سورہ الحج (22): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hajj کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحج کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ الحج کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hajj
سُورَةُ الحَجِّ
صفحہ 332 (آیات 1 سے 5 تک)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُوا۟ رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ ٱلسَّاعَةِ شَىْءٌ عَظِيمٌ يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّآ أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى ٱلنَّاسَ سُكَٰرَىٰ وَمَا هُم بِسُكَٰرَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ ٱللَّهِ شَدِيدٌ وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُجَٰدِلُ فِى ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَٰنٍ مَّرِيدٍ كُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُۥ مَن تَوَلَّاهُ فَأَنَّهُۥ يُضِلُّهُۥ وَيَهْدِيهِ إِلَىٰ عَذَابِ ٱلسَّعِيرِ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَٰكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِى ٱلْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓا۟ أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔا ۚ وَتَرَى ٱلْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنۢبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيجٍ
332

سورہ الحج کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ الحج کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

لوگو، اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu ittaqoo rabbakum inna zalzalata alssaAAati shayon AAatheemun

دعوت تقویٰاللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تقوے کا حکم فرماتا ہے اور آنے والے دہشت ناک امور سے ڈرا رہا ہے خصوصاً قیامت کے زلزلے سے۔ اس سے مراد یا تو وہ زلزلہ ہے جو قیامت کے قائم ہونے کے درمیان آئے گا۔ جیسے فرمان ہے آیت (اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا ۙ) 99۔ الزلزلة :1) ، زمین خوب اچھی طرح جھنجھوڑ دی جائے گی۔ اور فرمایا آیت (وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً 14 ۙ) 69۔ الحاقة :14) یعنی زمین اور پہاڑ اٹھا کر باہم ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے کردئے جائیں گے۔ اور فرمان ہے آیت (اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا ۙ) 56۔ الواقعة :4) یعنی جب کہ زمین بڑے زور سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ صور کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب آسمان و زمین کو پیدا کرچکا تو صور کو پیدا کیا اسے حضرت اسرافیل کو دیا وہ اسے منہ میں لئے ہوئے آنکھیں اوپر کو اٹھائے ہوئے عرش کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کب حکم الٰہی ہو اور وہ صور پھونک دیں۔ ابوہریرہ ؓ نے پوچھا یارسول اللہ صور کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک پھونکنے کی چیز ہے بہت بری جس میں تین مرتبہ پھونکا جائے گا پہلا نفخہ گھبراہٹ کا ہوگا دوسرا بیہوشی کا تیسرا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا۔ حضرت اسرافیل ؑ کو حکم ہوگا وہ پھونکیں گے جس سے کل زمین و آسمان والے گھبرا اٹھیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے۔ بغیر رکے، بغیر سانس لئے بہت دیرتک برابر اسے پھونکتے رہیں گے۔ اسی پہلے صور کا ذکر آیت (وما ینظر ہولاء الا صیحتہ واحدۃ مالہا من فواق) میں ہے اس سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے زمین کپکپانے لگے گی۔ جیسے فرمان ہے آیت (يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ ۙ) 79۔ النازعات :6) ، جب کہ زمین لرزنے لگے گی اور یکے بعد دیگرے زبردست جھٹکے لگیں گے دل دھڑکنے لگیں گے زمین کی وہ حالت ہوجائے گی جو کشتی کی طوفان میں اور گرداب میں ہوتی ہے یا جیسے کوئی قندیل عرش میں لٹک رہی ہو جسے ہوائیں چاروں طرف جھلارہی ہوں۔ آہ ! یہی وقت ہوگا کہ دودھ پلانے والیاں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی اور حاملہ عورتوں کے حمل گرجائیں گے اور بچے بوڑھے ہوجائیں گے شیاطین بھاگنے لگیں گے زمین کے کناروں تک پہنچ جائیں گے لیکن وہاں سے فرشتوں کی مار کھا کر لوٹ آئیں گے لوگ ادھر ادھر حیران پریشان زمین ایک طرف سے دوسرے کو آوازیں دینے لگیں گے اسی لئے اس دن کا نام قرآن نے یوم التناد رکھا۔ اسی وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت کی گھبراہٹ کا انداز نہیں ہوسکتا اب آسمان میں انقلابات ظاہر ہوں گے سورج چاند بےنور ہوجائیں گے، ستارے جھڑنے لگیں گے اور کھال ادھڑنے لگے گی۔ زندہ لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ہاں مردہ لوگ اس سے بیخبر ہونگے آیت قرآن (وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ 68؀) 39۔ الزمر :68) میں جن لوگوں کا استثنا کیا گیا ہے کہ وہ بیہوش نہ ہوں گے اس سے مراد شہید لوگ ہیں۔ یہ گھبراہٹ زندوں پر ہوگی شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے نجات دے گا اور انہیں پر امن رکھے گا۔ یہ عذاب الٰہی صرف بدترین مخلوق کو ہوگا۔ اسی کو اللہ تعالیٰ اس سورت کی شروع کی آیتوں میں بیان فرماتا ہے۔ یہ حدیث طبرانی جریر ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے اور بہت مطول ہے اس حصے کو نقل کرنے سے یہاں مقصود یہ ہے کہ اس آیت میں جس زلزلے کا ذکر ہے یہ قیامت سے پہلے ہوگا۔ اور قیامت کی طرف اس کی اضافت بوجہ قرب اور نزدیکی کے ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے اشراط الساعۃ وغیرہ واللہ اعلم۔ یا اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جو قیام قیامت کے بعد میدان محشر میں ہوگا جب کہ لوگ قبروں سے نکل کر میدان میں جمع ہوں گے۔ امام ابن جریر اسے پسند فرماتے ہیں اس کی دلیل میں بھی بہت سی حدیثیں ہیں 001 حضور ﷺ ایک سفر میں تھے آپ کے اصحاب تیز تیز چل رہے تھے کہ آپ نے باآواز بلند ان دونوں آیتوں کی تلاوت کی۔ صحابہ ؓ کے کان میں آواز پڑتے ہی وہ سب اپنی سواریاں لے کر آپ کے اردگرد جمع ہوگے کہ شاید آپ کچھ اور فرمائیں گے۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کونسا دن ہوگا ؟ یہ وہ دن ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم ؑ کو فرمائے گا کہ اے آدم جہنم کا حصہ نکال۔ وہ کہیں گے اے اللہ کتنوں میں سے کتنے ؟ فرمائے گا ہر ہزار میں سے نو سو نناوے جہنم کے لئے اور ایک جنت کے لئے۔ یہ سنتے ہی صحابہ کے دل دہل گئے، چپ لگ گئی آپ نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ غم نہ کرو، خوش ہوجاؤ، عمل کرتے رہو۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے تمہارے ساتھ مخلوق کی وہ تعداد ہے کہ جس کے ساتھ ہو اسے بڑھا دے یعنی یاجوج ماجوج اور نبی آدم میں سے جو ہلاک ہوگئے اور ابلیس کی اولاد۔ اب صحابہ کی گھبراہٹ کم ہوئی تو آپ نے فرمایا عمل کرتے رہو اور خوشخبری سنو اس کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے تم تو اور لوگوں کے مقابلے پر ایسے ہی ہو جیسے اونٹ کے پہلوکا یا جانور کے ہاتھ کا داغ۔ اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ یہ آیت حالت سفر میں اتری۔ اس میں ہے کہ صحابہ حضور ﷺ کا وہ فرمان سن کر رونے لگے آپ نے فرمایا قریب قریب رہو اور ٹھیک ٹھاک رہو ہر نبوت کے پہلے جاہلیت کا زمانہ رہا ہے وہی اس گنتی کو پوری کردے گا ورنہ منافقوں سے وہ گنتی پوری ہوگی۔ اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے تو امید ہے کہ اہل جنت کی چوتھائی صرف تم ہی ہوگے یہ سن کر صحابہ ؓ نے اللہ اکبر کہا ارشاد ہوا کہ عجب نہیں کہ تم تہائی ہو اس پر انہوں نے پھر تکبیر کہی آپ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ تم ہی نصفا نصف ہوگے انہوں نے پھر تکبیر کہی۔ راوی کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ پھر آپ نے دوتہائیاں بھی فرمائیں یا نہیں ؟ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں مدینے کے قریب پہنچ کر آپ نے تلاوت آیت شروع کی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جنوں اور انسانوں سے جو ہلاک ہوئے اور روایت میں ہے کہ تم تو ایک ہزار اجزا میں سے ایک جز ہی ہو۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ آدم ؑ کو پکارے گا وہ جواب دیں گے لبیک ربنا وسعدیک پھر آواز آئے گی کہ اللہ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں جہنم کا حصہ نکال پوچھیں گے اللہ کتنا ؟ حکم ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو نناوے اس وقت حاملہ کے حمل گرجائیں گے، بچے بوڑھے ہوجائیں گے، اور لوگ حواس باختہ ہوجائیں گے کسی نشے سے نہیں بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی کی وجہ سے۔ یہ سن کر صحابہ کے چہرے متغیر ہوگئے تو آپ نے فرمایا یاجوج ماجوج میں سے نو سو ننانوے اور تم میں سے ایک۔ تم تو ایسے ہو جیسے سفید رنگ بیل کے چند سیاہ بال جو اس کے پہلو میں ہوں۔ یا مثل چند سفید بالوں کے جو سیاہ رنگ بیل کے پہلو میں ہوں۔ پھر فرمایا مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی گنتی میں تمہاری گنتی چوتھے حصے کی ہوگی ہم نے اس پر تکبیر کہی پھر فرمایا آدھی تعداد میں باقی سب اور آدھی تعداد صرف تمہاری۔ اور روایت میں ہے کہ تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدن بےختنہ حاضر کئے جاؤ گے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نے کہا حضور ﷺ مرد عورتیں ایک ساتھ ؟ ایک دوسرے پر نظریں پڑیں گی ؟ آپ نے فرمایا عائشہ وہ وقت نہایت سخت اور خطرناک ہوگا (بخاری ومسلم) مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نے کہا یارسول اللہ ﷺ کیا دوست اپنے دوست کو قیامت کے دن یاد کرے گا ؟ آپ نے فرمایا عائشہ تین موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا۔ اعمال کے تول کے وقت جب تک کمی زیادتی نہ معلوم ہوجائے۔ اعمال ناموں کے اڑائے جانے کے وقت جب تک دائیں بائیں ہاتھ میں نہ آجائیں۔ اس وقت جب کہ جہنم میں سے ایک گردن نکلے گی جو گھیرلے گی اور سخت غیظ وغضب میں ہوگی اور کہے گی میں تین قسم کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں ایک تو وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے رہتے ہیں دوسرے وہ جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور تیسرے ہر سرکش ضدی متکبر پر پھر تو وہ انہیں سمیٹ لے گی اور چن چن کر اپنے پیٹ میں پہنچا دے گی جہنم پر پل صراط ہوگی جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہوگی اس پر آنکس اور کانٹے ہوں گے جسے اللہ چاہے پکڑ لے گی اس پر سے گزرنے والے مثل بجلی کے ہوں گے مثل آنکھ جھپکنے کے مثل ہوا کے مثل تیزرفتار گھوڑوں اور اونٹوں کے فرشتے ہر طرف کھڑے دعائیں کرتے ہوں گے کہ اللہ سلامتی دے اللہ بچا دے پس بعض تو بالکل صحیح سالم گزر جائیں گے بعض کچھ چوٹ کھا کر بچ جائیں گے بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے۔ قیامت کے آثار میں اور اس کی ہولناکیوں میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ جن کی جگہ اور ہے۔ یہاں فرمایا قیامت کا زلزلہ نہایت خطرناک ہے بہت سخت ہے نہایت مہلک ہے دل دہلانے والا اور کلیجہ اڑانے والا ہے زلزلہ رعب و گھبراہٹ کے وقت دل کے ہلنے کو کہتے ہیں جیسے آیت میں ہے کہ اس میدان جنگ میں مومنوں کو مبتلا کیا گیا اور سخت جھنجھوڑ دئے گئے۔ جب تم اسے دیکھوگے یہ ضمیرشان کی قسم سے ہے اسی لئے اس کے بعد اس کی تفسیر ہے کہ اس سختی کی وجہ سے دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور حاملہ کے حمل ساقط ہوجائیں گے۔ لوگ بدحواس ہوجائیں گے ایسے معلوم ہوں گے جیسے کوئی نشے میں بدمست ہو رہا ہو۔ دراصل وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی نے انہیں بیہوش کر رکھا ہوگا۔

اردو ترجمہ

جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہو گا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچّے سے غافل ہو جائے گی، ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma tarawnaha tathhalu kullu murdiAAatin AAamma ardaAAat watadaAAu kullu thati hamlin hamlaha watara alnnasa sukara wama hum bisukara walakinna AAathaba Allahi shadeedun

اردو ترجمہ

بعض لوگ ایسے ہیں جو عِلم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina alnnasi man yujadilu fee Allahi bighayri AAilmin wayattabiAAu kulla shaytanin mareedin

ازلی مردہ لوگ جو لوگ موت کے بعد کی زندگی کے منکر ہیں اور اللہ کو اس پر قادر نہیں مانتے اور فرمان الٰہی سے ہٹ کر نبیوں کی تابعداری کو چھوڑ کر سرکش انسانوں اور جنوں کی ماتحتی کرتے ہیں ان کی جناب باری تعالیٰ تردید فرما رہا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جتنے بدعتی اور گمراہ لوگ ہیں وہ حق سے منہ پھیر لیتے ہیں، باطل کی اطاعت میں لگ جاتے ہیں۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیتے ہیں اور گمراہ سرداروں کی مانتے ہیں وہ ازلی مردود ہے اپنی تقلید کرنے والوں کو وہ بہکاتا رہتا ہے اور آخرش انہیں عذابوں میں پھانس دیتا ہے جو جہنم کی جلانے والی آگ کے ہیں۔ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں اتری ہے اس خبیث نے کہا تھا کہ ذرا بتلاؤ تو اللہ تعالیٰ سونے کا ہے یا چاندی کا یا تانبے کا اس کے اس سوال سے آسمان لرز اٹھا اور اس کی کھوپڑی اڑ گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک یہودی نے ایسا ہی سوال کیا تھا اسی وقت آسمانی کڑاکے نے اسے ہلاک کردیا۔

اردو ترجمہ

حالانکہ اُس کے تو نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذاب جہنّم کا راستہ دکھائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kutiba AAalayhi annahu man tawallahu faannahu yudilluhu wayahdeehi ila AAathabi alssaAAeeri

اردو ترجمہ

لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی (یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کر دیں ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچّے کی صورت میں نکال لاتے ہیں (پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu in kuntum fee raybin mina albaAAthi fainna khalaqnakum min turabin thumma min nutfatin thumma min AAalaqatin thumma min mudghatin mukhallaqatin waghayri mukhallaqatin linubayyina lakum wanuqirru fee alarhami ma nashao ila ajalin musamman thumma nukhrijukum tiflan thumma litablughoo ashuddakum waminkum man yutawaffa waminkum man yuraddu ila arthali alAAumuri likayla yaAAlama min baAAdi AAilmin shayan watara alarda hamidatan faitha anzalna AAalayha almaa ihtazzat warabat waanbatat min kulli zawjin baheejin

پہلی پیدائش دوسری پیدائش کی دلیل مخالفین اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل بیان کی جاتی ہے کہ اگر تمہیں دوسری بار کی زندگی سے انکار ہے تو ہم اس کی دلیل میں تمہاری پہلی دفعہ کی پیدائش تمہیں یاد دلاتے ہیں۔ تم اپنی اصلیت پر غور کرکے دیکھو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے بنایا ہے یعنی تمہارے باپ حضرت آدم ؑ کو جن کی نسل تم سب ہو۔ پھر تم سب کو ذلیل پانی کے قطروں سے پیدا کیا ہے جس نے پہلے خون بستہ کی شکل اختیار کی پھر گوشت کا ایک لوتھڑا بنا۔ چالیس دن تک تو نطفہ اپنی شکل میں بڑھتا ہے پھر بحکم الٰہی اس میں خون کی سرخ پھٹکی پڑتی ہے، پھر چالیس دن کے بعد وہ ایک گوشت کے ٹکڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس میں کوئی صورت وشبیہ نہیں ہوتی پھر اللہ تعالیٰ اسے صورت عنایت فرماتا ہے سرہاتھ، سینہ، پیٹ، رانیں، پاؤں اور کل اعضابنتے ہیں۔ کبھی اس سے پہلے ہی حمل ساقط ہوجاتا ہے، کبھی اس کے بعد بچہ گرپڑتا ہے۔ یہ تو تمہارے مشاہدے کی بات ہے۔ اور کبھی ٹھہرجاتا ہے۔ جب اس لوتھڑے پر چالیس دن گزرجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اسے ٹھیک ٹھاک اور درست کرکے اس میں روح پھونک دیتا ہے اور جیسے اللہ چاہتا ہو خوبصورت بدصورت مرد عورت بنادیا جاتا ہے رزق، اجل، نیکی، بدی اسی وقت لکھ دی جاتی ہے۔ بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات تک جمع ہوتی ہے۔ پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت رہتی ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کے لوتھڑے کی، پھر فرشتے کو چار چیزیں لکھ دینے کا حکم دے کر بھیجا جاتا ہے۔ رزق، عمل، اجل، شقی یا سعید ہونا لکھ لیا جاتا ہے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے عبداللہ فرماتے ہیں نطفے کے رحم میں ٹھیرتے ہی فرشتہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ یہ مخلوق ہوگا یا نہیں ؟ اگر انکار ہوا تو وہ جمتا ہی نہیں۔ خون کی شکل میں رحم اسے خارج کردیتا ہے اور اگر حکم ملا کہ اس کی پیدائش کی جائے گی تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی ؟ نیک ہوگا یا بد ؟ اجل کیا ہے ؟ اثر کیا ہے ؟ کہاں مرے گا ؟ پھر نطفے سے پوچھا جاتا ہے تیرے رب کون ہے وہ کہتا ہے اللہ پوچھا جاتا ہے رازق کون ہے ؟ کہتا ہے کہ اللہ۔ پھر فرشتے سے کہا جاتا ہے تو جا اور اصل کتاب میں دیکھ لے وہیں اس کا حال مل جائے گا پھر وہ پیدا کیا جاتا ہے لکھی ہوئی زندگی گزارتا ہے مقدر کا رزق پاتا ہے مقررہ جگہ چلتا پھرتا ہے پھر موت آتی ہے اور دفن کیا جاتا ہے جہاں دفن ہونا مقدر ہے۔ پھر حضرت عامر ؒ نے یہی آیت تلاوت فرمائی مضغہ ہونے کے بعد چوتھی پیدائش کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور ذی روح بنتا ہے۔ حضرت حذیفہ بن اسید کی مرفوع روایت میں ہے کہ چالیس پینتالیس دن جب نطفے پر گزر جاتے ہیں تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ یہ دوزخی ہے یا جنتی ؟ جو جواب دیا جاتا ہے لکھ لیتا ہے پھر پوچھتا ہے لڑکا ہے یا لڑکی ؟ جو جواب ملتا ہے لکھ لیتا ہے پھر عمل اور اثر اور رزق اور اجل لکھی جاتی ہے اور صحیفہ لپیٹ لیا جاتا ہے جس میں نہ کمی ممکن ہے نہ زیادتی پھر بچہ ہو کر دنیا میں تولد ہوتا ہے نہ عقل ہے نہ سمجھ۔ کمزور ہے اور تمام اعضا ضعیف ہیں پھر اللہ تعالیٰ بڑھاتا رہتا ہے ماں باپ کو مہربان کردیتا ہے۔ دن رات انہیں اس کی فکر رہتی ہے تکلیفیں اٹھا کر پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پروان چڑھاتا ہے۔ یہاں تک کہ عنفوان جوانی کا زمانہ آتا ہے خوبصورت تنومند ہوجاتا ہے بعض تو جوانی میں ہی چل بستے ہیں بعض بوڑھے پھونس ہوجاتے ہیں کہ پھر عقل وخرد کھوبیٹھتے ہیں اور بچوں کی طرح ضعیف ہوجاتے ہیں۔ حافظہ، فہم، فکر سب میں فتور پڑجاتا ہے علم کے بعد بےعلم ہوجاتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ 54؀) 30۔ الروم :54) اللہ نے تمہیں کمزوری میں پیدا کیا پھر زور دیا پھر اس قوت وطاقت کے بعد ضعف اور بڑھاپا آیا جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے پورے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔ مسندحافظ ابو یعلی موصلی میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بچہ جب تک بلوغت کو نہ پہنچے اس کی نیکیاں اس کے باپ کے یا ماں باپ کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں اور برائی نہ اس پر ہوتی ہے نہ ان پر۔ بلوغت پر پہنچتے ہی قلم اس پر چلنے لگتا ہے اس کے ساتھ کے فرشتوں کو اس کی حفاظت کرنے اور اسے درست رکھنے کا حکم مل جاتا ہے جب وہ اسلام میں ہی چالیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تین بلاؤں سے نجات دے دیتا ہے جنون اور جذام سے اور برص سے جب اسے اللہ تعالیٰ کے دین پر بچ اس سال گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کردیتا ہے جب وہ ساٹھ سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی کے کاموں کی طرف اس کی طبعیت کا پورا میلان کردیتا ہے اور اسے اپنی طرف راغب کردیتا ہے جب وہ ستر برس کا ہوجاتا ہے تو آسمانی فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب وہ اسی برس کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں تو لکھتا ہے لیکن برائیوں سے تجاوز فرما لیتا ہے جب وہ نوے برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے اس کے گھرانے والوں کے لئے اسے سفارشی اور شفیع بنا دیتا ہے وہ اللہ کے ہاں امین اللہ کا خطاب پاتا ہے اور زمین میں اللہ کے قیدیوں کی طرح رہتا ہے جب بہت بڑی ناکارہ عمر کو پہنچ جاتا ہے جب کہ علم کے بعد بےعلم ہوجاتا ہے تو جو کچھ وہ اپنی صحت اور ہوش کے زمانے میں نیکیاں کیا کرتا تھا سب اس کے نامہ اعمال میں برابر لکھی جاتی ہیں اور اگر کوئی برائی اس سے ہوگئی تو وہ نہیں لکھی جاتی۔ یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں سخت نکارت ہے باوجود اس کے اسے امام احمد بن حنبل ؒ اپنی مسند میں لائے ہیں موقوفاً بھی اور مرفوعا بھی۔ حضرت انس ؓ سے موقوفامروی ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب ؓ سے از فرمان رسول اللہ ﷺ پھر حضرت انس ؓ سے ہی دوسری سند سے مرفوعا یہی وارد کی ہے۔ حافظ ابوبکر بن بزار ؒ نے بھی اسے بہ روایت حضرت انس بن مالک ؓ مرفوع میں بیان کیا ہے (اور مسلمانوں پر رب کی مہربانی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اللہ ہماری عمر میں نیکی کے ساتھ برکت دے آمین) مردوں کے زندہ کردینے کی ایک دلیل یہ بیان کرکے پھر دوسری دلیل بیان فرماتا ہے کہ چٹیل میدان بےروئیدگی کی خشک اور سخت زمین کو ہم آسمانی پانی سے لہلہاتی اور تروتازہ کردیتے ہیں طرح طرح کے پھل پھول میوے دانے وغیرہ کے درختوں سے سرسبز ہوجاتی ہے قسم قسم کے درخت اگ آتے ہیں اور جہاں کچھ نہ تھا وہاں سب کچھ ہوجاتا ہے مردہ زمین ایک دم زندگی کے کشادہ سانس لینے لگتی ہے جس جگہ ڈرلگتا تھا وہاں اب راحت روح اور نورعین اور سرور قلب موجود ہوجاتا ہے قسم قسم کے طرح طرح کے میٹھے کھٹے خوش ذائقہ مزیدار رنگ روپ والے پھل اور میوؤں سے لدے ہوئے خوبصورت چھوٹے بڑے جھوم جھوم کر بہار کا لطف دکھانے لگتے ہیں۔ یہی وہ مردہ زمین ہے جو کل تک خاک اڑا رہی تھی آج دل کا سرور اور آنکھوں کا نور بن کر اپنی زندگی کی جوانی کا مزا دی رہی ہے۔ پھولوں کے چھوٹے چھوٹے پودے دماغ کو مخزن عطار بنا دیتے ہیں دور سے نسیم کے ہلکے ہلکے جھونکے کتنے خوشگوار معلوم ہوتے ہیں۔ سچ ہے خالق، مدبر، اپنی چاہت کے مطابق کرنے والا، خود مختیار حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور اس کی نشانی مردہ زمین کا زندہ ہونا مخلوق کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ وہ ہر انقلاب پر ہر قلب ماہیت پر قادر ہے جو چاہتا ہے ہوجاتا ہے۔ جس کام کا ارادہ کرتا ہے۔ فرماتا ہے ہوجا۔ پھر ناممکن ہے کہ وہ کہتے ہی ہو نہ جائے۔ یاد رکھو قیامت قطعا بلاشک وشبہ آنے والی ہی ہے اور قبروں کے مردوں کو وہ قدرت والا اللہ زندہ کرکے اٹھانے والا ہے وہ عدم سے وجود میں لانے پر قادر تھا اور ہے اور رہے گا۔ سورة یاسین میں بھی بعض لوگوں کے اس اعتراض کا ذکر کرکے انہیں ان کی پہلی پیدائش یاد دلاکر قائل کیا گیا ہے ساتھ ہی سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کی قلب ماہیت کو بھی دلیل میں پیش فرمایا گیا ہے اور آیتیں بھی اس بارے میں بہت سی ہیں۔ حضرت لقیط بن عامر ؓ جو ابو رزین عقیلی کی کنیت سے مشہور ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا ہم لوگ سب کے سب قیامت کے دن اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھیں گے ؟ اور اس کی مخلوق میں اس دیکھنے کی مثال کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم سب کے سب چاند کو یکساں طور پر نہیں دیکھتے ؟ ہم نے کہا ہاں فرمایا پھر اللہ تو بہت بڑی عظمت والا ہے آپ نے پھر پوچھا حضور ﷺ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی بھی کوئی مثال دنیا میں ہے ؟ جواب ملا کہ کیا ان جنگلوں سے تم نہیں گزرے جو غیرآباد ویران پڑے ہوں خاک اڑ رہی ہو خشک مردہ ہو رہیں پھر دیکھتے ہو کہ وہی ٹکڑا سبزے سے اور قسم قسم کے درختوں سے ہرا بھرا نوپید ہوجاتا ہے بارونق بن جاتا ہے اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور مخلوق میں یہی دیکھی ہوئی مثال اس کا کافی نمونہ اور ثبوت ہے (ابوداؤد وغیرہ) حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں جو اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور قیامت قطعا بےشبہ آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ مردوں کو قبروں سے دوبارہ زندہ کرے گا وہ یقینا جنتی ہے۔

332