سورہ التین (95): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Tin کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التين کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ التین کے بارے میں معلومات

سورہ التین کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

قسم ہے انجیر اور زیتون کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waaltteeni waalzzaytooni

اللہ انسانی فطرت مستقیمہ پر انجیر ، زیتون ، طور سینا اور پرامن شہر مکہ کی قسم اٹھائی ہے۔ اور یہ قسم دراصل اس حقیقت یعنی فطرت انسان کے لئے ایک موزوں اور مناسبت فریم کا کام دیتی ہے۔ ہم اس سے قبل ثابت کرچکے ہیں کہ جس حقیقت کی تصویر کو فریم کرنے کے لئے جن مناظر قدرت کی قسم اٹھائی جاتی ہے اس حقیقت اور مناظر قدرت کے درمیان ایک خاص مناسبت ہوتی ہے اور یہ کسی جگہ واضح اور کسی جگہ بہت دقیق ولفیف ہوتی ہے۔

طور سینین سے مراد وہ پہاڑ ہے جس کے دامن میں اللہ اور موسیٰ علیہ اسلام کے درمیان مکالمہ ہوا تھا اور بلد امین سے مراد شہر مکہ ہے۔ ان دونوں مقامات کا دینی حقائق کے ساتھ تعلق بالکل واضح ہے۔ انجیر اور زیتون تو بظاہر ان دونوں کا تعلق واضح نہیں ہے کہ ان کا فطرت انسانی اور تخلیق انسانی یا دینی حقائق کے ساتھ کیا تعلق ہے۔

تین اور زیتون کی تفسیر میں روایات اور اقوال بہت وارد ہیں۔ بعض اقوال میں آیا ہے کہ ” تپن “ سے مراد ” طوتینا “ کا مقام ہے جو دمشق کے قریب ہے .... بعض نے کہا کہ تین سے راد وہ درخت ہے جس کے پتے حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) نے اپنے جسم پر لپیٹے تھے ، جبکہ جنگ میں شیطان کے ورخلانے پر ان کا لباس سے محروم ہونا پڑا تھا۔ اور اس کے بعد یہ دونوں زمین پر اتارے گئے تھے اور انہوں نے یہاں زندگی کا آغاز کیا تھا۔ بعض اقوال میں یہ تفسیر کی گئی ہے کہ اس سے مراد کشتی نوح کے رکنے اور ٹھہرنے والی پہاڑی ہے جس میں انجیر کے درخت زیادہ اگے ہوئے تھے۔

زیتون کے بارے میں بہت سے اقوال وارد ہیں ، بعض کے مطابق اس سے مراد ” طورزیتا “ ہے جو بیت المقدس میں ہے ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد خود بیت المقدس ہے ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد زیتون کی وہ شاخ ہے جو وہ کبوتر لے کر آیا تھا جسے حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی سے چھوڑا تھا ، تاکہ آپ طوفان کے حالات کا مطالعہ کریں جب یہ کبوتر زیتون کی شاخ لے کر آیا تو آپ نے معلوم کرلیا کہ زمین کے بعض حصوں سے پانی اتر گیا ہے اور وہاں درخت اگ آئے ہیں۔

بعض حضرات اس طرف گئے ہیں کہ تین اور زیتون سے وہی پھل مراد ہیں جو ہم کھاتے ہیں اور جانتے ہیں اور ان سے کوئی اشاراتی مفہوم مراد نہیں ہے۔ یا اگر کوئی ہے تو صرف وہ جگہ ہے جہاں یہ اگتے ہیں۔ یہ تو تھے اقوال۔ جہاں تک زیتون کا تعلق ہے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی اس کا ذکر آیا ہے کہ یہ طور کے پہاڑ میں لگتا ہے۔

وشجرة ............................ للا کلین (20:23) ” اور وہ درخت جو طور سینا سے نکلتا ہے تیل کی پیداوار دیتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن ہے “ اور سورة عبس میں ہے۔

وزیتونا ونخلا (29:80) ” اور زیتون اور کھجور کے درخت “۔ جبکہ تین کا ذکر پورے قرآن مجید میں صرف اس جگہ آیا ہے۔

لہٰذا مذکورہ بالا اقوال میں سے کسی ایک کے بارے میں ہم کوئی قطعی بات نہیں کرسکتے ، البتہ پورے قرآن مجید میں قسموں کے معاملے میں قرآن کریم کے انداز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تین اور زیتون سے اشارہ ایسے مقامات یا ایسے واقعات کی طرف ہو جن کا تعلق دین اور ایمان سے ہو ، یا اس بات سے ہو جو جواب قسم کے طور پر آرہی ہے کہ انسان کو ہم نے ایک بہترین انداز پر پیدا کیا۔ شاید جنت کی وہ جگہ مراد ہو جہاں انسان نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تاکہ ان دونوں قسموں کا یہ اشارہ بھی قرآن کریم کے عام انداز کے ساتھ ہم رنگ ہوجائے اور یہ فریم اس تصویر کے ہم آہنگ ہوجائے جو اس میں ہے۔ موضوع کے اعتبار سے سورت میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے :

اردو ترجمہ

اور طور سینا کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watoori seeneena

اردو ترجمہ

اور اِس پرامن شہر (مکہ) کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahatha albaladi alameeni

اردو ترجمہ

ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad khalaqna alinsana fee ahsani taqweemin

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے آغاز تخلیق ہی سے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا اور حضرت انسان پر اللہ کی نظر عنایت رہی ہے ، ویسے تو اللہ ہر چیز کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے ، لیکن اس مقام پر اور دوسرے مقامات پر انسانی ساخت کی موزونیت کا ذکر ، اور انسان کے تسویہ اور اس کے اعضا کی تعدیل کا ذکر اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کے ہاں اپنی مخلوقات میں سے انسان کی اہمیت بہت زیادہ ہے ، باوجود اس کے کہ انسان میں بہت سی کمزوریاں ہیں اور یہ کہ وہ راہ راست سے بھٹک جاتا ہے اور فطری راہ کو چھوڑ کر غلط راہوں پر چلتا ہے اور شروفساد میں مبتلا ہوتا ہے۔ پھر بھی اللہ کی طرف سے اس کی طرف یہ توجہ بتاتی ہے کہ اللہ کے ہاں انسان کا ایک مقام و مرتبہ ہے اور یہ مقام و مرتبہ اس پوری کائنات کے نظام میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور اس کی ساخت کو نہایت اعلیٰ درجے کا بتایا ہے۔ جسمانی اعتبار سے بھی یہ مخلوق نہایت مکمل اور پیچیدہ نظام رکھتی ہے اور عقلی اعتبار سے بھی یہ تمام مخلوق سے برتر ہے اور روحانی کمالات کے اعتبار سے بھی یہ بہت ممتاز اور باکمال ہے۔

یہاں زیادہ اہمیت انسان کے روحانی پہلوکو دی گئی ہے۔ کیونکہ انسان اگر روحانی پہلو سے راہ فطرت کو چھوڑ دے اور غلط راہوں پر پڑجائے اور ایمان کے بجائے کفر کو اختیار کرے تو بہت گر جاتا ہے۔ تمام مخلوقات سے نیچے چلا جاتا ہے اس لئے کہ انسان اپنی جسمانی ساخت تو نہیں بدل سکتا ، سب سے نیچی سطح پر یہ اگر گرتا ہے ، تو روحانی اعتبار سے گرتا ہے۔

یہ روحانی خصوصیات ہی ہیں جن کی اساس پر انسان تمام دوسری مخلوقات پر فائق ہے۔ انسان ان خصوصیات کی بنا پر اس قابل ہے کہ ملائکہ مقربین سے بھی اونچے مقام تک چلا جائے ، قصہ معراج اس بات پر دلیل ہے کہ ایک مقام تک جبرائیل (علیہ السلام) گئے اور پھر رک گئے اور حضرت محمد ﷺ اس مقام سے آگے چلے گئے ، بہت زیادہ بلندیوں اور رفعتوں تک۔ اور یہی مخلوق انسان اگر گرنے پہ آئے تو یہ اس مقام تک گرتا ہے جس تک دوسری کوئی مخلوق نہیں گرتی۔

اردو ترجمہ

پھر اُسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma radadnahu asfala safileena

ثم رددنہ ........................ سفلین (5:95) ” پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے نیچوں سے نیچا کردیا “۔ اس قدر نیچے کہ بہائم بھی اس سے بلند نظر آنے لگے ، وہ ایسے انسانوں کے مقابلے میں سیدھی راہ پر نظر آنے لگے کیونکہ وہ فطرت پر قائم ہوتے ہیں ، ان کو اللہ کی تسبیح وتہلیل کا الہام ہوتا ہے اور وہ اس کرہ ارض پر جس مقصد کے لئے پیدا کیے گئے ہیں اسے پورا کرتے رہتے ہیں حالانکہ اس انسان کو دوسرے بہائم کے مقابلے میں نہایت ہی اچھی ساخت پر پیدا کیا گیا تھا ، لیکن یہ رب تعالیٰ کا انکار کرنے لگا اور ایسے گہرے گڑھے میں گرا کہ اس سے زیادہ اور کوئی گہرائی اور گراوٹ نہ رہی۔

لقد خلقنا ........................ تقویم (4:95) ” ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا “۔ یعنی اپنی فطرت اور اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے وہ بہترین تھا۔

ثم رددنہ .................... سفلین (5:95) ” پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے نیچوں سے نیچا کردیا “۔ جب اس نے اپنی فطرت کو اس سطح سے گرادیا جو اس کے لئے رب تعالیٰ نے مقرر کی تھی اور یہ تشریح کردی تھی کہ اس خط سے نیچے گراوٹ ہے اور اوپر انسانیت اور فطرت ہے۔

اردو ترجمہ

سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati falahum ajrun ghayru mamnoonin

الاالذین ............................ الصلحت (6:95) ” سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے “۔ تو یہ وہ لوگ ہیں جو فطرت کی راہ پر سیدھے قائم رہتے ہیں اور ایمان اور عمل صالح کے ساتھ اپنی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور پھر اس کمال تک پہنچتے ہیں جو ان کے لئے مقدر کردیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اکمل الکاملین بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے۔

فلھم .................... ممنون (6:95) ” ان کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے “۔ یعنی دائمی اور نہ رکنے اور نہ کٹنے والا۔ وہ لوگ جو اپنی فطرت کو نیچے سے نیچے گرالیتے ہیں ، تو وہ نیچے ہی گرتے چلے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ جہنم کے بھی سب سے نچلے مرتبے میں ہوتے ہیں جہاں ان کی انسانیت کی آخری علامت بھی ختم ہوجاتی ہے اور وہ مجسم گراوٹ بن جاتے ہیں۔

اعلیٰ علین اور اسفل سافلین دراصل دوانتہائی مقامات ہیں اور دونوں کا آغاز مقام فطرت کے خط مستقیم سے ہوتا ہے۔ مقام فطرت سے انسان ایمان وعمل صالح سے اٹھتارہتا ہے اور اٹھتے اٹھتے اپنے مقام مقرر جنت نعیم تک پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر انسان فطرت سے انحراف کرلے اور نیچے کی طرف کرتا رہے اور روحانیت سے اپنا رشتہ کاٹ لے تو جہنم تک پہنچ کر اس کے بھی نچلے درجے میں جاگرتا ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی میں ایمان کی قدروقیمت کیا ہے۔ یہ وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسان مقام بلند تک پہنچتا ہے۔ ایمان وہ رسی ہے جو انسانی فطرت اور اس کے خالق کے درمیان رابطے کا کام دیتی ہے۔ اور یہ وہ روشنی ہے جس کے نور میں یہ اس مقام تک قدم بقدم بڑھتا ہے جو نہایت مکرم لوگوں کے لئے تیار کیا گیا ہے۔

جب یہ رابطہ ٹوٹ جاتا ہے جب یہ چراغ بجھ جاتا ہے ، تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانیت نہایت ہی گہرے گڑھے میں گر جاتی ہے اور گرتی چلی جاتی ہے ، آدمیت حیوانات سے بھی نیچے چلی جاتی ہے۔ اور انسان مٹی کا ایک بت رہ جاتا ہے اور پھر یہ پتھر کی طرح جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔ اس فضا اور ماحول میں انسان کے نام ایک کال آتی ہے :

اردو ترجمہ

پس (اے نبیؐ) اس کے بعد کون جزا و سزا کے معاملہ میں تم کو جھٹلا سکتا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fama yukaththibuka baAAdu bialddeeni

“ اے نبی ان حقائق کے ہوتے ہوئے کیا کوئی معقول شخص عقیدہ آخرت کے بارے میں آپ کو کوئی جھٹلا سکتا ہے ، خصوصاً جب کہ انسانیت کی قدروقیمت ایمان کا بڑا مقام ہے اور یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کا انجام کس قدر گھناﺅنا ہے جو نور سے محروم ہوتے ہیں اور جن کے ہاتھوں سے اللہ کی مضبوط رسی چھوٹ چکی ہوتی ہے۔

الیس اللہ ................ الحکمین (8:95) ” کیا اللہ سب حاکموں میں سے بڑا حاکم نہیں ہے “۔ کہ وہ سب سے بڑا منصف نہیں ہے ، جبکہ وہ لوگوں کے درمیان یوں انصاف کررہا ہے۔ کیا مومنین کا انجام اور کافرین کا یہ انجام حکمت بالغہ پر مبنی نہیں ہے ؟ انصاف واضح ہے ، حکمت نہایت بلند ہے ، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مرفوع حدیث روایت ہے کہ جب تم میں سے کسی نے سورة تین اور زیتون کو پڑھا اور وہ آخر تک پڑھ چکا اور اس نے پڑھا۔

الیس اللہ ................ الحکمین (8:95) ” تو اسے کہنا چاہئے ” ہاں اور میں اس پر شہادت دینے والوں میں سے ہوں “۔

اردو ترجمہ

کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alaysa Allahu biahkami alhakimeena
597