اس صفحہ میں سورہ As-Saaffaat کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الصافات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّا } ”قسم ہے ان فرشتوں کی جو قطار در قطار صفیں باندھے حاضر رہتے ہیں۔“ گویا وہ بارگاہِ خداوندی میں ہمہ وقت حاضر رہنے والے خادمین ہیں جو احکامات کی تعمیل کے لیے ہر لمحہ کمربستہ رہتے ہیں۔
آیت 2{ فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا } ”پھر قسم ہے ان کی جو ڈانٹنے والے ہیں۔“ یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی بستی پر عذاب کا حکم دیتا ہے تو فرشتوں کی ایک ڈانٹ صَیحَۃ سے وہ بستی تباہ اور متعلقہ قوم ہلاک ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ سورة یٰسٓ میں ایک قوم کے بارے میں فرمایا گیا : { اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ خٰمِدُوْنَ } ”وہ تو بس ایک زور دار چنگھاڑ تھی ‘ تو اسی وقت وہ سب بجھ کر رہ گئے۔“
آیت 3{ فَالتّٰلِیٰتِ ذِکْرًا } ”پھر قسم ہے ان کی جو تلاوت کرنے والے ہیں ذکر کی۔“ یعنی اللہ کا جو کلام انبیاء و رسل علیہ السلام پر نازل ہوتا ہے اسے فرشتے ہی لے کر آتے ہیں۔ -۔ - اب اگلی آیت میں ان قسموں کے مقسم علیہ کا ذکر ہوا ہے۔ یعنی یہ تمام فرشتے اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ :
آیت 4{ اِنَّ اِلٰہَکُمْ لَوَاحِدٌ } ”یقینا تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے۔“ جیسے کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوا ہے ‘ ان سورتوں زیر مطالعہ گروپ کا مرکزی مضمون توحید اور ردِّ شرک ہے۔ اسی لیے یہاں ان قسموں کی گواہی کے بعد جو حقیقت بیان فرمائی گئی ہے وہ معبودِ حقیقی کے اکیلے اور تنہا ہونے کے بارے میں ہے۔ البتہ اس کے بعد مکی سورتوں کے جو آخری دو گروپس ہیں ان کا مرکزی مضمون چونکہ انذارِآخرت ہے ‘ اس لیے ان گروپس کی جن سورتوں کے آغاز میں ایسی قسمیں کھائی گئی ہیں وہاں ان قسموں کے بعد مقسم علیہ کے طور پر { وَاِنَّ الدِّیْنَ لَـوَاقِعٌ} الذّٰریٰت جزا و سزا اور حساب کتاب کا معاملہ یقینا ہونے والا ہے جیسی آیات آئی ہیں۔
آیت 5{ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ } ”جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اور تمام مشرقوں کا۔“ یہاں ”مشارق“ کے بعد ”مغارب“ کا ذکر نہیں ہوا٭۔ اس لیے کہ زمین کا ہر مقام اور ہر نقطہ مشرق بھی ہے اور مغرب بھی۔ یعنی اگر ہم کسی وقت سورج کو کسی مقام پر غروب ہوتا دیکھ رہے ہیں تو عین اسی وقت اسی مقام سے کسی دوسرے علاقے کے لوگ اسے طلوع ہوتا بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے سورج کے طلوع و غروب کے حوالے سے مشرق اور مغرب کا ذکر الگ الگ بھی ہوسکتا ہے اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ زمین کے تمام مقامات مشارق ہی ہیں۔ یعنی ہر جگہ سے کسی نہ کسی وقت سورج طلوع ہوتا نظر آتا ہے۔
آیت 6{ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ } ”ہم نے مزین کردیا ہے آسمانِ دنیا کو ستاروں کی زیبائش سے۔“ السَّمَائَ الدُّنْیَا مرکب توصیفی ہے ‘ یعنی سب سے قریب والا آسمان۔ دَنَا یَدْنُو کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور اسی سے ادنٰیہے یعنی ”قریب ترین“ جبکہ ”دُنْیَا“ کا لفظ اس کا مونث ہے۔
آیت 7{ وَحِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ } ”اور حفاظت کی خاطر ہر سرکش شیطان سے۔“ یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ سورة الحجر کی آیت 17 کے ضمن میں اس کی وضاحت قدرے تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ بہر حال اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ِجنات ّکی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور میری رائے اس کے متعلق یہ ہے کہ ان کو سورج کی آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اسی لیے نظام شمسی کی حدود میں جنات آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں کسی اہتمام یا کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔ بلکہ جیسے پرندے فضا میں آسانی سے ادھر ادھر اڑتے پھرتے ہیں اسی طرح جنات بھی نظام شمسی کی پوری فضا یا حدود میں اپنی مرضی سے جہاں چاہیں آ جاسکتے ہیں۔ البتہ نظام شمسی کی حدود سے تجاوز کرنے کی انہیں اجازت نہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض سرکش جنات عالم بالا کے معاملات کی ُ سن گن لینے کے لیے اپنی حدود سے تجاوز کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تخلیق کے اعتبار سے جنوں اور فرشتوں میں چونکہ قرب پایا جاتا ہے فرشتے نوری ہیں اور یہ ناری اس لیے شیاطین جن فرشتوں سے رابطہ کرنے اور کسی نہ کسی حد تک ان سے کچھ معلومات اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چناچہ فرشتے عالم بالا سے احکام لے کر جب آسمانِ دنیا کی طرف نزول کرتے ہیں تو شیاطین جن ان سے کچھ معلومات قبل از وقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے حفاظتی انتظام کر رکھا ہے۔ خصوصی طور پر نزول وحی کے زمانے میں اس حفاظتی نظام کو غیر معمولی طور پر فعال کیا جاتا رہا ہے۔
آیت 8{ لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی } ”وہ سن نہیں پاتے ملأ اعلیٰ کی باتیں“ اصل میں یہ فعل یَتَسَمَّعُوْنَ باب تفعّل تھا ‘ جو یَسَّمَّعُوْنَ بن گیا ہے۔ { وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ { ”اور ان کو مار پڑتی ہے ہر طرف سے۔“ عالم بالا تک ان کی رسائی کو روکنے کے لیے ان پر میزائل فائر کیے جاتے ہیں۔
آیت 9{ دُحُوْرًا وَّلَہُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ۔ ”بھگانے کے لیے ‘ اور ان کے لیے پھر ایک دائمی عذاب ہے۔“
آیت 10{ اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَاَتْبَعَہٗ شِہَابٌ ثَاقِبٌ} ”سوائے اس کے کہ جو کوئی اُچک لے کوئی چیز تو اس کا پیچھا کرتا ہے ایک چمکتا ہوا انگارہ۔“ یعنی ان میں سے جو کوئی اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہوا پایا جاتا ہے وہ اس میزائل کا شکار ہوجاتا ہے۔
آیت 11{ فَاسْتَفْتِہِمْ اَہُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا } ”تو اے نبی ﷺ ! ان سے پوچھئے کہ کیا ان کی تخلیق زیادہ مشکل ہے یا وہ کچھ جو ہم نے پیدا کیا ہے !“ یہ کفار و مشرکین کہتے ہیں کہ مرجانے کے بعد ان کا پھر سے زندہ ہوجانا کیسے ممکن ہے ؟ آپ ﷺ ان سے پوچھیں کہ تم جیسے انسانوں کو پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا اس وسیع و عریض کائنات کو بنانا ؟ اور یہ کہ جس اللہ نے یہ کائنات پیدا کی ہے ‘ اس کے اندر سورج اور چاند کا نظام بنایا ہے ‘ سیاروں ‘ ستاروں اور کہکشائوں کی دنیائیں آباد کی ہیں ‘ کیا تم اس اللہ کے بارے میں خیال کرتے ہو کہ وہ تمہیں پھر سے پیدا نہیں کرسکے گا ! { اِنَّا خَلَقْنٰہُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ } ”ان کو تو ہم نے پیدا کیا ہے ایک لیس دار گارے سے۔“ یعنی وہ ایسا گارا تھا جس میں عمل تخمیر fermentation کی وجہ سے چپچپاہٹ اور لیس پیدا ہوچکی تھی۔ واضح رہے کہ انسان کے مادہ تخلیق کے بارے میں قرآن نے مختلف مقامات پر تُراب مٹی ‘ طِین گارا ‘ طِینٍ لاَّزِب لیس دار گارا ‘ صَلصالٍ مِّن حماٍ مسنون سڑاند والا گارا اور صلصالٍ کا لفخّار ٹھیکری جیسی کھنکھناتی ہوئی مٹی کے الفاظ کا ذکر کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : الحجر : 26 کی تشریح۔
آیت 12{ بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْنَ } ”بلکہ اے نبی ﷺ ! آپ تعجب کرتے ہیں اور یہ لوگ تمسخر کرتے ہیں !“ آپ ﷺ کو بجا طور پر ان کے رویے ّپر تعجب ہوتا ہے یہ سوچتے ہوئے کہ میں تو انہیں اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہوں ‘ انہیں توحید کی طرف بلاتا ہوں ‘ اس توحید کی طرف جس کا ایک واضح تصور ہر انسان کی فطرت کے اندر پیدائشی طور پر بھی موجود ہے ‘ جبکہ یہ لوگ میری ان باتوں پر غور کرنے اور میری اس دعوت کو قبول کرنے کے بجائے اُلٹا اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
آیت 13{ وَاِذَا ذُکِّرُوْا لَا یَذْکُرُوْنَ } ”اور جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ نصیحت حاصل نہیں کرتے۔“
آیت 14{ وَاِذَا رَاَوْا اٰیَۃً یَّسْتَسْخِرُوْنَ } ”اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں۔“
آیت 15{ وَقَالُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} ”اور کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ نہیں مگر ایک کھلا جادو۔“
آیت 16{ ئَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ئَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ } ”وہ کہتے ہیں کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا ؟“ مرنے کے بعد انسانی گوشت تو جلد ہی گل سڑ کر مٹی میں مل جاتا ہے ‘ لیکن ہڈیوں کا الگ سے ذکر اس لیے ہوا ہے کہ یہ سخت ہوتی ہیں اور بوسیدہ { عِظَامًا نَّخِرَۃً } النّٰزعٰت ہوجانے کے باوجود بھی لمبے عرصے تک موجود رہتی ہیں۔
آیت 17{ اَوَاٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ } ”اور کیا پہلے زمانے کے ہمارے آباء و اَجداد کو بھی !“ تو کیا ہمارے ان آباء واجداد کو بھی زندہ کرلیا جائے گا جنہیں فوت ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں اور ان کی ہڈیاں تک بھی مٹی میں تحلیل ہوچکی ہیں۔
آیت 18{ قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ } ”آپ ﷺ کہیے : ہاں ! تم اٹھائے بھی جائو گے اور تم ذلیل بھی ہوگے۔“ نہ صرف تم سب کو اٹھا لیا جائے گا بلکہ اس وقت تمہیں اپنے اس کفر اور انکار کے باعث ذلت و خواری کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
آیت 19{ فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَا ہُمْ یَنْظُرُوْنَ } ”بس وہ ایک زور کی ڈانٹ ہوگی ‘ تو جبھی وہ زندہ ہو کر دیکھنے لگیں گے۔“ ہماری طرف سے ایک زور دار ڈانٹ کی صورت میں حکم دیاجائے گا جس کی تعمیل میں تمام انسانوں کے ذرات اجسام آنِ واحد میں مجتمع ہو کر جیتے جاگتے انسانوں کی صورت اختیار کرلیں گے۔
آیت 20{ وَقَالُوْا یٰوَیْلَنَا ہٰذَا یَوْمُ الدِّیْنِ } ”اور وہ کہیں گے : ہائے ہماری شامت ‘ یہ تو بدلے کا دن ہے !“ یہ تو وہی جزاء و سزا کا دن آگیا ہے جس کے بارے میں ہمیں بار بار بتایا جاتا تھا اور ہم بار بار اس کی نفی کرتے تھے۔
آیت 21{ ہٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ } ”اُس وقت انہیں کہا جائے گا : ہاں یہ وہی فیصلے کا دن ہے جس کو تم لوگ جھٹلایا کرتے تھے۔“
آیت 22{ اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ ’ پھر حکم دیا جائے گا جمع کرو ان سب ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو اور ان کو بھی جن کی یہ لوگ پوجا کیا کرتے تھے ‘ پھر فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ان کافروں ‘ مشرکوں اور ہر طرح کے مجرموں کو ‘ چاہے وہ انسانوں میں سے ہوں یا ِجنوں میں سے ‘ سب کو ایک جگہ جمع کرلو اور ان کے جھوٹے معبودوں کو بھی ساتھ ہی لے آئو۔
آیت 23 مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ } ’ اللہ کے سوا“{ فَاہْدُوْہُمْ اِلٰی صِرَاطِ الْجَحِیْمِ } ”پھر ان سب کو جہنم کا راستہ دکھائو !“ اب ذرا جہنم کے راستے کی طرف ان کی راہنمائی کرو ‘ ان کو escort کرو۔
آیت 24{ وَقِفُوْہُمْ اِنَّہُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ } ”اور انہیں ذرا روکو ! ابھی ان سے کچھ پوچھا جائے گا۔“