سورہ الشمس (91): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ash-Shams کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الشمس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ الشمس کے بارے میں معلومات

Surah Ash-Shams
سُورَةُ الشَّمۡسِ
صفحہ 595 (آیات 1 سے 15 تک)

سورہ الشمس کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

سورج اور اُس کی دھوپ کی قسم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalshshamsi waduhaha

والشمس وضحہا .................................... من دسھا

یہاں اللہ تعالیٰ جس طرح بعض کائناتی مخلوق اور بعض مظاہر کی قسم اٹھاتا ہے ، اسی طرح نفس انسانی کی تخلیق اور متناسب بنانے اور اسے اچھی طرح ہموار کرنے اور نیک وبد کے الہام کی قسم اٹھاتا ہے۔ اور اس قسم اٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ مخلوقات خدا اہم بن جائیں ، لوگ ان کو اہمیت دیں اور ان چیزوں پر غور وفکر کرکے معلوم کرلیں کہ ان کی اہمیت اور قدر و قیمت کیا ہے اور ان چیزوں کے اشارات کیا ہیں ، ان میں نشانات قدرت کیا ہیں تاکہ وہ یہ بات سمجھ لیں کہ کن وجوہات سے اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کھائی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان کے دل اور ان مناظر فطرت کے درمیان ایک مکالمہ ہوتا ہے ، ان دونوں کے درمیا ایک خاص خفیہ زبان ہے ، یہ زبان گہرے انسانی شعور اور انسانی فطرت کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ ان مناظر کے درمیان ، خواہ وہ جیسے بھی ہوں ، اور انسانی فطرت اور شعور کے درمیان ایک گہری ہم آہنگی بھی ہے ، دونوں کے درمیان مکالمہ ہوتا رہتا ہے ، بغیر اس کے کہ کوئی آواز نکلے یا ریکارڈ پر کوئی سوئی لگائی جائے ۔ یہ مناظر دل سے بات کرتے ہیں اور انسانی روح کی طرف ان کے اشارات ہوتے ہیں ، اور ان کے اندر ایک ایسی زندگی رواں دواں ہے ، جو ایک زندہ انسان کے ساتھ مانوس اور ہمکلام ہے۔ جب بھی ایک زندہ انسان ان مناظر سے دوچار ہو ، تو ان مناظر میں اپنے لئے محبت اور انس کے جذبات جانے گا اور یہ مناظر نہایت ہی ہم آہنگی کے ساتھ اس کے ہمقدم ہوں گے اور اپنا پیغام اسے اپنی مخصوص زبان میں سگنل کردیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید بڑی کثرت سے ، مختلف اسالیب کے ذریعہ کائناتی مشاہد کی طرف انسان کی توجہ مبذول کراتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ، کبھی تو قرآن مجید براہ راست یہ ہدایت دیتا ہے کہ ان مناظر فطرت پر غور کرو اور کبھی ضمنی اشارات کے ذریعہ جیسا کہ یہاں بعض تخلیقات اور بعض مناظر کی قسم اٹھا کر ان کی طرف یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ مناظر بھی آنے والے حقائق کے فریم ورک کے اندر ہی ہیں اور اس آخری پارے میں ہم نے اس بات کو بار بار نوٹ کیا ہے کہ اس قسم کی ہدایات اور اشارات بہت زیادہ ہیں۔ کوئی ایسی سورت نہیں ہے جس میں یہ ہدایت اور یہ اشارہ نہ ہو کہ ذرا کتاب کائنات کو پڑھو اور اس کائنات میں ہم آہنگی اور اشارات تلاش کرو ، اور اس کائنات کے ساتھ اس کی مخصوص زبان میں مکالمہ کرو اور اس کے استدلال کو سنو۔

والشمس وضحھا (1:91) ” سورج اور اس کی دھوپ کی قسم “۔ یہاں سورج اور اس کے وقت ضحی اور چاشت اور دھوپ نکلنے کی قسم کھائی گئی ہے۔ جب سورج نکلتا ہے اور اس کی دھوپ مکمل پھیل جاتی ہے تو اس وقت وہ نہایت ہی خوبصورت اور نہایت ہی اچھا بلکہ خوشگوار اور میٹھا ہوتا ہے اور سردیوں میں تو لوگ اس وقت دھوپ میں گرمی حاصل کرتے ہیں اور یہ وقت نہایت خوشگواری کا ہوتا ہے ، اور گرمیوں میں بھی یہ اشراق کا وقت ہوتا ہے ، خوبصورت ہوتا ہے اور دوپہر کی سخت گرمی سے قبل کا وقت ہوتا ہے ، غرض چاشت کے وقت سورج اپنے مکمل حسن کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے ۔ بعض روایات میں یہ آیا ہے کہ یہاں چاشت کے وقت سے مراد پورا دن ہے ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ” ضحی “ کے وقت اور لفظی مفہوم سے آگے بڑھ کر ہم کیوں پورا دن مراد لیں ، کیونکہ چاشت کے وقت میں حسن اور خوشگواری کے زیادہ اشارات ہیں ، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا۔

اردو ترجمہ

اور چاند کی قسم جبکہ وہ اُس کے پیچھے آتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalqamari itha talaha

والقمر اذا تلھا (2:91) ” اور چاند کی قسم جب کہ وہ اس کے پیچھے آتا ہے “۔ یعنی یہ سورج کے بعد آتا ہے ، جب سورج غروب ہو تو پھر اس کا لطیف ، شفاف ، خوبصورت اور صاف نور نمودار ہوتا ہے ۔ انسانی قلب اور چان کے درمیان قدیم رشتہ محبت ہے ، اور یہ رشتہ انسانیات میں دور تک گہرائیوں میں چلا گیا ہے ، انسانی نفسیات وضمیر میں ، انسانی قلب و شعور میں یہ زندہ اور چمک دار نظر آتا ہے ، پھر چاند انسانی قلب کے ساتھ خوشگوار اور محبت آمیز مکالمہ بھی کرتا ہے ، اور محبت بھرے اشارات بھی دیتا ہے ، اور اس میں خالق کی حمدوثنا بھی ہے۔ قریب ہے کہ ایک سننے والا انسان ، روشن چاند کی حمدوثنا کو سنے ، بعض اوقات جب ایک حساس دل چاندنی رات میں سوچتا ہے تو وہ چاند کے اس گہرے نور اللہ کی ذات اور فیوض کو محسوس کرتا ہے ، اور ان نورانی موجوں میں یہ شعور کی میل دور کرتا ہے ، اپنی پیاس بجھاتا ہے اور اس نور سے سینہ لگا کر وہ اللہ کے اس نور میں ڈوب جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور دن کی قسم جبکہ وہ (سورج کو) نمایاں کر دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalnnahari itha jallaha

والنھار اذا جلھا (3:91) ” اور دن کی قسم جب کہ وہ (سورج کو) نمایاں کردیتا ہے “۔ اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ (ضحھا) سے مراد ایک محدود وقت ہے ، پورا دن نہیں ہے اور جلا کی ضمیر شمس کی طرف راجع ہے جو اس سیاق کلام میں مذکور ہے۔ لیکن یہاں سیاق کلام میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ مراد ” زمین ‘ ہے۔ قرآن کریم میں اس قسم کا بسلوب بارہا اختیار کیا گیا ہے کہ کوئی ضمیر کسی ایسی چیز کی طرح راجع ہو ، جو اگرچہ سیاق میں مذکور نہ ہو ، لیکن معہود فی الذہن ہو اور انسانی شعور میں ہر وقت حاضر ہو ، یہاں سیاق کلام کا تقاضا یہ ہے کہ اس ضمیر کا مرجع زمین ہو۔ چناچہ دن اس زمین کو روشن کردیتا ہے اور لوگ اسے اچھی طرح دیکھتے ہیں۔ انسانی زندگی میں دن کا جو کردار ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ انسان کی حالت یہ ہے کہ دن اور رات کے مزے مسلسل لے لے کر وہ اس کا ذوق ہی بھول گیا ہے۔ چناچہ یہاں گردش لیل ونہار کی ایک جھلک دکھا کر اس کی رعنائیوں کو قلب انسانی میں تازہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ انسان کے احساسات کو زندہ کرکے اور تیز کرکے اس کو اس منظر سے لطف اندوز کیا جائے۔

اردو ترجمہ

اور رات کی قسم جبکہ وہ (سورج کو) ڈھانک لیتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallayli itha yaghshaha

والیل اذا یغشھا (4:91) ” اور رات کی قسم جبکہ وہ ڈھانک لیتی ہے “۔ یہاں لفظ یغشیٰ ” ڈھانک لینا “ بمقابلہ جلی ” نمایا کرنا ، روشن کرنا “ استعمال ہوا ہے ، اس لئے کہ رات تمام چیزوں کو اپنے سینے سے لگا کر ڈھانپ لیتی ہے اور چھپا لیتی ہے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو انسان کے دل کو بےحد متاثر کرتا ہے ، اور انسانی زندگی پر جس طرح دن کے اثرات ہوتے ہیں ، اسی طرح رات کے اثرات بھی ہوتے ہیں۔

اس کے بعد آسمان اور آسمان کی ساخت اور اس کی تعمیر پر قسم کھائی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

اور آسمان کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے قائم کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssamai wama banaha

والسماءوما بنھا (5:91) ” اور آسمان کی قسم اور اس ذات کی قسم “۔ ما یہاں عربی گرامر کے لحاظ سے اپنے مابعد آنے والے فعل کو مصدر بنادیتی ہے۔ آسمان سے ہم کچھ سمجھتے وہ ایک نیلگوں قبہ ہے جو ہمارے سروں پر ہے اور اس قبے کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس کے اندر ستارے اور سیارے بکھرے پڑے ہیں ، اور سیارے اس کی فضاﺅں اور مداروں میں پھرتے ہیں۔ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ تو اصل حقیقت ہم نہیں جانتے ، ہم اپنے سروں پر جو چیز دیکھ رہے ہیں یہ ایک ایسی چیز ہے جس طرح ایک عظیم الشان عمارت ہو ، باہم پیوستہ اور نہایت مضبوط۔ یہ عظیم ہال کس طرح بنا ہوا ہے اور اس کے اجزاء کس طرح باہم پیوست ہیں اور وہ بکھر نہیں رہے۔ اور ایک ایسی فضا میں تیر رہے ہیں جس کے نہ آغاز کا ہمیں علم ہے اور نہ انجام کا ہمیں علم ہے۔ یہی وہ چیز ہے ، جس کی حقیقت ہم نہیں جانتے۔ اس آسمان کے بارے میں آج تک اہل علم نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ نظریات ہی ہیں اور وہ ترمیم اور رد قبول کرتے ہیں۔ یہ نظریات کسی دور میں بھی اپنے پاﺅں پر کھڑے نہیں رہے اور ہمیشہ قرار وثبات سے محروم رہے ہیں۔ ہمارا نظریہ اور ایمان سب سے مضبوط ہے کہ دست قدرت نے انہیں تھام رکھا ہے۔

ان اللہ ........................................ من بعدہ (41:35) ” وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو ڈھلکنے سے روک رکھا ہے۔ اگر وہ ہٹ جائیں تو پھر اللہ کے سوا کوئی انہیں اپنی جگہ قائم نہ کرسکے “۔ یہی وہ علم ہے جو نہایت مستحکم ہے ، اس کے سوا یقینی بات کوئی اور نہیں ہے۔

اس کے بعد زمین اور اس کے بچھائے جانے کی قسم ہے۔

اردو ترجمہ

اور زمین کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے بچھایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalardi wama tahaha

والارض وما طحھا (6:91) ” اور زمین اور اس کے بچھائے جانے کی قسم “۔ طحی الطحو سے ہے جس کے معنی بچھانے کے ہیں ، جس طرح الدحو کا مفہوم ہے بچھانا ، اور زندگی کے لئے ہموار کرنا۔ اور یہ ایک عظیم اور نمایاں حقیقت ہے جس کے اوپر انسانوں اور تمام حیوانوں کی زندگی کا دارومدار ہے۔ آسمان و زمین کے اندر اللہ نے جو ہم آہنگی پیدا فرمائی ہے ، یہ اسی کی برکت ہے جس کی وجہ سے یہاں زندگی ممکن ہوئی اور یہ سب کام صرف اللہ کے تدبیر اور اندازوں کی وجہ سے ہوا ۔ ہمارے لئے یہی واضح اور ظاہری حقیقت کافی ہے کہ اگر ان خصائص اور ہم آہنگیوں میں سے کوئی چیز بھی خلل پذیر ہوجائے تو نہ اس زمین میں زندگی کا وجود ہوتا اور نہ یہ زندگی اس انداز پر چلتی۔ زمین کا ” الطحو “ جو یہاں استعمال ہوا ہے یا ” الدحو “ جو سورة نازعات (31'30) میں استعمال ہوا ہے۔

والارض ................................ ومرعھا (31:79) ” زمین کو اس کے بعد بچھایا اور اس کا پانی اور اس میں سے نباتات نکالی “۔ دونوں مفہوم بچھانا ہے اور یہ بچھانا ان خصائص اور ہم آہنگیوں میں سے بڑی ہم آہنگی ہے۔ اور یہ صرت دست قدرت کا کارنامہ ہے۔ یہاں اس بچھانے کا ذکر کرکے اشارہ قدرت الٰہیہ کی طرف ہے اور قلب انسانی کو اس بات پر اکسایا جاتا ہے کہ ذرا اس پر غور کرے اور نصیحت حاصل کرے۔

ان قسموں اور ان کے اندر پائے جانے والے مظاہر کائنات اور مناظر فطرت کے بعد اب نفس انسانی کے عظیم حقائق پیش کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ اس کائنات کے عجائبات میں یہ عظیم ترعجوبہ ہے۔ جو اس زمین و آسمان کی ان ہم آہنگیوں کی وجہ سے قائم ہے۔

اردو ترجمہ

اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanafsin wama sawwaha

ونفس وما ............................ من دسھا (7:91 تا 10) ” اور نفس انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا ، پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کردی ، یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبادیا “۔ ان چار آیات میں اسلام کا نظریہ نفس بیان کیا گیا ہے۔ اس کی طرف سورة ماقبل ، سورة البلد میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

وھدینہ الندین (10:90) ” اور ہم نے اسے دورا ہیں دکھادیں “۔ نیز سورة دھر میں بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہے۔

انا ھدینہ ........................ کفورا (3:76) ” ہم نے اسے راہ دکھادی۔ اب وہ یا تو شکر گزار بنے گا یا ناشکرا “۔ اس نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ نفس انسانی میں ازروئے فطرت دو صلاحیتیں ہیں جیسا کہ سورة ص میں کہا گیا ہے۔

اذقال ................................ سجدین (71:38 ۔ 72) ” اور اس بات کو یاد کرو کہ جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر کو مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں تو جب میں اسے مکمل بنادوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدہ ریز ہوجاﺅ“۔ مذکورہ بالا آیات میں نفس انسانی کے متعلق جو کچھ کہا گیا ، یہ امور اسلام کے نظریہ فردی ذمہ داری سے بھی مربوط ہے جیسا کہ سورة المدثر میں کہا گیا ہے۔

کل نفس ........................ رھینة ” ہر نفس اپنی کمائی اور عمل کا ذمہ دار ہے “۔ اور یہ موضوع اس آیت سے بھی متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کا معاملہ ہر انسان کے ساتھ اس کے اعمال کے مطابق ہوتا ہے جیسا کہ سورة الرعد میں صراحت سے کہا گیا۔

ان اللہ ........................ بانفسھم ” اللہ کی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں “۔ ان تمام آیات میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بارے میں اسلام اور قرآن کا نقطہ نظر کیا ہے اور انسان کے خودخال کیا ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ مخلوق اپنے اندر دو پہلو رکھتی ہے۔ اس کی صلاحیتیں بھی دو رخ رکھتی ہیں ، اس کی ذات کے اندر دو صلاحیتیں ہیں۔ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اس کی تخلیق کا ایک رخ مادی ہے یعنی وہ خاک جس سے اسے بنایا گیا اور دوسرا رخ اس روح کا ہے جو اس کے اندر پھونکی گئی ہے اور یہ روح اللہ کی روح ہے۔ چناچہ خاک کی صلاحیت شر کی طرف جاتی ہے اور روح کی صلاحیت اسے خیر کی طرف لے جاتی ہے۔ اپنی تخلیق کے اعتبار سے یہ خیر وشر اور ہدایت وضلالت دونوں کی طرف جاسکتا ہے اور خیر وشر کی تمیز کا ملکہ بھی اسے دیا گیا ہے اور اسے یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ اپنے نفس کو خیر کی طرف موڑدے یا شر کی طرف موڑ دے۔ یہ طاقت ، اختیار اور صلاحیت ازروئے تخلیق اس کے اندر موجود ہے۔ اس کی طرف قرآن نے کبھی تو الہام کے لفظ سے اشارہ کیا ہے۔

ونفس وما .................... وتقواھا (8:91) اور نفس انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا ، پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کردی “۔ اور کبھی اس کی طرف لفظ ہدایت اشارہ کیا گیا ہے۔

وھدینہ النجدین (10:90) ” ہم نے اسے دوراہوں کی ہدایت کردی “۔ تو یہ صلاحیت اس مخلوق کی ذات میں ازروائے تخلیق رکھ دی گئی ہے۔ تمام رسولوں کی جدوجہد ، تمام اچھے لوگوں کی ہدایت اور تمام خارجی موثرات اور عوامل دراصل اس صلاحیت کو جگاتے ہیں ، اسے ایک رخ اور سمت دیتے ہیں ، اسے تیز یا کند کرتے ہیں ، خارجی عوامل اس صلاحیت کی تخلیق نہیں کرتے کیونکہ یہ صلاحیت دو رخی صلاحیت ، ازروئے فطرت تخلیق ، ازروئے طبیعت ، ازروئے الہام الٰہی بشر کے اندر موجود ہے۔

اردو ترجمہ

پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalhamaha fujooraha wataqwaha

اردو ترجمہ

یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad aflaha man zakkaha

قد افلح ........................ دسھا (10:91) ” یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبادیا “۔ مطلب یہ ہے کہ ان فطری قوتوں اور صلاحیتوں کے علاوہ انسان کے اندر ایک قوت مدرکہ ہے اور اس قوت مدرکہ کی وجہ سے انسان ایک ذمہ دار مخلوق بنایا گیا ہے۔ اس قوت مدرکہ کو جس شخص نے نفس کی تطہیر کے لئے اور اس کے اندر بھلائی کی استعداد کو بڑھانے کے لئے استعمال کیا اور خیر کی صلاحیت کو شریر غالب کردیا تو یہ شخص کامیاب ہوگیا ، اور جس شخص نے اپنی قوت عقلیہ کو تاریک کردیا اور اس کو چھپا کر دبا کر کمزور کردیا تو وہ ناکام ہوا۔

غرض انسان کی مسﺅلیت اس وجہ سے ہے کہ وہ قوت عقلیہ اور قوت مدرکہ رکھتا ہے ، اور اپنی اس قوت کی وجہ سے نفس کے اندر موجود خیروشر کی صلاحیتوں کو ایک رخ دے سکتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو خیر کے میدان میں ڈال کر پروان چڑھا سکتا ہے اور شر کے میدان میں ڈال کر شر کو پروان چڑھا سکتا ہے۔ اس آزادی واختیار کے نتیجے میں انسان پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ اس کی قوت پر فرض عائد ہوا۔ یہ انعام لھا جس کے جواب میں اس پر فرائض عائد ہوئے۔

لیکن اللہ نہایت رحیم ہے۔ انسان کو محض فطری استعداد ، عقلی قوت مدرکہ اور فطری الہام وہدایت کے حوالے ہی نہیں کردیا گیا ، بلکہ آدم (علیہ السلام) سے حضرت محمد ﷺ تک اس ہدایت کے لئے رسول بھیجے گئے جو ان کے لئے مستقل قدریں وضع کرتے رہے۔ انسان کو ایمان کی بنیادی باتیں بتاتے رہے ، ایمان وہدایت کے دلائل سمجھاتے رہے۔ نفس انسانی کے اندر موجود دلائل اور اس کائنات کے آفاق کے اندر موجود اشارات ایمان بھی سمجھاتے رہے۔ انسان کی آنکھوں پر سے ضلالت کے پردے اتارتے رہے تاکہ اسے راہ ہدایت صحیح نظر آئے۔ اور یہ راہ واضح ، صاف اور بغیر کسی التباس کے انسان کو معلوم ہو ، ہر طرف سنگ ہائے میل نصب کردیئے تاکہ وہ انسان منزل مقصود تک پہنچے اور جس راہ پر اس نے جانا ہے ، علی وجہ البصیرت جائے۔ جس کو بھی وہ اختیار کرے اس پر چلے۔

یہ تھی مختصراً انسان کے بارے میں اللہ کی اسکیم اور مشیت جو کام بھی ہوتا ہے۔ اس کے دائرے کے اندر ہوتا ہے۔ وہ اللہ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے اور اللہ کی مکمل تقدیری نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہوتا ہے۔

انسان کی حیثیت اور مقام انسانیت کے بارے میں یہ اجمالی اور مختصر تبصرہ اپنے اندر نہایت ہی قیمتی نکات رکھتا ہے جو انسان کی تہذیب اور تربیت کے لئے نہایت مفید ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے حضرت انسان کو نہایت معزز اور مکرم مخلوق قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح کہ اسے اپنے معاملات کا خود مختار اور ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اختیار اور ذمہ داری اگرچہ اللہ کے وسیع تر نظام مشیت اور تقدیر کے اندر ہے ، کیونکہ یہ حریت اور اختیار اللہ کی مشیت ہی نے اسے عطا کیا ، لیکن اس سے بہرحال اس مقام و مرتبہ کا تعین ہوتا ہے اور وہ آزاد اور خود مختار مخلوق قرار پاتا ہے۔ یوں اس کائنات میں انسان ایک نہایت ہی بلندو برتر مقام رکھتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی مخلوق ہے جسے اللہ نے نہایت اہتمام سے تیار کیا ، پھر اس میں اپنی روح پھونکی اور اس جہاں کے بہت سے اور بیشترمخلوقات پر اسے فضیلت دی۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ان آیات میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ انسان اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہے۔ سارا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ (دائرہ مشیت الہیہ کے اندر اندر جیسا کہ ہم نے وضاحت کی) اس ذمہ داری سے اس کے شعور میں احتیاط اور تقویٰ کا رنگ پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اللہ کی تقدیر اس کی ذات میں اس طرح کام کرے گی جس طرح وہ اپنے تصرفات اور سرگرمیوں کو رخ دے گا۔

ان اللہ ........................ بانفسھم ” اللہ کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت بدلتے نہیں “۔ فی الحقیقت یہ نہایت ہی عظیم ذمہ داری ہے۔ کوئی ذی شعور شخص اس سے غافل اور لاپرواہ نہیں رہ سکتا۔

تیسری بات یہ ہے کہ یہ انسانی سوچ کے اندر یہ شعور پیدا کرتا ہے کہ وہ راہ راست پر ثابت قدم رہنے کے لئے اللہ کے مستقل پیمانوں اور دائمی قدروں کی طرف رجوع کرے تاکہ وہ یقین پر ہو کہ اس سے کی خواہشات نے کہیں غلط راہوں پر تو نہیں ڈال دیا ہے ، دھوکہ تو نہیں دے دیا تاکہ خواہشات نفس اسے ہلاکت کے راستے پر نہ ڈال دیں۔ اور یہ نہ ہو کہ تقدیر الٰہی کے نتیجے میں وہ کہیں اپنی خواہش کو الٰہ بنا چکا ہو۔ یہی وجہ ہے ، اس طرح وہ مطیع شریعت ہونے کے سبب اللہ کے راستوں سے کبھی نہ بھٹکے گا۔ وہ اللہ کی ہدایات کے مطابق چل رہا ہوگا ، اور اسی نور سے روشنی حاصل کرے گا جو دنیا کی ان تاریک راہوں پر چلنے کے لئے ، اللہ نے اسے عنایت کیا۔

چناچہ انسان کو اللہ نے اپنی ذات تک پہنچنے کے لئے تزکیہ نفس اور تطہیر ذات کے لئے بیشمار وسائل عطا کیے ہی ، اس کے ارد گرد نور کے دریا بہہ رہے ہیں ، وہ ان میں ہر وقت غسل کرسکتا ہے اور اس کائنات میں معرفت کردگار کے جو سرچشمے رواں دواں ہیں وہ ان میں اپنی ذات کی تطہیر وقت کرسکتا ہے۔

اس کے بعد ایک زندہ تاریخی مثال سے اس بات کو واضح کیا جاتا ہے کہ کس طرح انسان اپنے نفس کو دنیا کی آلودگیوں میں دفن کردیتا ہے۔ اور پھر اسے راہ ہدایت سے محروم کردیتا ہے۔ یہ مثال قوم ثمود ہے ، جو اللہ کے غصب کے مستحق ہوئے اور جن پر سخت عذاب ٹوٹ پڑا اور ہلاک کردیئے گئے۔

اردو ترجمہ

اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqad khaba man dassaha

اردو ترجمہ

ثمود نے اپنی سرکشی کی بنا پر جھٹلایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kaththabat thamoodu bitaghwaha

کذبت ثمود ................................ عقبھا

قوم ثمود اور ان کے نبی حضرت صالح علہی السلام کی کہانی قرآن مجید میں کئی مقامات پر آتی ہے۔ ہر مقام پر ہم نے اس پر بات کی ہے اور ابھی سورة الفجر میں ، اسی پارے میں یہ کہانی گزری ہے۔ تفصیلات ان مقامات پر دیکھی جاسکتی ہیں۔

یہاں صرف یہ کہا گیا ہے کہ قوم ثمود نے صرف اپنی سرکشی کی وجہ سے اپنے نبی کی تکذیب کی۔ اور اس سرکشی کے سوا کوئی اور جواز اس کے لئے نہ تھا۔ واقعہ یوں ہوا کہ ان میں سے ایک نہایت ہی شقی القلب شخص اٹھا اور اس نے ناقتہ اللہ کو قتل کردیا۔ یہ شخص ان میں نہایت سنگدل اور سرکش تھا کہ وہ اس قدر عظیم جرم کے ارتکاب کے لئے تیار ہوگیا۔ حالانکہ ان کے نبی نے واضح الفاظ میں ان کو متنبہ کردیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ اس ناقہ کو کوئی گزندنہ پہنچانا ، نہ اس پانی میں مداخلت کرنا جس کو اللہ نے تمہارے اور ناقہ کے درمیان تقسیم کردیا ہے کہ ایک دن تمہارے لئے اور ایک دن اس ناقہ کے لئے ہے اور یہ تقسیم اس لئے ہوئی تھی کہ انہوں نے اللہ کے نبی سے معجزے کا مطالبہ کردیا تھا تو اللہ نے اس ناقعہ کو معجزہ قرار دیا۔ اس ناقہ کی کوئی نہ کوئی معجزانہ شان تو بہرحال ہوگی۔ یہاں ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جاتے۔ اس لئے کہ خود اللہ نے اس شان اعجاز کی تفصیلات نہیں دی ہیں۔ بہرحال انہوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے اللہ کی جانب سے ڈرانے والے کی تکذیب کی اور ناقہ کو قتل کردیا۔ اور جس شخص نے عملاً یہ فعل اپنے ذمہ دیا۔ وہ ان میں سے بہت زیادہ بدبخت اور شقی تھا۔ لیکن ذمہ داری سب نے لی۔ اور سب ہی ذمہ دار اس لئے قرار پائے کہ انہوں نے اس شخص کو اس برے فعل سے نہ روکا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اسلام کے اصولوں میں سے یہ بنیادی اصول ہے کہ دنیا کی اجتماعی زندگی میں ذمہ داری بھی اجتماعی ہوتی ہے اور یہ اجتماعی ذمہ داری کا قانون اسلام کے انفرادی ذمہ داری کے اصول کے خلاف نہیں ہے۔ یعنی آخرت میں کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہوگا جو اس نے کمایا ، کیونکہ اسلام میں یہ بھی گناہ کبیرہ ہے کہ کوئی دوسروں کو نصیحت کرنا چھوڑ دے ، دوسروں کی اصلاح ، ان کی کفالت ، سے دسکش ہوجائے اور نیکی کرنے اور ظالم کا ہتھ پکڑنے پر لوگوں کو نہ ابھارے۔

جب انہوں نے اس عظیم جرم کا ارتکاب کیا تو پھر دست قدرت حرکت میں آیا۔

فدمدم علیھم ............................ فسوھا (14:91) ” آخر کار ان کے گناہ کی پاداش میں ان کے رب نے ان پر ایسی آفت توڑی کہ ایک ساتھ سب کو پیوندخاک کردیا “۔” دمدمہ “ کے معنی غضب کے ہوتے ہیں اور غضب کے نتیجے میں جو انتفام اور عذاب آتا ہے۔ لفظ ” دمدم “ کا تلفظ ہی بناتا ہے کہ وہ عذاب کس قدر سخت ہوگا ۔ اس لفظ کا تلفظ اور ترنم ہی ایک خوفناک منظر کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اللہ نے ان کی زمین کو اوپر نیچے کردیا اور برابر کردیا۔ یہ ایک ایسی تصویر کشی ہے جس سے نہایت ہی ہمہ گیر بربادی کا اظہار ہوتا ہے۔

ولا یخاف عقبھا (15:91) ” اور اسے اس کے کسی برے نتیجے کا خوف نہیں ہے “۔ وہ تو ہر کمزوری سے پاک ہے ، وہ کس سے خوف کرسکتا ہے ؟ کہاں خوف کھاسکتا ہے اور کب خائف ہوسکتا ہے ؟ “۔

دراصل اس انداز تعبیر سے ایک لازمی مفہوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ کی گرفت نہایت سخت ہوتی ہے ، اس لئے کہ دنیا کا جو شخص بھی اگر کسی انجام سے نہ ڈرتا ہو تو وہ سخت ترین مظالم ڈھاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی پکڑ سخت ہوگی کیونکہ اللہ سے کوئی پوچھنے والا ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ

ان بطش .................... لشدید ” بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت شدید ہوتی ہے “۔ اس لئے یہ کہہ کر کہ وہ اپنے کسی فعل کے برے نتیجے سے نویں ڈرتا ، یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کی پکڑ بہت شدید ہوگی۔

یوں نفس انسانی کو اس کائنات کے عظیم حقائق کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور اس کائنات کے مشاہد اور مناظر کے ساتھ نفس انسانی کو متعلق کیا جاتا ہے۔ پھر نفس انسانی اور مشاہد کائنات دونوں کو اللہ کی اس سنت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے جو اس نے سرکشوں اور تکذیب کرنے والوں کی گرفت کے لئے وضع کی ہے۔ یہ سب واقعات اللہ کی تقدیر کے حدود کے اندر ہوتے ہیں۔ جس کے نظام میں اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہے ۔ ہر حادثہ کا ایو وقت طے شدہ ہے۔ ہر واقعہ کا ایک مقصد ہوتا ہے اور اس تدقر کے نظام میں ہر ہر قدم پر حکمت ربانی کار فرما ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اللہ نفس کا بھی رب ہے۔ اس کائنات کا بھی رب ہے اور نظام قضا وقدر کا بھی وہی منتظم ہے۔ لہٰذا یہ سب اس کی وسیع تر اسکیم مشیت کے دائرے میں ہیں۔

اردو ترجمہ

جب اُس قوم کا سب سے زیادہ شقی آدمی بپھر کر اٹھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ithi inbaAAatha ashqaha

اردو ترجمہ

تو اللہ کے رسول نے اُن لوگوں سے کہا کہ خبردار، اللہ کی اونٹنی کو (ہاتھ نہ لگانا) اوراُس کے پانی پینے (میں مانع نہ ہونا)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faqala lahum rasoolu Allahi naqata Allahi wasuqyaha

اردو ترجمہ

مگر انہوں نے اُس کی بات کو جھوٹا قرار دیا اور اونٹنی کو مار ڈالا آخرکار اُن کے گناہ کی پاداش میں ان کے رب نے ان پر ایسی آفت توڑی کہ ایک ساتھ سب کو پیوند خاک کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fakaththaboohu faAAaqarooha fadamdama AAalayhim rabbuhum bithanbihim fasawwaha

اردو ترجمہ

اور اسے (اپنے ا س فعل کے) کسی برے نتیجے کا کوئی خوف نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala yakhafu AAuqbaha
595