سورہ شوریٰ (42): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ash-Shura کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الشورى کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ شوریٰ کے بارے میں معلومات

Surah Ash-Shura
سُورَةُ الشُّورَىٰ
صفحہ 483 (آیات 1 سے 10 تک)

حمٓ عٓسٓقٓ كَذَٰلِكَ يُوحِىٓ إِلَيْكَ وَإِلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكَ ٱللَّهُ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۖ وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْعَظِيمُ تَكَادُ ٱلسَّمَٰوَٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِن فَوْقِهِنَّ ۚ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِى ٱلْأَرْضِ ۗ أَلَآ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ ٱللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ وَمَآ أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ قُرْءَانًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ ٱلْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ ٱلْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِى ٱلْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِى ٱلسَّعِيرِ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَٰحِدَةً وَلَٰكِن يُدْخِلُ مَن يَشَآءُ فِى رَحْمَتِهِۦ ۚ وَٱلظَّٰلِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ أَمِ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ ۖ فَٱللَّهُ هُوَ ٱلْوَلِىُّ وَهُوَ يُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ وَمَا ٱخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَىْءٍ فَحُكْمُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبِّى عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
483

سورہ شوریٰ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ شوریٰ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

آیت 1 { حٰمٓ۔ ”ح ‘ م۔“

اردو ترجمہ

ع س ق

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAaynseenqaf

آیت 2 { عٓسٓقٓ۔ ”ع ‘ س ‘ ق۔“ سورة الشوریٰ قرآن کی ان دو سورتوں میں سے ایک ہے جن کے آغاز میں پانچ پانچ حروفِ مقطعات آئے ہیں ‘ لیکن اس زمرے میں بھی یہ سورت اس لحاظ سے منفرد و یکتا ہے کہ اس کے آغاز میں حروفِ مقطعات کی دو آیات ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس سورت سے بھی خصوصی نسبت ہے اور اس کی وجہ بھی سورة الحدید کے ساتھ میری نسبت ہی ہے۔ دراصل مضامین کے حوالے سے مدنی قرآن میں جو مقام سورة الحدید کا ہے بعینہٖ وہی مقام سورة الشوریٰ کا مکی قرآن میں ہے۔ سورة الشوریٰ حجم 53 آیات کے لحاظ سے سورة الحدید 29 آیات سے تقریباً دو گنا ہے ‘ اور مکی قرآن چونکہ حجم کے اعتبار سے مدنی قرآن سے دو گنا ہے اس لیے ان دونوں سورتوں کے مابین حجم کے اس تناسب سے بھی یہی لگتا ہے کہ مکی قرآن کے اندر سورة الشوریٰ گویا سورة الحدید کا بدل ہے۔

اردو ترجمہ

اِسی طرح اللہ غالب و حکیم تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے (رسولوں) کی طرف وحی کرتا رہا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kathalika yoohee ilayka waila allatheena min qablika Allahu alAAazeezu alhakeemu

آیت 3 { کَذٰلِکَ یُوْحِیْٓ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لا اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } ”اے نبی ﷺ ! اسی طرح وحی کرتا ہے آپ کی طرف اور ان کی طرف بھی کرتا رہا ہے جو آپ سے پہلے تھے وہ اللہ جو بہت زبردست ‘ بہت حکمت والا ہے۔“ رسول اللہ ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے دراصل آپ ﷺ کے مخاطبین کو بتایا جارہا ہے کہ یہ مضامین جس طرح آپ ﷺ کی طرف وحی کیے جا رہے ہیں اسی طرح آپ ﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء کرام علیہ السلام کو بھی وحی کیے جا چکے ہیں۔ کَذٰلِکَ میں وحدت مدعا کی طرف بھی اشارہ ہے اور طریقہ وحی کی یکسانیت کی طرف بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسل علیہ السلام کو انہی باتوں کی تعلیم دی ہے جن کی تعلیم آپ ﷺ کو دی جا رہی ہے۔ اس کی وضاحت آگے آیت 13 میں آرہی ہے : { شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ …} نیز اس تعلیم کے لیے پہلے بھی یہی طریقہ اختیار فرمایا جو آپ ﷺ کے لیے اختیار فرمایا ہے ‘ یعنی وحی کا نزول۔ اس کی وضاحت آیت 51 میں آرہی ہے۔ مذکورہ آیت میں وحی کی اقسام کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کن کن طریقوں سے انسانوں پر وحی بھیجتا رہا ہے۔ وحی کی ان اقسام کا ذکر میں نے اپنے لیکچر ”تعارفِ قرآن“ میں بھی کیا ہے ‘ جو ”بیان القرآن“ حصہ اول میں بھی شامل ہے۔

اردو ترجمہ

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اُسی کا ہے، وہ برتر اور عظیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahu ma fee alssamawati wama fee alardi wahuwa alAAaliyyu alAAatheemu

آیت 4 { لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ } ”اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور وہ بہت بلند وبالا ‘ بہت عظمت والا ہے۔“

اردو ترجمہ

قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں درگزر کی درخواستیں کیے جاتے ہیں آگاہ رہو، حقیقت میں اللہ غفور و رحیم ہی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Takadu alssamawatu yatafattarna min fawqihinna waalmalaikatu yusabbihoona bihamdi rabbihim wayastaghfiroona liman fee alardi ala inna Allaha huwa alghafooru alrraheemu

آیت 5 { تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِہِنَّ } ”قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں“ آسمان فرشتوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ اتنے بڑے اجتماع کی وجہ سے آسمان پھٹنے کے قریب ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آسمانوں میں کوئی ایک بالشت برابر بھی جگہ خالی نہیں کہ جہاں کوئی فرشتہ سربسجود نہ ہو یا قیام میں مصروف نہ ہو۔ سورة المدثر آیت 31 میں فرشتوں کی کثرت تعداد سے متعلق ان الفاظ میں اشارہ فرمایا گیا ہے : { وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَط } کہ آپ کے رب کے لشکروں کے بارے میں سوائے خود اس کے اور کوئی نہیں جانتا۔ { وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ } ”اور فرشتے تسبیح کرتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور زمین میں جو اہل ایمان ہیں ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔“ سورة المومن آیت 7 میں بھی ہم پڑھ آئے ہیں کہ حاملین عرش اور ان کے ساتھی فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اہل ایمان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔ { اَلَآ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ } ”آگاہ ہو جائو ! یقینا اللہ ہی بخشنے والا ‘ رحم کرنے والا ہے۔“

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے اُس کو چھوڑ کر اپنے کچھ دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں، اللہ ہی اُن پر نگراں ہے، تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena ittakhathoo min doonihi awliyaa Allahu hafeethun AAalayhim wama anta AAalayhim biwakeelin

آیت 6 { وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ } ”اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسرے مددگار بنا رکھے ہیں“ { اللّٰہُ حَفِیْظٌ عَلَیْہِمْ وَمَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیْلٍ } ”اللہ ان پر نگران ہے ‘ اور اے نبی ﷺ ! آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔“ وہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن وہ معبود ان کی شفاعت کریں گے اور ان کے ذریعے سے انہیں اللہ کا قرب حاصل ہوجائے گا ‘ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ ان کے سارے افعال کی نگرانی کر رہا ہے اور ان کا نامہ اعمال تیار ہو رہا ہے۔ ان کا محاسبہ اور مواخذہ کرنا اسی کا کام ہے۔

اردو ترجمہ

ہاں، اِسی طرح اے نبیؐ، یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے تاکہ تم بستیوں کے مرکز (شہر مکہ) اور اُس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبردار کر دو، اور جمع ہونے کے دن سے ڈرا دو جن کے آنے میں کوئی شک نہیں ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakathalika awhayna ilayka quranan AAarabiyyan litunthira omma alqura waman hawlaha watunthira yawma aljamAAi la rayba feehi fareequn fee aljannati wafareequn fee alssaAAeeri

آیت 7 { وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا } ”اور اسی طرح ہم نے وحی کیا ہے آپ کی طرف یہ قرآن عربی“ آیت 3 کی طرح یہاں پر بھی وحی کے ذکر کے ساتھ لفظ کَذٰلِکَ آیا ہے۔ اس کی وضاحت قبل ازیں کی جاچکی ہے۔ { لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا } ”تاکہ آپ خبردار کردیں بستیوں کے مرکز اور اس کے ارد گرد رہنے والوں کو“ بالکل یہی الفاظ سورة الانعام کی آیت 92 میں بھی آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی قوم پر اتمامِ حجت کرنے کا یہ وہی طریقہ اور اصول ہے جس کا ذکر سورة القصص کی آیت 59 میں اس طرح ہوا ہے : { وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا } ”اور نہیں ہے آپ کا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا ‘ جب تک کہ وہ ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہیں بھیجتا“۔ جزیرہ نمائے عرب کی ”اُمّ القری“ یعنی مرکزی بستی چونکہ مکہ ہے اس لیے مذکورہ اصول کے تحت اس مرکزی بستی میں نبی آخر الزماں ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا۔ بلکہ ایک اعتبار سے تو مکہ پوری دنیا کا ”اُمّ القریٰ“ ہے۔ اس لیے کہ حَوْلَ کے معنی اردگرد کے ہیں اور ”اردگرد“ کی حدود کسی خاص نقطے تک محدود نہیں کی جا سکتیں۔ چناچہ ایک مرکزی مقام کے ارد گرد کے دائرے کو اگر بڑھاتے جائیں تو یہ دائرہ پوری دنیا تک پھیل جائے گا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے سورة الانعام کی آیت 92 کے تحت بھی گزر چکی ہے۔ { وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ } ”اور آپ ﷺ خبردار کردیں اس جمع ہونے والے دن سے جس میں کوئی شک نہیں۔“ { فَرِیْقٌ فِی الْْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ } ”اُس دن ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں۔“

اردو ترجمہ

اگر اللہ چاہتا تو اِن سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، مگر وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے، اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مدد گار

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw shaa Allahu lajaAAalahum ommatan wahidatan walakin yudkhilu man yashao fee rahmatihi waalththalimoona ma lahum min waliyyin wala naseerin

آیت 8 { وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَہُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً } ”اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں ایک ہی امت بنا دیتا“ اللہ ایسے بھی کرسکتا تھا کہ دنیا کے تمام انسان مومن ہوتے۔ { وَّلٰکِنْ یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآئُ فِیْ رَحْمَتِہٖ } ”لیکن اللہ داخل کرتا ہے اپنی رحمت میں جس کو چاہتا ہے۔“ ان الفاظ کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے : ”لیکن اللہ داخل کرتا ہے اپنی رحمت میں اس کو جو چاہتا ہے“۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت یا مغفرت اور جنت کی نعمتیں صرف اسی کو عطا کرتا ہے جو ان کی خواہش رکھتا ہو اور اپنی محنت کی صورت میں ان کی قیمت بھی ادا کرنے کو تیار ہو۔ اس حوالے سے سورة التوبہ کی آیت 111 کے یہ الفاظ بھی ہر اہل ِایمان کے پیش نظررہنے چاہئیں : { اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط } ”یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔“ { وَالظّٰلِمُوْنَ مَا لَہُمْ مِّنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ } ”اور جو ظالم کافر و مشرک ہوں گے ان کے لیے نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ کوئی مددگار۔“

اردو ترجمہ

کیا یہ (ایسے نادان ہیں کہ) اِنہوں نے اُسے چھوڑ کر دوسرے ولی بنا رکھے ہیں؟ ولی تو اللہ ہی ہے، وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ami ittakhathoo min doonihi awliyaa faAllahu huwa alwaliyyu wahuwa yuhyee almawta wahuwa AAala kulli shayin qadeerun

آیت 9 { اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ } ”کیا انہوں نے اللہ کے سوا کوئی اور حمایتی بنا لیے ہیں ؟“ یہاں پر پھر وہی بات دہرائی گئی ہے جو پیچھے ہم آیت 6 میں پڑھ آئے ہیں۔ { فَاللّٰہُ ہُوَ الْوَلِیُّ } ”سو حمایتی تو صرف اللہ ہی ہے“ اے کم عقلو ! اللہ کو چھوڑ کر تم کدھر بھٹک رہے ہو ؟ اصل حمایتی ‘ مددگار اور کارساز تو بس وہی ہے۔ اسی کو اپنا سہارا بنائو اور اسی کو اپنا ولی مانو ! اس حوالے سے سورة البقرۃ کی آیت 257 کے یہ الفاظ اہل ایمان کے لیے بہت بڑی خوشخبری کی حیثیت رکھتے ہیں : { اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ } ”اللہ ولی ہے اہل ایمان کا وہ انہیں گمراہیوں کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔“ { وَہُوَ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} ”اور وہی ہے جو زندہ کرے گا ُ مردوں کو ‘ اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“

اردو ترجمہ

تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو، اُس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے وہی اللہ میرا رب ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور اُسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama ikhtalaftum feehi min shayin fahukmuhu ila Allahi thalikumu Allahu rabbee AAalayhi tawakkaltu wailayhi oneebu

آیت 10 { وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ } ”اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف ہے۔“ یعنی تمہارے مابین جو بھی اختلاف ہو اس کے فیصلے کا حق اللہ ہی کے پاس ہے۔ یہاں سے اس سورت کے ”مضمون خاص“ یعنی اقامت دین کی تمہید شروع ہو رہی ہے۔ چناچہ اس سلسلے میں پہلا نکتہ یہ بتایا گیا کہ اس کائنات کا اصل حاکم اللہ ہے اور حاکمیت صرف اور صرف اسی کے لیے ہے :Sovereignty belongs to HIM and HIM alone اس نکتے کو اقبالؔ نے یوں بیان کیا ہے : ؎سروری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آزری آیت کے ان الفاظ کے مفہوم کے مطابق انسانوں کے باہمی اختلافات کے فیصلوں کے لیے اللہ کا حکم آخری حکم کا درجہ رکھتا ہے اور اسی حقیقت کی تعمیل کا نام اللہ کی حاکمیت ہے۔ اگر کسی معاشرے کا پورا نظام اللہ کی حاکمیت کے تحت آجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہاں اللہ کا دین قائم ہوگیا اور توحید بالفعل اس معاشرے میں نافذ ہوگئی۔ یعنی اللہ کی مرضی اور اس کے قانون کے مطابق باقاعدہ ایک حکومت قائم ہوجانے کا نام ”اقامت دین“ ہے ‘ جو زیر مطالعہ آیات کا مرکزی مضمون ہے۔ { ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبِّیْ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُق وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ } ”وہ ہے اللہ میرا رب ‘ اسی پر میں نے ّتوکل کیا ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔“

483