سورہ زمر (39): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Az-Zumar کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الزمر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ زمر کے بارے میں معلومات

Surah Az-Zumar
سُورَةُ الزُّمَرِ
صفحہ 458 (آیات 1 سے 5 تک)

تَنزِيلُ ٱلْكِتَٰبِ مِنَ ٱللَّهِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَكِيمِ إِنَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ فَٱعْبُدِ ٱللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ ٱلدِّينَ أَلَا لِلَّهِ ٱلدِّينُ ٱلْخَالِصُ ۚ وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰٓ إِنَّ ٱللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِى مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ كَٰذِبٌ كَفَّارٌ لَّوْ أَرَادَ ٱللَّهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا لَّٱصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ ۖ هُوَ ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ ٱلَّيْلَ عَلَى ٱلنَّهَارِ وَيُكَوِّرُ ٱلنَّهَارَ عَلَى ٱلَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِى لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْغَفَّٰرُ
458

سورہ زمر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ زمر کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اِس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tanzeelu alkitabi mina Allahi alAAazeezi alhakeemi

آیت 1 { تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ } ”اس کتاب کا نازل کیا جانا ہے اس اللہ کی طرف سے جو زبردست ‘ کمال حکمت والا ہے۔“ سورة الزمر اور سورة المومن کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے۔ چناچہ ان دونوں سورتوں کا آغاز بھی ایک جیسے الفاظ سے ہو رہا ہے ‘ صرف ”الحکیم“ اور ”العلیم“ کا فرق ہے۔ جیسے کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ زیر مطالعہ ضمنی گروپ کی ان آٹھ سورتوں میں سے پہلی سورت یعنی سورة الزمر کے آغاز میں حروفِ مقطعات نہیں ہیں جبکہ باقی ساتوں سورتیں سورۃ المومن تا سورة الاحقاف حٰمٓ کے حروف سے شروع ہوتی ہیں۔

اردو ترجمہ

(اے محمدؐ) یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف برحق نازل کی ہے، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اُسی کے لیے خالص کرتے ہوئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna anzalna ilayka alkitaba bialhaqqi faoAAbudi Allaha mukhlisan lahu alddeena

آیت 2 { اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ } ”اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ پر یہ کتاب اتاری ہے حق کے ساتھ“ { فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ } ”پس بندگی کرو اللہ کی اپنی اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔“ اس حکم کے برعکس آج عملی طور پر ہماری زندگیوں کا نقشہ یہ ہے کہ اللہ کی بندگی بھی ہو رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ طاغوت کو بھی پوجا جا رہا ہے۔ ایک طرف نمازیں پڑھی جا رہی ہیں ‘ حج اور عمرے ادا کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حرام خوری بھی جاری ہے اور سودی کاروبار بھی چل رہا ہے۔ اللہ کو ایسی آلودہ polluted بندگی کی ضرورت نہیں۔ وہ تو اپنے بندوں سے خالص بندگی کا تقاضا کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے رہے وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اِس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو اُن کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں، اللہ یقیناً اُن کے درمیان اُن تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ala lillahi alddeenu alkhalisu waallatheena ittakhathoo min doonihi awliyaa ma naAAbuduhum illa liyuqarriboona ila Allahi zulfa inna Allaha yahkumu baynahum fee ma hum feehi yakhtalifoona inna Allaha la yahdee man huwa kathibun kaffarun

آیت 3 { اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ } ”آگاہ ہو جائو کہ اطاعت ِخالص اللہ ہی کا حق ہے۔“ اللہ کے ہاں صرف دین خالص ہی مقبول ہے۔ اللہ کو یہ ہرگز منظور نہیں کہ اس کا کوئی بندہ اس کی بندگی بھی کرے اور اپنی بندگی کا کچھ حصہ کسی دوسرے کے لیے بھی مختص کرلے۔ اللہ تعالیٰ بہت غیور ہے ‘ وہ شراکت کی بندگی کو واپس اس بندے کے منہ پردے مارتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میرا بننا ہے تو خالصتاً میرے بنو : { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص } البقرہ : 208 ”اے اہل ایمان ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو“۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام ماننے اور کچھ نہ ماننے کے حوالے سے سورة البقرۃ کی اس آیت میں بہت سخت وعید آئی ہے : { اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِطوَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ } ”تو کیا تم ہماری کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کا انکار کردیتے ہو ؟ تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو تم میں سے یہ حرکت کرے سوائے دنیا کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے ‘ اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔“سیاق وسباق کے لحاظ سے اگرچہ اس آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں لیکن آج ہمارے لیے بھی اللہ کا حکم اور قانون یہی ہے۔ بلکہ یہ آیت ہمارے لیے آئینے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں آج ہم اپنی تصویر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کی جس رسوائی کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے وہ آج ہمارے ماتھے پر جلی حروف میں لکھی ہوئی صاف نظر آرہی ہے۔ اس وقت مسلمان تعداد میں ڈیڑھ سو کروڑ سے بھی زائد ہیں مگر عزت نام کی کوئی چیز اس وقت ان کے پاس نہیں ہے۔ بین الاقوامی معاملات میں کسی کو ان سے ان کی رائے پوچھنا بھی گوارا نہیں۔ { وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ } ”اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا کچھ اور کو اولیاء بنا یا ہوا ہے“ { مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی } ” وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کو صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔“ یعنی اصل میں تو ہم اللہ ہی کو پوجتے ہیں ‘ جبکہ دوسرے معبودوں کو تو ہم اللہ تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا صرف وسیلہ سمجھتے ہیں۔ { اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ } ”یقینا اللہ فیصلہ کر دے گا ان کے مابین ان تمام چیزوں میں جن میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔“ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ} ”اللہ ہرگز ہدایت نہیں دیتا جھوٹے اور نا شکرے لوگوں کو۔“

اردو ترجمہ

اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا برگزیدہ کر لیتا، پاک ہے وہ اس سے (کہ کوئی اُس کا بیٹا ہو)، وہ اللہ ہے اکیلا اور سب پر غالب

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Law arada Allahu an yattakhitha waladan laistafa mimma yakhluqu ma yashao subhanahu huwa Allahu alwahidu alqahharu

آیت 4 { لَوْ اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰی مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ } ”اگر اللہ کا واقعی ارادہ ہوتا کہ کسی کو اولاد بنائے تو وہ چن لیتا اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا“ اللہ کی نہ تو کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کے ہاں اولاد کا کوئی تصور ہے۔ وہ اکیلا خالق ہے اور باقی ہرچیز اس کی مخلوق ہے ‘ فرشتے بھی اس کی مخلوق ہیں۔ اسے کسی کو بیٹا یا بیٹی بنانے کی کوئی ضرورت یا حاجت نہیں ہے۔ { سُبْحٰنَہٗط ہُوَ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ } ”وہ پاک ہے۔ وہ اللہ ہے اکیلا اور کل کائنات پر چھایا ہوا۔“ ُ کل کائنات اور تمام مخلوقات پر اس کی حکومت قائم ہے۔ وہ سب پر قابو رکھنے والا اور غالب ہے۔

اردو ترجمہ

اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے اُسی نے سورج اور چاند کو اس طرح مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے جان رکھو، وہ زبردست ہے اور درگزر کرنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa alssamawati waalarda bialhaqqi yukawwiru allayla AAala alnnahari wayukawwiru alnnahara AAala allayli wasakhkhara alshshamsa waalqamara kullun yajree liajalin musamman ala huwa alAAazeezu alghaffaru

آیت 5 { خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ”اس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ۔“ یعنی یہ کائنات ایک نہایت منظم ‘ بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے ‘ یہ کوئی کار عبث نہیں ہے۔ { یُـکَوِّرُ الَّــیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُــکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّــیْلِ } ”وہ رات کو لپیٹ دیتا ہے دن پر اور دن کو لپیٹ دیتا ہے رات پر“ یہ مضمون قرآن حکیم میں تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ متعدد مقامات پر یہی الفاظ دہرائے گئے ہیں ‘ جبکہ بعض جگہوں پر { یُوْلِجُ الَّــیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّــیْلِ } کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ بہر حال مقصود اس سے یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ رات اور دن کے الٹ پھیر کا یہ منضبط اور منظم نظام بےمقصد اور عبث نہیں ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے عالم نباتات کے نظام تنفس ّ respiration system کی مثال لی جاسکتی ہے جو کلی طور پر دن رات کے ادلنے بدلنے کے ساتھ متعلق و مشروط ہے یا پھر روئے زمین پر پھیلے ہوئے پورے نظام زندگی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس گردش لیل و نہار کا مرہونِ منت ہے۔ غرض اس کائنات کی کوئی چیزیا کوئی تخلیق بھی بےمقصد و بےکار نہیں۔ اور اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو پھر انسان اور انسان کی تخلیق کیونکر بےمقصد و بےکار ہوسکتی ہے ‘ جس کے لیے یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے ؟ یہاں پر ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں یہ سوال خود بخود پیدا ہونا چاہیے کہ جب کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں تو آخر انسان کا مقصد ِتخلیق کیا ہے ؟ ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں : فَاِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَـکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ 1 یعنی دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ بہر حال اگر عقل اور منطق کی عینک سے بھی دیکھا جائے تو بھی آخرت کے تصور کے بغیر انسان کی تخلیق کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ خصوصاً انسان کو نیکی اور بدی کا جو شعور ودیعت ہوا ہے وہ ایک ایسی دنیا کا تقاضا کرتا ہے جہاں اچھائی کا نتیجہ واقعی اچھا نکلے اور برائی کا انجام واقعی برا ہو۔ جبکہ اس دنیا میں ہر جگہ اور ہر وقت ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ چناچہ انسان کی اخلاقی حس moral sense کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے بھی ایک دوسری زندگی کا ظہور نا گزیر ہے۔ { وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ } ”اور اس نے مسخر کردیا سورج اور چاند کو۔“ { کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی } ”یہ سب کے سب چل رہے ہیں ایک وقت معین تک کے لیے۔“ { اَلَا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ } ”آگاہ ہو جائو ! وہ زبردست ہے ‘ بہت بخشنے والا۔“

458