کی مدد سے ہم آگ جلا کر تاپ سکیں ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہاں سے مجھے راستے کے بارے میں کوئی راہنمائی مل جائے۔ ایسا نہ ہو کہ رات کے اندھیرے میں ہم کسی غلط راستے پر چلتے رہیں۔
آیت 12 اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ ”یعنی جسے تم آگ سمجھ کر یہاں آئے ہو اس آگ کے پردے میں خود میں ہوں تمہارا رب تمہارا پروردگار !