سورۃ القلم (68): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Qalam کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القلم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ القلم کے بارے میں معلومات

Surah Al-Qalam
سُورَةُ القَلَمِ
صفحہ 564 (آیات 1 سے 15 تک)

سورۃ القلم کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ القلم کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ن، قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Noon waalqalami wama yasturoona

نٓ والقلم ........................ علی الخرطوم

اللہ یہاں ن ، قلم اور کتابت کی قسم اٹھاتا ہے اور حرف نون ایک منفرد حرف ہے۔ اس میں اور قلم و کتابت میں تعلق واضح ہے۔ ان چیزوں کی قسم کیوں اٹھائی ہے ؟ اس لئے کہ اسلام میں لکھنے پڑھنے کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اس سے یہ ہدایت مقصود ہے کہ اس کام کی طرف توجہ کرو ، کیونکہ عرب امی تھے اور وہ لکھنے پڑھنے کی طرف متوجہ نہ تھے۔ بہت ہی کم لوگ عربوں میں لکھنا پڑھنا جانتے تھے جبکہ امت محمدیہ نے آئندہ انسانوں میں جو اہم کردار ادا کرنا تھا ، اس کے لئے لکھنا پڑھنا بہت ہی ضروری تھا۔ اور قرات اور کتابت کا پھیلانا اسلامی پالیسی کا بنیادی نکتہ تھا تاکہ یہ نظریہ اور اس کے اوپر جو نظام برپا کیا جانا تھا ، اسے پوری دنیا میں پھیلایا جاسکے اور یہ امت انسانیت کی قیادت کرسکے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اس مقصد کے لئے لکھنا پڑھنا ایک بنیادی ضرورت تھی۔

اس بات کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ وحی کا آغاز یوں ہوا :

اقراباسم .................... مالم یعلم (5) (69 : 1 تا 5) ” پڑھو اے نبی اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا “۔ اور پھر یہ حکم دیا نبی امی کو جس کے بارے میں اللہ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ امی ہیں اور اس کی خاصی حکمت تھی۔ لیکن جب وحی آئی تو اس ہدایت کے ساتھ کہ پڑھو اور لکھو۔ یہاں نون کے ذریعہ اس کی مزید تاکید کی۔ اور قلم اور سطروں کی قسم اٹھائی۔ یہ ایک انداز تھا اس امت کی تربیت کا۔ جس نے اس کائنات میں ایک عظیم کردار ادا کرنا تھا۔

غرض یہاں قسم ہے حرف تہجی نون کی اور پھر قلم کی اور پھر سطروں کی۔ ایک اس بات کے لئے کہ قرات اور کتابت اسلام کی بنیادی پالیسی اور بہت اہم ہے۔

اردو ترجمہ

تم اپنے رب کے فضل سے مجنوں نہیں ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma anta biniAAmati rabbika bimajnoonin

دوسرے اس بات کی تردید کے لئے جو کفار الزام لگاتے تھے کہ حضور اکرم مجنون ہیں تو اللہ تعالیٰ یہاں تردید کرتا ہے کہ رب کے فضل وکرم سے آپ مجنون نہیں ہیں۔

ماانت ............ بمجنون (86 : 2) ” تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو “۔ ایک مختصر سی آیت میں ایک بات کو ثابت کیا جاتا ہے اور ایک کی نفی کردی جاتی ہے۔ ثابت یہ کیا جاتا ہے کہ آپ پر اللہ کا فضل وکرم ہے۔ اور نفی اس بات کی جاتی ہے کہ آپ مجنون نہیں ہیں۔ اور اثبات رحمت نہایت ہی اپنائیت کے ساتھ ہے۔

ربک یعنی تمہارے رب کے فضل وکرم سے۔

جب انسان قبل نبوت کی سیرت کے واقعات پڑھتا ہے تو وہ متعجب ہوتا ہے کہ اس شخص پر یہ لوگ ایسا الزام لگاتے ہیں جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ وہ بہت بڑا دانا شخص ہے۔ نبوت سے کئی سال پہلے جب ان کے درمیان حجر اسود کے نصب کرنے پر اختلاف ہوگیا تو آپ نے بڑی عقلمندی سے مسئلہ کو حل کردیا۔ پھر انہوں نے آپ کو امین کا لقب دیا۔ اور آپ کے پاس وہ اپنی امانتیں رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہجرت کے وقت تک امانتیں آپ کے پاس رکھی جاتی تھیں۔ سخت دشمنی کی حالت میں بھی ان کا اعتماد تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہجرت کے بعد ایک زمانہ تک مکہ میں رہے تاکہ لوگوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیں جو آپ کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔ پھر یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے کبھی جھوٹ نہ سنا تھا۔ جب ہر قل نے ابوسفیان سے پوچھا کیا نبوت سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ؟ ابوسفیان ارچہ آپ کا سخت دشمن تھا مگر اس نے کہا ” نہیں “۔ تو اس پر ہرقل نے کہا جو شخص تم میں سے کسی پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ خدا پر کس طرح جھوٹ باندھ سکتا ہے کہ لوگوں سے سچ کرے اور خدا سے جھوٹ۔

انسان حیران رہ جاتا ہے کہ مکہ کے لوگوں نے حضور اکرم ﷺ کے بارے میں یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں کرنے کی جرات کی۔ حالانکہ آپ بہت بلند اخلاق ، مہربان ، سچے اور ان کے درمیان نہایت ہی عقلمند مشہور تھے۔ لیکن محبت ونفرت انسان کو اندھا اور بہرہ کردیتی ہیں۔ اور انسان اپنے مقاصد کے لئے جھوٹ بولنے پر بھی آمادہ ہوجاتا ہے۔ اور ہر شخص جانتا ہے کہ کہنے والا کذاب ہے۔

ماانت ................ بمجنون (86 : 2) ” تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو “۔ یوں نہایت محبت اور ہمدردی کے ساتھ آپ پر سے اس الزام کی نفی کی جاتی ہے۔ اور آپ کو اس سے باعزت طور پر بری قرار دیا جاتا ہے۔ اور ان کے کافرانہ عناد اور مذموم الزام کو رد کردیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور یقیناً تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna laka laajran ghayra mamnoonin

وان لک ................ ممنون (86 : 3) ” اور یقینا تمہارے لئے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ “ یعنی آپ کے لئے دائمی اور مسلسل اجر کا انتظام ہے۔ یہ سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا ، نہ انتہا کو پہنچے گا۔ تمہارے رب نے تجھے نبوت عطا کی ہے اور یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ ایک نہایت بڑی اور حقیقی تسلی ہے اور نہایت ہی بھرپور ہے۔ اس کے بعد انسان کوئی محرومی ، کوئی ظلم ، کسی بہتان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ جب رب تعالیٰ یہ فرمارہا ہے کہ تمہارے لئے ایسا مسلسل اجر ہے ، جس کا سلسلہ منقطع ہونے والا نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ پھر انسان اس راہ میں آنے والی کسی مشکل کی کوئی پرواہ نہیں کرتا خصوصاً جبکہ رب تعالیٰ کی طرف سے اپنائیت اور اعزازو تکریم کے ساتھ یہ یقین دہانی ہو۔

اردو ترجمہ

اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainnaka laAAala khuluqin AAatheemin

اس کے بعد ایک عظیم شہادت آپ کے حق میں آتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔

وانک ................ عظیم (86 : 4) ” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو “۔ نبی کریم ﷺ پر اس تعریف وثنا میں پوری کائنات شریک ہوجاتی ہے اور اس پوری کائنات کی روح کے اندر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آپ خلق عظیم کے مالک تھے۔

کسی قلم میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ آپ کے مناقب بیان کرسکے ، کسی شخص میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ آپ کے اخلاق کا تصور کرسکے۔ اور اس عظیم سرٹیفکیٹ کی تشریح کرسکے۔ یہ عظیم کلمات رب عظیم کی طرف سے ہیں۔ اور رب تعالیٰ اپنی اس عظیم شہادت کی تشریح کرسکتا ہے۔ اللہ کے ہاں عظمت کے کیا پیمانے ہیں ، اس کا بندہ کس قدر عظیم ہے ، یہ وہی جانتا ہے ۔ جس نے کہا :

وانک لعلی ................ عظیم (86 : 4) ” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو “۔ یہ خلق عظیم وہ ہے جس کا تصور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی محدود عقل وادراک سے اس کا تصور کرسکے۔ لیکن مختلف پہلوﺅں سے آپ کے اخلاق ” عظیم “ تھے۔

سب سے پہلا پہلو تو یہ ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آرہی ہے۔ رب تعالیٰ آپ کو خلق عظیم کا لقب عطا فرمارہا ہے۔ اس میں اللہ کی مخلوق اور اس کی ناپیداکنار کائنات بھی شامل ہے۔ اور ملاء اعلیٰ کی تمام مخلوقات جو رب تعالیٰ کی کائنات کے کارندے ہیں ، سب اس میں شامل ہیں۔

آپ کے خلق عظیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ نے یہ ربانی شہادت حاصل کی۔ اپنے رب کی طرف سے حاصل کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس عظیم کائنات کا عظیم باری تعالیٰ یہ کہہ رہا ہے ” یہ ایک بہت اعزاز ہے “۔ ان کلمات کا ایک عظیم مفہوم ہے ، ان کی ایک وسعت ہے ، ان کی ایک بلند گونج ہے۔ آپ جانتے تھے کہ کس عظیم ذات کی ہے یہ شہادت اور یہ شہادت کیس قدر عظیم ہے۔

یہ محمد ﷺ ہی کا ظرف تھا جو اس عظیم شہادت کو قبول کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ صرف آپ ہی کا حوصلہ تھا کہ اس عظیم مصدر سے یہ شہادت پائے اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی جگہ اور مقام پر قائم رہے۔ اور اس عظیم شہادت کے دباﺅ اور اثر کو برداشت کرسکے۔ یہ ایک تعریف تھی لیکن آپ کی ذات کے اندر کوئی حرکت ، کوئی اضطراب پیدا نہ ہوا۔ نہایت اطمینان ، نہایت توازن اور سنجیدگی کے ساتھ آپ نے یہ اعزاز لیا۔ اور آپ کی عظمت کی بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے اس عظیم خطاب کے بوجھ کو اٹھا لیا۔

آپ کے خلق عظیم کی روایات سے سیرت کی کتب بھری ہیں۔ آپ کے صحابی اس مضمون پر رطب اللسان ہیں اور خودآپ کا برتاﺅ ہی ایک بڑی شہادت ہے ، اس بات کی۔ لیکن رب تعالیٰ کی طرف سے یہ عظیم اعزاز عظیم تر ہے۔ یہ علی کبیر اور رب متعال کی طرف سے ہے۔ اور پھر اس سے بھی عظیم تر یہ بات ہے کہ خالق کائنات کی طرف سے یہ عظیم شہادت پاکر آپ سنجیدہ ، مطمئن ، مضبوط اور اپنے مقام پر جمے رہے۔ آپ نے انسانوں پر اپنی برتری نہیں جتائی ، آپ نے علو اختیار نہیں کیا ، بڑائی اختیار نہیں کی اور آپ نے اسے ہضم کرلیا اور آپ کا انکسار وہی رہا۔ حالانکہ یہ بہت ہی عظیم اعزاز تھا۔

اللہ جانتا ہے کہ وہ کس کو رسول بنارہا ہے۔ حضرت محمد ﷺ اپنی اس عظمت کے باوجود .... رسول تھے اور اپنی اس کائناتی عظمت کے باوجود رسالت کی ذمہ داریاں اٹھا رہے تھے اور لوگوں کے سامنے ایک انسان کی طرح عظمت اخلاق کا نمونہ پیش فرماتے تھے۔

یہ آخری رسالت جس قدر کامل اور جمیل ہے ، جس پدر عظیم اور جامع ہے ، جس قدر حق اور سچی ہے ، اس کا حامل وہی شخص ہوسکتا تھا ، جس کو خالق کائنات یہ لقب دے کہ تم خلق عظیم پر ہو۔ اور پھر آپ کی شخصیت کو بھی یہ قوت دی گئی کہ وہ اس عظمت کو وصول کرسکے۔ اور متوازن اور سنجیدہ رہے۔ ایک عظیم انسان کی طرح مطمئن رہے۔ ایک عظیم شخص ہی اس عظمت کو اٹھاسکتا ہے جو ان الفاظ میں دی گئی ہے۔ اس عظیم ثنا اور تعریف کے بعد قرآن میں بعض اوقات آپ پر عتاب بھی آیا ہے ، لیکن آپ نے اسے بھی نہایت ہی عظمت کے ساتھ سنا ہے۔ نہایت توازن اور اطمینان کے ساتھ۔ جس طرح آپ کو اس عظمت کا اعلان ہوا۔ اسی طرح آپ کو تنبیہ کرنے والی آیات کو بھی اس لازوال کتاب میں جگہ دی گئی ہے۔ اللہ نے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھی۔ اور دونوں حالات میں نبی آخرالزمان عظیم رہے۔ آپ نے دونوں باتوں کو عظمت کے ساتھ لیا۔

نفس محمدی کی حقیقت دراصل رسالت محمدی کے اندر پوشیدہ ہے ، اور عظمت محمد ﷺ کا پیمانہ رسالت محمدیہ کی عظمت ہے۔ اور حقیقت محمدیہ یہ حقیقت دین اسلام کی طریح انسان کے ادراک سے اور انسان کے مشاہدے سے اس طرح دور ہے جس طرح اس کائنات میں کوئی کہکشاں دور ہے۔ ایک شخص رصدگاہ میں بیٹھ کر دور سے اس کی طرف اشارہ تو کرسکتا ہے لیکن کسی کے لئے حقیقت محمدیہ کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت انسان کے مشاہدے اور ادراک سے بہت دور ہے۔ انسان ایک کہکشاں کی طرح دور سے اس کی طرف اشارہ تو کرسکتا ہے لیکن وہ اس کے بارے میں پوری بات نہیں کرسکتا۔

میں ایک بار پھر یہ نکتہ اٹھاتا ہوں اور اس سوچ میں پڑا ہوں کہ حقیقت محمدیہ نے کس قدر عظیم اعزاز پایا اور اسے اپنایا اور آپ کی شخصیت متوازن ، ثابت قدم اور مطمئن رہی۔ آپ بہرحال انسان تو تھے۔ کبھی جب آپ اپنے کسی رفیق کی تعریف فرماتے تو آپ کا وہ رفیق اور اس کے دوست یار خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے۔ اس کا ان پر اس قدر اثر ہوتا کہ قریب تھا کہ ان کی شادی مرگ سے دو چار ہونا پڑے۔ باوجود اسکے کہ آپ بشر تھے۔ آپ کے ساتھی جانتے تھے کہ آپ بشر ہیں۔ اور آپ نبی ہیں اور نبوت کا ایک معلوم دائرہ ہوتا ہے۔ نبی بشر ہوتا ہے لیکن حضور اکرم ﷺ کا معاملہ اور ہے۔ آپ کے حق میں تو شہادت رب کائنات دے رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ رب کائنات کس قدر عظیم ہے۔ اور اگر کوئی نہیں جانتا تو حقیقت محمدیہ تو رب کائنات کی عظمت کو خوب جانتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ اس عظیم شہادت کو نہایت سنجیدگی سے ہی لیتے ہیں اور اپنی روش میں کوئی فرق آنے نہیں دیتے۔ یہ ہے اصل عظمت اور یہ ہے وہ بات ، جوہر اندازے سے بلند ہے۔

حضرت محمد ﷺ وحدہ اس مقام تک پہنچے ہیں ، اس عظمت کے مقام تک۔ یہ عظمت و کمال کی بلند چوٹی ہے جس کو آپ نے صرف آپ نے سر کیا ہے۔ اس مقام تک کوئی اور انسان نہیں پہنچ سکا اور یہ حقیقت محمدیہ تھی جو اس رسالت کے اٹھانے کے اہل ہوئی جو کائناتی رسالت ہے ، ابدی رسالت ہے ، اور عالمی انسانی رسالت ہے۔ یہ رسالت آپ کی شخصیت میں مشخص ہوئی اور عملی شکل میں انسانیت کو ملی۔ یہ آخری رسالت اسی طرح آئی کہ مکہ اور مدینہ میں انسانی شکل میں پھرتی رہی۔ یہ تھے محمد ﷺ۔ اس مقام کے اہل اور اللہ ہی جانتا تھا کہ اس مقام کا اہل اس کی مخلوق میں سے کون ہے ؟ اس لئے اس نے اعلان فرمایا کہ

وانک ................ عظیم (86 : 4) ” اللہ نے بذات خود یہ اعلان کیا اور اعلان فرمایا کہ اللہ خود حضرت محمد ﷺ پر صلوٰة وسلام بھیجتا ہے۔ اور یہ اللہ ہی کی بخشش ہے جو کسی انسان کو عطا کرتا ہے۔ یہ رتبہ بلند ہے جس کو مل گیا۔

پھر اس شہادت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے انسانی نظام کے اندر اخلاق کی اہمیت کیا ہے۔ اسلامی نظام حیات میں حسن اخلاق ہر معاملے میں ایک بنیادی عنصر ہے۔

اسلامی نظریہ حیات کا مطالعہ کریں یا نبی آخرالزمان کی سیرت کا مطالعہ کریں ، نظر آئے گا کہ ان میں بنیادی عنصر اسلامی اخلاق کا ہے۔ اسی اخلاقی عنصر پر اسلام کا تہذیبی اور قانونی نظام قائم ہے۔ اس نظام میں طہارت ، نظافت ، امانت ، سچائی ، عدل ، رحم دلی ، نیکی ، وعدہ وفائی ، قول وفعل کے درمیان مطابقت ، نیت اور ضمیر کے درمیان مطابقت ، ظلم اور زیادتی کی مخالفت ، ظلم اور دھوکہ بازی کی ممانعت ، لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کی ممانعت ، لوگوں کی عزت پر حملے کی ممانعت ، فحاشی کے ارتکاب اور فحاشی کی اشاعت کی ممانعت ، خواہ وہ جس شکل میں بھی ہو۔ اور اس نظام میں جس قدر قانون سازی بھی کی گئی ہے وہ ان اخلاقیات میں سے کسی نہ کسی اخلاق کی حفاظت کے لئے کی گئی ہے اور اس قانون سازی کے ذریعہ لوگوں کے سلوک ، ان کے شعور اور طرز عمل میں اخلاقی قدریں پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اور یہ اخلاقیات بیک وقت انفرادی ، اجتماعی اور بین الاقوامی طرز عمل میں ملحوظ رکھے گئے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : ” مجھے اس لئے بھیجا گیا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کردوں “۔ آپ نے اپنی بعثت کا مقصد اخلاقی تطہیر کے اندر محدود کردیا۔ اور احادیث کا ایک زمزمہ بہہ رہا ہے کہ خلق حسن اختیار کرو ، کریمانہ انداز اپناﺅ، آپ کی سیرت طیبہ اس کی ایک مثال ہے اور ایک صاف صفحہ ہے۔ اور ایک اعلیٰ تصویر ہے مکارم اخلاق کی۔ اور فی الواقعہ آپ اس بات کے مستحق تھے کہ خالق کائنات یہ شہادت دے کہ وانک ................ عظیم (86 : 4) جس طرح حضور اکرم ﷺ خلق عظیم کے اعلیٰ درجے پر ہیں اسی طرح آپ کا پیش کردہ اسلامی نظام حیات بھی اعلیٰ اخلاقی قدروں کا حامل ہے۔ اس اخلاق کے ذریعہ زمین کی بستیوں کو آسمانوں سے ملا دیا گیا اور لوگوں کے دلوں کو خدا سے جوڑ دیا گیا اور یہ بتادیا گیا کہ اللہ کن کن باتوں پر راضی ہوتا ہے۔

یہ پہلو اسلام کے اخلاقی نظام میں ایک ممتاز پہلو ہے۔ کیونکہ اسلامی اخلاقیات کسی سوسائٹی کی پیداوار نہیں ہیں ، یہ زمینی اور مادی اصولوں سے ماخوذ نہیں ہیں ، نہ یہ کسی رسم و رواج ، عزت ، مصلحت اور باہمی روابط وتعلقات سے ماخوذ ہیں۔ ان اخلاقیات کا دارومدار رضائے الٰہی پر ہے۔ اس دعوت پر ہے کہ لوگو ، اللہ کی طرف بلند ہوجاﺅ، اللہ کی صفات حمیدہ کو اپنے اندر پیدا کرو ، تاکہ تمہاری انسانیت کے آفاق آسمانوں سے مل جائیں ، تاکہ تم اخروی زندگی کو بہتر کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پاﺅ۔ اور تم اللہ کے ہاں۔

فی مقعد .................... مقتدر (45 : 55) ” ایک مقتدر بادشاہ کے ہاں سچی مجلس میں “ بیٹھنے کے قابل ہوجاﺅ۔ اس لئے اسلامی اخلاقیات کسی مادی تصور کے اندر محدود نہیں ہیں۔ یہ لامحدود اخلاقیات ہیں۔ اور یہ ان انتہائی بلندیوں پر ہیں جہاں تک کوئی انسان پہنچنے کا تصور نہیں کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اخلاقیات اللہ کی صفات کی پیروی پر مبنی ہیں ، گرے ہوئے مادی اصولوں سے ماخوذ نہیں ہیں۔

پھر اسلامی اخلاقیات ، مفرد اخلاقیات نہیں ہیں۔ صدق ، امانت ، عدل ، رحم ، نیکی ، یہ سب ایسی اخلاقیات ہیں ، جن میں ایک سے زیادہ انسانوں کا بہم تعلق پیش نظر ہوتا ہے۔ یہ ایک نظام کے ساتھ متعلق اخلاقیات ہیں۔ باہم تعاون ، باہم معاملہ ، تقسیم کار اور تقسیم حقوق اور اجتماعی تنظیم سے متعلق امور ہیں۔ ان کا تعلق زندگی کے ایک تصور سے ہے اور ان کا ماخذ ذات باری ہے۔ اس لئے یہ ربیانیت یا ذاتی اذن پر مبنی بھی نہیں ہیں اور مادی مفادات اور زمین کے اعتبارات ان کا ماخذ نہیں ہے بلکہ اللہ کی رضا ان کا اصل ماخذ ہے۔

یہ اخلاقیات اپنے کمال ، جمال ، توازن ، سیدھے پن ، تسلسل اور ثبات کے پہلو سے حضرت محمد ﷺ میں مکمل طور پر منفکس ہوئیں اور اس وجہ سے حضور ﷺ سے کہا گیا۔

وانک ................ عظیم (86 : 4) ” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو “۔ اس تعریف عظیم کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ آپ کا مستقبل نہایت تابناک ہے۔ مشرکین سے کہہ دیں کہ تم اپنے برے انجام کا انتظار کرو ، تم خلق عظیم کے مالک پر ایسے الزامات عائد کرتے ہو تنبیہ کی جاتی ہے کہ تمہارے دعوﺅں کی حقیقت تم پر جلد ہی کھل جائے گی کہ مجنون کون ہے ؟

اردو ترجمہ

عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasatubsiru wayubsiroona

فستبصر ............................ بالمھتد (7) (86 : 5 تا 7) ” عنقریب تم بھی دیکھ لوگے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون گمراہی میں مبتلا ہے۔ تمہارا رب ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں ، اور وہی ان کو بھی اچھی طرح جانتا ہے جو راہ راست پر ہیں “۔

المفتون (86 : 6) سے مراد ہے گمراہ۔ اللہ فرماتا ہے کہ اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی جانتا ہے اور گمراہوں کو بھی۔ یا اس کے معنی ہیں وہ شخص جو آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے اور جس کا نتیجہ نکلنے والا ہے۔ دونوں مفہوم قریب قریب ہیں۔ اس وعدے میں رسول اللہ اور مومنین کے لئے اطمینان ہے جبکہ مخالفین کے لئے دھمکی ہے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ پر جنون کا الزام لگایا تھا۔ اس جنون سے ان کی مراد یہ نہ تھی کہ آپ کی عقل چلی گئی ہے کیونکہ واقعی صورت حال اس کی تکذیب کررہی تھی بلکہ اس سے مراد لیتے تھے کہ آپ پر جنون کا اثر ہوگیا ہے اور اس میں ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ ہر شاعر کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے ، جو اس پر شعر وحی کرتا ہے۔ اشارتاً وہ نبی ﷺ کی طرف اس بات کو منسوب کرتے تھے جبکہ نبی ﷺ جو تعلیمات پیش کرتے ، ان کا تعلق نہ شعر سے تھا اور جنون کی باتوں سے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ تسلی دیتا ہے کہ مستقبل نبی ﷺ کی حقیقت کو بھی ظاہر کردے گا اور آپ کی تکذیب کرنے والوں کی حقیقت کو بھی۔ اور معلوم ہوجائے گا کہ دونوں میں سے کون گمراہ ہے ؟ اور مزید اطمینان کے لئے کہا جاتا ہے کہ رب تعالیٰ تو جانتا ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون راہ راست پر ہے۔ یہ کلام تو وہی وحی کررہا ہے۔ لہٰذا اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کی وجہ سے آپ دشمنوں کی ہر زیادتی کو برداشت کرلیتے تھے اور اس کے نتیجے میں آپ کے دشمن پریشان ہوجاتے تھے اور آپ کی ثابت قدمی کی وجہ سے ان کے اندر قلق اور تزلزل پیدا ہوجاتا تھا ، جیسا کہ اگلی آیات میں آتا ہے۔

اگلی آیت میں آپ کو بتایا جاتا ہے کہ اندر سے ان لوگوں کا حال بہت پتلا ہے۔ ان کی سوچ اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔ بظاہر تو وہ مخاصمت کرتے ہیں ، جھگڑتے ہیں ، حق کا انکار کرتے ہیں ، آپ ہر طرح کے الزامات لگاتے ہیں ، لیکن اندر سے ان کے اندر تزلزل پیدا ہوگیا ہے۔ وہ ہل گئے ہیں اور جن عقائد پر وہ جمے ہوئے نظر آتے ہیں ، درحقیقت ان کے ایک بڑے حصے پر خود ان کو اعتماد نہیں ہے۔ یہ سودا بازی کے لئے تیار ہیں ، یہ چاہتے ہیں کہ کچھ آپ نرم ہوں اور کچھ یہ نرم ہوں لیکن جن لوگوں نے نظریاتی انقلاب لانا ہوتا ہے وہ تب ہی لاسکتے ہیں جب وہ اپنے اخلاقی نظریات پر جم جائیں۔ ان لوگوں کے جو عقائد ہیں یہ ان کے بارے میں کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے چند ظاہری رسول کو پکڑا ہوا ہے جن کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہیں۔ لہٰذا ان کی کوئی بات نہ مانو۔

اردو ترجمہ

کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Biayyikumu almaftoonu

اردو ترجمہ

تمہارا رب اُن لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں، اور وہی ان کو بھی اچھی طرح جانتا ہے جو راہ راست پر ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna rabbaka huwa aAAlamu biman dalla AAan sabeelihi wahuwa aAAlamu bialmuhtadeena

اردو ترجمہ

لہٰذا تم اِن جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fala tutiAAi almukaththibeena

فلا تطع .................... فیدھنون (86 : 9) ” تم جھٹلانے والوں کے دباﺅ میں ہرگز نہ آﺅ۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں “۔ دراصل اندر سے یہ لوگ سودا بازی کے لئے تیار ہیں۔ چاہتے ہیں کہ نصف نصف سودا طے ہوجائے جس طرح تاجر لوگ مول تول کرلیتے ہیں۔ لیکن ان کو معلوم ہے کہ نظریات اور تجارت میں فرق ہوتا ہے۔ ایک نظریاتی شخص اپنے عقائد اور نظریات میں کبھی سودا بازی کے لئے تیار نہیں ہوا کرتا۔ کیونکہ نظریات میں چھوٹی بات بھی بڑی بات کی طرح قیمتی ہوتی ہے بلکہ نظریات میں چھوٹی اور بڑی بات ہوتی ہی نہیں ہے۔ نظریہ ایک مکمل اکائی ہوتا ہے۔ اس میں کوئی کسی کی نہ اطاعت کرتا ہے اور نہ اپنے نظریات کے کسی حصے سے دستبردار ہوتا ہے۔

اس بارے میں بیشمار روایات وارد ہیں کہ وہ کیا معاملات تھے جن پر مشرکین مکہ نبی ﷺ کے ساتھ سودا بازی کے لئے تیار تھے کہ آپ نرمی کریں تو وہ بھی کریں یہ کہہ حضور ﷺ ان کے الہوں کو برا بھلا کہنا ترک کردیں اور یہ بھی نہ کہیں کہ ان بتوں کی عبادت کرنا ایک احمقانہ فعل ہے۔ یا یہ کہ حضور اکرم کچھ باتیں ان کے دین کی مان لیں اور کچھ باتیں وہ مان لیں گے۔ یوں جمہور عرب کے سامنے ان کی لاج رہ جائے گی۔ جس طرح ہمیشہ مصالحت کرنے والوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ نصف نصف پر فیصلہ کرلیتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کا رویہ تودو ٹوک تھا۔ آپ اس میں نہ مداہنت کرتے تھے اور نہ نرمی فرماتے تھے لیکن دین اسلام کے اصولوں کے علاوہ آپ تمام معاملات میں ، نہایت ہی نرم رویہ اختیار فرماتے تھے۔ معاملات میں نہایت ہی اچھے تھے ، معاشرت میں نہایت ہی خوش اخلاق تھے اور لوگوں کے ساتھ نہایت ہی اچھا رویہ رکھتے تھے۔ رہا دین کا معاملہ تو وہ خدا سے متعلق تھا۔ اور خدا کی ہدایت یہ تھی۔

فلا تطع المکذبین (86 : 8) ” لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کی کوئی بات نہ مانو “۔ چناچہ حضور اکرم ﷺ نے مکہ میں ایسے حالات میں بھی دین کے معاملے میں کوئی سودا بازی نہیں کی جئ کہ آپ نہایت ہی مشکل حالات میں تھے۔ آپ کی تحریک محاصرے میں تھی۔ آپ کے چند ساتھی تھے۔ ہر طرف سے ان پر مظالم ہورہے تھے۔ اچک لئے جاتے تھے۔ شدید ترین اذیتیں دی جاتی تھیں لیکن وہ صبر کرتے تھے۔ البتہ وہ بڑے سے بڑے جبار کے سامنے کلمہ توحید پڑھنے سے کبھی باز نہ آتے تھے۔ نہ وہ ان کے تالیف قلب کے لئے اور نہ ان کی اذیت سے جان چھڑانے کے لئے۔ نہ وہ کسی ایسی حقیقت کی وضاحت سے چوکتے تھے جس کا ان کے ایمان سے کوئی دور کا بھی تعلق ہوتا تھا۔

ابن ہشام نے اپنی سیرت میں ابن اسحاق سے روایت کی ہے : ” رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوم کے سامنے اسلام کا اظہار اور علانیہ دعوت شروع کردی تو انہوں نے آپ کے دین کا کوئی رد یا جواب نہ دیا۔ یہاں تک کہ آپ نے ان کے الہوں کا ذکر شروع کردیا اور ان کی عبادت کو احمقانہ فعل بنایا۔ جب حضور ﷺ نے یہ کہا تو انہوں نے اسے ایک عظیم جرم سمجھا اور اس پر بہت برا منایا۔ یہ لوگ آپ کے خلاف جمع ہوگئے اور دشمنی شروع کردی۔ ماسوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ اسلام میں لے آیا تھا۔ لیکن یہ بہت ہی قلیل اور کمزور تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب نے آپ کی حمایت کی اور آپ کا دفاع کیا ، اور آپ کے محافظ کے طور پر آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ اپنا کام کرتے رہے۔ خوب اظہار خیال کرتے رہے اور کوئی آپ کو اپنی باتوں سے روک نہ سکتا تھا۔

جب قریش کو معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ ان باتوں سے باز نہیں آتے جن کو وہ برا سمجھتے ہیں اور یہ کہ ان کی صفوں میں تفرقہ پڑگیا اور وہ بدستور ان کے الہوں پر تنقید کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ان کے چچا ان کی حمایت پر تلے ہوئے ہیں اور وہ ان کو قریش کے سپرد نہیں کرتے۔ تو قریش کے اشراف کا ایک وفد ابوطالب کے پاس گیا۔ ان میں عتبہ اور شیبہ پسران ربیعہ ، ابوسفیان ابن حرب ابن امیہ ، ابوالیحتری العاص ابن ہشام ، اسود ابن مطلب ابن اسد ، ابوجہل (اس کا نام ابوالحکم عمر ابن ہشام تھا) ، ولید ابن مغیرہ ، نبیہ اور منبہ پسران حجاج ابن عامر اور دوسرے لوگ جو ان کے ساتھ گئے تھے۔ انہوں نے کہا ابوطالب ” یہ کہ تمہارے بھتیجے نے ہمارے الہوں کو گالیاں دیں اور ہمارے دین میں عیب نکالے اور ہمارے خیالات کو احمقانہ کہا۔ ہمارے آباﺅ اجداد کو گمراہ کہا ، اب تمہارے سامنے دوراستے ہیں یا تو اسے ان باتوں سے روک دو یا ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جاﺅ، کیونکہ جس طرح ہم اس کے دین کو نہیں مانتے تم بھی نہیں مانتے۔ ہم اس کا علاج کردیں گے “۔ ابوطالب نے ان کے ساتھ نہایت ہی نرم باتیں کیں اور انہیں اچھے طریقے سے رخصت کردیا۔ یہ لوگ واپس ہوگئے۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنا کار جاری رکھا۔ آپ اپنے دین کا اظہار فرماتے اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتے۔ لیکن اس کے بعد آپ کے اور قریش کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے۔ دشمنی میں دور تک چلے گئے اور لوگوں کی آتش عناد تیز ہوگئی اور جگہ جگہ آپ کے خلاف باتیں ہونے لگیں۔ اور لوگ آپ کے خلاف ایک دوسرے کو اکسانے لگے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھو ، اس شخص کے خلاف۔ یہ لوگ دوبارہ ابوطالب کے پاس گئے اور کہا ابو طالب تم ہم میں سب بےمعمر ہو ، عزت دار ہو ، اور شریف ہو۔ ہم نے تم سے درخواست کی تھی کہ اپنے بھتیجے کو اس کام سے روکو مگر تم نے اسے نہ روکا۔ خدا کی قسم ! ہم اس صورت حال کو برداشت نہیں کرسکتے کہ وہ ہمارے آباﺅاجداد کو گالیاں دے ، ہمارے عقائد کو احمقانہ بتلائے اور ہمارے الہوں کی عیب جوئی کرے۔ یا تو آپ اسے روکیں یا پھر اس کی حمایت سے ہاتھ اٹھالیں ورنہ ہمارے اور تمہارے درمیان جنگ ہوگی جو فریق بھی ہلاک ہوگیا۔ یا اس طرح کی سخت باتیں انہوں نے کہیں اور چلے گئے۔ ابوطالب پر قوم کے درمیان یہ جھگڑا ذرا گراں گزرا۔ اور انہوں نے پوری قوم کی عداوت کو بھاری سمجھا۔ اور یہ بھی وہ نہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کے حوالے کردیں اور شرمندگی اٹھائیں۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے یعقوب ابن عتبہ ابن مغیرہ ابن اخنس نے بتایا کہ جب قریش نے ابوطالب سے یہ باتیں کیں تو انہوں نے حضرت نبی ﷺ کو بلایا۔ ان سے کہا بھتیجے ! تمہاری قوم میرے پاس آئی اور انہوں نے یہ کہا اور یہ کہا۔ اس لئے تم مجھ پر اور اپنے آپ پر ذرا رحم کرو اور مجھ پر اس قدر بوجھ نہ ڈالو جس کے اٹھانے کی مجھے طاقت نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سمجھا کہ شاید ابوطالب کی رائے اس معاملے میں بدل گئی ہے۔ اور یہ کہ آپ بھی اب ساتھ چھوڑنے والے ہیں اور مجھے قریش کے حوالے کرنے والے ہیں اور یہ کہ ابو طالب بھی اب حمایت اور نصرت سے دسکش ہورہے ہیں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا : ” چچا ! خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دیں اور یہ مطالبہ کریں کہ یہ کام چھوڑ دو تو یہ نہیں ہوسکتا ، میں یہ کام کرتارہوں گا جب تک یہ دین غالب نہیں ہوجاتا یا میں ہلاک نہیں ہوجاتا۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آواز روندھ گئی اور آپ روپڑے اور اٹھ کر چلے گئے۔ جب آپ چلے گئے تو ابو طالب نے آواز دی : بھتیجے ! ادھر آﺅ، رسول اللہ ﷺ واپس ہوئے تو انہوں نے کہا ” جاﺅ جو چاہو کرو ، خدا کی قسم میں تمہیں کسی قیمت پر ان کے حوالے نہ کروں گا “۔

یہ ہے تصویر حضور اکرم ﷺ کی کہ آپ اس وقت بھی اپنی دعوت پر جمے ہوئے تھے جبکہ آپ کے چچا محترم بھی دستکش ہونے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ جو آپ کے حامی اور محافظ تھے اور یہ آخری قلعہ تھے ، جس میں آپ اس کرہارض پر اپنے دشمنوں کے مقابلے میں پناہ لے سکتے تھے۔

یہ تو تھی ایک نہایت ہی روشن اور قوی تصویر۔ یہ اپنی نوعیت اور حقیقت کے اعتبار سے بالکل ایک انوکھی تصویر تھی۔ اس کا رنگ اور پر تو سب ہی انوکھے تھے۔ اس کی عبارت اور مکالمات بھی اپنی نوعیت کے تھے۔ نہایت نئے اور سنجیدہ موقف کی ایک تصویر اس طرح روشن ، جس طرح یہ عقیدہ روشن ہے۔ اور اس میں سرٹیفکیٹ اور شہادت کا مصادق اور مفہوم موجود۔

وانک .................... عظیم (86 : 4) ” اور بیشک آپ عظیم اخلاق کے نہایت ہی بلند مرتبے پر ہیں “۔ اور ان اخلاق عالیہ کی ایک دوسری تصویر بھی خود ابن اسحاق نے نقل کی ہے۔ کہتے ہیں روایت بیان کی یزید ابن اسحاق نے ، محمد ابن کعب قرظی سے ، انہوں نے کہا مجھے یہ بتایا گیا کہ عتبہ ابن ربیعہ ایک سردار تھا۔ یہ ایک دن قریش کی ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا ، اس نے تجویز پیش کی ، جبکہ حضور اکرم ﷺ مسجد حرام میں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے ، کیا مناسب نہیں ہے کہ میں محمد ﷺ سے بات کروں اور ان کے سامنے کچھ باتیں رکھوں شاید وہ اسے قبول کرلیں۔ اس طرح کہ ان کے جو مطالبات ہوں ہم انہیں دے دیں اور وہ ہمارے خداﺅں سے باز آجائیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت حمزہ اسلام قبول کرچکے تھے اور قریش نے دیکھ لیا تھا کہ حضور ﷺ کے حامیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا : ابو الولید جاﺅ اور ان سے بات کرو ، عتبہ اٹھا اور آیا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے کہا بھتیجے ! ہمارے اندر تمہاری جو حیثیت ہے ، وہ تم جانتے ہو۔ تمہارا بہت اونچا درجہ ہے اور تمہارا نسب بھی بہت اونچا ہے اور تم نے اپنی قوم کو ایک بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ جماعت کے اندر تفریق پیدا ہوگئی ہے۔ تم نے ہمارے نظریات کا مذاق اڑایا ہے ، ہمارے دین اور الہوں پر تنقید کی ہے اور تم نے ہمارے آباﺅ اجداد کو کافر کہا۔ تم میری بات سنو ۔ میں تمہارے سامنے کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ تم ان پر غور کرو گے۔ شاید ان میں سے بعض کو تم منظور کرلو۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ابوالولید کہو۔ میں سنتا ہوں “ اس نے کہا : ” بھتیجے ! تم جو دین پیش کرتے ہو اگر اس سے تمہارا مقصد بہت زیادہ مال جمع کرنا ہے ، تو ہم تمہارے لئے اس قدر مال جمع کرتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہوجاﺅ گے۔ اور اگر تم اونچا مقام چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا سردار بناتے ہیں ، ہم تمہارے بغیر کوئی فیصلہ نہ کریں گے۔ اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں۔ اور اگر تم پر کوئی دورہ پڑتا ہے جس کا دفعیہ تم نہیں کرسکتے تو ہم تمہارے علاج کا انتظام کرتے ہیں۔ اس پر ہم سے جو ہوسکا ، خرچ کریں گے یہاں تک کہ تم تندرست ہوجاﺅ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ کوئی چیز لگ جاتی ہے اور اس کو اس کا علاج کرنا پڑتا ہے “۔ یہ اور ایسی اور باتیں جو اس نے کیں۔ عتبہ ان باتوں سے فارغ ہوا اور رسول اللہ یہ باتیں سنتے رہے۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا : ابو الولید تم کہہ چکے ؟ اس نے کہا : ” ہاں “۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا اب میری بات سنو۔ اس نے کہا : ہاں ” کہو “۔ اس پر حضور ﷺ نے پڑھنا شروع کیا :

حٰم ................................ ویل للمشرکین (6) (14 : 1 تا 6) ” ح م۔ یہ خدائے رحمن ورحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے ، ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں۔ عربی زبان کا قرآن ، ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے روگردانی کی اور وہ سن کر نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ” جس چیز کی طرف تو ہمیں بلارہا ہے اس کے لئے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں ، ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے تو اپنا کام کر ہم اپنا کام کیے جائیں گے “۔ اے نبی ان سے کہو ، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ، لہٰذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو۔ اور اس سے معافی چاہو۔ تباہی ہے مشرکوں کے لئے ....“

حضور ﷺ اس کے بعد بھی سورة حم سجدہ پڑھتے رہے۔ جب عتبہ نے اسے سنا تو خاموش ہوگیا اور اپنے ہاتھ پشت کے پیچھے زمین پر لگا کر ٹیک لی اور سنتا رہا۔ اب رسول اللہ ﷺ سجدہ تک پہنچ گئے اور آپ نے سجدہ کیا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا ابو الولید تم نے سنا جو سنا بس یہ ہے جواب تم جانو اور تمہارا کام “۔ عتبہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا : ” ہم خدا کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ یہ شخص جو چہرہ لے کر گیا تھا اس کے ساتھ واپس نہیں آیا۔ جب یہ جاکر ان کی محفل میں بیٹھا تو انہوں نے پوچھا ابوالولید کیا خبر لائے ہو ؟ تو اس نے کہا خبر یہ ہے کہ میں نے ایک ایسا کلام سنا ہے خدا کی قسم میں نے ایسا کوئی کلام کبھی نہیں سنا۔ یہ نہ تو شعر ہے نہ جادو ہے ، نہ کہانت ہے۔ اے اہل قریش میری بات مانوں اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، یہ شخص جو کچھ کرنا چاہتا ہے اسے کرنے دو اور اس کی راہ نہ روکو۔ اس کو الگ چھوڑ دو ، خدا کی قسم اس کی جو بات میں نے سنی ہے اس کی شہ سرخی لگنے والی ہے۔ اگر اس کو عربوں نے ختم کردیا تو تمہارا کام وہ کردیں گے اور تمہیں اسے مارنے کی ضرورت نہ ہوگی اور اگر یہ عربوں پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی۔ اور تم اس کی وجہ سے نہایت ہی نیک بخت ہوگئے ، انہوں نے کہا ابوالولید خدا کی قسم اس نے اپنی زبان سے تمہیں مسحور کردیا۔ اس نے کہا : اس کے بارے میں یہ میری حقیقی رائے ہے۔ اب تمہاری مرضی ہے جو چاہو کرتے رہو۔

دوسری روایات میں آتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو کلام الٰہی سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے۔

فان ........................ وثمود (14 : 31) ” اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تم کو اس طرح کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا کہ عاد وثمود پر نازل ہوا تھا “ تو ابوالولید خوفزدہ ہکر اٹھا اور آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا : ” محمد (ﷺ ) میں تمہیں خدا کا اور رحم کا واسطہ دیتا ہوں “۔ یہ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں فی الواقع یہ عذاب نازل نہ ہوجائے۔ اس کے بعد وہ قوم کے پاس گیا اور ان سے وہ بات کہی جس کا اوپرتذکرہ ہوا۔

بہرحال یہ قریش کی طرف سے سودے بازی کی دوسری کوشش تھی۔ یہ بھی حضور اکرم ﷺ کی خلق عظیم کی ایک تصویر ہے۔ اس سے آپ کے آداب اچھی طرح معلوم ہوتے ہیں کہ آپ عتبہ کی بات نہایت تحمل سے سنتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجاتا ہے حالانکہ اس کی باتیں نہایت بےمعنی ہیں۔ ان باتوں کا تعلق صرف اس زمین سے ہے۔ لیکن آپ کے اخلاق کریمانہ تھے کہ آپ نہ اس کی بات کاٹتے ہیں نہ جلدی کرتے ہیں اور نہ غصے میں آتے ہیں اور اس کو جھڑکتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ شخص اپنی بیہودہ باتوں سے فارغ ہوجاتا ہے اور آپ پوری توجہ سے سنتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نہایت نرمی سے پوچھتے ہیں۔ ابوالولید آپ کی بات ختم ہوئی ، اور یہ تاکید مزید کے لئے کہ وہ یہ نہ کہے کہ میری بات رہتی ہے۔ یہ ہے سچا اطمینان ، اور حقیقی ادب کہ آپ پوری پوری بات سنتے ہیں۔ یہ بھی آپ کے خلق عظیم کا ایک پہلو ہے۔ بیہودہ باتیں بھی تحمل سے سنتے ہیں۔

اور ایک تیسری سودا بازی بھی مروی ہے۔ ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ اسود ابن المطلب ابن اسد ابن عبدالعزی ، ولید ابن مغیرہ ، امیہ ابن خلف اور عاص ابن وائل سہمی نے آپ کو روکا اور یہ لوگ اپنے قبائل میں نہایت معتبر لوگ تھے۔ انہوں نے کہا : ” محمد ﷺ ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس کو تم کرتے ہو ، اور تم ان الہوں کی عبادت کرو جن کی ہم کرتے ہیں۔ ہم اور تم شریک ہوجائیں گے۔ اگر جس خدا کی تم عبادت کرتے ہو وہ اچھا ہوا تو ہمارا بھی اس میں حصہ ہوگا اور ہم جن کی عبادت کرتے ہیں اگر وہ اچھے ہوئے تو تم نے بھی اپنا حصہ اس بھلائی سے لیا ہوگا۔ ان کے بارے میں اللہ نے یہ سورت نازل کی۔

قل یایھا الکفرون ................ تعبدون (901 : 2) ” اے کافرو ! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم کرتے ہو “۔ اس سودا بازی کو دو ٹوک انداز میں ختم کردیا گیا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو یہ سورت سنا دی جس طرح اللہ کا حکم تھا۔

اردو ترجمہ

یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waddoo law tudhinu fayudhinoona

اردو ترجمہ

ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tutiAA kulla hallafin maheenin

اب رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک متعین شخص بڑاچرب زبان ہے ، اس کی کسی بات کو تسلیم نہ کریں۔ یہاں قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں اس کا نام نہیں لیا ، لیکن اس کی تمام گھٹیا صفات کو گنوادیا گیا ، جو اس شخص کے اندر پائی جاتی تھیں۔ اس شخص کو نہایت ذلت اور حقارت کے ساتھ دھمکی دی جاتی ہے :

ولا تطع .................... الخرطوم (61) (86 : 01 تا 61) ” ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بےوقعت آدمی ہے ، طعنے دیتا ہے ، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے ، بھلائی سے روکتا ہے ، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے ، سخت بداعمال ہے ، جفاکار ہے اور ان سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے ، اس بنا پر کہ وہ بہت مال اور اولاد رکھتا ہے۔ جب ہماری آیات اس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں۔ عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے “۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ ولید ابن مغیرہ ہے ، اور اسی کے بارے میں سورة مدثر کی یہ آیات بھی نازل ہوئیں :

ذرنی ................................ ساصلیہ سقر (62) (47 : 11 تا 62) ” چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ، بہت سا مال اس کو دیا ، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے اس کو دیئے ، اور اس کے لئے ریاست کی راہ ہموار کی ، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔ ہرگز نہیں ، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔ میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواﺅں گا۔ اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی تو خدا کی مار اس پر ، کیسی بات بنانے کی کوشش کی ۔ ہاں ، خدا کی مار اس پر ، کیسی بات بتانے کی کوشش کی۔ پھر لوگوں کی طرف دیکھا۔ پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبر میں پڑگیا۔ آخر کار بولا یہ کچھ نہیں ، مگر ایک جادو ، جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یہ تو ایک انسانی کالم ہے۔ عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا “۔

اس شخص کے بارے میں بہت سی روایات میں آتا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہر وقت سازشوں میں لگا رہتا تھا۔ آپ کے ساتھیوں کو ڈراتا تھا۔ دعوت اسلامی کی راہ روکتا تھا۔ اور رات دن لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتا تھا۔ نیز بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ سورة القلم کی آیات انفنس ابن شریق اور ولید بن مغیرہ کے بارے میں ہیں۔ یہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے سخت مخالف تھے۔ یہ ہر وقت آپ سے برسرپیکار رہتے تھے۔ اور لوگوں کو آپ کے خلاف اکساتے تھے۔

یہ سخت تہدیدی جملہ اس سورت میں اور دوسری سورتوں میں جو اس دور میں نازل ہوئیں ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دور میں حالات بہت شدید تھے اور یہ شخص جو مسلمانوں اور تحریک اسلامی کے خلاف سرگرم تھا ، خواہ ولید تھا یا انس تھا (پہلا قول راجح ہے) تحریک اسلامی کی راہ روکنے میں اس کا بہت بڑا دخل تھا۔ نیز ان تنقیدی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بہت بدفطرت شخص تھا اور اس کے نفس میں بھلائی کی کوئی رمق نہ تھی۔

یہ کس قسم کا آدمی تھا ، قرآن نے اس کی 9 صفات بیان کی ہیں اور سب کی سب مذموم صفات ہیں :

1۔ حلاف (86 : 01) (بہت قسمیں کھانے والا) زیادہ قسمیں وہی اٹھاتا ہے جو سچا نہیں ہوتا ، اس کے شعور میں یہ بات ہوتی ہے کہ لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے اور اسے جھوٹا سمجھتے ہیں۔ یہ شخص قسمیں اٹھاتا ہے اور بہت زیادہ قسمیں اٹھا کر اپنے جھوٹ کو چھپاتا ہے اور اس طرح لوگوں کا اعتماد حاصل کرتا ہے۔

2۔ مھین (86 : 01) (بےوقعت) اپنی نظروں میں خود ہلکا ، لوگوں کی نظروں میں ناقابل اعتبار۔ زیادہ قسمیں اٹھانے کی ضرورت ہی اسے اس لئے پیش آتی ہے کہ وہ ہلکا ہے۔ خود اسے اپنے اوپر اعتماد نہیں۔ نہ لوگوں کو ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ دولتمند ہے ، جتھے دار ہے۔ لہٰذا ایک بادشاہ ، ایک مالدار اور ایک قوی اور جبار شخص بھی ہلکا ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ اہانت اور عزت دونوں نفسیاتی صفات ہیں۔ یہ کبھی انسانی شخصیت سے دور نہیں ہوتیں۔ ایک شریف انسان باوزن ہوتا ہے۔ اگرچہ دنیا کے دوسرے پہلوﺅں سے وہ کوئی بڑا آدمی نہ ہو۔

3۔ ھماز (86 : 11) (طعنے دینے والا) یہ شخص اقوال واشارات سے لوگوں کے عیب بیان کرتا ہے ، ان کے سامنے بھی اور ان کے پس پشت بھی۔ ایسے شخص کو اسلام بہت برا خیال کرتا ہے جو لوگوں کے عیب نکالتا ہے۔ یہ بات مروت کے خلاف ہے۔ اعلیٰ آداب کے بھی خلاف ہے ، نیز لوگوں کے ساتھ برتاﺅ لوگوں کے اکرام کے خلاف ہے ، خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں۔ اس صفت کو قرآن کریم نے متعدد مقامات میں لیا ہے۔ اور اس کی سخت ممانعت کی ہے۔

ایک جگہ کہا گیا۔ ویل ................ لمزة (401 : 1) ” تباہی ہے ہر اس شخص کے لئے جو لوگوں پر طعن کرے اور برائیاں کرنے کا خوگر ہو “۔ اور دوسری جگہ ہے۔

یایھا الذین ............................ الایمان (94 : 11) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو نہ مرددوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ، ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے “۔ یہ سب بدخونی اور چغل خوری کی اقسام ہیں۔

4۔ مشاء بنمیم (86 : 11) (چغلیاں کھاتا پھرتا ہے) وہ لوگوں کے درمیان ایسی باتیں پھیلاتا ہے جن سے ان کے دل میلے ہوں ، تعلقات ختم ہوں ، محبت ختم ہو ، یہ ایک ذلیل حرکت ہے اور ہلکے لوگ ایسا کام کیا کرتے ہیں۔ کوئی خوددار شخص اس قسم کی حرکت کا ارتکاب نہیں کیا کرتا جو یہ توقع کرتا ہو کہ لوگ اسے اچھی نظروں سے دیکھیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اس قسم کے شخص کی باتیں سنتے ہیں وہ بھی اسے اچھا نہیں سمجھتے۔ دل سے یہ لوگ بھی اسے برا سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ کاش یہ شخص یہ بری بات انہیں نہ بتاتا۔

حضور اکرم ﷺ اس بات کو پسند نہ فرماتے تھے کہ آپ کو ایسی بات بتائی جائے جس سے آپ کا دل اپنے کسی صحابی سے خفا ہو۔ آپ فرماتے : ” کوئی شخص مجھے میرے ساتھی کی ایسی بات نہ بتائے کیونکہ میں پسند کرتا ہوں کہ میں تمہارے پاس نکلوں اور میرا دل تمہارے بارے میں صاف ہو “۔ (ابوداﺅ وغیرہ) صحیحین میں ہے : ” رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا یہ دونوں عذاب میں مبتلا ہیں اور یہ کسی بڑے جرم میں سزاوار نہیں ہیں۔ ایک تو اس لئے کہ یہ پیشاب سے اپنے آپ کو بچاتا نہ تھا اور دوسرا چغل خور تھا “۔

امام احمد نے حضرت حذیفہ کی یہ حدیث نقل کی ہے ” جنت میں چغلی کھانے والا داخل نہ ہوگا “۔ (ابن ماجہ)

امام احمد نے بریدہ ابن الحکم کی روایت نقل کی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا بتاﺅں میں کہ تم میں سے اچھا کون ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا جی ہاں یارسول اللہ ! ” وہ لوگ جب ان کو دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے “۔ پھر فرمایا کہ بتاﺅں کہ برے لوگ کون ہیں ؟ “۔ وہ جو چغلی کھاتے ہیں ، جو دوستوں کے درمیان دشمنی پیدا کرتے ہیں جو پاک دامن لوگوں میں ، عیب تلاش کرتے ہیں “۔

اسلام کے لئے اس قسم کی بری خصلت کی مذمت بہت ضروری تھی ، کیونکہ یہ خصلت مذموم ، گری ہوئی اور سوسائٹی میں فساد ڈالنے والی ہے ، جس طرح دوستوں میں فساد پیدا کرتی ہے اور اس قسم کے شخص کو ننگا کرنا ضروری تھا ، قبل اس کے کہ وہ اسلامی سوسائٹی کے اندر فساد پیدا کردے ، لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے بھر دے ، اور قبل اس سے کہ وہ سوسائٹی کی سلامتی کو نقصان پہنچائے۔ ایسے لوگ اکثر اوقات بےگناہ لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

5۔ مناع للخیر (86 : 21) (بھلائی سے روکنے والا) یعنی وہ بھلائی سے اپنے آپ کو بھی محروم کرتا ہے اور دوسروں کو بھی۔ یہ شخص لوگوں کو ایمان روکتا تھا ، حالانکہ ایمان بھلائی کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس شخص کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شخص اپنی اولاد اور اہل خاندان سے کہا کرتا تھا : ” اگر تم میں سے کسی نے دین محمد کو قبول کیا تو میں اسے کبھی بھی نفع نہ پہنچاﺅں گا “۔ جس کے بارے میں اسے شک ہوتا کہ وہ دین اسلام کی طرف مائل ہے۔ یوں ان کو وہ اس طرح دھمکی دے کر ڈراتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس کی اس حرکت کو بھی ریکارڈ کردیا کہ وہ بھلائی سے روکنے والا ہے۔

6۔ معتد (86 : 21) (ظلم و زیادتی میں حد سے گزرنے والا ہے) حق اور عدل سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ نبی ﷺ پر یہ شخص تعدی کرتا ، مسلمانوں پر ظلم کرتا ، اپنے خاندان والوں پر ظلم کرتا ، اور ان کو ہدایت اور دین حق سے روکتا۔ کسی پر ظلم کرنا بہت ہی بری حرکت ہے اور قرآن وسنت میں اس کی شخت ممانعت کی گئی ہے۔ اسلام ظلم کی ہر صورت کی بیخ کنی چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ کھانے اور پینے میں بھی۔

کلوا ................ تطغوا ” جو رزق ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاﺅ اور حد سے نہ گزرو “۔ عدل اور اعتدال اسلام کا بنیادی اصول اور اسلام کی نشانی ہے۔

7۔ اثیم (86 : 21) (بداعمال ہے) وہ برے اعمال کا ارتکاب کرتا ہے گویا اثم کی صفت اس کے ساتھ لازم ہوگئی ہے۔ پس یہ گنہگار ہے ، اور ہر قسم کے معاصی کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ صفت اس کے ساتھ لازم ہے۔ گویا اس کا مزاج ہی ایسا ہے کہ ہر برائی کا ارتکاب کرے۔

8۔ عتل (86 : 31) (جفاکار) یہ ایک لفظ ہے جو اپنے تلفظ اور مفہوم کی رنگارنگی کی وجہ سے کئی معانی دیتا ہے ، یہ ایک ایسا جامع مفہوم دیتا ہے کہ کئی الفاظ اس کو ادا نہیں کرسکتے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عتل کے معنی شخت اور خشک کے ہیں ، یعنی ظالم۔ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ بہت کھانے اور پینے والا ہے۔ اور سخت وحشی اور روکنے والا ہے ، اپنی مذموم طبیعت میں بیگانہ ہے۔ معاملات میں برا ہے۔

حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے : ” عتل ، بڑے پیٹ والا ، کج خلق ، بہت کھانے والا ، بہت پینے والا ، دولت جمع کرنے والا ، اور بخیل وکنجوس ہوتا ہے “۔ لیکن لفظ عتل میں یہ سب مفہوم اس کی کرخت آواز ہی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنی وہ شخص جو مکارم اخلاق کے ہر پہلو سے کریمہ المنظر ہو۔

9۔ زنیم (86 : 31) ” بےاصل “ یہ اخلاق ذمیمہ کا خاتمہ ہے۔ یہ اسلام کے دشمنوں میں سے ایک دشمن کی صفات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ایسے ہی مکروہ لوگ ہوسکتے ہیں۔ زنیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی قوم کے ساتھ لاحق ہوگیا ہو اور وہ دراصل ان میں سے نہ ہو ، یا یہ کہ ان میں اس کی نسب مشکوک ہو اور اس کے مفاہم میں یہ بھی ہے کہ جو شخص لوگوں میں خباثت ، ذلت اور شرارتوں میں بہت ہی مشہور ہو ، اسے بھی زنیم کہا جاتا ہے۔ دوسرا مفہوم زیادہ قریب ہے اور ولید ابن مغیرہ زیادہ فٹ آتا ہے۔ اگرچہ اس لفظ کا اطلاق اس پر ایسی صفت چسپاں کرتا ہے کہ قوم میں وہ ہلکا ہو جبکہ وہ زیادہ فخر کرنے والا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والا ہو۔

اردو ترجمہ

طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hammazin mashshain binameemin

اردو ترجمہ

بھلائی سے روکتا ہے، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے، سخت بد اعمال ہے، جفا کار ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

MannaAAin lilkhayri muAAtadin atheemin

اردو ترجمہ

اور اَن سب عیوب کے ساتھ بد اصل ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAutullin baAAda thalika zaneemin

اردو ترجمہ

اِس بنا پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

An kana tha malin wabaneena

اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ ان ذاتی صفات کے علاوہ اس نے دین اسلام کے خلاف یہ موقف جو اختیار کررکھا ہے یہ اس لئے ہے کہ اللہ نے اس کو مال و دولت اور اولاد دی ہے۔

ان کان .................... الاولین (51) (86 : 41۔ 51) ” اس بنا پر کہ وہ بہت مال اور اولاد رکھتا ہے “۔ جب ہماری آیات اس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں۔ کیا ہی بری بات ہے کہ ایک انسان کو اللہ مال و دولت دے اور وہ اس کے بدلے میں ، اللہ کی آیات کے ساتھ استہزا کرے۔ اور اللہ کے رسول کے ساتھ مذاق کرے۔ اور اللہ کے دین پر دست درازی کرے صرف یہی ایک صفت مذکورہ بالا تو صفات سے زیادہ بھاری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سخت توہین آمیز تہدید آتی ہے۔ یہ جبار وقہار کی تہدید ہے۔ یہ اپنے آپ کو بڑا اور طاقتور سمجھتا ہے۔ مال اور اولاد پر فخر کرتا ہے۔ اپنے مقام ، مرتبے اور نسب اور شرارتوں پر فخر کرتا ہے۔ اگر یہ طاقتور ہے تو۔

اردو ترجمہ

جب ہماری آیات اُس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha tutla AAalayhi ayatuna qala asateeru alawwaleena
564