سورۃ المومنون (23): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Muminoon کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المؤمنون کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المومنون کے بارے میں معلومات

Surah Al-Muminoon
سُورَةُ المُؤۡمِنُونَ
صفحہ 342 (آیات 1 سے 17 تک)

قَدْ أَفْلَحَ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ خَٰشِعُونَ وَٱلَّذِينَ هُمْ عَنِ ٱللَّغْوِ مُعْرِضُونَ وَٱلَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَوٰةِ فَٰعِلُونَ وَٱلَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَٰفِظُونَ إِلَّا عَلَىٰٓ أَزْوَٰجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ٱبْتَغَىٰ وَرَآءَ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْعَادُونَ وَٱلَّذِينَ هُمْ لِأَمَٰنَٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَٰعُونَ وَٱلَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَٰتِهِمْ يُحَافِظُونَ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْوَٰرِثُونَ ٱلَّذِينَ يَرِثُونَ ٱلْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ مِن سُلَٰلَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَٰهُ نُطْفَةً فِى قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا ٱلنُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا ٱلْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا ٱلْمُضْغَةَ عِظَٰمًا فَكَسَوْنَا ٱلْعِظَٰمَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَٰهُ خَلْقًا ءَاخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحْسَنُ ٱلْخَٰلِقِينَ ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ تُبْعَثُونَ وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ ٱلْخَلْقِ غَٰفِلِينَ
342

سورۃ المومنون کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المومنون کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے جو:

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad aflaha almuminoona

دس آیتیں اور جنت کی ضمانت نسائی، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ حضرت رسول ﷺ پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی، بھینی بھینی، ہلکی ہلکی سی آواز آپ کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اترچکی تو آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر، کم نہ کر، ہمارا اکرام کر، اہانت نہ کر، ہمیں انعام عطا فرما، محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں پر کے مقابلے میں فضیلت دے، ہم پر دوسروں کو پسند نہ فرما، ہم سے خوش ہوجا اور ہمیں خوش کر دے۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں۔ دعا (الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثر علینا وارض عنا وارضنا۔)پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہوگیا۔ پھر آپ نے مندرجہ بالا دس آیتیں تلاوت فرمائیں۔ امام ترمذی ؒ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں۔ نسائی میں ہے حضرت عائشہ ؓ سے آنحضور ﷺ کے عادات و اخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضور ﷺ کا خلق قرآن تھا، پھر ان آیتوں کی (یحافظون)۔ تک تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا یہی حضرت ﷺ کے اخلاق تھے۔ مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں۔ ابو سعید ؓ فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی دل میں سمائیں۔ اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز زبرجد کی۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر حضور ﷺ نے یہ آیت (وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۚ) 59۔ الحشر :9) پڑھی الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے، وہ سعادت پاگئے، انہوں نے نجات پالی۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ دل حاضر رکھتے ہیں، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ محمد بن سیرین ؒ کا قول ہے کہ اصحاب رسول ﷺ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہوگئیں، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے، جس کا دل فارغ ہو، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچپسی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے رسول ﷺ فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے (نسائی) ایک انصاری صحابی ؓ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری۔ آپ نے فرمایا رسول ﷺ حضرت بلال ؓ سے فرماتے تھے۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ۔ مومنوں کے اوصاف پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل، شرک، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بےفائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا 72؀) 25۔ الفرقان :72) وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اسکا بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہوچکی تھی ہاں اس کی مقدار، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے۔ دیکھئے سورة انعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے آیت (وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا01401ۙ) 6۔ الانعام :141) یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰ ۃ ادا کردیا کرو۔ ہاں یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک وکفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو۔ جیسے فرمان ہے آیت (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۽) 91۔ الشمس :9) ، جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اس نے فلاح پالی۔ اور جس نے اسے خراب کرلیا وہ نامراد ہوا۔ یہی ایک قول آیت (وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ ۙ) 41۔ فصلت :6) میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے واللہ اعلم۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے دوسری عورتوں سے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں۔ یعنی حرام کاری سے بچتے ہیں۔ زنا لواطت وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ ہاں ان کی بیویاں جو اللہ نے ان پر حلال کی ہیں اور جہاد میں ملی ہوئی لونڈیاں جو ان پر حلال ہیں۔ ان کے ساتھ ملنے میں ان پر کوئی ملامت اور حرج نہیں۔ جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے۔ قتادہ ؒ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو لے لیا اور اپنی سند میں یہی آیت پیش کی۔ جب حضرت عمر ؓ کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے صحابہ کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا۔ صحابہ نے فرمایا اس نے غلط معنی مراد لئے۔ اس پر فاروق اعظم ؓ نے اس غلام کا سر منڈوا کر جلاوطن کردیا اور اس عورت سے فرمایا اس کے بعد تو ہر مسلمان پر حرام ہے، لیکن یہ اثر منقطع ہے۔ اور ساتھ ہی غریب بھی ہے۔ امام ابن جریر نے اسے سورة مائدہ کی تفسیر کے شروع میں وارد کیا ہے لیکن اس کے وارد کرنے کی موزوں جگہ یہی تھی۔ اسے عام مسلمانوں پر حرام کرنے کی وجہ اس کے ارادے کے خلاف اسکے ساتھ معاملہ کرنا تھا واللہ اعلم۔ امام شافعی ؒ اور ان کے موافقین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزرجانے والا ہے۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کرلیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا۔ اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا۔ لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ واللہ اعلم۔ اور وصف ہے کہ وہ اپنی امانتیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے بلکہ امانت کی ادائیگی میں سبقت کرتے ہیں وعدے پورے کرتے ہیں اس کے خلاف عادتیں منافقوں کی ہوتی ہیں۔ رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ 001 جب بات کرے، جھوٹ بولے 002 جب وعدہ کرے خلاف کرے 003 جب امانت دیا جائے خیانت کرے۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کی ان اوقات پر حفاظت کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا ماں باپ سے حسن سلوک کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا اللہ کے راہ میں جہاد کرنا (بخاری ومسلم) حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں وقت، رکوع، سجدہ وغیرہ کی حفاظت مراد ہے۔ ان آیات پر دوبارہ نظر ڈالو۔ شروع میں بھی نماز کا بیان ہوا اور آخر میں بھی نماز کا بیان ہوا۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز سب سے افضل ہے حدیث شریف میں ہے سیدھے سیدھے رہو اور تم ہرگز احاطہ نہ کرسکو گے۔ جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں بہترین عمل نماز ہے۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتا ہے۔ ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کے دائمی وارث ہونگے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے اللہ سے جب مانگو جنت الفردوس مانگو، وہ سب سے اعلی اور اوسط جنت ہے۔ وہیں سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے (بخاری ومسلم) فرماتے ہیں تم میں ہر ایک کی دو دو جگہیں ہیں۔ ایک منزل جنت میں ایک جہنم میں، جب کوئی دوزخ میں گیا تو اس کی منزل کے وارث جنتی بنتے ہیں۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔ مجاہد ؒ فرماتے ہیں جنتی تو اپنی جنت کی جگہ سنوار لیتا ہے اور جہنم کی جگہ ڈھا دیتا ہے۔ اور دوزخی اس کے خلاف کرتا ہے، کفار جو عبادت کے لئے پیدا کئے گئے تھے، انہوں نے عبادت ترک کردی تو ان کے لئے جو انعامات تھے وہ ان سے چھین کر سچے مومنوں کے حوالے کر دئیے گئے۔ اسی لئے انہیں وارث کہا گیا۔ صحیح مسلم میں ہے کچھ مسلمان پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئیں گے، جنہیں اللہ تعالیٰ یہود و نصاری پر ڈال دے گا اور انہیں بخش دے گا۔ اور سند سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایک ایک یہودی یا نصرانی دے گا کہ یہ تیرا فدیہ ہے، جہنم سے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے جب یہ حدیث سنی تو راوی حدیث ابو بردہ ؓ کو قسم دی انہوں نے تین مرتبہ قسم کھا کر حدیث کو دوہرا دیا۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے (تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا 63۔) 19۔ مریم :63) اسی جیسی آیت یہ بھی (وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْٓ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 72؀) 43۔ الزخرف :72) فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں بعض سلف کہتے کہ اس باغ کو جس میں انگور کی بیلیں ہوں۔ واللہ اعلم۔

اردو ترجمہ

اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena hum fee salatihim khashiAAoona

اردو ترجمہ

لغویات سے دور رہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena hum AAani allaghwi muAAridoona

اردو ترجمہ

زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena hum lilzzakati faAAiloona

اردو ترجمہ

اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena hum lifuroojihim hafithoona

اردو ترجمہ

سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں کہ ان پر (محفوظ نہ رکھنے میں) وہ قابل ملامت نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa AAala azwajihim aw ma malakat aymanuhum fainnahum ghayru maloomeena

اردو ترجمہ

البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Famani ibtagha waraa thalika faolaika humu alAAadoona

اردو ترجمہ

اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena hum liamanatihim waAAahdihim raAAoona

اردو ترجمہ

اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena hum AAala salawatihim yuhafithoona

اردو ترجمہ

یہی لوگ وہ وارث ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika humu alwarithoona

اردو ترجمہ

جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yarithoona alfirdawsa hum feeha khalidoona

اردو ترجمہ

ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad khalaqna alinsana min sulalatin min teenin

انسان کی پیدائش مرحلہ وار اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی ابتدا بیان کرتا ہے کہ اصل آدم مٹی سے ہیں، جو کیچڑ کی اور بجنے والی مٹی کی صورت میں تھی پھر حضرت آدم ؑ کے پانی سے ان کی اولاد پیدا ہوئی۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کرکے پھر انسان بنا کر زمین پر پھیلادیا ہے۔ مسند میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو خاک کی ایک مٹھی سے پیدا کیا، جسے تمام زمین پر سے لیا تھا۔ پس اسی اعتبار سے اولاد آدم کے رنگ روپ مختلف ہوئے، کوئی سرخ ہے، کوئی سفید ہے، کوئی سیاہ ہے، کوئی اور رنگ کا ہے۔ ان میں نیک ہیں اور بد بھی ہیں۔ آیت (ثم جعلنہ)۔ میں ضمیر کا مرجع جنس انسان کی طرف ہے جیسے ارشاد ہے آیت (ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ ۚ) 32۔ السجدة :8)۔ اور آیت میں ہے (اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ 20؀ۙ) 77۔ المرسلات :20) پس انسان کے لئے ایک مدت معین تک اس کی ماں کا رحم ہی ٹھکانہ ہوتا ہے جہاں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ پھر نطفے کی جو ایک اچھلنے والا پانی ہے جو مرد کی پیٹ سے عورت کے سینے سے نکلتا ہے شکل بدل کر سرخ رنگ کی بوٹی کی شکل میں بدل جاتا ہے پھر اسے گوشت کے ایک ٹکڑے کی صورت میں بدل دیا جاتا ہے جس میں کوئی شکل اور کوئی خط نہیں ہوتا۔ پھر ان میں ہڈیاں بنادیں سر ہاتھ پاؤں ہڈی رگ پٹھے وغیرہ بنائے اور پیٹھ کی ہڈی بنائی۔ رسول ﷺ فرماتے ہیں انسان کا تمام جسم سڑ گل جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے۔ اسی سے پیدا کیا جاتا ہے اور اسی سے ترکیب دی جاتی ہے۔ پھر ان ہڈیوں کو وہ گوشت پہناتا ہے تاکہ وہ پوشیدہ اور قوی رہیں۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے جس سے وہ ہلنے جلنے چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے اور ایک جاندار انسان بن جائے۔ دیکھنے کی سننے کی سمجھنے کی اور حرکت وسکون کی قدرت عطا فرماتا ہے۔ وہ بابرکت اللہ سب سے اچھی پیدائش کا پیدا کرنے والا ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جب نطفے پر چار مہنیے گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھجتا ہے جو تین تین اندھیریوں میں اس میں روح پھونکتا ہے یہی معنی ہے کہ ہم پھر اسے دوسری ہی پیدائش میں پیدا کرتے ہیں یعنی دوسری قسم کی اس پیدائش سے مراد روح کا پھونکا جانا ہے پس ایک حالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف ماں کے پیٹ میں ہی ہیر پھیر ہونے کے بعد بالکل ناسمجھ بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ جوان بن جاتا ہے پھر ادھیڑپن آتا ہے پھر بوڑھا ہوجاتا ہے پھر بالکل ہی بڈھا ہوجاتا ہے الغرض روح کا پھونکا جانا پھر ان کے انقلابات کا آنا شروع ہوجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ صادق ومصدوق آنحضرت محمد مصطفٰے ﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی ہے پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت میں رہتا ہے پھر چالیس دن تک وہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور بحکم الہٰی چار باتیں لکھ لی جاتی ہیں روزی، اجل، عمل، اور نیک یا بد، برا یا بھلا ہونا پس قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ ایک شخص جنتی عمل کرتا رہتا یہاں تک کہ جنت سے ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے لیکن تقدیر کا وہ لکھا غالب آجاتا ہے اور خاتمے کے وقت دوزخی کام کرنے لگتا ہے اور اسی پر مرتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک انسان برے کام کرتے کرتے دوزخ سے ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے لیکن پھر تقدیر کا لکھا آگے بڑھ جاتا ہے اور جنت کے اعمال پر خاتمہ ہو کر داخل فردوس بریں ہوجاتا ہے۔ (بخاری ومسلم وغیرہ) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں نطفہ جب رحم میں پڑتا ہے تو وہ ہر ہر بال اور ناخن کی جگہ پہنچ جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد اس کی شکل جمے ہوئے خون جیسی ہوجاتی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ اپنے اصحاب سے باتیں بیان کررہے تھے کہ ایک یہودی آگیا تو کفار قریش نے اس سے کہا یہ نبوت کے دعویدار ہیں اس نے کہا اچھا میں ان سے ایک سوال کرتا ہوں جسے نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ آپ کی مجلس میں آکر بیٹھ کر پوچھتا ہے کہ بتاؤ انسان کی پیدائش کس چیز سے ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا مرد عورت کے نطفے سے۔ مرد کا نطفہ غلیظ اور گاڑھا ہوتا ہے اس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں اور عورت کا نطفہ رقیق اور پتلا ہوتا ہے اس سے گوشت اور خون بنتا ہے۔ اس نے کہا۔ آپ سچے ہیں اگلے نبیوں کا بھی یہی قول ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں جب نطفے کو رحم میں چالیس دن گزر جاتے ہیں تو ایک فرشتہ آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے کہ اے اللہ یہ نیک ہوگا یا بد ؟ مرد ہوگا یا عورت ؟ جو جواب ملتا ہے وہ لکھ لیتا ہے اور عمل، عمر، اور نرمی گرمی سب کچھ لکھ لیتا ہے پھر دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اس میں پھر کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں رہتی بزار کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جو عرض کرتا ہے اے اللہ اب نطفہ ہے، اے اللہ اب لوتھڑا ہے، اے اللہ اب گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جب جناب باری تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پوچھتا ہے اے اللہ مرد ہو یا عورت، شکی ہو یا سعید ؟ رزق کیا ہے ؟ اجل کیا ہے ؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں ان سب باتوں اور اتنی کامل قدرتوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ سب سے اچھی پیدائش کرنے والا اللہ برکتوں والا ہے حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب کی موافقت چار باتوں میں کی ہے جب یہ آیت اتری کہ ہم نے انسان کو بجتی مٹی سے پیدا کیا ہے تو بےساختہ میری زبان سے فتبارک اللہ احسن الخالقین نکلا اور وہی پھر اترا۔ زید بن ثابت انصاری ؓ جب رسول کریم ﷺ کو اوپر والی آیتیں لکھوا رہے تھے اور آیت (ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14؀ۭ) 23۔ المؤمنون :14) تک لکھوا چکے تو حضرت معاذ ؓ نے دریافت فرمایا یارسول اللہ ﷺ آپ کیسے ہنسے ؟ آپ نے فرمایا اس آیت کے خاتمے پر بھی یہی ہے اس حدیث کی سند کا ایک راوی جابر جعفی ہے جو بہت ہی ضعیف ہے اور یہ روایت بالکل منکر ہے۔ حضرت زید بن ثابت ؓ کاتب وحی مدینے میں تھے نہ کہ مکہ میں حضرت معاذ ؓ کے اسلام کا واقعہ بھی مدینے کا واقعہ ہے اور یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے پس مندرجہ بالا روایت بالکل منکر ہے واللہ اعلم۔ اس پہلی پیدائش کے بعد تم مرنے والے ہو، پھر قیامت کے دن دوسری دفعہ پیدا کئے جاؤگے، پھر حساب کتاب ہوگا خیروشر کا بدلہ ملے گا۔

اردو ترجمہ

پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma jaAAalnahu nutfatan fee qararin makeenin

اردو ترجمہ

پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma khalaqna alnnutfata AAalaqatan fakhalaqna alAAalaqata mudghatan fakhalaqna almudghata AAithaman fakasawna alAAithama lahman thumma anshanahu khalqan akhara fatabaraka Allahu ahsanu alkhaliqeena

اردو ترجمہ

پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma innakum baAAda thalika lamayyitoona

اردو ترجمہ

پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقیناً تم اٹھائے جاؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma innakum yawma alqiyamati tubAAathoona

اردو ترجمہ

اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad khalaqna fawqakum sabAAa taraiqa wama kunna AAani alkhalqi ghafileena

آسمان کی پیدائش مرحلہ وار انسان کی پیدائش کا ذکر کرکے آسمانوں کی پیدائش کا بیان ہو رہا ہے جن کی بناوٹ انسانی بناوٹ سے بہت بڑی بہت بھاری اور بہت بڑی صنعت والی ہے۔ سورة الم سجدہ میں بھی اسی کا بیان ہے جیسے حضور ﷺ جمعہ کے دن صبح کی نماز کی اول رکعت میں پڑھا کرتے تھے وہاں پہلے آسمان و زمین کی پیدائش کا ذکر ہے پھر انسانی پیدائش کا بیان ہے پھر قیامت کا اور سزا جزا کا ذکر ہے وغیرہ۔ سات آسمانوں کے بنانے کا ذکر کیا ہے جسے فرمان ہے آیت (تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ 44؀) 17۔ الإسراء :44) ساتوں آسمان اور سب زمینیں اور ان کی سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اوپر تلے ساتوں آسمانوں کو بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے انہی جیسی زمینیں بھی۔ اس کا حکم ان کے درمیان نازل ہوتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور تمام چیزوں کو اپنے وسیع علم سے گھیرے ہوئے ہے اللہ اپنی مخلوق سے غافل نہیں۔ جو چیز زمین میں جائے جو زمین سے نکلے اللہ کے علم میں ہے آسمان سے جو اترے اور جو آسمان کی طرف چڑھے وہ جانتا ہے جہاں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے ایک ایک عمل کو وہ دیکھ رہا ہے۔ آسمان کی بلند وبالا چیزیں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں، اور پہاڑوں کی چوٹیاں، سمندروں، میدانوں، درختوں کی اسے خبر ہے۔ درختوں کا کوئی پتہ نہیں گرتا جو اس کے علم میں نہ ہو کوئی دانہ زمین کی اندھیروں میں ایسا نہیں جاتا جسے وہ نہ جانتا ہو کوئی ترخشک چیز ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں نہ ہو۔

342