سورہ رحمن (55): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ar-Rahmaan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الرحمن کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ رحمن کے بارے میں معلومات

Surah Ar-Rahmaan
سُورَةُ الرَّحۡمَٰن
صفحہ 531 (آیات 1 سے 16 تک)

سورہ رحمن کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ رحمن کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

رحمٰن نے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alrrahmanu

آیت 1 { اَلرَّحْمٰنُ۔ } ”رحمن نے“

اردو ترجمہ

اِس قرآن کی تعلیم دی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAallama alqurana

آیت 2 { عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ } ”قرآن سکھایا۔“ رحمن ‘ اللہ تعالیٰ کا خاص نام ہے۔ اس کا مادہ ”رحم“ ہے اور یہ فَعلان کے وزن پر ہے۔ اس وزن پر جو الفاظ آتے ہیں ان کے مفہوم میں بہت زیادہ مبالغہ پایاجاتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے دو مرتبہ الاعراف : 150 اور طٰہ : 86 غَضْبان کا لفظ آیا ہے ‘ یعنی غصے سے بہت زیادہ بھرا ہوا۔ اسی طرح اَنَا عَطْشَان کا مطلب ہے کہ میں پیاس سے مرا جا رہا ہوں اور اَنَا جَوْعَان : بھوک سے میری جان نکلی جا رہی ہے۔ چناچہ لغوی اعتبار سے رحمن کے مفہوم میں ایک طوفانی شان پائی جاتی ہے لفظ ”طوفان“ بھی اسی وزن پر ہے ‘ اس لیے اس لفظ کے مفہوم میں بھی مبالغہ پایاجاتا ہے۔ اس مفہوم کو ہم اپنی زبان میں اس طرح ادا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ رحمن وہ ذات ہے جس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ہے۔ اس کی رحمت تمام مخلوقات کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ کسی مخلوق کا کوئی فرد بھی اس کی رحمت سے مستغنی نہیں۔ خاص طور پر بنی نوع انسانی تو دنیا میں بھی اس کی رحمت کی محتاج ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص صرف اپنے اعمال کی بنیاد پر جنت میں نہیں جاسکے گا جب تک کہ رحمت خداوندی اس کی دستگیری نہ کرے۔ اس پر صحابہ رض نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! کیا آپ ﷺ بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وَلَا اَنَا ‘ اِلاَّ اَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَرَحْمَۃٍ 1 ”ہاں میں بھی نہیں ‘ اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی مغفرت اور رحمت سے ڈھانپ لے“۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں رحمن چوٹی کا نام ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ناموں میں چوٹی کا نام رحمن ہے ‘ اسی طرح اللہ نے انسان کو جو علم سکھایا ہے اس میں چوٹی کا علم قرآن ہے۔ اکتسابی علم acquired knowledge میں تو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق انسان رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو جو الہامی علم revealed knowledge عطا ہوا ہے اس میں چوٹی کا علم قرآن ہے ‘ جو ہر قسم کے تمام علوم کا نقطہ عروج ہے۔

اردو ترجمہ

اُسی نے انسان کو پیدا کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa alinsana

آیت 3 { خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔ } ”اسی نے انسان کو بنایا۔“ اس سلسلے کا تیسرا اہم نکتہ یہ نوٹ کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی معراج climax انسان ہے۔ انسان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے عالم ِامر اور عالم خلق تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سورة النحل ‘ آیت 40 کی تشریح دونوں کو جمع فرما دیا ہے۔ اسی لیے انسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا : { خَلَقْتُ بِیَدَیَّ } ص : 75 کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔

اردو ترجمہ

اور اسے بولنا سکھایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAallamahu albayana

آیت 4 { عَلَّمَہُ الْبَیَانَ۔ } ”اس کو بیان سکھایا۔“ یعنی اسے بولنا سکھایا ‘ اسے گویائی کی صلاحیت بخشی۔ آیات زیر مطالعہ کے حوالے سے یہاں چوتھا اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کی صلاحیتوں میں سے جو چوٹی کی صلاحیت ہے وہ قوت بیان گویائی ہے۔ آج میڈیکل سائنس کی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انسان کی قوت گویائی کا تعلق اس کے دماغ کی خصوصی بناوٹ سے ہے۔ سائنس کی زبان میں تو انسان بھی حیوان ہی ہے ‘ لیکن اس کے بولنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسے حیوانِ ناطق بولنے والا حیوان کہا گیا ہے۔ دماغ تو ظاہر ہے انسان سمیت تمام جانوروں میں موجود ہے ‘ لیکن ہر جانور کے دماغ کی بناوٹ اور صلاحیت مختلف ہے۔ اس لحاظ سے انسان کا دماغ تمام حیوانات کے دماغوں میں سب سے اعلیٰ ہے اور اس میں ایسی صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں جو کسی اور جانور کے دماغ میں نہیں ہیں۔ بہرحال استعداد کے حوالے سے حیوانی دماغ کی بناوٹ نچلی سطح سے ترقی کر کے گوریلوں اور چیمپنزیز champenzies کے دماغ کی سطح تک پہنچتی ہے ‘ اور پھر اس ترقی کی معراج انسان کا دماغ ہے۔ انسانی دماغ کے مختلف حصے ہیں ‘ مثلاً سماعت سے متعلقہ حصہ ‘ بصارت سے متعلقہ حصہ وغیرہ۔ حواس آنکھ ‘ کان وغیرہ سے حاصل ہونے والی معلومات پہلے دماغ کے متعلقہ حصے میں جاتی ہیں اور پھر وہاں سے gray matter کے پچھلے حصے میں پہنچتی ہیں۔ لیکن انسانی دماغ کا سب سے اہم اور بڑا حصہ speech centre ہے ‘ اور پھر اس میں بھی کلام کے فہم اور ابلاغ سے متعلق دو الگ الگ حصے ہیں ‘ یعنی ایک حصے میں دوسروں کی بات سمجھنے کی صلاحیت ہے جبکہ دوسرا حصہ دوسروں تک بات پہنچانے سے متعلق ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے ‘ لیکن قوت گویائی کے علاوہ انسان کی باقی تقریباً تمام صلاحیتیں کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی درجے میں دوسرے حیوانات کو بھی ملی ہیں ‘ بلکہ بعض حیوانات کی بعض صلاحیتیں تو انسان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں۔ بعض جانوروں کی بصارت ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ تیز ہے ‘ کئی جانور اندھیرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں جبکہ ہم دیکھنے کے لیے روشنی کے محتاج ہیں۔ گھوڑے کی قوت سماعت انسان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ چناچہ ذرا سی آہٹ پر گھوڑے کے کان antenna کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ جبکہ ُ گھڑ سوار نے ابھی کچھ دیکھا ہوتا ہے نہ سنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ُ کتوں ّکے دماغ میں سونگھنے کا حصہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے سونگھنے کی حس انسان کے مقابلے میں سو گنا سے بھی زیادہ تیز ہے۔ بہرحال باقی صلاحیتیں تو دوسرے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں ‘ لیکن بیان اور گویائی کی صلاحیت صرف اور صرف انسان کا طرئہ امتیاز ہے۔ اس تمہید کے بعد اب ان آیات کو دوبارہ پڑھئے۔ ان چار آیات سے تین جملے بنتے ہیں۔ پہلی آیت { اَلرَّحْمٰنُ۔ } جملہ نہیں ہے ‘ یہ مبتدأ ہے اور { عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ } اس کی خبر ہے۔ چناچہ پہلی اور دوسری آیت کے ملنے سے مکمل جملہ بنتا ہے۔ یعنی ”رحمن نے قرآن سکھایا“۔ اس کے بعد آیت 3 { خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔ } ”اس نے انسان کو پیدا کیا“ بھی مکمل جملہ ہے اور آیت 4 { عَلَّمَہُ الْبَیَانَ۔ } ”اسے بیان کی صلاحیت عطا کی“ بھی مکمل جملہ ہے۔___ اب ان آیات پر اس پہلو سے غور کیجیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے اعلیٰ نام کے حوالے سے سب سے اعلیٰ علم قرآن کا ذکر کیا۔ پھر اپنی چوٹی کی مخلوق اور اس مخلوق کی چوٹی کی صلاحیت بیان کا ذکر کیا۔ اس زاویے سے غور کیا جائے تو یہ تین جملے ریاضی کے کسی سوال کی طرح ”جواب“ کا تقاضا کرتے نظر آتے ہیں۔ چناچہ جس طرح ریاضی کے ”نسبت و تناسب“ کے سوالات میں تین رقموں values کی مدد سے چوتھی رقم معلوم کی جاتی ہے ‘ اسی طرح ان تین جملوں پر غور کرنے سے اس عبارت کے اصل مدعا تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ”رحمن نے قرآن سکھایا۔ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان کی صلاحیت عطا فرمائی“۔ کس لیے ؟۔ -۔ جواب بالکل واضح ہے : ”قرآن کے بیان کے لیے !“ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ ترین مخلوق کو ”بیان“ کی انمول صلاحیت سے اس لیے تو نہیں نوازا کہ وہ اسے لہو و لعب میں ضائع کرتا پھرے ‘ یا دلائل کے انبار لگانے والا وکیل یا شعلہ بیان مقرر بن کر اسے حصول دولت و شہرت کا ذریعہ بنا لے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ توپ اس لیے تو نہیں بنائی جاتی کہ اس سے مکھیاں ماری جائیں۔ چناچہ انسان کی اس بہترین صلاحیت کا بہترین مصرف یہ ہوگا کہ وہ اسے بہترین علم کے سیکھنے سکھانے کا ذریعہ بنائے۔ یعنی اپنی قوت بیان کو قرآن کی تعلیم اور نشرواشاعت کے لیے وقف کر دے۔ ان آیات کے اس مفہوم کو حضور ﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں بہتر انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ 1 یہاں خَیْرُکُمْ کا صیغہ تفضیل کل superlative degree کے مفہوم میں آیا ہے کہ تم سب میں بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ اس حدیث کے حوالے سے ضمنی طور پر یہاں یہ نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس کے راوی حضرت عثمان بن عفان رض کے نام اور حدیث کے لفظ ”قرآن“ کے قافیے بھی زیر مطالعہ آیات کے قافیوں کے ساتھ مل رہے ہیں۔ یعنی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس حدیث کی ان آیات کے ساتھ خصوصی نسبت ہے۔ سورة الرحمن کی ان ابتدائی آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر سورة القمر کی ترجیعی آیت { وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ …} کے مفہوم اور اس کے پرشکوہ اسلوب کو بھی مدنظر رکھا جائے اور ان آیات کی ترتیب پر بھی غور کیا جائے کہ سورة القمر کی مذکورہ آیت کو باربار دہرانے کے فوراً بعد سورة الرحمن کی یہ آیات آئی ہیں تو ان آیات کا مذکورہ مفہوم واضح تر ہوجاتا ہے۔ بہرحال ان آیات کے بین السطور یہ پیغام بھی مضمر ہے کہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا حق ادا کرنا لازم ہے۔

اردو ترجمہ

سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alshshamsu waalqamaru bihusbanin

آیت 5{ اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ۔ } ”سورج اور چاند ایک حساب کے ساتھ گردش کرتے ہیں۔“ سورج اور چاند کی گردش ایک قطعی اور مربوط نظام کا حصہ ہے۔ ان کی گردش سے ہی دن رات بنتے ہیں اور دنوں ‘ مہینوں اور سالوں کا حساب ممکن ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalnnajmu waalshshajaru yasjudani

آیت 6{ وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ۔ } ”اور ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔“ نَجْم کے معروف معنی ستارے کے ہیں ‘ لیکن عربی میں یہ لفظ ایسے پودوں اور بیل بوٹوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جن کا تنا نہیں ہوتا۔ مثلاً جھاڑیاں اور خربوزے اور تربوز کی بیلیں وغیرہ۔ جس طرح لاتعداد ستارے آسمان پر بکھرے نظر آتے ہیں بالکل اسی طرح بیشمار جھاڑیاں اور بیل بوٹے زمین پر پھیلے دکھائی دیتے ہیں۔ چناچہ پچھلی آیت میں سورج اور چاند کے ذکر کی نسبت سے دیکھا جائے تو یہاں النَّجْم سے ستارے مراد ہوں گے ‘ لیکن اگلے لفظ الشَّجَرکے حوالے سے جھاڑیاں یا بیلیں کا ترجمہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssamaa rafaAAaha wawadaAAa almeezana

آیت 7{ وَالسَّمَآئَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ۔ } ”اور آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کی۔“ یہاں میزان سے مراد کائناتی نظام کے اندر پایا جانے والا مربوط اور خوبصورت توازن cosmic balance ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات قائم ہے۔ یہ توازن تمام اجرامِ سماویہ کے اندر موجود کشش ثقل gravitational force کی وجہ سے قائم ہے۔ تمام اجرامِ فلکی اس کشش کی وجہ سے آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔ قدرت کی طرف سے ہر ُ کرے ّکا دوسرے کرے سے فاصلہ ‘ اس کی کشش کی طاقت کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ اگر کہیں یہ فاصلہ ایک طرف سے معمولی سا کم ہوجائے اور دوسری طرف سے معمولی سا بڑھ جائے تو یہ سارا نظام تلپٹ ہوجائے اور تمام کرے آپس میں ٹکرا جائیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تمام چیزوں میں ایک توازن قائم کر رکھا ہے۔

اردو ترجمہ

اِس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alla tatghaw fee almeezani

آیت 8{ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْْمِیْزَانِ۔ } ”تاکہ تم میزان میں زیادتی مت کرو۔“ اس کائناتی توازن کا تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات میں رہتے ہوئے تم بھی عدل و انصاف پر قائم رہو۔

اردو ترجمہ

انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waaqeemoo alwazna bialqisti wala tukhsiroo almeezana

آیت 9 { وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ۔ } ”اور قائم رکھو وزن کو انصاف کے ساتھ اور میزان میں کوئی کمی نہ کرو۔“ کسی بھی نظام میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اس نظام کے اندر عدل قائم رکھنا یعنی اس کی ہرچیز کو اس کی اصل جگہ پر رکھنا ضروری ہے ‘ کیونکہ کسی بھی قسم کی کمی بیشی نظام میں خرابی اور عدم توازن کا باعث بنتی ہے۔ اسی لیے زیادتی سے بھی منع کردیا گیا لَا تَطْغَوْا اور کمی کرنے سے بھی روک دیا گیا لَا تُخْسِرُوا۔ خالق کائنات نے اس کائنات کا پورا نظام توازن اور عدل و قسط پر قائم کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی اپنے دائرئہ اختیار میں اسی طرح توازن اور عدل وقسط کو ملحوظ رکھے۔ اس میزان میں کوئی خرابی نہ پیدا کرے ‘ ورنہ سارے نظام معاش و معیشت میں فساد پھیل جائے گا۔ یہاں کوئی بڑا ظلم تو درکنار ‘ ترازو میں ڈنڈی مار کر اگر کوئی شخص خریدار کے حصے کی تھوڑی سی چیز بھی مار لیتا ہے تو میزانِ عالم میں خلل برپا کردیتا ہے۔

اردو ترجمہ

زمین کو اس نے سب مخلوقات کے لیے بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalarda wadaAAaha lilanami

آیت 10 { وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ۔ } ”اور زمین کو اس نے بچھا دیا مخلوق کے لیے۔“ ظاہر ہے مخلوق میں انسان بھی شامل ہیں اور جنات بھی۔ نوٹ کیجیے کہ پہلے آسمان ‘ سورج اور چاند کا ذکر ہوا ہے اور اب زمین کا۔ گویا ترتیب تدریجاً اوپر سے نیچے کی طرف آرہی ہے۔

اردو ترجمہ

اس میں ہر طرح کے بکثرت لذیذ پھل ہیں کھجور کے درخت ہیں جن کے پھل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Feeha fakihatun waalnnakhlu thatu alakmami

آیت 1 1 { فِیْہَا فَاکِہَۃٌ لا وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَکْمَامِ۔ } ”اس میں میوے ہیں اور کھجوریں ہیں ‘ جن پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔“

اردو ترجمہ

طرح طرح کے غلے ہیں جن میں بھوسا بھی ہوتا ہے اور دانہ بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalhabbu thoo alAAasfi waalrrayhani

آیت 12 { وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّیْحَانُ۔ } ”اور ُ بھس والا اناج بھی ہے اور خوشبودار پھول بھی۔“ بعض مترجمین ”الرَّیْحَان“ سے مختلف النوع غذائیں بھی مراد لیتے ہیں۔

اردو ترجمہ

پس اے جن و انس، تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabiayyi alai rabbikuma tukaththibani

آیت 13 { فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں گروہ اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“ عام طور پر اٰلَآئِ کا ترجمہ ”نعمتیں“ کیا جاتا ہے ‘ لیکن اس لفظ میں نعمتوں کے ساتھ ساتھ قدرتوں کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ چناچہ اس سورت میں بھی اس لفظ سے کہیں اللہ کی نعمتیں مراد ہیں اور کہیں اس کی قدرتیں۔ تُکَذِّبٰنِ تثنیہ کا صیغہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سورت میں جنوں اور انسانوں سے مسلسل ایک ساتھ خطاب ہو رہا ہے۔ آگے چل کر آیت 33 میں یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ کے خطاب سے یہ بات مزید واضح ہوجائے گی۔ 1

اردو ترجمہ

انسان کو اُس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa alinsana min salsalin kaalfakhkhari

آیت 14 { خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ۔ } ”اس نے پیدا کیا انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے۔“ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے حوالے سے سورة الحجر کے تیسرے رکوع میں تین مرتبہ { صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 4 } کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مراد ایسا گارا ہے جس میں سڑاند پیدا ہوچکی ہو ‘ یعنی سنا ہوا گارا۔ ایسا گارا خشک ہونے پر سخت ہوجاتا ہے اور ٹھوکر لگنے سے کھنکنے لگتا ہے۔ یہاں پر صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِسے ایسا ہی سوکھا ہوا گارا مراد ہے ‘ یعنی ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتا ہوا گارا۔

اردو ترجمہ

اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakhalaqa aljanna min marijin min narin

آیت 15 { وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۔ } ”اور جنات کو اس نے پیدا کیا آگ کی لپٹ سے۔“ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍسے آگ کی لویا لپٹ مراد ہے۔ اس کا اطلاق آگ کے شعلے کے اس حصے پر ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا لیکن انتہائی گرم ہوتا ہے۔ شعلے کے اندر سب سے زیادہ درجہ حرارت اسی نظر نہ آنے والے حصے میں ہوتا ہے۔ سورة الحجر کی آیت 27 میں آگ کی اس لپٹ کو نَارِ السَّمُوْمِ کا نام دیا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

پس اے جن و انس، تم اپنے رب کے کن کن عجائب قدرت کو جھٹلاؤ گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabiayyi alai rabbikuma tukaththibani

آیت 16 { فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ”تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟“

531