سورہ یونس (10): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yunus کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يونس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یونس کے بارے میں معلومات

Surah Yunus
سُورَةُ يُونُسَ
صفحہ 208 (آیات 1 سے 6 تک)

الٓر ۚ تِلْكَ ءَايَٰتُ ٱلْكِتَٰبِ ٱلْحَكِيمِ أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَآ إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ ٱلنَّاسَ وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ قَالَ ٱلْكَٰفِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَٰحِرٌ مُّبِينٌ إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُۥ يَبْدَؤُا۟ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ لِيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ بِٱلْقِسْطِ ۚ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌۢ بِمَا كَانُوا۟ يَكْفُرُونَ هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ ٱلشَّمْسَ ضِيَآءً وَٱلْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُۥ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا۟ عَدَدَ ٱلسِّنِينَ وَٱلْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ ٱللَّهُ ذَٰلِكَ إِلَّا بِٱلْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ إِنَّ فِى ٱخْتِلَٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ ٱللَّهُ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ لَءَايَٰتٍ لِّقَوْمٍ يَتَّقُونَ
208

سورہ یونس کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یونس کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ا ل ر، یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflamra tilka ayatu alkitabi alhakeemi

درس نمبر 95 ایک نظر میں

جس طرح ہم نے اس سورة کے دیباچے میں کہا ہے یہ پوری سورة ایک ٹکڑا ہے۔ اس کو مختلف اسباق میں تقسیم کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح پارہ ہفتم میں سورة انعام اور جس کے بارے میں یہی رائے ہم نے دی کہ ہر سورة کا اپنا مزاج اور اپنی شخصیت اور اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس سورت کا بھی معاملہ ہے۔

اس سبق میں ان متعدد امور کا ذکر کیا گیا ہے جو حکیمانہ امور ہیں اور کتاب کی صفت حکمت کی تشریح کے طور پر ان امور کا ذکر کیا ہے۔ مثلا رسول اللہ کی طرف نزول وحی اور یہ کہ وحی ایک انسان پر کیوں اتاری ہے ؟ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ تخلیق کائنات اور زمین و آسمان کے فزیکلل نظام میں کس قدر گہری حکمت ہے کہ اس میں سورج کو تیز روشنی اور چاند کو نورانیت عطا کی گئی اور پھر چاند کے لیے منازل طے کی گئیں تاکہ لوگ ماہ و سال کا حساب رکھ سکیں۔ پھر رات اور دن کا اختلاف اور اس کی حکمتیں ۔

درس نمبر 95 تشریح آیات 1 تا 25:

الۗرٰ سورة البقرہ کے شروع میں (حروف مقطعات کی) بحث گزر چکی ہے (یہ بھی دوسرے حروف مقطعات کی طرح ہے) ۔

تلک یہ۔ سورت یا قرآن کی آیات کی طرف اس لفظ سے اشارہ ہے۔ بعض نے کہا : ان آیات کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر اس سورت اس پہلے کردیا گیا۔

اٰیٰت الکتب الحکیم۔ پر حکمت قرآن کی آیات ہیں۔ الحکیم ‘ الکتاب کی صفت ہے : پر حکمت ‘ یا حکیم کا کلام ‘ یا محکم غیر منسوخ۔ مؤخر الذکر مطلب اس وقت ہوگا جب آیات سے مراد صرف اس سورت کی آیات ہیں (اس سورت میں کوئی آیت منسوخ نہیں لیکن پورا قرآن مراد ہو تو حکیم بمعنی غیر منسوخ ...... نہیں کہا جاسکتا (قرآن میں تو بعض آیات کے احکام منسوخ بھی ہیں) یا حکیم بمعنی محکم سے یہ مراد ہے کہ اس میں کوئی آیت غلط نہیں اور کلام میں کہیں اختلاف نہیں۔ حسن نے کہا : آیات کتاب میں حکم دیا گیا ہے : انصاف اور بھلائی کرنے کا ‘ قرابتداروں کو دینے کا ‘ بےحیائی ‘ برے کام اور ظلم و زیادتی سے باز رہنے کا ‘ فرمانبرداروں کیلئے جنت اور نافرمانوں کیلئے دوزخ کا۔

ابن جریر نے بطریق ضحاک ‘ حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے جب محمد (ﷺ) کو نبی بنا کر بھیجا تو عرب نے اس کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا : اللہ کسی انسان کو پیغمبر بنا کر بھیجے ‘ اس کی شان اس سے بہت بڑی ہے (وہ انسانوں کا محتاج نہیں) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :

1 :۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ (جسے حروف مقطعات ) سے مراد ہیں سورتوں کو کھولنے والے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے یہ بھی ہیں ۔

2 :۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں وابن النجار (رح) نے اپنی تاریخ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا (آیت) ” الٓر “ سے مراد ہے کہ میں اللہ ہوں اور میں دیکھتا ہوں (ساری مخلوق کو ) ۔

3 :۔ ابن منذر (رح) رحمۃ اللہ علیہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ سے مراد ہے کہ میں اللہ دیکھ رہا ہوں ۔

4 :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ سے مراد ہے کہ میں اللہ دیکھ رہا ہوں ۔

5 :۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ اور حمٓ اور نٓ “ یہ سب اسم مقطع ہیں (یعنی یہ آیت ایک اسم ہے جو الگ الگ حروس میں لھ گیا اور وہ اسم الرحمن ہے۔

6 :ـ۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الرحیم “ اور نٓ میں لفظ رحمن کے حروف ہیں جدا جدا کئے ہوئے ۔

7 :۔ ابوالشیخ (رح) نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ اس میں الف اور لام اور راء یہ لفظ رحمن میں سے ہیں ۔

واما قولہ : تلک ایت الکتب الحکیم (1)

8 :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ” تلک “ سے مراد وہ ہے ھذ۔

9 :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) تلک ایت الکتب “ سے مراد ہے وہ کتابیں جو قرآن مجید سے پہلے گزر گئیں ۔

اردو ترجمہ

کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہو گئی کہ ہم نے خود اُنہی میں سے ایک آدمی کو اشارہ کیا کہ (غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اُن کے رب کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے؟ (کیا یہی وہ بات ہے جس پر) منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Akana lilnnasi AAajaban an awhayna ila rajulin minhum an anthiri alnnasa wabashshiri allatheena amanoo anna lahum qadama sidqin AAinda rabbihim qala alkafiroona inna hatha lasahirun mubeenun

اکان للناس عجبًا ان اوحینآ کیا لوگوں کیلئے عجیب ہے یہ بات کہ ہم نے وحی بھیجی۔ یہ استفہام تعجبی انکاری ہے (یعنی تعجب ہے کہ لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ اللہ نے انسان کے پاس وحی بھیجی ‘ ان کو اس بات پر تعجب نہ کرنا چاہئے) لِلنَّاسِمیں لازم بتا رہا ہے کہ انسان کا پیغمبر ہونا ان کی نظر میں ایک اعجوبہ تھا ‘ قابل انکار و استہزاء۔ کسی نادر واقعہ کو دیکھ کر اور معمول و عادت کے خلاف کوئی بات مشاہدہ کرنے سے جو حالت پیدا ہوتی ہے ‘ اس کو عجب کہتے ہیں۔

لوگوں کے تعجب کو آیت میں جو تعجب آفریں قرار دیا گیا ہے اور ان کے تعجب کو واجب الانکار بتایا ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا پیغمبر بنایا جانا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ تخلیق آدم (علیہ السلام) کے وقت سے ہی اللہ کا معمول رہا ہے کہ ہمیشہ انسانوں کو ہی پیغمبر بنایا گیا ہے ‘ اسی لئے اللہ نے فرمایا ہے : وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ الاَّ رِجَالاً ہم نے آپ سے پہلے بھی ہمیشہ مردوں کو پیغمبر بنایا۔

بادشاہوں کا یہی قاعدہ ہے کہ تحریر و تقریر کی زبان وہی اختیار کرتے ہیں جس کو مخاطب جانتا ہو اور قاصد بھی اسی کو بنا کر بھیجا جاتا ہے جو ان لوگوں کی جنس سے ہو جن کے پاس بھیجا گیا ہو۔ فائدہ اندوزی اور فائدہ رسانی بغیر مناسبت کے ممکن نہیں۔ اللہ نے اسی لئے فرمایا ہے : قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلَآءِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَءِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلاً اگر زمین پر ملائکہ چلتے پھرتے اور رہتے ہوتے تو ہم ان پر آسمان سے کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے۔

الی رجل منھم ان میں سے ایک شخص کے پاس۔ یعنی ایک معمولی آدمی کے پاس جو (دنیوی دولت و حکومت کے اعتبار سے) بڑے آدمیوں میں سے نہیں ہے۔ کافروں نے کہا تھا کہ اگر انسان کو ہی رسول بنانا تھا تو محمد (ﷺ) کے علاوہ دوسرے بڑے لوگ اس کے مستحق تھے کہ ان کو رسول بنایا جاتا۔ اللہ نے (اسی قول کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے اور) فرمایا ہے : لَوْ لاَ نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍیعنی دونوں بستیوں (مکہ اور طائف) میں کے کسی بڑے عظیم آدمی پر قرآن کیوں نہیں نازل کیا گیا۔ بڑے آدمی سے ان کا مقصد تھا : ولید بن مغیرہ مکی اور مسعود بن عمر ثقفی طائفی۔ اس کے رد میں اللہ نے نازل فرمایا : ___ اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ کیا وہ اللہ کی رحمت یعنی نبوت و رسالت کو خود بانٹ رہے ہیں (کہ جس کو چاہیں اس کو نبوت دے دیں۔ یہ کافروں کی حماقت اور وحی سے ناواقفیت تھی کہ وہ دنیوی دولت کی افزونی اور قومی سیادت پر استحقاق وحی و رسالت کا مدار سمجھتے تھے) رسول اللہ (ﷺ) کو رجل عظیم نہیں سمجھتے تھے ‘ حالانکہ سوائے مال کے باقی تمام انسانی صفات و خصائل کے اعتبار سے رسول اللہ (ﷺ) سب سے بڑے اور سب سے کامل تھے۔ مال کی کمی کو نبوت میں دخل نہیں ‘ آپ سے پہلے اکثر انبیاء بھی ایسے ہی گذرے ہیں۔

ان انذر الناس وبشر الذین امنوا کہ لوگوں کو (ا اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کے برے نتیجہ سے) ڈراؤ اور اہل ایمان کو بشارت دو ۔ سب لوگوں کو عموماً ڈرانے کا حکم دیا کہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے اعمال کے لحاظ سے مستحق انذار نہیں ہیں۔ اور کافر چونکہ مستحق بشارت نہیں ‘ اسلئے بشارت دینے کا حکم صرف اہل ایمان کیلئے مخصوص کیا۔

ان لھم قدم صدق عند ربھم کہ ان کے رب کے پاس (پہنچ کر) ان کو پورا مرتبہ ملے گا۔

عطاء کے نزدیک قدم صدق سے مراد ہے صدق کا مقام جس میں نہ کوئی زوال ہے نہ دشواری اور تکلیف۔

(مؤلف کے نزدیک) قدم صدق سے مراد ہے اونچا مرتبہ جس کی طرف اہل ایمان بڑھ رہے ہیں اور جہاں ان کا قیام ہوگا۔ مرتبہ کو قدم سے تعبیر اسلئے کیا گیا کہ آگے بڑھنے اور قیام کرنے کا ذریعہ قدم ہی ہوتا ہے (یعنی سبب بول کر مسبب مراد لیا گیا ہے) جیسے نعمت کو ہاتھ کہا جاتا ہے کیونکہ نعمت کی عطاء ہاتھ کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔

آیت میں لفظ قدم صدق سے اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کے ہاں ان کو اونچا درجہ صرف قول اور نیت کی سچائی کی وجہ سے حاصل ہوگا۔ اور سب سے زیادہ سچی بات لا الٰہ الا اللہ ہے۔ ہم نے جو قدم صدق کی تفسیر مرتبہ سے کی ہے ‘ یہی حاصل حضرت ابن عباس اور ضحاک کی تفسیر کا ہے۔ حضرت ابن عباس نے لفظ قدم کی تشریف میں فرمایا : انہوں نے جو اعمال پہلے سے بھیج دئیے ہوں گے ‘ ان کا اچھا بدلہ ان کو ملے گا (اچھا بدلہ اور مرتبہ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے) ضحاک نے کہا : قَدَمَ صدقٍ یعنی سچائی کا ثواب (ضحاک نے مرتبہ کی تعبیر ثواب سے کی اور حضرت ابن عباس نے اجر حسن سے) ۔

حسن نے کہا : قَدَمَ صدقٍ سے مراد وہ نیک اعمال ہیں جو اہل ایمان نے (مرنے سے پہلے) کئے ہوں ‘ گویا حسن کے نزدیک قدم بمعنی تقدیم ہے (یعنی پہلے سے کئے ہوئے اچھے اعمال) اللہ نے اس لفظ سے بشارت دے دی کہ اہل ایمان نے جو اچھے اعمال پہلے سے (یعنی مرنے سے پہلے) کئے ہوں گے ‘ وہ اللہ کے ہاں ان کو ملیں گے۔ ابو عبیدہ نے کہا : عرب کے نزدیک ہر آگے بڑھنے والے کو قدم کہا جاتا ہے ‘ خیر کی طرف بڑھے یا شر کی طرف۔ فلاں شخص کو اسلام میں قدم (سبقت) حاصل ہے۔ میرے پاس اس کو قدم حاصل ہے یا برائی کا قدم ‘ یعنی میرے نزدیک وہ خیر میں سبقت کر رہا ہے یا بدی میں۔

ایک روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ قدم صدق سے مراد ہے سعادت سابقہ۔ زید بن اسلم نے کہا : اس سے رسول اللہ (ﷺ) کی شفاعت مراد ہے۔ بخاری نے لکھا ہے کہ زید بن اسلم نے کہا : ان کیلئے قدم صدق ہے ‘ یعنی رسول اللہ (ﷺ) (کی شفاعت) ۔

قال الکفرون کافروں نے کہا۔ یعنی کافروں نے جب رسول اللہ (ﷺ) کے معجزات دیکھے اور ناقابل مقابلہ کلام سنا تو محض عناد اور ضد سے کہا۔

ان ھذا السحر المبین۔ بیشک یہ (یعنی مدعی نبوت) کھلا ہوا جادوگر ہے۔

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں اِلّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اُسی کی عبادت کرو پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna rabbakumu Allahu allathee khalaqa alssamawati waalarda fee sittati ayyamin thumma istawa AAala alAAarshi yudabbiru alamra ma min shafeeAAin illa min baAAdi ithnihi thalikumu Allahu rabbukum faoAAbudoohu afala tathakkaroona

ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض حقیقت ناقابل شک یہ ہے کہ تمہارا مالک وہ اللہ ہے جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ آسمان و زمین تمام ممکنات (مخلوقات) کے اصول ہیں (تمام چیزیں بقول فلاسفۂ یونان انہی کی تائید و تأثر سے بنی ہیں۔

فی ستۃ ایام چھ دن میں ‘ یعنی دنیا کے چھ روز کے بقدر مدت میں۔ یوں تو اللہ آن کی آن میں سارے جہان کو پیدا کرسکتا تھا مگر مخلوق کو آہستہ روی اور تدریج کی تعلیم دینے کیلئے اس نے چھ روز میں آسمان و زمین بنائے۔

ثم استوی علی العرش پھر عرش (تخت شاہی) پر وہ قائم ہوا۔ سلف سے خلف تک تمام اہل سنت کا باتفاق عقیدہ ہے کہ اللہ تمام جسمانی صفات اور حدوث کے عوارض سے پاک ہے ‘ لیکن آیت مذکورۃ الصدر اور اسی جیسی دوسری آیات (جن میں صفات جسم کے ساتھ اللہ کا انصاف ظاہر کیا گیا ہے) بظاہر اہل سنت کے مسلک و عقیدے کے خلاف نظر آتی ہیں۔ اس شبہ کو دور کرنے کیلئے دو جواب دئیے گئے ہیں :

(1) تاویل کا مسلک اختیار کیا گیا ہے ‘ یعنی ظاہری الفاظ کے وہ (مجازی) معنی لئے گئے ہیں جو شان خداوندی کے مناسب ہیں کیونکہ آیت وَمَا یَعْلَمُ تَأوِیْلَہٗٓ الاَّ اَللّٰہُ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ میں الراسخوان کا عطف اللّٰہُ پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ متشابہات کا صحیح علم اللہ کو اور مضبوط علم رکھنے والوں کو ہی ہے (اس سے معلوم ہوا کہ متشابہات کی حقیقی مراد اور تاویل سے علماء ربانیین بھی واقف ہیں) اس کی تفصیلی بحث سورة آل عمران میں گذر چکی ہے۔ اس توجیہ کی روشنی میں آیت مذکور میں استَوٰی کو بمعنی اِسْتَولٰیقرار دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عرش جو سب سے اعلیٰ اور بالا مخلوق ہے ‘ جب اللہ اس پر غلبہ رکھتا ہے تو دوسری مخلوق پر اللہ کا تسلط بدرجۂ اولیٰ ظاہر ہے۔ پس ساری مخلوق اس کے زیرتسلط ہے۔ (1) [ استویٰکا معنی استولٰی اور تَسَلَّطَ عربی کلام میں بکثرت آیا ہے۔ کسی شاعر کا ایک شعر ہے ؂

قَدِ اسْتَویٰ بَشَرٌ عَلَی الْعِرَقِ مِنْ غَیْرِ سَیْفٍ وَدَمٍ مُّھْراقٍ ۔۔ یعنی بشر نے بغیر تلوار چلائے اور خون بہائے عراق پر تسلط کرلیا (مترجم)]

لیکن بغوی نے کہا : استواء کو بمعنی استیلاء وتسلُّط قرار دینا معتزلہ کا قول ہے۔

(2) سلف صالحین کا مسلک ‘ اہل تاویل کے مسلک کے خلاف ہے۔ تمام علماء سلف کا قول ہے کہ اس قسم کی آیات کے ظاہر پر ایمان لانا واجب ہے۔ ان کی تنقیح اور موشگافیوں سے اجتناب لازم ہے۔ ان کی حقیقت کے علم کو اللہ کے سپرد کردینا ضروری ہے۔ اسی بناء پر امام محمد بن حسن نے فرمایا تھا کہ پورب سے پچھم تک تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ قرآن اور صحیح احادیث میں اللہ کی جو صفات آئی ہیں ‘ ان کو (یونہی) بغیر تشریح و تنقیح و توضیح کے ماننا اور ان پر ایمان لانا واجب ہے۔ جو شخص ان کی توضیح کرتا ہے ‘ وہ رسول اللہ (ﷺ) اور اجماع سلف کے خلاف عمل کرتا ہے۔ اس کا رسول اللہ (ﷺ) کے لائے ہوئے دین اور جماعت مسلمین کے اختیار کردہ مسلک سے تعلق نہیں۔ امام مالک بن انس نے فرمایا : استواء (کا حقیقی ترجمہ) مجہول نہیں (استواء کی) کیفیت معلوم نہیں اور کیفیت استواء کو دریافت کرنا بدعت ہے۔

سلف صالحین ‘ تنزیہ باری تعالیٰ کے قائل تھے ‘ اسی کے ساتھ استواء علی العرش کو (بغیر تاویل کے) مانتے تھے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : اللہ آسمان میں یقیناً ہے ‘ زمین میں نہیں۔ رواہ البیہقی۔ اس قول کی نسبت بھی امام ابوحنیفہ کی طرف کی گئی ہے کہ جس نے کہا : مجھے نہیں معلوم کہ میرا رب آسمان میں ہے یا زمین میں ‘ وہ کافر ہوگیا کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرَشِ استَوٰی۔ اور عرش آسمانوں کے ادھر ہے۔ امام ابوحنیفہ کا ایک قول یہ بھی آیا ہے کہ جس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا ‘ وہ کافر ہوگیا۔

امام شافعی نے فرمایا : اللہ اپنے عرش پر اپنے آسمان میں ہے۔ وہ جیسا چاہتا ہے ‘ اپنی مخلوق کے قریب بھی ہوتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ‘ اترتا ہے (یعنی اللہ کا عرش پر ہونا مخلوق کے قریب ہونا اور نیچے اترنا ‘ تینوں قول صحیح ہیں لیکن عرش پر موجود ہونے ‘ مخلوق کے قریب ہونے اور نیچے اترنے کی کیفیت معلوم نہیں) ایسا ہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی مروی ہے۔

اسحاق بن راہویہ کا بیان ہے : تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اللہ عرش کے اوپر مستوی ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ مزنی ‘ ذہبی ‘ بخاری ‘ ابو داؤد و ترمذی ‘ ابن ماجہ ‘ ابن ابی شیبہ ‘ ابو یعلی ‘ بیہقی اور دوسرے ائمۂ حدیث کا یہی قول ہے۔ ابو زرعہ رازی کے قول سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسی قول پر اہل سنت کا اجماع ہے۔ حافظ عثمان بن سعید دارمی نے لکھا ہے کہ تمام مسلمان اس قول پر متفق ہیں کہ اللہ اپنے عرش پر آسمانوں کے اوپر ہے۔ سہل بن عبد اللہ تستری نے فرمایا : یہ کہنا جائز نہیں کہ جس نے استواء کو پیدا کیا ‘ وہ کیسے مستوی ہو سکتا ہے۔ ہمارے لئے (استواء کو) ماننا اور تسلیم کرنا لازم ہے ‘ کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے۔ محمد بن جریر طبری نے لکھا ہے : مسلمان کیلئے اتنا جان لینا کافی ہے کہ اس کا رب عرش پر مستوی ہے۔ جو اس سے آگے بڑھے گا ‘ وہ نامراد اور خسران مآب ہوگا۔ محمد بن خزیمہ نے کہا : جو شخص اللہ کو عرش پر ساتوں آسمانوں کے اوپر مستوی اور سب مخلوق سے جدا نہیں کہتا وہ کافر ہے ‘ اس سے توبہ کرائی جائے توبہ کرلے تو خیر ‘ ورنہ اس کی گردن مار دی جائے۔

طحاوی نے لکھا ہے کہ عرش و کرسی ویسے ہی ہیں جیسے اللہ نے اپنی کتاب میں ان کو بیان کیا ہے۔ اللہ عرش سے بےنیاز ہے اور عرش کے نیچے والی چیزوں سے بھی۔ وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر چیز سے اوپر ہے۔

شیخ ابو الحسن اشعری بصری نے کتاب ” اختلاف المضلین و مقالات الاسلامیین “ میں اہل سنت اور اصحاب حدیث کا ایک قول لکھا ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا ‘ اللہ کے فرشتوں ‘ کتابوں اور پیغمبروں کا ماننا اور جو کلام اللہ کی طرف سے آیا ہے اور جو رسول اللہ (ﷺ) کی صحیح حدیثوں میں مذکور ہے ‘ سب کا اقرار کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے کسی چیز کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی ماننا لازم ہے کہ اللہ اپنے عرش پر ہے ‘ جیسا کہ اس نے خود آیت الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرَشِ استَوٰی میں فرمایا ہے اور اللہ کے دو ہاتھ بھی ہیں مگر بغیر کیفیت (مخلوقیہ) کے۔ اس نے خود فرمایا ہے : خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۔

ابو نعیم نے حلیہ میں لکھا ہے : ہمارا طریقہ سلف کے طریقے کے موافق ہے جو کتاب اللہ ‘ احادیث رسول اللہ (ﷺ) اور اجماع کے پیرو تھے اور اس بات کا اعتقاد رکھتے تھے کہ اللہ ہمیشہ سے اپنی تمام صفات میں کامل ہے ...... آخر میں ابو نعیم نے کہا : جن احادیث میں اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے ‘ سلف ان کو مانتے تھے اور اللہ کو عرش پر بغیر کسی (مخلوقی) کیفیت اور تشبیہ کے مستوی مانتے تھے اور اس امر کے بھی قائل تھے کہ اللہ اپنی مخلوق سے جدا ہے۔

ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ اللہ آسمان میں عرش پر سات آسمانوں کے اوپر ہے ‘ جیسا کہ اہل سنت کا قول ہے۔

خطیب نے کہا : سلف کا مسلک یہ ہے کہ ایسی (متشابہ) آیات کا اقرار کیا جائے اور ان کے ظاہری معنی پر ہی الفاظ کو محمول کیا جائے اور کیفیت و تشبیہ کی نفی کی جائے (یعنی کوئی کیفیت اور تمثیل و تشبیہ نہ بیان کی جائے کہ معنی معلوم ہے مگر معنی کی کیفیت مجہول ہے اور وجہ اللہ یا ید اللہ یا استواء علی العرش کو ہم مخلوق کے چہرے ‘ ہاتھ اور استواء سے تشبیہ نہیں دے سکتے۔ یہ چیزیں اللہ کی صفات ہیں مگر ویسی ہیں جیسی اس کی شان کے مناسب ہیں) امام الحرمین نے کہا : عقیدۂ سلف کا اتباع ہی پسندیدہ اعتقاد اور دین اللہ ہے۔ ائمۂ سلف نے تاویل سے اجتناب کیا ہے ‘ الفاظ کے ظاہری معنی کو اختیار کیا ہے اور معانی (کی وضاحت و تفصیل) کو اللہ کے سپرد کیا ہے۔

بغوی نے لکھا ہے : اہل سنت قائل ہیں کہ استواء علی العرش اللہ کی صفت ہے بلاکیف۔ اس پر ایمان واجب ہے۔ بیضاوی نے لکھا : اس کا مطلب یہ ہے کہ استواء علی العرش اللہ کیلئے ویسا ہے جیسا اس کے مناسب ہے۔ استقرار اور مکانیت کی آمیزش سے پاک ہے۔

ابوبکرعلی بن عیسیٰ شبلی جو اپنے زمانہ کے صوفیاء میں سب سے بڑے عالم تھے ‘ کہتے ہیں : رب آسمان میں ہے ‘ حکم دیتا ہے اور فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ شیخ الاسلام عبد اللہ انصاری نے اخبار شتّٰی میں لکھا ہے کہ اللہ ساتویں آسمان میں عرش پر ہے۔

شیخ عبدالقادر جیلانی نے غنیۃ الطالبین میں لکھا ہے اور اس موضوع پر بہت تفصیلی بحث کی ہے (جس کا خلاصہ وہی ہے جو علمائے سلف سے منقول ہے کہ معانی معلوم ہیں ‘ کیفیت نامعلوم اور ہر تشبیہ سے پاک) ۔

یہ تمام اقوال ذہبی نے ” کتاب العلو “ میں نقل کئے ہیں۔ صحابہ ‘ تابعین ‘ محدثین ‘ فقہاء اور صوفیہ کی کثیر جماعت (تقریباً کل) کا یہی مسلک ہے۔ میں نے مختصراً سورة الاعراف کی آیت ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّھَارَاور سورة البقرہ کی آیت یَأتِیَھُمُ اللّٰہُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِکی تفسیر میں بیان کردیا ہے کہ اصحاب قلوب کے نزدیک ذات باری تعالیٰ کی خصوصی تجلی اور خاص پرتو بعض مخلوق پر پڑتا ہے ‘ وہ مخلوق نورانی لہروں سے نور چیں ہوتی ہے۔ اس سے ذات باری محل حوادث نہیں بن جاتی ‘ نہ خالص مرتبۂ تنزیہ سے اس کا (تشبیہ کی طرف) تنزل ہوتا ہے ‘ بلکہ ممکنات میں ایسا جوہر پیدا ہوجاتا ہے جو پرتو اندوزی کے قابل بن جاتا ہے (امکان و حدوث کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ اس میں جلوہ پزیری کی قابلیت بڑھ جاتی ہے اور بڑھتی رہتی ہے۔ اس جلوہ پاشی سے وجوب و قدم میں کوئی تغیر نہیں آتا۔ وجوب سے امکان اور قدم سے حدوث کی طرف ذات واجب و قدیم کا تنزل نہیں جاتا) میں نے سورة البقرہ میں آیت ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوَّاھُنَّ سَبْعَ سَّمٰوٰتٍ کی تفسیر کے ذیل میں اس جلوہ پاشی کی تنقیح کردی ہے جو مؤمن کے دل پر ‘ کعبہ پر اور عرش عظیم پر خصوصیت کے ساتھ ہوتی ہے (یعنی بعض مخلوق تجلئ الٰہی کی خصوصی جو لانگاہ ہے ‘ خصوصیت کے ساتھ وہ جلوۂ خداوندی سے نورچیں ہوتی ہے ‘ اس پر خاص چمکار 1 اور پرتو پڑتا ہے ‘ اس سے جلوہ ریزی اور نور پاشی کرنے والی ذات کا محتاج مکان و زمان اور حامل کیف و کم ہونا لازم نہیں آتا ہے۔ وہ جلوۂ قدیم بےکیف ہے ........ بےمکان ہے ‘ بےزمان ہے اور ہر حادث مقدار و عوارض سے پاک ہے۔

یدبر الامر ہر کام کی (مناسب) تدبیر کرتا ہے۔ یعنی حسب تقاضائے حکمت وہ کائنات کے تمام امور کا فیصلہ کرتا ہے۔ تدبیر کا معنی ہے تمام امور کے ادبار (یعنی انجام) پر نظر رکھ کر کام کرنا تاکہ نتیجہ اچھا نکلے۔

ما من شفیع الا من بعد اذنہ کوئی (کسی کا) سفارشی نہ ہوگا مگر اس کے اذن کے بعد۔ اللہ کی عظمت کا اظہار اس فقرہ میں کیا گیا ہے۔ اس آیت کا نزول نضر بن حارث کے متعلق ہوا جس نے کہا تھا کہ اگر قیامت کا دن ہوا تو لات و عزّٰی میری سفارش کردیں گے (لات و عزّٰی عورت کی شکل کے دو بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی) آیت میں اشارہ ہے کہ قیامت کے دن شفاعت ضرور ہوگی مگر اللہ کی اجازت کے بعد ہوگی۔

ذلکم اللہ یہ اللہ ہے۔ یعنی وہ ذات جو صفات مذکورہ کا مجموعہ ہے اور صفات مذکورہ کا تقاضۂ الوہیت ہے ‘ وہی ذات اللہ ہے۔

ربکم تمہارا رب ہے۔ یعنی وہی تمہارا رب ہے ‘ اس کے سوا کوئی رب نہیں۔ یا اس کی صفات میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔

فاعبدوہ پس تم اس کی پوجا کرو۔ یعنی اس کے سوا کسی کی پوجا نہ کرو۔ جماد تو الگ رہے ‘ ان میں تو نفع و نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہی نہیں ‘ کسی انسان اور فرشتے کی بھی پوجا نہ کرو۔

افلا تذکرون۔ کیا تم بالکل غور نہیں کرتے کہ غور کرنے سے اتنا سمجھ لو کہ اللہ ہی معبودیت کا مستحق ہے۔ جن کی تم پوجا کرتے ہو ‘ ان میں سے کوئی بھی معبود بننے کے قابل نہیں۔

اردو ترجمہ

اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے بے شک پیدائش کی ابتدا وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا، تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پییں اور دردناک سزا بھگتیں اُس انکار حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ilayhi marjiAAukum jameeAAan waAAda Allahi haqqan innahu yabdao alkhalqa thumma yuAAeeduhu liyajziya allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati bialqisti waallatheena kafaroo lahum sharabun min hameemin waAAathabun aleemun bima kanoo yakfuroona

الیہ مرجعکم جمیعًا (مرنے کے بعد قیامت کے دن زندہ ہو کر) تم سب کو لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے۔ مرجع مصدر ہے یا ظرف مکان۔

وعد اللہ حقًا اللہ نے اس کا سچا وعدہ کر رکھا ہے۔ وعد اللہ مفعول مطلق ہے۔ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ اللہ کی طرف سے وعدہ ہے ‘ اس وعدہ کی تاکید وعد اللہ کا لفظ کر رہا ہے۔ حقًّا بھی مفعول مطلق ہے اور اس مضمون کی تاکید کر رہا ہے جس پر وعد اللہ کا لفظ دلالت کر رہا ہے۔ گویا اول مفعول مطلق ہے تاکید لنفسہ کا اور دوسرا تاکید بغیرہ کا فائدہ دے رہا ہے۔

انہ یبدوا الخلق بلاشبہ وہی ابتدائی تخلیق کرتا ہے۔ یعنی یہ دنیوی زندگی وہی دیتا ہے۔

ثم یعیدہ پھر (موت دینے کے بعد آخرت میں) دوبارہ زندگی بھی وہی دے گا) ۔

لیجزی الذین امنوا وعملوا الصلحت بالقسط تاکہ جن مؤمنوں نے نیک کام کئے ‘ ان کو انصاف کے ساتھ جزاء عنایت کرے) اس صورت میں بالقسط سے مراد ہوگا اللہ کی طرف سے انصاف) یا قسط سے مراد ہے اہل ایمان کا عادل ہونا اور تمام امور میں عدل پر قائم رہنا۔ یا ایمان مراد ہے کیونکہ ایمان ہی سب سے بڑا عدل ہے ‘ جس طرح شرک ظلم عظیم ہے۔ مؤخر الذکر معنی مراد لینا ہی اس جگہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ آئندہ آیت میں کافروں کو کفر کی پاداش دئیے جانے کا ذکر ہے (اسلئے اوپر کی آیت میں اہل ایمان کو ان کے ایمان کی جزاء ملنے کا ذکر کیا جانا زیادہ مناسب ہے) ۔

والذین کفروا لھم شراب من حمیم و عذاب الیم بما کانوا یکفرون اور جن لوگوں نے کفر کیا ‘ ان کیلئے کفر کی سزا میں انتہائی کھولتا پانی اور درد رساں عذاب ہوگا۔ عبارت کی رفتار سے کافروں کا مستحق عذاب ہونا پرزور طور پر ظاہر ہو رہا ہے اور اس امر پر تنبیہ بھی مستفاد ہو رہی ہے کہ تخلیق اول و دوئم کی اصل غرض تو مؤمنوں کو ثواب دینا ہے ‘ کافروں کا عذاب تو بالواسطہ (ذیلی طور پر) ہوجائے گا ‘ گویا عذاب ایک بیماری ہے جو بداعتقادی اور بداعمالی سے پیدا ہوتی ہے۔

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے سُورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تاکہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو اللہ نے یہ سب کچھ (کھیل کے طور پر نہیں بلکہ) با مقصد ہی بنایا ہے وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee jaAAala alshshamsa diyaan waalqamara nooran waqaddarahu manazila litaAAlamoo AAadada alssineena waalhisaba ma khalaqa Allahu thalika illa bialhaqqi yufassilu alayati liqawmin yaAAlamoona

ھو الذی جعل الشمس ضیآء اللہ وہی ہے جس نے آفتاب کو روشنی والا بنایا۔ ضیاءً سے پہلے مضاف محذوف ہے یعنی ذات۔ ضیاءٍ روشنی والا۔ ضیاءً قیام کی طرح مصدر ہے یا سیاط کی طرح جمع ہے۔ اس کا واحد ضوء ہے جیس سیاطکا واحد سَوْطہے۔

والقمر نورًا اور چاند کو نور والا۔ نور کا لفظ معنی کے اعتبار سے ضوء سے عام ہے۔ نور کے اعلیٰ مرتبہ کا نام ضوء ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ براہ راست روشنی کو ضوء اور بالواسطہ روشنی کو نور کہتے ہیں (اور چاند کا نور چونکہ آفتاب کا عکس پڑنے سے حاصل ہوتا ہے ‘ اسلئے شمس کے ساتھ ضیاء اور قمر کے ساتھ نور کا لفظ استعمال کیا) ۔

وقدرہ منازل اور اس (کی چال) کیلئے منزلیں مقرر کیں۔ یعنی چاند اور سیورج میں سے ہر ایک کی منازل سیر مقرر کردیں ‘ یا ہر ایک کو منازل والا بنا دیا (یعنی منازل سے پہلے مضاف محذوف ہے) یا ہٗ کی ضمیر چاند کی طرف راجع ہے۔ صرف چاند کی منازل کا تذکرہ اسلئے کیا کہ سیر قمر کی منزلیں نظروں کے سامنے ہیں۔ اس کے علاوہ روزہ ‘ زکوٰۃ ‘ حج وغیرہ کے احکام اسی کی رفتار سے وابستہ ہیں۔ آئندہ آیت میں تقرر منازل قمر کی علت یہی بیان فرمائی ہے۔

لتعلموا عدد السنین تاکہ تم جان لو برسوں کی گنتی۔ یعنی چاند کی رفتار سے مہینوں کی گنتی کر کے برسوں کی گنتی جان لو۔

والحساب اور (اپنے معاملات میں دنوں اور مہینوں کے اوقات کے) حساب کو جان لو۔

ما خلق اللہ ذلک الا بالحق اللہ نے اس مخلوق کو نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔ یعنی اپنی حکمت کاملہ کے مطابق اپنی کاریگری اور قدرت کو ظاہر کرنے کیلئے۔

یفصل الایت لقوم یعلمون یہ دلائل ان لوگوں کو صاف صاف بتا رہے ہیں جو دانش رکھتے ہیں۔

اردو ترجمہ

یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ہر اُس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے) بچنا چاہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna fee ikhtilafi allayli waalnnahari wama khalaqa Allahu fee alssamawati waalardi laayatin liqawmin yattaqoona

ان فی اختلاف الیل والنھار بیشک رات دن کے اختلاف میں۔ اختلاف سے مراد ہے ایک کا دوسرے کے پیچھے آنا جانا یا رنگوں کا اختلاف مراد ہے ‘ روشن اور تاریک

وما خلق اللہ فی السموت والارض اور جو کائنات آسمانوں میں اور زمین اللہ نے بنائی ہے ‘ اس میں۔

لایٰت بلاشبہ نشانیاں ہیں۔ صانع کے وجود کی ‘ اس کی توحید کی ‘ اس کے کمال علم وقدرت کی اور تمام عیوب و نقائص سے اس کے پاک ہونے کی۔

لقوم یتقون۔ ان لوگوں کیلئے جو (برے انجام سے) ڈرتے ہیں کیونکہ یہ ساری کائنات اہل اتقاء کو غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے۔

208