سورۃ المطففین (83): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Mutaffifin کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المطففين کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المطففین کے بارے میں معلومات

Surah Al-Mutaffifin
سُورَةُ المُطَفِّفِينَ
صفحہ 587 (آیات 1 سے 6 تک)

سورۃ المطففین کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المطففین کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waylun lilmutaffifeena

سورت کا آغاز ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والوں پر تنقیدی حملے سے ہوتا ہے کہ ان ڈنڈی مارنے والوں (مطففین) کے لئے تباہی اور ہلاکت ہے۔ یہاں بطور فیصلہ یہ بات بتائی جارہی ہے کہ ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا ہو یا یہ ان کے حق میں بددعا ہو ، مطلب دونوں کا ایک ہی ہے کیونکہ اللہ کی جانب سے بددعا بھی ایک فیصلہ ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena itha iktaloo AAala alnnasi yastawfoona

اگلی دو آیات میں مطففین کی تعریف کی گئی ہے کہ مطفف ، ڈنڈی مارنے والا کون ہوتا ہے۔

الذین اذا ........................ یخسرون (3-2:83) ” یہ وہ لوگ ہیں جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو گھاٹا دیتے ہیں “۔ جب وہ مشتری ہوں تو بہت ہشیاری سے پورا پورا لیتے ہیں اور اگر بیچنے والے ہوں تو کم دیتے ہیں۔

اس مکی سورت میں اس اہمیت کے ساتھ ناپ تول میں کمی کے مسئلہ پر بحث تعجب خیز ہے اور ایک خاص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ مکی سورتوں میں بالعموم کلی اور اصولی عقائد اور نظریات سے بحث کی گئی ہے۔ مثلاً توحید کا ثبوت ، اللہ کی بےقید مشیت ، عام مخلوق اور پوری کائنات پر اللہ کا کنٹرول ، وحی کی حقیقت اور نبوت کا منصب ، آخرت کی حقیقت اور حساب و کتاب اور عمومی انداز میں اخلاقی احساسات پیدا کرنا ، خصوصاً ایسے احساسات جن کا ان بنیادی عقائد ونظریات کی ساتھ خاص ربط اور تعلق ہو۔ رہی یہ بات کہ کسی اخلاقی مسئلہ پر خاص طور پر بحث کرنا تو یہ بات مکی سورتوں میں نہیں ہے مثلاً کم ناپنے اور کم تولنے کا مسئلہ ، اور دوسری معاملاتی بےقاعدگیاں۔ یہ تمام امور مدنی سورتوں میں آئے جبکہ اسلامی نظام حکومت قائم ہوگیا تھا اور اس نے معاشی ، معاشرتی اور سماجی مسائل کو حل کرنا شروع کیا تھا کیونکہ یہی انداز اسلامی منہاج کا عمومی انداز تھا۔

لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ بتایا جائے کہ اس عمومی قاعدے سے ہٹ کر قرآن نے اس مسئلے کو کیوں لیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چند اور مختصر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بعض وجوہات تھیں۔

ان آیات سے ایک بات قہ معلوم ہوتی ہے کہ جب اسلام آیا تو مکہ میں ناپ تول میں کمی کا ایک ظالمانہ نظام ایک خوفناک شکل میں موجود تھا۔ مکہ کے کبراء یہ کام کرتے تھے۔ ان لوگوں کا پورے عرب بلکہ شرق وغرب کی تجارت پر قبضہ تھا۔ اور یہ اکابر وسیع کاروبار کے مالک تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ذخیرہ اندوزی کا جال پھیلا رکھا تھا۔ یہ لوگ گرمیوں اور سردیوں کے سفر شام اور یمن کے ساحل کی طرف کرتے تھے اور انہوں نے مختلف مواقع پر تجاری میلے بھی منظم کر رکھے تھے۔ مثلاً حج کے موقعہ پر عکاظ کا بازار لگتا تھا جس میں وسیع تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادبی اور تاریخی سرگرمیاں بھی زوروں پر ہوتی تھیں۔ لوگ مفاخر اور اشعار بھی پڑھتے۔

آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں ان اکابر مجرمین کو سخت دھمکی دیتا ہے کہ تباہی تمہارے سر پر ہے۔ اسی طرح ان کے خلاف اعلان جنگ کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ برا کام کرنے والے لوگ اونچے طبقات کے لوگ تھے۔ اور ان کو ایسا معاشرتی مقام حاصل تھا کہ یہ لوگوں کو اس پر مجبور کرتے تھے کہ ان کو کم دیں۔ قرآن نے لفظ (یکتالون علی الناس) استعمال کیا جس میں لفظ ” علی “ برتری کے مفہوم میں ہے یعنی اپنی اونچی پوزیشن کی وجہ سے لوگوں پر کم ناپ وتول ٹھونستے تھے اور جب ان سے وہ کچھ لیتے تھے تو جبراً زیادہ لیتے تھے۔ اگر وہ پورا لیتے تو یہ بات قابل اعتراض نہ ہوتی اور اس کا ذکر ہی نہ کیا جاتا ۔ یعنی وہ جو چاہتے ، جبراً زیادہ لیتے تھے۔ اگر وہ پورا لیتے تو یہ بات قابل اعتراض نہ ہوتی اور اس کا ذکر ہی نہ کیا جاتا۔ یعنی وہ جو چاہتے ، جبراً لے لیتے۔ اور جب لوگوں کو دیتے تو اپنی سیاسی اور سماجی پوزیشن کی وجہ سے کم دیتے ۔ کیونکہ وہ لوگ اپنے حقوق پورے حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے اس لئے کہ ان کبراء کو سیاسی اور قبائلی برتری حاصل تھی اور معاشی برتری کی وجہ سے لوگ مجبور ہوتے تھے کہ ان کے اس ظلم پر راضی ہوں۔ یہ ذخیرہ اندوزی کرتے تھے اور پھر لوگوں کو مہنگا فروخت کرکے ان کو دیتے تھے۔ جیسا کہ آج کل کے تجارتی نظام کی خصوصیت ہے۔ غرض ایک واضح ظالمانہ نظام تطفیف مکہ میں کام کررہا تھا ، اس لئے اسے چیلنج کیا گیا۔

اس مکی معاشرہ میں دعوت اسلامی کے نہایت ہی ابتدائی ایام میں اس مسئلے کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کا مزاج کیا ہے ، نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین ایک مکمل نظام زندگی ہے اور زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے خواہ نظریاتی ہو یا عملی۔ اور اس نظام کی اٹھان گہرے اخلاقی اصولوں پر ہے جو اس نظام کے اندر نہایت ہی گہرائی میں رکھے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ان ابتدائی ایام ہی میں اس غلط روش کو ناپسند کیا کیونکہ باہم معاملات میں یہ کھلی بداخلاقی تھی۔ حالانکہ اس دور میں اسلام کو اجتماعی قیادت اور اختیارات حاصل نہ تھے ، نہ حکومت تھی اور نہ اسلامی شریعت نافذ تھی۔ لیکن اسلام نے اپنے مزاج کے عین مطابق اس برائی کے خلاف یہ آواز بلند کی۔ اور اعلان کردیا کہ ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والوں کے لئے ہلاکت اور بربادی ہے۔ جو لوگ یہ کام کرتے تھے وہ مکہ کے سردار ، برسر اقتدار اور بااختیار تھے۔ ان کو لوگوں پر روحانی سیادت حاصل تھی۔ اور یہ عقیدہ شرک کے محافظ تھے اور ان کو مکہ میں معاشی برتری بھی حاصل تھی۔ اسلام نے ان لوگوں کی قیادت وسیادت کے باوجود ان کے اس ظلم اور دھاندلی کے خلاف آواز بلند کی۔ اور غریب عوام کے حق میں آواز بلند کی جن کا استحصال کیا جارہا تھا اور یہ استحصال وہ ان مذہبی خیالات کی بنا پر کررہے تھے جو انہوں نے ان عوام کے ذہنوں پر بٹھا دیئے تھے۔ اسلام نے جو آواز اٹھائی وہ اسلام کی فطری آواز تھی۔ اسلامی نظام کے مزاج کے عین مطابق تھی ، اور یہ ایک ایسی آواز تھی جو سوئے ہوئے عوام کو جگارہی تھی اور تحریک اسلامی نے یہ آواز اس وقت اٹھائی جب اس کے ماننے والے اس وقت مکہ میں مقہور ومحصور تھے اور جن لوگوں کے خلاف یہ اٹھائی گئی وہ معاشرے پر چھائے ہوئے تھے اور ان کو معاشی ، دینی اور مالی برتری حاصل تھی۔

اس سے ہمیں ایک نہایت ہی حقیقت پسندانہ سبب ملتا ہے۔ اس بات کا کہ مشرکین مکہ اسلام اور دعوت اسلامی کے معاملے میں کیوں ایک ناقابل عبور رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ نیا نظریہ جو حضرت محمد ﷺ پیش فرما رہے ہیں۔ یہ فقط عقیدہ اور زبانی اقرار ہی نہیں ہے کہ اللہ ایک ہے اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور بتوں اور مورتیوں کو چھوڑ کر فقط ایک خدا کی عبادت اور بندگی کرنا ہے۔ ایسا نہ تھا بلکہ وہ جانتے تھے کہ یہ عقیدہ اور نظریہ جاہلیت کی تمام بنیادو کو اکھاڑ کر پھینک رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے تمام مفادات بھی ختم ہورہے ہیں اور اس عقیدے سے ان کی عزت ، مقام اور اقتدار کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس نظام کا مزاج ہی دوئی قبول نہیں کرتا۔ یہ نظام ایسے سیکولر عناصر سے بھی نہیں ملتا جن کا ربط آسمانی ہدایات و تصورات سے نہ ہو ، اور یہ نظام اس تمام زمینی مواد کو ختم کرتا ہے جس کے اوپر جاہلیت کا نظام قائم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل مکہ نے اس نئے نظام کے خلاف چومکھی لڑائی شروع کردی اور یہ لڑائی نہ ہجرت سے قبل کے زمانے میں کبھی رکی اور نہ بعد کے زمانوں میں ، یہ کبھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ جنگ دراصل کلچر کی جنگ تھی۔ یہ لوگ ، اسلامی کلچر کے خلاف برسرپیکار تھے۔ یہ محض دینی نظریاتی جنگ نہ تھی۔

جو لوگ اسلامی نظام کے اقتدار کی راہ روک رہے ہیں۔ ان لوگوں نے ہر دور اور ہر مقام پر اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھا ہے۔ انہوں نے اسلامی نظام کے غلبے کے نتائج کو اچھی طرح جانا ہے تب ہی تو انہوں نے اسلامی نظام کے غلبے کو روکنے کی کوشش کی۔ یہ لوگ جانتے تھے اور ہیں کہ ان کے باطل طور طریقے اور ان کے جابرانہ مفادات اور خود انی کی کھوئی قوت اور ان کی بےراہ روی ، غرض یہ سب چیزیں اسلام نظام کے غلبے کے نتیجے میں ختم ہونے والی ہیں کیونکہ یہ تو ایک سیدھا اور نہایت ہی شریفانہ نظام ہے۔

دوسرے لوگوں کے مقابلے میں یہ باغی اور سرکش اور ڈنڈی مارنے والے ، خواہ اس ڈنڈی مارنے اور ظلم کی جو صورت بھی ہو ، مالی ظلم ہو یا دوسرے حقوق وفرائض میں ظلم ہو ، یہ باغی اور سرکش دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اسلامی نظام سے زیادہ خائف رہتے ہیں کیونکہ یہ نہایت منصفانہ اور پاک وصاف نظام ہے۔ یہ نظام انسانی حقوق پر کوئی سودا بازی اور کوئی مداہنت قبول نہیں کرتا اور نہ نصافا نصف اور کچھ لو اور کچھ دو کا فیصلہ کرتا ہے۔

ہجرت سے قبل جن لوگوں نے عقبہ ثانیہ کی بیعت کی تھی۔ انہوں نے اسی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : ” اور مجھے عاصم ابن عمر ابن قتادہ نے بتایا کہ جب لوگ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کے لئے جمع ہوئے تو اس موقعہ پر عباس ابن عبادہ ابن نضلہ انصاری ، بنی سالم ابن عوف کے فرد نے کہا : ” اے اہل خزرج ، کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم اس شخص کے ساتھ کس بات پر بیعت کررہے ہو ؟ “ تو انہوں نے کہا : ” ہاں ہم جانتے ہیں “۔ تو اس نے کہا : ” حقیقت یہ ہے کہ تم اور ہم اسودواحمر کے ساتھ لڑنے جارہے ہیں۔ اگر تمہاری رائے یہ ہے کہ جب ہمیں مالی تاوان لاحق ہوگا ، اور ہمارے شرفاء قتل ہوں گے اور ہم پھر اس کی حمایت سے دست بردار ہوجائیں گے تو ابھی سے اسے چھوڑ دو ، اگر بعد میں تم اسے چھوڑو گے تو دنیا وآخرت میں تباہ ہوجاﺅ گے اور اگر تم اس بات پر تل گئے ہو کہ مال لٹانا اور اثراف کا قتل ہونا ہمیں منظور ہے تو بیعت کرلو۔ خدا کی قسم ! یہ دنیا وآخرت سے بہتر ہیں “ تو بیعت کرنے والوں نے کہا کہ ” ہم مال لٹانے اور اثراف کے قتل پر بھی اسے ہی قبول کرتے ہیں “۔ اس پر اس شخص نے کہا : ” رسول خدا اس پر ہمیں کیا اجر ملے گا۔ اگر ہم نے یہ عہد پورا کردیا “ تو آپ نے فرمایا :” جنت “ تو انہوں نے کہا : ” لائیے ہاتھ “ آپ نے بھی ہاتھ بڑھایا اور لوگوں کی بیعت کی۔

غرض بیت عقبہ کرنے والوں نے بھی اس دین کے مزاج کو سمجھ لیا تھا اور کبرائے قریش نے بھی سمجھ لیا تھا کہ یہ دین تلوار کی دھار کی طرح عدل و انصاف کے اصولوں پر سیدھاقائم ہے۔ یہ زیادتی اور سرکشی کسی طرح بھی برداشت نہیں کرتا۔ نہ حد سے تجاوز اور بغاوت کو برداشت کرتا ہے اور نہ کبروغرور کو اور نہ یہ دین کے نام پر ظلم ، زیادتی اور دھوکہ بازی اور استحصال کو برداشت کرتا ہے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو سرکش ہو ، باغی ہو ، متکبر ہو ، استحصالی ہو ، وہ اس دین ، اس کی دعوت اور اس کے داعیون کا دشمن ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha kaloohum aw wazanoohum yukhsiroona

اردو ترجمہ

کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن،

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ala yathunnu olaika annahum mabAAoothoona

الا یظن ............................ العلمین (4:83 تا 6) ” کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں ؟ اس دن جبکہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے “۔ ان لوگوں کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ صرف یہ یقین کہ ہم نے ایک دن رب العالمین کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اس دن رب العالمین کے سوا اور کوئی مختار نہ ہوگا ، اس کے سوا کوئی آقا نہ ہوگا۔ اور اس دن صرف اللہ کے فیصلے کا انتظار ہوگا۔ اور اللہ کے سوا کوئی ولی اور مددگار نہ ہوگا۔ غرض صرف یہ ایک عقیدہ ہی اس بات کے لئے کافی تھا کہ وہ ڈنڈی مارنے کی اس گھناﺅنی حرکت سے باز آجاتے اور لوگوں کے مال باطل طریقے سے نہ کھاتے اور اپنے اقتدار کو بذریعہ ظلم نہ بناتے اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکے نہ ڈالتے۔ لیکن وہ ڈنڈی مارنے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں ، گویا کہ ان کو یقین ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور یہ ایک عجیب طرز عمل ہے۔

اس سورت کے پہلے پیراگراف میں ان لوگوں کو مطففین کہا گیا یعنی ڈنڈی مارنے والے جبکہ دوسرے پیرے میں ان کو فجار کہا گیا ہے یعنی بدکار۔ یہاں ان کو بدکاروں کی صف میں شامل کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے شب وروز کیا ہیں ، اللہ کے نزدیک ان کا مقام کیا ہے ؟ اس زندگی میں یہ کیسے ہیں اور آخرت میں وہ کیسے ہوں گے اور کس قسم کے حالات ان کے انتظار میں ہیں۔

اردو ترجمہ

یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liyawmin AAatheemin

اردو ترجمہ

اُس دن جبکہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma yaqoomu alnnasu lirabbi alAAalameena
587