سورہ التغابن (64): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Taghaabun کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التغابن کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ التغابن کے بارے میں معلومات

Surah At-Taghaabun
سُورَةُ التَّغَابُنِ
صفحہ 556 (آیات 1 سے 9 تک)

يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۖ لَهُ ٱلْمُلْكُ وَلَهُ ٱلْحَمْدُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ۖ وَإِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَؤُا۟ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِن قَبْلُ فَذَاقُوا۟ وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُۥ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَٰتِ فَقَالُوٓا۟ أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا۟ وَتَوَلَّوا۟ ۚ وَّٱسْتَغْنَى ٱللَّهُ ۚ وَٱللَّهُ غَنِىٌّ حَمِيدٌ زَعَمَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَن لَّن يُبْعَثُوا۟ ۚ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّى لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ فَـَٔامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَٱلنُّورِ ٱلَّذِىٓ أَنزَلْنَا ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ ٱلْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ ٱلتَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ وَيَعْمَلْ صَٰلِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّـَٔاتِهِۦ وَيُدْخِلْهُ جَنَّٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
556

سورہ التغابن کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ التغابن کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yusabbihu lillahi ma fee alssamawati wama fee alardi lahu almulku walahu alhamdu wahuwa AAala kulli shayin qadeerun

آیت 1{ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ } ”تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ شے جو زمین میں ہے۔“ سورة التغابن اَلْـمُسَبِّحات کے سلسلے کی آخری سورت ہے۔ اس سلسلے کی سورتوں میں سے یہ دوسری سورت ہے جس کے آغاز میں یُسَبِّحُ کا صیغہ آیا ہے۔ اس سے پہلے یہ صیغہ سورة الجمعہ کی پہلی آیت میں آیا ہے۔ باقی تینوں اَلْـمُسَبِّحات کی ابتدا میں سَبَّحَ کا صیغہ آیا ہے۔ { لَـہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ } ”اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے حمد ہے۔“ کل کائنات کی بادشاہی بھی اللہ ہی کی ہے اور کل شکر وسپاس اور تعریف و ثنا کا مستحق حقیقی بھی صرف وہی ہے۔ { وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} ”اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن، اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee khalaqakum faminkum kafirun waminkum muminun waAllahu bima taAAmaloona baseerun

آیت 2 { ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ} ”وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ‘ پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن۔“ ظاہر ہے تمام انسانوں کا خالق اللہ ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق کا شکر گزار بن کر رہے ‘ اسی کو اپنا معبود جانے اور اسی کے آگے جھکے۔ لیکن بہت سے انسان اللہ تعالیٰ کے منکر اور نافرمان ہیں۔ بظاہر تو یہ بہت عجیب بات ہے کہ مخلوق کا کوئی فرد اپنے خالق کا منکر یا نافرمان ہو لیکن واقعہ بہرحال یہی ہے۔ { وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ } ”اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔“ آیت کے مضمون کے اعتبار سے اس جملے میں بہت بڑی وعید بھی پنہاں ہے اور ایک بشارت بھی مضمر ہے۔ یعنی اللہ ایک ایک انسان کے اعتقاد و نظریہ سے باخبر ہے۔ وہ ایک ایک انسان کی ایک ایک حرکت کو بھی دیکھ رہا ہے۔ وقت آنے پر وہ اپنے سب نافرمانوں سے نپٹ لے گا۔ ان الفاظ کا بشارت والا پہلو یہ ہے کہ جو اس کے شکر گزار اور مطیع فرمان ہوں گے ان کو وہ انعام و اکرام سے نوازے گا۔ اس لیے کہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور سب کی روش سے آگاہ ہے !

اردو ترجمہ

اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے، اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے، اور اسی کی طرف آخرکار تمہیں پلٹنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa alssamawati waalarda bialhaqqi wasawwarakum faahsana suwarakum wailayhi almaseeru

آیت 3{ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ } ”اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا حق کے ساتھ“ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات عبث پیدا نہیں کی ‘ بلکہ یہ ایک بہت ہی بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے اور انسان اس کی تخلیق کی معراج ہے۔ چناچہ کائنات کی تخلیق کے ذکر کے بعد خاص طور پر تخلیق ِانسانی کا ذکر فرمایا : { وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ } ”اور اس نے تمہاری صورت گری کی تو بہت ہی عمدہ صورت گری کی۔“ انسانی ڈھانچے کی ساخت ‘ جسم کی بناوٹ ‘ چہرے کے خدوخال ‘ غرض ایک ایک عضو کی تخلیق ہر پہلو سے کامل ‘ انتہائی متناسب اور دیدہ زیب ہے۔ { وَاِلَـیْہِ الْمَصِیْرُ۔ } ”اور اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔“ کیا تم لوگ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تخلیق کے بہترین درجے پر فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم بنا کر اور بہترین صلاحیتوں سے نواز کر جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کی سی بےمقصد زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا ہے ؟ یا کیا تمہاری حیثیت اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک کھلونے کی سی ہے جسے اس نے صرف دل بہلانے کے لیے بنایا ہے اور اس کے علاوہ تمہاری تخلیق کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے ؟ نہیں ‘ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اپنی نسل کے اعتبار سے تم اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی معراج ہو۔ تمہاری تخلیق ایک بامقصد تخلیق ہے۔ ابھی تم محض ایک وقفہ امتحان سے گزر رہے ہو ‘ اس کے بعد تمہیں پلٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے اور اپنی دنیوی زندگی کے اعمال و افعال کا حساب دینا ہے۔ اگلی آیت ”ایمان بالعلم“ کے حوالے سے قرآن کی جامع ترین آیت ہے۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ اس موضوع پر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ اس ایک آیت میں آگیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم کی تین جہتیں dimensions بیان ہوئی ہیں۔ پہلی جہت کیا ہے ؟

اردو ترجمہ

زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

YaAAlamu ma fee alssamawati waalardi wayaAAlamu ma tusirroona wama tuAAlinoona waAllahu AAaleemun bithati alssudoori

آیت 4 { یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے“ اب دوسری جہت ملاحظہ کیجیے :{ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ } ”اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔“ اور تیسری جہت کیا ہے ؟ { وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۔ } ”اور اللہ اس سے بھی باخبر ہے جو تمہارے سینوں کے اندر ہے۔“ اس آیت کے الفاظ اور مفہوم کے حوالے سے میں بہت عرصہ متردّد رہا کہ بظاہر تو یہاں الفاظ کی تکرار نظر آتی ہے کہ جو کچھ ہم چھپاتے ہیں وہی تو ہمارے سینوں میں ہوتا ہے ‘ لیکن تکرارِ محض چونکہ کلام کا عیب سمجھا جاتا ہے اس لیے مجھے یقین تھا کہ آیت کے تیسرے حصے میں ضرور کوئی نئی بات بتائی گئی ہے۔ پھر یکایک میرا ذہن اس طرف منتقل ہوگیا کہ مَا تُسِرُّوْنَ کے لفظ میں ہمارے ان خیالات و تصورات کا ذکر ہے جنہیں ہم ارادی طور پر چھپاتے ہیں ‘ جبکہ ”سینوں کے رازوں“ سے ہماری سوچوں کے وہ طوفان مراد ہیں جو ہمارے تحت الشعور subconscious mind میں اٹھتے رہتے ہیں اور جن سے اکثر و بیشتر ہم خود بھی بیخبر ہوتے ہیں ‘ بلکہ بسا اوقات ان خیالات کے بارے میں ہم دھوکہ بھی کھا جاتے ہیں۔ چناچہ آیت کے اس حصے کا مفہوم یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو تمہارے تحت الشعور کی تہوں میں اٹھنے والے ان خیالات کو بھی جانتا ہے جنہیں تم خود بھی نہیں جانتے ‘ کیونکہ وہ تو تمہارے جینز genes سے بھی واقف ہے : { ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّــۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْج } النجم : 32 ”وہ تمہیں خوب جانتا ہے اس وقت سے جب اس نے تمہیں زمین سے اٹھایا تھا اور جب تم اپنی مائوں کے پیٹوں میں جنین کی شکل میں تھے۔“

اردو ترجمہ

کیا تمہیں اُن لوگوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اِس سے پہلے کفر کیا اور پھر اپنی شامت اعمال کا مزہ چکھ لیا؟ اور آگے اُن کے لیے ایک دردناک عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam yatikum nabao allatheena kafaroo min qablu fathaqoo wabala amrihim walahum AAathabun aleemun

آیت 5{ اَلَـمْ یَاْتِکُمْ نَـبَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ } ”کیا تمہارے پاس خبریں آ نہیں چکی ہیں ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا تھا پہلے“ قومِ نوح علیہ السلام ‘ قومِ ہود علیہ السلام ‘ قومِ صالح علیہ السلام اور دوسری اقوام کے واقعات مکی قرآن میں بار بار دہرائے گئے ہیں۔ { فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ } ”تو انہوں نے اپنے کیے کی سزا چکھ لی“ انہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا اور اس کفر کی پاداش میں انہیں ہلاک کردیا گیا۔ { وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ } ”اور ان کے لیے دردناک عذاب بھی ہے۔“ دنیا کی سزا بھگتنے کے بعد ان اقوام کے افراد ابھی تو عالم برزخ میں ہیں ‘ لیکن ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے وہ بھی ان کا منتظر ہے۔ اس بڑے عذاب کا سامنا انہیں آخرت میں کرنا پڑے گا۔ اب اگلی آیت میں ان کے کفر کے سبب کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

اردو ترجمہ

اِس انجام کے مستحق وہ اس لیے ہوئے کہ اُن کے پاس اُن کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے، مگر اُنہوں نے کہا "کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے؟" اس طرح انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا، تب اللہ بھی ان سے بے پروا ہو گیا اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika biannahu kanat tateehim rusuluhum bialbayyinati faqaloo abasharun yahdoonana fakafaroo watawallaw waistaghna Allahu waAllahu ghaniyyun hameedun

آیت 6{ ذٰلِکَ بِاَنَّــہٗ کَانَتْ تَّــاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَـیِّنٰتِ } ”یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول آتے رہے واضح نشانیاں لے کر“ { فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَـنَاز فَـکَفَرُوْا وَتَوَلَّـوْا } ”تو انہوں نے کہا کہ کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ پس انہوں نے کفر کیا اور رُخ پھیرلیا“ { وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۔ } ”اور اللہ نے بھی ان سے بےنیازی اختیار کی۔ اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز ‘ ستودہ صفات۔“ یعنی ہر قوم کے لوگ صرف اس بنا پر اپنے رسول علیہ السلام کا انکار کرتے رہے کہ یہ تو ہماری طرح کا بشر ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ ان کے اس رویے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ تم جدھر جانا چاہتے ہوچلے جائو۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ جیسے رسالت کا انکار بربنائے بشریت کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا غلط ہے ‘ ایسے ہی بشریت کا انکار بربنائے رسالت کہ رسول بشر نہیں ہوسکتا بھی غلط ہے۔ یہ دراصل ایک ہی سوچ کے دو رُخ ہیں۔ جیسے انسانی جسم کے اندر ایک بیماری کسی ایک عضو پر کینسر کی شکل میں حملہ کرتی ہے تو کسی دوسرے عضوپر اثر انداز ہونے کے لیے کسی اور روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ چناچہ اس نظریاتی بیماری کی ابتدائی صورت یہ سوچ تھی کہ ایک انسان یا بشر اللہ تعالیٰ کا رسول نہیں ہوسکتا۔ چناچہ ہر قوم نے اپنے رسول علیہ السلام پر بنیادی اعتراض یہی کیا کہ یہ تو بشر ہے ‘ یہ بالکل ہمارے جیسا ہے ‘ ہماری طرح کھاتا پیتا ہے اور ہماری طرح ہی چلتا پھرتا ہے۔ فلاں کا بیٹا ہے ‘ فلاں کا پوتا ہے ‘ ہمارے سامنے پلا بڑھا ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ یعنی انہوں نے بشریت کی بنیاد پر رسول علیہ السلام کی رسالت کا انکار کردیا۔ بعد میں اس بیماری نے دوسری شکل اختیار کرلی۔ وہ یہ کہ جس کو رسول مان لیا پھر اسے بشر ماننا مشکل ہوگیا۔ کسی نے اپنے رسول کو خدا بنالیا تو کسی نے خدا کا بیٹا۔ صرف اس لیے کہ اسے بشر ماننا انہیں گوارا نہیں تھا۔ اسی وجہ سے قرآن مجید میں حضور ﷺ سے بار بار کہلوایا گیا : { قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ } الکہف : 110 کہ اے نبی ﷺ ! آپ ڈنکے کی چوٹ پر کہیے اور بار بار کہیے کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ ہاں مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ لیکن قرآن مجید کے واضح اور تاکیدی احکام کے باوجود مذکورہ نظریات کے اثرات ہماری صفوں میں بھی در آئے ‘ بلکہ ہمارے ہاں تو یہ بھی ہوا کہ اس مسئلے کے تدارک کے نام پر کچھ لوگ دوسری انتہا پر چلے گئے۔ چناچہ اس حوالے سے اگر کسی نے ”بڑے بھائی“ کی مثال بیان کی یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری دلیل پیش کی تو اس نے بھی حد ادب سے تجاوز کیا۔ ظاہر ہے جب فریقین ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بحث و تکرار کریں گے تو نامناسب الفاظ کا استعمال بھی ہوگا اور غلطیاں بھی ہوں گی۔ بہرحال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر انسان ہی تھے ‘ لیکن پیغمبروں کے بعض خصائص ایسے بھی ہوتے ہیں جو عام انسانوں کے نہیں ہوسکتے۔ حضور ﷺ کی سیرت میں ایسے کئی خصائص کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً جب صحابہ کرام رض نے حضور ﷺ سے عرض کی کہ آپ ﷺ خود تو صوم وصال کئی کئی دنوں کا روزہ اور اس طرح کے یکے بعد دیگرے کئی روزے رکھنے کا اہتمام فرماتے ہیں لیکن ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اَیُّکُمْ مِثْلِیْ ؟ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِ 1 ”تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہے ؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے“۔ اسی طرح حضور ﷺ کا فرمان ہے : فَوَ اللّٰہِ مَا یَخْفٰی عَلَیَّ رُکُوْعَکُمْ وَلَا سُجُوْدَکُمْ ‘ اِنِّیْ لَاَرَاکُمْ وَرَائَ ظَھْرِیْ 2 ”اللہ کی قسم ! نماز باجماعت میں تمہارے رکوع اور تمہارے سجدے مجھ پر مخفی نہیں ہوتے ‘ میں تو اپنے پس پشت بھی تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہوں“۔ صحیح بخاری کی روایات میں وَلَا خُشُوْعَکُمْ کے الفاظ بھی ہیں کہ نماز میں تمہارا خشوع بھی مجھ سے مخفی نہیں ہوتا۔ پھر معراج کے موقع پر آپ ﷺ کا راتوں رات مکہ سے بیت المقدس تشریف لے جانا ‘ اس کے بعد آسمانوں کی سیر کرنا اور سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر خصوصی کیفیات کا مشاہدہ کرنا ‘ یہ سب آپ ﷺ کے امتیازی خصائص ہیں۔ دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر آپ ﷺ انسان تھے اور انسانی داعیات و میلانات رکھتے تھے۔ آپ ﷺ کو چوٹ لگتی تو درد محسوس کرتے ‘ جنگ احد میں زخم آیا تو خون کا فوارہ چھوٹ پڑا ‘ بیٹا فوت ہوا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ کبھی جذبات کی ایسی کیفیت بھی ہوئی کہ زبان سے بددعا بھی نکل گئی : کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمًا خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بَالدَّمِ ! 3”اللہ تعالیٰ اس قوم کو کیسے کامیاب کرے گا جس نے اپنے نبی ﷺ کا چہرہ خون سے رنگین کردیا !“ بہرحال بلاشبہ آپ ﷺ بشر تھے ‘ جیسا کہ قرآن مجید ہمیں تکرار کے ساتھ بتاتا ہے ‘ لیکن آپ ﷺ کی بشریت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا تھا جو آپ ﷺ کے شایانِ شان تھا۔۔۔۔ اب اگلی آیت میں ایمان بالآخرت کا ذکر ہے :

اردو ترجمہ

منکرین نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ان سے کہو "نہیں، میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر ضرور تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے (دنیا میں) کیا کچھ کیا ہے، اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

ZaAAama allatheena kafaroo an lan yubAAathoo qul bala warabbee latubAAathunna thumma latunabbaonna bima AAamiltum wathalika AAala Allahi yaseerun

آیت 7{ زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا } ”کافروں کو یہ زعم ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے۔“ { قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَـبَّـؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے : کیوں نہیں ! مجھے میرے رب کی قسم ہے ‘ تم لازماً اٹھائے جائو گے ‘ پھر تمہیں لازماً جتلایا جائے گا ان اعمال کے بارے میں جو تم نے کیے ہیں۔“ اس اسلوب میں جو زور اور تاکید ہے انسانی زبان سے اس کا بیان ناممکن ہے ! اللہ کا فرمان ‘ رسول اللہ ﷺ کی قسم اور انتہائی تاکیدی صیغوں کا استعمال ! اس سے بڑھ کر زوردار عبارت بھلا اور کونسی ہوگی۔ حضور ﷺ نے بنوہاشم کو دعوت کے سلسلے میں جو خطبہ دیا تھا اس کا مضمون اور اسلوب بھی اس جملے سے ملتا جلتا ہے۔ میرے کتابچے ”دعوت الی اللہ“ میں اس خطبے کا پورا متن موجود ہے۔ اس کتابچے کا انگریزی ترجمہ بھی Call to Allah کے عنوان سے ہوچکا ہے۔ اس خطبے کا اسلوب ملاحظہ ہو : وَاللّٰہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ ، ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَـیْقِظُوْنَ ، ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ، ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبالسُّوْئِ سُوْئً ، وَاِنَّھَا لَجَنَّــۃٌ اَبَدًا اَوْ لَـنَارٌ اَبَدًا 1”خدا کی قسم تم سب مر جائو گے جیسے روزانہ سو جاتے ہو ! پھر یقینا تم اٹھائے جائو گے جیسے ہر صبح بیدار ہوجاتے ہو۔ پھر لازماً تمہارے اعمال کا حساب کتاب ہوگا ‘ اور پھر لازماً تمہیں بدلہ ملے گا اچھائی کا اچھائی اور برائی کا برائی ‘ اور وہ جنت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے دائمی۔“ { وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ۔ } ”اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔“ یہ ابتدائی سات آیات ایمان کے بیان سے متعلق تھیں۔ ان میں پہلی چار آیات ذات و صفاتِ باری تعالیٰ پر ایمان سے متعلق ہیں۔ پھر دو آیات ایمانِ رسالت کے بارے میں ہیں ‘ جبکہ ساتویں آیت کا تعلق ایمان بالآخرت سے ہے۔ اب اگلی تین آیات میں ایمان کی زوردار دعوت دی جا رہی ہے :

اردو ترجمہ

پس ایمان لاؤ اللہ پر، اور اُس کے رسول پر، اور اُس روشنی پر جو ہم نے نازل کی ہے جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faaminoo biAllahi warasoolihi waalnnoori allathee anzalna waAllahu bima taAAmaloona khabeerun

آیت 8 { فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } ”پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر“ یہاں آیت کے آغاز کی ”ف“ بہت اہم ہے۔ گویا گزشتہ چار آیات کے مضمون کا ربط اگلی تین آیات کے مضمون کے ساتھ اس ”ف“ سے قائم ہو رہا ہے۔ { وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنْزَلْنَاط } ”اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے۔“ { وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۔ } ”اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔“ اس آیت میں اللہ ‘ رسول ﷺ اور آخرت سے متعلق تینوں ”ایمانیات“ کا ذکر آگیا ہے۔ اللہ اور رسول ﷺ کا ذکر تو واضح ہے لیکن آخرت کا ذکر آیت کے آخری حصے { وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ} میں اشارتاً ہوا ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ہر انسان کے ایک ایک عمل کی نگرانی محض تحقیق و تدقیق کی غرض سے ہی تو نہیں کر رہا ہے ‘ بلکہ آخرت میں انہیں سزا یا جزا دینے کے لیے کر رہا ہے۔۔۔۔ اب اگلی دو آیات خاص طور پر ایمان بالآخرت کی دعوت سے متعلق ہیں :

اردو ترجمہ

(اِس کا پتا تمہیں اس روز چل جائے گا) جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے، اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma yajmaAAukum liyawmi aljamAAi thalika yawmu alttaghabuni waman yumin biAllahi wayaAAmal salihan yukaffir AAanhu sayyiatihi wayudkhilhu jannatin tajree min tahtiha alanharu khalideena feeha abadan thalika alfawzu alAAatheemu

آیت 9 { یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّـغَابُنِ } ”جس دن کہ وہ تمہیں جمع کرے گا جمع ہونے کے دن کے لیے ‘ وہی ہے ہار اور جیت کے فیصلے کا دن۔“ اصل جیت بھی اس دن کی جیت ہے اور اصل ہار بھی اس دن کی ہار ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کی ہار یا جیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ دنیا کی ہار جیت تو کسی ڈرامے کے کرداروں کی ہار جیت کی طرح ہے ‘ جس کا متعلقہ کردار کی حقیقی زندگی سے کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا۔۔۔۔ اب آگے وضاحت کی جا رہی ہے کہ قیامت کے دن کی جیت کس کے حصے میں آئے گی اور اس دن کی ہار کس کے گلے کا ہار بنے گی۔ { وَمَنْ یُّـؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا } ”اور جو کوئی ایمان لائے اللہ پر اور نیک اعمال کرے“ ان اعمال کی تفصیل آگے آئے گی۔ { یُّــکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہِ وَیُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاط } ”وہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اسے ان باغات میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی ‘ وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیش۔“ { ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ } ”یہ ہے بہت بڑی کامیابی۔“ یہ جیت کی شرح ہوگئی ‘ یعنی جنت میں داخلہ اور ہمیشہ کا خلود ! گویا یہ ہے مستقل ‘ واقعی اور حقیقی جیت ! اس کے برعکس ہار کیا ہے ؟ اسے اگلی آیت میں واضح فرما دیا گیا :

556