سورۃ الفجر (89): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Fajr کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفجر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الفجر کے بارے میں معلومات

Surah Al-Fajr
سُورَةُ الفَجۡرِ
صفحہ 593 (آیات 1 سے 23 تک)

وَٱلْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ وَٱلشَّفْعِ وَٱلْوَتْرِ وَٱلَّيْلِ إِذَا يَسْرِ هَلْ فِى ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِى حِجْرٍ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ إِرَمَ ذَاتِ ٱلْعِمَادِ ٱلَّتِى لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِى ٱلْبِلَٰدِ وَثَمُودَ ٱلَّذِينَ جَابُوا۟ ٱلصَّخْرَ بِٱلْوَادِ وَفِرْعَوْنَ ذِى ٱلْأَوْتَادِ ٱلَّذِينَ طَغَوْا۟ فِى ٱلْبِلَٰدِ فَأَكْثَرُوا۟ فِيهَا ٱلْفَسَادَ فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ إِنَّ رَبَّكَ لَبِٱلْمِرْصَادِ فَأَمَّا ٱلْإِنسَٰنُ إِذَا مَا ٱبْتَلَىٰهُ رَبُّهُۥ فَأَكْرَمَهُۥ وَنَعَّمَهُۥ فَيَقُولُ رَبِّىٓ أَكْرَمَنِ وَأَمَّآ إِذَا مَا ٱبْتَلَىٰهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُۥ فَيَقُولُ رَبِّىٓ أَهَٰنَنِ كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِمُونَ ٱلْيَتِيمَ وَلَا تَحَٰٓضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلْمِسْكِينِ وَتَأْكُلُونَ ٱلتُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا وَتُحِبُّونَ ٱلْمَالَ حُبًّا جَمًّا كَلَّآ إِذَا دُكَّتِ ٱلْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا وَجَآءَ رَبُّكَ وَٱلْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا وَجِا۟ىٓءَ يَوْمَئِذٍۭ بِجَهَنَّمَ ۚ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ ٱلْإِنسَٰنُ وَأَنَّىٰ لَهُ ٱلذِّكْرَىٰ
593

سورۃ الفجر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الفجر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

قسم ہے فجر کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalfajri

والفجر ............................................ لذی حجر

اس سور تکے آغاز میں قسم اٹھانے کے لئے ایسے مناظر اور مخلوقات کا انتخاب کیا گیا ہے جو انسانوں کے مانوس مناظر ہیں اور ایک لطیف روح رکھتے ہیں اور صاف و شفاف ہیں۔ ” الفجر “ ایک ایسا وقت ہے جس میں زندگی نہایت خوشگوار موڈ میں سانس لیتی ہے۔ نہایت خوشی ، تبسم ، محبت اور تروتازہ لگاﺅ کے جذبات میں یہ پوری کائنات انگڑائی لیتی ہے۔ فجر کے یہ سانس گویا مناجات الٰہیہ کے انفاس ہیں۔ اور فجر کے وقت ہر چیز کھلی کھلی ہوتی ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ کلیاں خوشی کی وجہ سے کھل رہی ہیں۔

اردو ترجمہ

اور دس راتوں کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walayalin AAashrin

ولیال عشر (2:89) ” دس راتوں کی قسم “۔ ان دس راتوں کو قرآن نے مطلق چھوڑا ہے ، ان کی تفسیر میں اقوال وروایات وارد ہیں ، بعض میں ذوالحجہ کی دس راتیں ، بعض میں محرم کی دس راتیں ، اور بعض میں رمضان کی دس راتوں کا ذکر آیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کو اسی طرح مطلق اور عام ہی رہنے دینا چاہئے اور یہی زیادہ خوشگوار ہے۔ یہ دس راتیں جن کو اللہ ہی جانتا ہے اور اللہ کے ہاں جن کی ایک منزلت واہمیت ہے ، سیاق کلام میں ان دس راتوں پر یوں روشنی پڑتی ہے کہ شاید یہ ایک شخصیت اور ایک ذی روح راتیں ہیں ، جس طرح زندہ ذی روح مخلوق ہوتی ہے ۔ یہ راتیں ہم سے محبت کرتی ہیں ، اور ہم ان سے محبت کرتے ہیں ، اس قرآنی تعبیر کے آئینے میں۔

اردو ترجمہ

اور جفت اور طاق کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaalshshafAAi waalwatri

والشفع والوتر (3:89) ” اور جفت اور طاق کی قسم “۔ اس مانوس اور محبوب فضائے صبح گا ہی میں اور قابل قدر دس راتوں میں شفع ووتر روح صلوٰة ہیں۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں : ” نماز میں شفع بھی ہے اور وتر (ترمذی) ۔ ان آیات میں جو فضا پائی جاتی ہے اس میں یہی مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس چھاجانے والی کائنات کی روح کے ساتھ عبادت گزار روح کا اتصال ہی موزوں مفہوم ہے ، جس طرح ایک عبادت گزار روح اللہ کی پسندیدہ دس راتوں میں روح کے ساتھ وصال پاتی ہے اور پھر یہ راتیں اور یہ روشن نمود صبح سب باہم ملتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallayli itha yasri

والیل اذا یسر (4:89) ” اور رات کی قسم جب رخصت ہورہی ہو “۔ یہ رات ہے یا کوئی زندہ مخلوق ہے جو اس کائنات میں چلتی پھرتی ہے ، گویا وہ عاشق زار ہے جو راتوں کو سرگرداں ہے ، یا مسافر ہے جو دور دراز منزل کی طرف رات کو رواں دواں ہے۔ کیا ہی خوبصورت انداز بیان ہے ! منظر کس قدر مانوس ہے ؟ الفاظ کا ترنم کس قدر خوشگوار ہے۔ فجر ، لیالی عشر اور الشفع والوتر میں الفاظ ، ترنم اور معانی کی ہم آہنگی قابل دید ہے۔ الفاظ وعبارات نہیں بلکہ نمود صبح کے خوشگوار اور گرم سانس ہیں ، خوشبودار آوازیں ، قلب حزیں پر محبت مکالمات ہیں یا روح کی لطیف سرگوشیاں ہیں یا انسانی ضمیر کی بیداری کے اشارات ولمحات ہیں۔

ذرا خوبصورتی کو دیکھیں ، پر محبت سرگوشیوں سے بھر پور حسن ، آزاد شاعرانہ حسن اس کا پاسنگ بھی نہیں۔ یہ تو معجزانہ تخلیق حسن ہے اور حسن و جمال کے ساتھ حقائق پر مشتمل بھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان قسموں کے بعد متصلایہ کہا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

کیا اِس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hal fee thalika qasamun lithee hijrin

ھل فی .................... حجر (5:89) ” کیا اس میں صاحب عقل کے لئے کوئی قسم ہے ؟ “ یہ ایک تقریری سوال ہے جس کا جواب ہے “۔ بیشک اس میں قسم ہے ایک عقلمند آدمی کے لئے ” ہاں “ اس میں ہر صاحب عقل وخرد کے لئے تسلی وتشفی ہے “۔ اس اثبات کے لئے استفہام کا انداز اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ یہ انداز نرم اور سرگوشی کے انداز کے ساتھ زیادہ مناسب ہے ، جو ان قسموں میں پایا جاتا ہے۔

یہاں اس بات کو سیاق کلام میں لپیٹ کر رکھ دیا گیا ہے جس پر قسم اٹھائی گئی تاکہ تجسس قائم رہے اور بعد کا مضمون اس کی تشریح کردے۔ بعد کا موضوع ہے سرکشی ، فساد اور ظلم اور حد سے تجاوز کا۔ اور ایسے لگوں کے ساتھ دست قدرت کے رویے کا۔ یہ کہ ایسے لوگوں سے لازماً اللہ انتقام لیتا ہے اور اسی پر اللہ قسم اٹھاتا ہے اور قسم بھی نہایت ہی نرم ، اشاراتی اور اجمالی انداز میں اٹھائی گئی۔

اردو ترجمہ

تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara kayfa faAAala rabbuka biAAadin

الم ترکیف .................................... المرصاد

اس قسم کے مطابق سیاق کلام میں استفہام کا صیغہ پرکشش ہوتا ہے اور وہ سامعین کو زیادہ متوجہ کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ ابتداً یہ خطاب تو نبی ﷺ کو ہے لیکن بعدہ ہر اس شخص کو خطاب ہے جو ان اقوام کے عبرت آموز واقعات سے سبق لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس زمانے میں یہ آیات اتریں ، مخاطبین کے درمیان ان اقوام کے قصے معروف ومشہور تھے۔ اس علاقے میں جو آثار قدیمہ ابھی تک باقی ہیں اور جو قصے ابھی تک زبان زدعام ہیں ، ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان اقوام کے بارے میں عرب اچھی طرح جانتے تھے۔ یہاں فعل کا فاعل ” ربک “ کو لایا گیا ہے۔ اس میں حضور اکرم ﷺ اور اس وقت کے مٹھی بھر مسلمانوں کے لئے سامان اطمینان ہے۔ اس وقت مکہ کے مسلمان قریش کے سرکشوں کے ہاتھوں مظالم جھیل رہے تھے اور ان کے خلاف یہ لوگ ہر محاذ پر راہ روکے کھڑے تھے۔ اس پیرا یہ اظہار سے ان کے دلوں میں راحت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔

ان مختصر آیات میں اللہ نے تاریخ انسانی کے سرکردہ جباروں کی داستانوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک مشہور قوم عادارم ہے جسے عاد اولیٰ بھی کہا گیا ہے۔ یہ ان عربوں میں سے تھے جو ابتدائی ادوار میں خالص عرب تھے (عاربہ) یا ان عربوں میں سے تھے جن کی نسل ختم ہوگئی ہے (بائدہ) یہ لوگ احقاف میں رہتے تھے ، احقاف ریت کے ٹیلوں کو کہتے ہیں۔ جنوب عرب میں یمن اور حضرت موت کے درمیان ان کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ بدوی لوگ تھے اور ایسے خیموں میں رہے تھے جو ستوتوں پر قائم ہوتے تھے۔ قرآن کریم میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ بڑے قوی تھے اور سخت گرفت کی طاقت رکھتے تھے۔ اپنے وقت پر یہ قوی تر قوم تھی اور اقوام میں زیادہ ممتاز تھی۔

التی لم ........................ فی البلاد (8:89) ” جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی “۔ یعنی اس وقت تک۔

اردو ترجمہ

اونچے ستونوں والے عاد ارم کے ساتھ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Irama thati alAAimadi

اردو ترجمہ

جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatee lam yukhlaq mithluha fee albiladi

اردو ترجمہ

اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wathamooda allatheena jaboo alssakhra bialwadi

وثمود ............................ بالواد (9:89) ” اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں “۔ ثمود حجر میں رہتے تھے۔ یہ جزیرة العرب کے شمال میں ہے۔ مدینہ اور شام کے درمیان وادی حجر ہے۔ انہوں نے چٹانیں کاٹ کر بڑے بڑے محلات بنارکھے تھے اور پہاڑوں کے اندر قلعے اور غار بنا رکھے تھے۔

وفرعون ................ الاوتاذ (10:89) ” اور میخوں والے فرعون کے ساتھ “۔ راجح بات یہ ہے کہ اوتاد سے مراد اہرام ہیں جو میخوں کی طرح زمین میں نصب ہیں۔ اور نہایت پختہ بنیادوں پر ہیں۔ جس فرعون کی طرف یہاں اشارہ ہے وہ فرعون موسیٰ ہے جو بہت سرکش تھا اور جبار تھا۔

اردو ترجمہ

اور میخوں والے فرعون کے ساتھ؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WafirAAawna thee alawtadi

اردو ترجمہ

یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena taghaw fee albiladi

الذین ............................................ الفساد (12:89) ” یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور ان میں فساد پھیلایا تھا “۔ سرکشی کے بعد فساد ہی ہوتا ہے کیونکہ سرکشی ، سرکش شخص کو خراب کردیتی ہے۔ اسی طرح جو لوگ سرکشی اور ظلم کا شکار ہوتے ہیں وہ بھی فساد میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان کے اندر اخلاقی بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اجتماعی زندگی کا ہر پہلو فساد کی زد میں آجاتا ہے اور زندگی اپنی صحت مند تعمیری اور پاکیزہ راستے سے ہٹ جاتی ہے اور ایسے راستوں پر پڑجاتی ہے جو انسان کی خلیفہ اللہ فی الارض ہونے کی ذمہ داری کے خلاف ہوتی ہے۔

طغیانی اور سرکشی کی وجہ سے عوام الناس غلام اور ذلیل ہوجاتے ہیں ، ان کے اندر ایک خفیہ بغض اور حسد پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ غصہ اور حسد کو ہر وقت سینوں میں دبائے رکھتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کی شخصیت سے عزت نفس اور اعلیٰ انسانی شعور مٹ جاتا ہے ، اور ان میں سے تخلیقی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ تخلیقی عمل کے لئے آزادفضا کا ہونا ضروری ہے۔ اور جس سوسائٹی کو کوئی ڈکٹیٹر ذلیل کرکے رکھتا ہے وہ متعفن ہوجاتی ہے۔ اور ایک سڑی ہوئی سوسائٹی ہوتی ہے۔ اس میں لوگ اس طرح گری ہوئی زندگی بسر کرتے ہیں جس طرح کیڑے مکوڑے ۔ زیادہ سے زیادہ وہ گری ہوئی عادتوں اور عیاشیوں کے رسیا ہوجاتے ہیں۔ ان کی قوائے عقل وخرد ماند پڑجاتی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں ایسے لوگوں کے اندرجرائم پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان کو قوائے عقل وخردماند پڑجاتی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں ایسے لوگوں کے اندر جرائم پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے اندرخودداری ہمت ، بلندعزائم ، بلند نگاہی جیسی اعلیٰ صفات ختم ہوجاتی ہیں اور یہ ہے بہت عظیم بگاڑ۔

ڈکٹیٹر اور جبار ہمیشہ اعلیٰ قدروں اور سیدھی سوچ کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتے ہیں۔ اس لئے اعلیٰ اقدار اور سیدھی سوچ کے نتیجے میں ان کے باطل اقتدار کو خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے جبار ہمیشہ لوگوں کے لئے کھوٹی قدریں وضع کرتے اور معاشروں میں فاسد پیمانے رائج کرتے ہیں اور غلط افکار و تصورات کو رائج کرکے خوشنما بناتے ہیں تاکہ لوگ ان کے عدوان اور قہاری وجباری کو قبول کریں۔ اور اسے ایک پاپولر اور مقبول اور مروج نظریہ سمجھیں۔ اور یہ ہے وہ بڑا فساد جس سے اور کوئی بڑا فساد نہیں ہے۔ اور جب یہ لوگ زمین کے اندر ہمہ جہت فساد پھیلادیتے ہیں ، اس لئے زمین کی تطہیر ضروری ہوجاتی ہے۔

اردو ترجمہ

اور ان میں بہت فساد پھیلایا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faaktharoo feeha alfasada

اردو ترجمہ

آخرکار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasabba AAalayhim rabbuka sawta AAathabin

فصب ................................ صاد (14:89) ” آخر کار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے “۔ تمہارے گھاس میں ہے اور وہ ان کے اعمال کو ریکارڈ کررہا ہے اور جب ان کا فساد حد سے زیادہ ہوگیا تو اللہ کا کوڑا بجنے لگتا ہے اور ان پر اس دنیا ہی میں عذاب الٰہی نازل ہونے کا عمل جاری ہوجاتا ہے۔ عذاب کے کوڑے سے مراد یہاں عذاب کی شدت اور چبھن ہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کا عذاب بہت عام اور ہمہ گیر ہوتا ہے اور وہ ہر طرف سے ان سرکشوں پر انڈیل دیا جاتا ہے جس کے اندر درد چبھن اور گہرائی ہوتی ہے ، اور یہ ان سرکشوں کو لے ڈوبتا ہے۔ جنہوں نے اپنی سرکشیوں کی وجہ سے زمین کو فساد سے بھر دیا تھا۔

جباروں اور ڈکٹیٹروں کے اس انجام کو دیکھ کر ایسے اہل ایمان اور داعیان حق کے دلوں پر اطمینان کے فیوض نازل ہوجاتے ہیں ، جن کو اس قسم کے ظالموں اور سرکشوں سے واسطہ ہوتا ہے ، چاہے وہ جس زمان ومکان میں ہوں اور پھر قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں۔

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna rabbaka labialmirsadi

ان ربک ........................ صاد (14:89) ” حقیقت ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے “۔ یعنی تمہارا رب حاضر وناصر ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے اور اس کی نظروں سے کوئی چیز اوجھل نہیں ہوتی۔ وہ نگرانی کررہا ہے اور اس کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ لہٰذا ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ مطمئن ہوں ، ان کی مصیبتیں دور ہوں گی اس لئے کہ رب دیکھ رہا ہے اور وہ شر و فساد کا دفعیہ خود کرے گا اور قیامت میں سزا بھی دے گا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں دعوت اسلامی کو نہایت ہی عجیب طریقوں سے مدد دی جاتی ہے ہر جگہ اصحاب اخدود والا طریقہ پیش نہیں آتا۔ اسی طریقے کے مطابق قرآن دین کے لئے کام کرنے والوں کی اسی انداز سے تربیت کرتا ہے اور مختلف حالات اور مختلف ماحول میں مختلف انداز سے ان کی تربیت اور نصرت ہوتی رہتی ہے اور داعیان حق کے لئے اطمینان کا سامان ہوتا رہتا ہے۔ اہل ایمان دو باتوں کی توقع رکھتے ہیں اور اپنی جدوجہد کے بعد فیصلہ اور انجام اللہ کی مشیت کے حوالے کردیتے ہیں کہ وہ دیکھ رہا ہے۔

تمہارا رب گھات لگائے بیٹھا ہے۔ حاضروناظر ہے ، دیکھ رہا ہے ، حساب و کتاب تیار ہورہا ہے اور نہایت ہی صحیح اعمال نامے کی اساس پر وہ جزاء وسزادے گا۔ جس میں نہ غلطی ہوگی ، نہ ظلم ہوگا اور نہ وہ دنیا کے حساب کی طرح محض ظاہری حالات پر مبنی ہوگا بلکہ وہاں تو تمام امور کا فیصلہ حقائق کے مطابق ہوگا۔ رہا انسان تو دنیا میں اس کے موازنے بھی غلط ہوجاتے ہیں۔ اندازے بھی غلط ہوجاتے ہیں اور شہادتوں میں بھی وہ ظاہر پر فیصلہ کرتا ہے ، الایہ کہ وہ کوئی فیصلہ اللہ کی شریعت کے مطابق کرے اور اسلامی تصور حیات کے مطابق سوچے۔

اردو ترجمہ

مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنا دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faamma alinsanu itha ma ibtalahu rabbuhu faakramahu wanaAAAAamahu fayaqoolu rabbee akramani

فاما الاانسان ............................ اھانن

یہ تو ہے ، انسان کی سوچ ، ان حالات کے بارے میں جن سے وہ گزرتا ہے۔ کبھی وہ امیر ہوتا ہے ، کبھی غریب ہوتا ہے ، کبھی فراخی نصیب ہوتی ہے اور کبھی تنگی۔ کبھی اللہ اسے نعمتوں اور عزتوں سے آزماتا ہے کبھی جاہ مال سے اس کی آزمائش ہوتی ہے لیکن وہ سمجھ نہیں پاتا کہ یہ تو آزمائش ہورہی ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوا تو اسے جزاء ملے۔ لیکن اس کی سوچ یہ ہے کہ وہ مال ومتال کی فراخی اور عزت وجاہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک اس مقام و مرتبہ کا مستحق ہے اور یہ دولت اور یہ عزت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک مقبول ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے وہ آزمائش کو انعام سمجھتا ہے اور امتحان کو نتیجہ سمجھتا ہے۔ اور اللہ کے نزدیک عزت ومقام کو وہ اس دنیا کی عزت اور مقام پر قیاس کرتا ہے۔ اسی طرح ایسا شخص اگر غریب ہوجائے تو یہ سمجھتا ہے شاید اسے سزا دے دی گئی ہے۔ اور وہ آزمائش کو سزا سمجھتا ہے۔ اور اگر اللہ نے اس کے رزق میں کمی کردی ہے تو یہ اسے سزا اور توہین سمجھتا ہے۔ اس کی سوچ یوں ہے کہ اگر یہ توہین آمیز سلوک نہ ہوتا تو اللہ اسے غریب نہ بناتا۔

دونوں حالتوں میں ایسا سوچنے والا شخص غلطی پر ہوتا ہے۔ جس طرح اس کی سوچ غلط ہے اسی طرح اس کا اندازہ بھی غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ رزق کی تنگی بھی آزمائش ہے اور کشادگی بھی آزمائش ہے۔ کشادگی یوں آزمائش ہے کہ آیا اس پر وہ شکر ادا کرتا ہے یا دولت کو ظلم وسرکشی کا سبب بناتا ہے اور تنگی کی صورت میں آیا وہ صبر کرتا ہے یا ترش مزاجی کا اظہار کرتا ہے ۔ دونوں حالات میں اس کا جو رد عمل ہوگا اسی کے مطابق جزاء وسزا ہوگی۔ دنیا کا مال اور دنیا کی غربت بذات خود نہ جزاء ہیں اور نہ سزا ہیں۔ اللہ کے بندوں کو ان کی دولت کی بنا پر نہیں تولا جاتا۔ نہ اس دنیا میں اللہ کی طرف نعمت کا عطا ہونا یا منع کیا جانا علامت ہے اللہ کی رضامندی کی یا اللہ کی طرف سے ناراضگی کی۔ اللہ تو نیکوکاروں کو بھی دیتا ہے اور بدکاروں کو بھی دیتا ہے ، اور نیکوکاروں سے منع بھی کرتا ہے اور عطا بھی کرتا ہے۔

انسان کا قلب ایمان سے خالی ہوتا ہے ، تو وہ اللہ کی جانب سے دین یا محروم کرنے کی حکمت کو نہیں سمجھ پاتا۔ اور نہوہ اللہ کے ہاں مقرر کردہ حسن وقبح کے پیمانوں کو سمجھتا ہے اور جب کسی کا دل ایمان سے بھر جاتا ہے تو وہ خدا رسیدہ ہوتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے میزان میں کیا چیزوزن دار ہے۔ اس لئے ایسے شخص کے نزدیک دنیا کی کم قیمت منافع ہلکے ہوجاتے ہیں اور وہ جانتا ہے کہ آزمائش کے نتیجے میں جزاء ملیت ہے تو وہ رزق کی کشادگی اور تنگی دونوں حالتوں میں قیامت کے لئے کام کرتا ہے اور دونوں حالتوں میں تقدیر الٰہی پر مطمئن ہوتا ہے اور دنیا کی ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کے بغیر بھی اللہ کے ہاں جو اقدار وزن دار ہیں ان کو سمجھتا ہے اور دنیا کی بےوزن قدریں اسے ہیچ نظر آتی ہیں۔

قرآن کریم کے براہ راست مخاطب مکہ کے لوگو تھے۔ ایسے لوگ ہر سوسائٹی میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا قصور یہ ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا سے وسیع تر دنیا اور بڑی دنیا کا تصور نہیں کرپاتے۔ یہ ایسے لوگ تھے جو تنگی رزق اور کشادگی رزق کے بارے میں اور اللہ کے بارے میں یہ تصور رکھتے تھے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ وہ اپنی اس سوچ کے مطابق اس زمین پر لوگوں کی قدروقمیت متعین کرتے تھے۔ خلاصہ یہ کہ ان کے نزدیک مال وجاہ ہی سب کچھ تھا۔ اس سے آگے ان کے نزدیک کوئی پیمانہ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دولت کے پیچھے مرتے تھے اور مال کی محبت میں حد سے گزر جاتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ بےحد لالچی اور ہر کسی سے فائدے کی امید اپنے دل میں لئے ہوئے تھے ، اور اس جذبہ کی وجہ سے یہ لوگ سخت لالچی ہوگئے تھے۔ چناچہ اللہ یہاں ان لوگوں کی دلی حالت کو ذرا کھولتا ہے اور بتاتا ہے کہ مال و دولت کی یہ لالچ جو ان کے دلوں میں رچی بسی ہے ، وہ اس وجہ سے کہ مال و دولت کے بارے میں ان کی سوچ غلط ہے۔ یہ نہیں سمجھتے کہ مال و دولت نعمت ہی نہیں بلکہ آزمائش بھی ہے۔ اسی طرح غربت بھی مصیبت ہی نہیں بلکہ آزمائش ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب وہ اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma itha ma ibtalahu faqadara AAalayhi rizqahu fayaqoolu rabbee ahanani

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla bal la tukrimoona alyateema

کلا بل ........................................ حباجما

بات یوں نہیں جس طرح ایمان سے خالی انسان سوچتا ہے۔ محض یہ کہ کسی کو کشادہ رزق دیا گیا ہے۔ یہ اللہ کے نزدیک کرامت والی بات نہیں ہے ، اور نہ تنگی رزق اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے شخص کی اللہ کے ہاں کوئی قدر نہیں ہے اور اسے اللہ نے چھوڑ دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم دولت کا حق ادا نہیں کرتے اور مال سے حقوق نہیں نکالتے۔ تم لوگ یتیم کی کفالت بھی نہیں کرتے ، جو اپنے والدین اور اولیاء اور سرپرستوں سے محروم ہوگیا ہے۔ اسی طرح معاشرے کے اندر موجود ناداروں کی معاشی کفالت کے لئے کوئی بندوبست نہیں کرتے۔ مسکین کے معنی ہیں وہ شخص جو ساکن ہے ، سکون سے بیٹھا ہے اور اور لوگوں سے مانگتا نہیں پھرتا۔ یہاں یہ کہا گیا کہ یتیموں اور مسکینوں کے کھانے یعنی معاشی ضروریات فراہم کرنے کے لئے دوسروں کو نہیں ابھارتا۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسلامی نظام میں ناداروں کی کفالت کے لئے ایک عام تحریک ہوتی ہے ، عام لوگوں کی بھلائی کے لئے لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھتے اور ایک دوسرے کو آمادہ کرتے ہیں۔ ناداروں کی کفالت اسلام کی خصوصیت ہے۔

تم لوگ ابتلا کا مفہوم سمجھتے ہو۔ نہ اس آزمائش میں کامیاب ہونا چاہتے ہو ، حالانکہ اس آزمائش میں کامیابی کی راہ یہ ہے کہ یتیم کی عزت کرو ، ایک دوسرے کو یہ وصیت اور تلقین کرو کہ یتیموں کو کھانا کھلایا جائے بلکہ تم اس کے برعکس صورت اختیار کرتے رہو۔ تم لوگ نہایت لالچ کے ساتھ پوری کی پوری میراث ہڑپ کر جاتے ہو ، اور تم مال کی بھرپور محبت کرتے ہو ، جو کسی حد تک محدود نہیں ہے۔ مال کے معاملے میں تمہارے اندر کوئی خودداری ، کوئی وضع داری نہیں ہے۔ اور تم محتاجوں کی نہ عزت کرتے ہو اور نہ ان کی حاجت براری کرتے ہو۔

جیسا کہ ہم نے اس سے قبل تفصیلات دی ہیں ، مکہ میں ایسی صورت حال تھی کہ لوگ بےحد لالچی اور مفادات کے پیچھے کتوں کی طرح بھاگنے والے تھے ، اور ہر طریقے سے دولت سمیٹتے تھے ، جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں بخل اور سنگدلی پیدا ہوگئی تھی۔ یتیم چونکہ بےسہارا ہوتے تھے اس لئے ان کے مال ہڑپ کرلیے جاتے تھے۔ خصوصاً یتیم عورت کے۔ پھر ان کو میراث سے محروم کردیتے تھے جیسا کہ متعدد مقامات پر ہم نے تفصیلات دی ہیں۔ ان ہتھکنڈوں کے علاوہ سودی کاروبار کے ذریعہ بھی اہل مکہ رات دن دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ یہ بات یہاں نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ دولت کی پرستش ہر جاہلیت کی خصوصیت ہوتی ہے جہاں بھی ہو اور جب بھی ہو۔

ان آیات میں نہ صرف یہ کہ ان کے موقف کو اچھی طرح بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی مذمت بھی کی گئی ہے اور اس صورت حال کو بڑی سختی سے ناقابل برداشت بنایا گیا ہے اور اس کے لئے لفظ ” کلا “ استعمال کیا گیا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ آیات کے انداز بیان اور زودار تعبیر اور الفاظ کے زبردست لہجے سے بھی اس صورت حالات کی مذمت نکلتی ہے۔ ذرا دوبارہ غور کریں۔

اردو ترجمہ

اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اکساتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tahaddoona AAala taAAami almiskeeni

اردو ترجمہ

اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watakuloona altturatha aklan lamman

وتاکلون ............................ حبا جما (20:89) ” اور میراث کا سرا مال سمیٹ کر کھاجاتے ہو ، اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو “۔

یہاں تک کہ ان کی ناپسندیدہ حالات کی تصویر کشی کردی گئی اور امارت اور غربت کے بارے میں ان کے غلط تصور کی تردید کردی گئی۔ اب ان کو قیامت کی حقیقت اور اس کے مرعوب کن حالات اور آزمائش کے نتائج اور جزاء وسزا اور حساب و کتاب کے مناظر کو نہایت ہی زور دار الفاظ میں لایا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watuhibboona almala hubban jamman

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، جب زمین پے در پے کوٹ کوٹ کر ریگ زار بنا دی جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla itha dukkati alardu dakkan dakkan

کلااذا ................................ وثاقہ احد

دکت الارض (21:89) زمین کو کاٹا جائے گا “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے نشانات مٹا کر اسے برابر کردیاجائے گا۔ یہ ان انقلابات میں سے ایک ہے جو قیامت کے وقوع کے وقت اس کائنات میں برپا ہوں گے رہی یہ بات کہ رب تعالیٰ نزول اجلال فرمائے گا اور فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے تو یہ ایک غیبی معاملہ ہے۔ اس کی حقیقت کو اس وقت تک ہم سمجھ نہیں سکتے ، کیونکہ ابھی ہم اس دنیا میں ہیں اور ہماری قوت ادراک محدود ہے۔ البتہ اس انداز تعبیر سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ بہت ہی ہیبت ناک اور خوفناک صورت حال ہوگی۔ اسی طرح جہنم کو لایا جانا پوری طرح ہماری فہم سے دور ہے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ مجرم اس کے قریب ہوجائیں گے اور وہ اہل جہنم سے قریب ہوجائے گی۔ رہی اصل کیفیت اور صورت حالات تو وہ ایک غیبی امر ہے اور یہ اسی دن اچھی طرح معلوم ہوگی جب برپا ہوگی۔

ان آیات کے ذریعہ ایک ایسی منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے جس سے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ آنکھیں سہم کر جھک جاتی ہیں۔ الفاظ کا تلفظ اور ترنم بھی خوفناک ہے اور مناظر کی شدید گرفت ہے۔ زمین کا ریزہ ریزہ کردیا جانا۔ رب تعالیٰ کا نزول و جلال اور فیصلے کرنا فرشتوں کا صف بستہ کھڑے ہونا اور جہنم کا تیار کرکے حاضر کردیاجانا ، ایسے مناظر ہیں جن کی وجہ سے انسان پر خوف طاری ہوجاتا ہے۔

یومئذ ................ الانسان (23:89) ” اس دن بات انسان کی سمجھ میں آجائے گی “۔ وہ انسان اصل حقیقت کو سمجھ جائے گا جو اس جہاں میں امیری اور غریبی کی حقیقت کو بھی سمجھ نہ پارہا تھا۔ جو میراث کا تمام مال سمیٹ کر کھا جاتا تھا۔ اور یتیموں اور عورتوں کا حق بھی مار لیتا تھا۔ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار تھا۔ نہ یتیم کا اکرام کرتا تھا اور نہ مساکین کی معیشت کے لئے کوئی دوڑ دھوپ کرتا تھا۔ جو سرکش تھا اور جس نے اپنی دولت اور اقتدار کے بل بوتے پر زمین کو فساد سے بھردیتا تھا۔ ایسا شخص آج سب کچھ سمجھ لے گا اور وہ نصیحت کو اچھی طرح قبول کرلے گا لیکن اب تو وقت جاچکا ہے۔

وانی لہ الذکری (23:89) ” لیکن اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل ؟ “ نصیحت لینے اور عمل کرنے کا وقت تو جاچکا ہے۔ آج نصیحت کیا فائدہ دے گی۔ یہ تو دارالجزاء ہے ۔ اب تو حسرت ہی حسرت ہے۔ تمہارے لئے دارالعمل تو دنیا کی زندگی تھی جہاں تم نہ سمجھے اور نہ عمل کیا۔

اردو ترجمہ

اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگا اِس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajaa rabbuka waalmalaku saffan saffan

اردو ترجمہ

اور جہنم اُس روز سامنے لے آئی جائے گی، اُس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اُس کے سمجھنے کا کیا حاصل؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajeea yawmaithin bijahannama yawmaithin yatathakkaru alinsanu waanna lahu alththikra
593