سورۃ القمر (54): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Qamar کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القمر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ القمر کے بارے میں معلومات

Surah Al-Qamar
سُورَةُ القَمَرِ
صفحہ 528 (آیات 1 سے 6 تک)

سورۃ القمر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ القمر کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Iqtarabati alssaAAatu wainshaqqa alqamaru

آیت 1 { اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۔ } ”قیامت کی گھڑی قریب آچکی اور چاند شق ہوگیا۔“ جیسا کہ قبل ازیں بھی کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سب سے قطعی اور یقینی نشانی حضور ﷺ کی بعثت ہے۔ اس حوالے سے حضور ﷺ کا فرمان ہے : بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَـیْنِ 1 ”مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح جڑا ہوا بھیجا گیا ہے“۔ اس لحاظ سے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ کا مفہوم یہ ہے کہ اب جبکہ آخری رسول ﷺ بھی دنیا میں آ چکے ہیں تو سمجھ لو کہ قیامت کا وقت بہت قریب آ لگا ہے۔ سورة السجدۃ کی آیت 5 میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک دن ہمارے ہزار برس کے برابر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حضور ﷺ کے وصال کو ابھی صرف ڈیڑھ دن ہی ہوا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق حضور ﷺ کی بعثت کے بعد اب قیامت بالکل سامنے ہے۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام اپنے منہ کے ساتھ صور لگائے بالکل تیار کھڑے ہیں۔ بس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارے کی دیر ہے۔ جونہی اشارہ ہوگا وہ صور میں پھونک مار دیں گے۔ قربِ قیامت کے اس مفہوم کو سورة المعارج میں یوں بیان کیا گیا ہے : { اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا۔ وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا۔ } ”یہ لوگ تو قیامت کو بہت دور سمجھ رہے ہیں ‘ جبکہ ہم اسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں۔“ آیت میں چاند کے پھٹنے کا ذکر ایک خرق عادت واقعہ کے طور پر ہوا ہے۔ روایات کے مطابق اس وقت حضور ﷺ منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ چاند کی چودھویں رات تھی۔ آپ ﷺ کے ارد گرد ہر طرح کے لوگ تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ ﷺ کی طرف سے کوئی نشانی ہونی چاہیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : چاند کی طرف دیکھو۔ لوگوں کو متوجہ کر کے آپ ﷺ نے انگلی کا اشارہ کیا اور چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف چلا گیا اور پھر اگلے ہی لمحے دونوں ٹکڑے قریب آکر دوبارہ جڑ گئے۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا : دیکھو اور گواہ رہو ! کفار نے کہا کہ محمد ﷺ نے ہم پر جادو کردیا تھا ‘ اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکہ کھایا۔ بعد میں باہر سے آنے والے لوگوں نے بھی اس کی شہادت دی۔ میرے نزدیک یہ معجزہ نہیں تھا بلکہ ایک ”خرقِ عادت“ واقعہ تھا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کی جا چکی ہے کہ ہر رسول کو ایک معجزہ دیا گیا جو باقاعدہ دعوے کے ساتھ دکھایا گیا۔ اس لحاظ سے حضور ﷺ کا معجزہ قرآن ہے۔ البتہ خرق عادت واقعات حضور ﷺ سے بیشمار نقل ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اگر اولیاء اللہ سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے تو حضور ﷺ کی کرامات تو ہزار گنا بڑی ہوں گی۔ اس واقعہ پر بہت سے اعتراضات بھی ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پر بھی کہ اس سے متعلق دنیا میں کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں۔ اسی لیے سرسید احمد خان مرحوم اور ان کے مکتبہ فکر کے لوگوں نے آیت کے متعلقہ الفاظ کی مختلف تاویلات کی ہیں۔ بہرحال جہاں تک تاریخی ثبوت نہ ہونے کا تعلق ہے اس بارے میں یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ یہ واقعہ رونما ہونے کے وقت آدھی دنیا میں تو دن کی روشنی ہوگی۔ لیکن جن علاقوں میں چاند دیکھا جاسکتا تھا ان علاقوں کے لوگ بھی تو ظاہر ہے اس وقت ٹکٹکی باندھے چاند کو نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان میں سے اکثر اس واقعے کے عینی شاہد بن جاتے۔ پھر یہ منظر بھی صرف لمحے بھر کا تھا اور اس دوران چاند کی روشنی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا کہ لوگ چونک کر دیکھتے۔ البتہ ایک تاریخی روایت کے مطابق برصغیر میں مالابار کے ساحلی علاقے کے ایک ہندو راجہ نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ بعد میں جب عرب تاجروں کے ذریعے اس تک اسلام کی دعوت اور قرآنی تعلیمات پہنچیں تو اس نے نہ صرف ایک چشم دید گواہ کے طور پر اس واقعہ کی تصدیق کی بلکہ وہ ایمان بھی لے آیا۔ واللہ اعلم !

اردو ترجمہ

مگر اِن لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain yaraw ayatan yuAAridoo wayaqooloo sihrun mustamirrun

آیت 2 { وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ} ”اور اگر وہ دیکھیں گے کوئی نشانی تب بھی وہ اعراض ہی کریں گے اور کہیں گے یہ تو جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔“

اردو ترجمہ

اِنہوں نے (اس کو بھی) جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس ہی کی پیروی کی ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakaththaboo waittabaAAoo ahwaahum wakullu amrin mustaqirrun

آیت 3 { وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَآئَ ہُمْ } ”اور انہوں نے تکذیب کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کی“ { وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ۔ } ”اور اللہ کا ہر امر ایک وقت ِمعین کے لیے قرار پا چکا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی منصوبہ بندی میں ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ کوئی کام اللہ کے طے شدہ وقت سے نہ تو پہلے انجام پاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے موخر ہوسکتا ہے۔ انسان کا کام ہے کہ وہ کوشش کرتا رہے اور نتائج اللہ پر چھوڑ دے۔ جیسے یہ طے شدہ امر ہے کہ اللہ کے دین کا غلبہ دنیا میں ہو کر رہے گا ‘ مگر اللہ کی مشیت میں اس کے لیے کون سا وقت مقرر ہے ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ چناچہ ہمیں چاہیے کہ ہم اقامت دین کی جدوجہد کو فرضِ عین اور اپنی اخروی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس میں اپنا تن من دھن لگانے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہیں۔ سیرت ِنبوی ﷺ سے اس جدوجہد کے منہج کو سمجھیں ‘ اس کے آداب سیکھیں ‘ اس کی شرائط معلوم کریں اور پورے خلوص نیت کے ساتھ اس کے لیے محنت کریں۔ اس محنت اور جدوجہد کے دوران ہمیں نتائج کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں تو یہ محنت اللہ کی رضا کے لیے کرنی ہے۔ اگر ہماری اس محنت کے نتائج ہماری زندگیوں میں ظاہر نہیں ہوتے تو کوئی پروا نہیں ‘ ہم دین کو غالب کرنے کے مکلف نہیں ‘ ہم تو صرف اس کے لیے جدوجہد کرنے کے مکلف ہیں۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اللہ کے ذمے ہے۔ اگر ہم نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خلوص نیت سے اس راستے میں محنت کی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم ضرور سرخرو ہوں گے۔ اس فلسفے کو اچھی طرح سے نہ سمجھنے کی وجہ سے اقامت دین کی جدوجہد میں لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔ جب ان کی جدوجہد کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے تو وہ عجلت اور بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے الٹے سیدھے طریقے اپناتے ہیں۔ ایسی ہی غلطیوں سے تحریکیں غلط راستوں پر چل پڑتی ہیں اور اس وجہ سے دین الٹا بدنام ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایک بہت اہم نکتہ یہ بھی لائق توجہ ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد کے دوران غور و فکر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ حضور ﷺ کے بعد اب نہ تو کوئی شخصیت معصوم عن الخطا ہے اور نہ ہی کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست راہنمائی مل سکتی ہے۔ ظاہر ہے اب یہ کام اجتہاد اور غور و فکر سے ہی چلنا ہے اور اجتہاد میں غلطی کا ہر وقت امکان رہتا ہے۔ چناچہ انفرادی و اجتماعی سطح پر انسانوں سے غلطیاں سرزد ہونے کے امکان کے پیش نظر فیصلوں پر نظر ثانی کی گنجائش بھی رکھنی چاہیے اور اس کے لیے ذہنی طور پر ہر وقت تیار بھی رہنا چاہیے۔

اردو ترجمہ

اِن لوگوں کے سامنے (پچھلی قوموں کے) وہ حالات آ چکے ہیں جن میں سرکشی سے باز رکھنے کے لیے کافی سامان عبرت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad jaahum mina alanbai ma feehi muzdajarun

آیت 4 { وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ مِّنَ الْاَنْبَـآئِ مَا فِیْہِ مُزْدَجَرٌ۔ } ”اور ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں جن میں تنبیہہ ہے۔“ گزشتہ اقوام کے اپنے پیغمبروں کو جھٹلانے اور پھر اس کے نتیجے میں عذاب الٰہی کے ذریعے تباہ ہوجانے کی خبریں انباء الرسل ان لوگوں کو تفصیل سے بتائی جا چکی ہیں۔ ان خبروں میں مشرکین مکہ کے لیے یقینا کافی تنبیہہ و تہدید اور سامانِ عبرت موجود ہے۔

اردو ترجمہ

اور ایسی حکمت جو نصیحت کے مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرتی ہے مگر تنبیہات اِن پر کارگر نہیں ہوتیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hikmatun balighatun fama tughnee alnnuthuru

آیت 5 { حِکْمَۃٌم بَالِغَۃٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ۔ } ”کامل دانائی کی باتیں ‘ لیکن ان خبردار کرنے والوں سے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا۔“

اردو ترجمہ

پس اے نبیؐ، اِن سے رخ پھیر لو جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fatawalla AAanhum yawma yadAAu alddaAAi ila shayin nukurin

آیت 6 { فَتَوَلَّ عَنْہُمْ 7 } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ ان سے صرفِ نظر کر لیجیے۔“ { یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیْئٍ نُّـکُرٍ۔ } ”جس دن ایک پکارنے والا پکارے گا ایک بہت ناگوار چیز کی طرف۔“ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ ابتدائی مکی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں حضور ﷺ کو ملتے جلتے الفاظ میں یہ ہدایت بار بار دی گئی ہے کہ آپ ﷺ صبر کریں ‘ آپ ﷺ درگزر سے کام لیں ‘ انہیں نظر انداز کردیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔

528