اس صفحہ میں سورہ Al-Qalam کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القلم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ۔ } ”ن ‘ قسم ہے قلم کی اور جو کچھ یہ لکھتے ہیں۔“ یعنی قلم بھی اور جو علمی ذخیرہ قلم کے ذریعہ نوع انسانی کے ہاں اب تک وجود میں آیا ہے وہ بھی اس حقیقت پر گواہ ہے کہ :
آیت 2 { مَـآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ۔ } ”آپ اپنے رب کے فضل و کرم سے مجنون نہیں ہیں۔“ اے نبی ﷺ ! جو لوگ آپ کو مجنون کہہ رہے ہیں وہ خود احمق ہیں جو یہ تک نہیں جانتے کہ مجنون کیسے ہوتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو آپ ﷺ کی پاکیزہ اور اعلیٰ اخلاق کی حامل سیرت نظر نہیں آتی ؟ کیا یہ لوگ واقعتا سمجھتے ہیں کہ مجنون لوگوں کی زندگی کا نقشہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے ؟ تو اے نبی ﷺ ! آپ ان لوگوں کی فضول اور لایعنی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔
آیت 4{ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ } ”اور آپ ﷺ یقینا اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔“ آپ ﷺ اپنے اخلاق اور کردار کے بلند ترین معیار کے باعث پہلے سے ہی معراجِ انسانیت کے مقام پر فائز تھے ‘ جبکہ اب آپ ﷺ معراجِ نبوت و رسالت کے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔
آیت 5{ فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ۔ } ”تو عنقریب آپ ﷺ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔“ یہ بڑا پیارا اور ناصحانہ انداز ہے۔ جیسے کوئی بڑا کسی چھوٹے کو سمجھاتا ہے کہ آپ مخالفانہ باتوں پر آزردہ نہ ہوں ‘ کچھ ہی دنوں کی بات ہے ‘ اصل حقیقت بہت جلد کھل کر سامنے آجائے گی۔ پھر کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں رہے گا :
آیت 6{ بِاَیِّکُمُ الْمَفْتُوْنُ۔ } ”کہ تم میں سے کون فتنے میں مبتلا تھا !“ بہت جلد دنیا پر واضح ہوجائے گا کہ تم دونوں فریقوں میں سے کون فتنے میں مبتلا ہوگیا تھا اور کون راہ راست پر تھا۔ کیا محمد بن عبداللہ ﷺ کو جنون کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا معاذ اللہ ! یا آپ ﷺ کے مخالفین جوشِ تعصب میں پاگل ہوگئے تھے ؟
آیت 7{ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ } ”یقینا آپ ﷺ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے“ { وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۔ } ”اور وہ ان کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں۔“ یہ وہ آیات تھیں جو اکثر مفسرین کے نزدیک دوسری وحی میں نازل ہوئی تھیں۔ یہاں سے آگے نیا مضمون شروع ہو رہا ہے۔
آیت 9{ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ۔ } ”وہ تو چاہتے ہیں کہ آپ ﷺ ذرا ڈھیلے پڑیں تو وہ بھی ڈھیلے پڑجائیں۔“ باطل کا تو وطیرہ ہے کہ پہلے وہ حق کو جھٹلاتا ہے ‘ پھر جب اس کے مقابلے میں کھڑے ہونا مشکل نظر آتا ہے تو مداہنت compromise پر اتر آتا ہے۔ لیکن حق کسی قسم کی مداہنت یا کسی درمیانی راستے کو نہیں جانتا۔ بقول اقبال ؎باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول ! اگلی آیات میں نام لیے بغیر انتہائی سخت الفاظ میں ایک کردار کا ذکر ہوا ہے۔ کسی معتبر روایت سے تو ثابت نہیں لیکن زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ ان آیات کا مصداق ولید بن مغیرہ تھا :
آیت 10{ وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ۔ } ”اور آپ ﷺ مت مانیے کسی ایسے شخص کی بات جو بہت قسمیں کھانے والا انتہائی گھٹیا ہے۔“ ان دونوں خصوصیات کا آپس میں فطری تعلق ہے۔ اپنی شخصیت کے ہلکے پن کی تلافی کرنے کے لیے بات بات پر قسمیں کھانا ہر گھٹیا آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لفظ ”مَہِیْن“ ذلیل و حقیر اور گھٹیا آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔
آیت 13{ عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ۔ } ”بالکل گنوار ہے ‘ اس کے بعد یہ کہ بداصل بھی ہے۔“ یعنی مذکورہ بالا خصلتیں تو اس کی شخصیت میں ہیں ہی ‘ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ بےنسب بھی ہے۔
آیت 14{ اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِیْنَ۔ } ”صرف اس گھمنڈ پر کہ وہ مال و دولت اور بیٹوں والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے ولید بن مغیرہ کو کثیر مال و دولت کے علاوہ بہت سے بیٹوں سے بھی نواز رکھا تھا۔ اور بیٹے بھی ایسے کہ ان میں سے ایک کو قبول اسلام کے بعد ”سَیْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ“ کا مرتبہ ملا۔ یعنی حضرت خالد بن ولید رض !