اس صفحہ میں سورہ Abasa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ عبس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ عَبَسَ وَتَوَلّٰیٓ۔ } ”تیوری چڑھائی اور منہ پھیرلیا۔“ یعنی حضرت عبداللہ کی بار بار خلل اندازی پر حضور ﷺ کے چہرئہ انور پر ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے اور آپ ﷺ نے چہرئہ مبارک دوسری طرف کرلیا۔
آیت 3{ وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓ۔ } ”اور اے نبی ﷺ آپ کو کیا معلوم شاید کہ وہ تزکیہ حاصل کرتا۔“ ممکن ہے آپ ﷺ کی گفتگو سے استفادہ کر کے وہ بلند درجات تک پہنچ جاتا۔
آیت 5{ اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی۔ } ”لیکن وہ جو بےنیازی دکھاتا ہے۔“ ایک ایسا شخص جو آپ ﷺ کی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔
آیت 12{ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ۔ } ”تو جو چاہے اس سے نصیحت اخذ کرلے۔“ آپ ﷺ ان لوگوں کے پیچھے خود کو ہلکان نہ کریں ‘ اگر ابوجہل اور ابولہب اس ہدایت سے مستفید نہیں ہونا چاہتے تو نہ ہوں آپ ﷺ بھی ان کی پروا نہ کریں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ جیسے سورة الکہف میں فرمایا گیا :{ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰٹہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۔ } ”اور اپنے آپ کو روکے رکھیے ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح وشام ‘ وہ اللہ کی رضا کے طالب ہیں اور آپ ﷺ کی نگاہیں ان سے ہٹنے نہ پائیں ‘ جس سے لوگوں کو یہ گمان ہونے لگے کہ آپ ﷺ دُنیوی زندگی کی آرائش و زیبائش چاہتے ہیں ! اور مت کہنا مانیے ایسے شخص کا جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہے اور اس کا معاملہ حد سے متجاوز ہوچکا ہے۔“ ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سردارانِ قریش کی طرف التفات معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ ! کسی ذاتی غرض کی وجہ سے تو نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ اسلام کی تقویت کے لیے ان کے قبول اسلام کے آرزومند تھے۔۔۔ لیکن ان کی موجودگی میں اپنے کسی ساتھی سے بےاعتنائی لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرسکتی تھی کہ آپ ﷺ ان لوگوں کی دولت و ثروت کی وجہ سے ان کی طرف ملتفت ہیں اور اپنے نادار ساتھیوں سے مغائرت برت رہے ہیں۔ اگلی آیات عظمت قرآن کے ذکر کے حوالے سے پورے قرآن میں منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ سیاق وسباق کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان آیات کے بین السطور میں یہ پیغام بھی ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ فریضہ رسالت کی ادائیگی کے لیے ان ”بڑے لوگوں“ کے پیچھے اپنے آپ ﷺ کو جس انداز میں ہلکان کر رہے ہیں اور یہ لوگ جس ”بےنیازی“ سے قرآن کو نظر انداز کر رہے ہیں اس سے قرآن کے استخفاف کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ ان لوگوں کے پیچھے پڑ کر انہیں دعوت مت دیں۔ ظاہر ہے یہ پیغام قیامت تک کے داعیانِ حق کے لیے بھی ہے۔ اس ضمن میں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ گو معاشرے کے صاحب حیثیت لوگوں کا کسی جماعت میں شامل ہونا اس جماعت کے مشن کی ترویج و ترقی کے لیے بہت مفید ہے ‘ لیکن ایسے لوگوں کو خصوصی اہتمام سے دعوت دینے اور پھر خصوصی اہتمام سے اپنی جماعت میں خوش آمدید کہنے کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے اپنے ”نظریے“ کی بےتوقیری کا تاثر ملے یا پرانے کارکنوں کے دلوں میں مغائرت کا احساس پیدا ہو۔ لہٰذا کسی بھی جماعت کے امیر کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر صاحب حیثیت لوگوں کو اپنی جماعت کی طرف راغب کرنے کی کوشش دراصل اس ُ پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے خود داری اور تکبر کے درمیان یا خوش اخلاقی اور خوشامد کے مابین بہت باریک سا فرق ہے ‘ لیکن اگر کوئی انسان اس باریک سے فرق کو ملحوظ نہ رکھے تو اس کی ایک بہت اعلیٰ صفت کو لوگ اس کی بہت بڑی خامی پر بھی محمول کرسکتے ہیں۔ لہٰذا حکمت ِتبلیغ کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے حساس ّفرض کی ادائیگی دو انتہائوں کے درمیان رہتے ہوئے بہت محتاط انداز میں سرانجام دی جائے۔
آیت 13{ فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ۔ } ”یہ قرآن ایسے صحیفوں میں درج ہے جو باعزت ہیں۔“ یہ مضمون مختلف انداز اور مختلف الفاظ میں قرآن حکیم کے متعدد مقامات پر آیا ہے۔ سورة الزخرف میں فرمایا گیا : { وَاِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْـکِتٰبِ لَدَیْنَا لَـعَلِیٌّ حَکِیْمٌ۔ } ”اور یہ اُمّ الکتاب میں ہے ہمارے پاس بہت بلند وبالا ‘ بہت حکمت والی !“ سورة الواقعہ میں ارشاد ہوا کہ یہ قرآن ایک مخفی کتاب کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ میں درج ہے : { اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ - فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ۔ } ”یقینا یہ بہت عزت والا قرآن ہے۔ ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے“۔ پھر سورة البروج میں فرمایا گیا : { بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ - فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۔ } ”بلکہ یہ تو قرآن ہے بہت عزت والا ‘ لوحِ محفوظ میں“۔ بہرحال اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اصل قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک خاص مقام پر محفوظ ہے۔ صحف ِمکرمہ ‘ اُمّ الکتاب ‘ کتابِ مکنون اور لوح محفوظ اسی مقام خاص کے مختلف نام ہیں۔
آیت 16{ کِرَامٍم بَرَرَۃٍ۔ } ”جو بڑے معزز اور نیک ہیں۔“ اس سے ملتی جلتی بات ہم سورة الواقعہ کی اس آیت میں بھی پڑھ آئے ہیں : { لاَ یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ۔ } ”اسے چھو نہیں سکتے مگر وہی جو بالکل پاک ہیں“۔ مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کا مقام بہت بلند ہے۔ تو اے نبی ﷺ آپ قرآن مجید کے مقام اور مرتبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان لوگوں سے معاملہ کیجیے اور جو شخص قرآن مجید سے اعراض کرتا ہے آپ بھی اس کو منہ نہ لگایئے۔ ان کے مقابلے میں آپ زیادہ توجہ ان لوگوں پر دیجیے جو ہدایت کی تلاش میں آپ کے پاس چل کر خود آتے ہیں۔
آیت 19{ مِنْ نُّطْفَۃٍط } ”ایک بوند سے۔“ { خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ۔ } ”اس نے اسے پیدا کیا اور اس کا ایک اندازہ مقرر کردیا۔“ ”اندازے“ سے مراد یہاں ہر انسان کا ”شاکلہ“ ہے ‘ جس کا ذکر سورة بنی اسرائیل کی آیت 84 میں آیا ہے۔ انسان کا شاکلہ دراصل اس کی فطری یا جبلی خصوصیات اور اس کے ماحول کے اس کی شخصیت پر مرتب ہونے والے اثرات کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے۔ یعنی ہر انسان کی وہ شخصیت جو اسے پیدائشی طور پر جینز genes کی صورت میں اپنے والدین کی طرف سے ملتی ہے ‘ عملی زندگی میں آکر اپنے ماحول کے مخصوص اثرات کی وجہ سے ایک خاص ”قالب“ میں ڈھل جاتی ہے۔ انسانی شخصیت کے اسی قالب کو اس انسان کا شاکلہ کہا جائے گا۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تشریح آیت 84 ‘ سورة بنی اسرائیل
آیت 20{ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ۔ } ”پھر آسان کردیا اس پر راستہ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں ایسا ماحول فراہم کیا ہے اور اسے ایسی سہولیات سے نوازا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں زندگی بسر کرنا اس کے لیے بہت آسان ہوگیا ہے۔ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ماں کے پیٹ سے انسان کے دنیا میں آنے کا راستہ اللہ تعالیٰ نے آسان کردیا ہے۔ یعنی وضع حمل کا بظاہر انتہائی پیچیدہ اور مشکل مرحلہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے آسان ہوگیا ہے۔
آیت 22{ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ۔ } ”پھر جب وہ چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا۔“ دراصل یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ جس ہستی نے انسان کی تخلیق اور اس کی زندگی سے متعلق یہ سب کچھ کیا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ اٹھانا کیا مشکل ہے۔ چناچہ اگر انسان خود اپنی تخلیق کے پورے عمل پر غور کرلے تو اس کے پاس بعث بعد الموت سے انکار کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔
آیت 24{ فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓ۔ } ”تو انسان ذرا اپنے کھانے ہی کو دیکھ لے۔“ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں اگر پھر بھی کسی کو شک ہو تو وہ اپنی غذا پر ہی غور کرلے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کرنے کے بعد کس کس انداز میں اس کی غذا کا انتظام کیا ہے۔
آیت 26{ ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا۔ } ”پھر ہم نے زمین کو پھاڑا جیسے کہ وہ پھٹتی ہے۔“ زمین پھٹتی ہے اور اس میں سے کو نپلیں برآمد ہوتی ہیں ‘ جو رفتہ رفتہ پورے پودے بلکہ تناور درخت کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔
آیت 32{ مَّتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ۔ } ”ضرورت کا سامان تمہارے لیے بھی اور تمہارے مویشیوں کے لیے بھی۔“ یہ آیت ہوبہو سورة النازعات میں آیت 33 کے طور پر بھی آچکی ہے۔ جوڑا ہونے کے اعتبار سے ان دونوں سورتوں کے مضمون اور اسلوب میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔
آیت 33{ فَاِذَا جَآئَ تِ الصَّآخَّۃُ۔ } ”تو جب وہ آجائے گی کان پھوڑنے والی آواز۔“ یعنی جب قیامت برپا کرنے کے لیے صور میں پھونکا جائے گا تو اس کی آواز سے کان پھٹ جائیں گے۔ اس آیت کی مشابہت سورة النازعات کی اس آیت سے ہے : { فَاِذَا جَآئَ تِ الطَّآمَّۃُ الْکُبْرٰی۔ } ”پھر جب وہ آجائے گا بڑا ہنگامہ۔“
آیت 37{ لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔ } ”اس دن ان میں سے ہر شخص کو ایسی فکر لاحق ہوگی جو اسے ہر ایک سے بےپروا کر دے گی۔“ اس دن ہر انسان نفسا نفسی کی کیفیت میں ہوگا۔ ہر انسان کو اپنی پریشانی کی وجہ سے اپنے عزیز ترین رشتوں سمیت کسی دوسرے کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔
آیت 38{ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ۔ } ”کچھ چہرے اس دن روشن ہوں گے۔“ یہ مضمون اس سے پہلے سورة القیامہ کی ان آیات میں بھی آچکا ہے : { وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ - اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ - وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍم بَاسِرَۃٌ - تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ۔ } ”بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے ‘ وہ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔ اور بہت سے چہرے اس روز اترے ہوئے ہوں گے۔ ان کو یقین ہوگا کہ اب ان کے ساتھ کمر توڑ سلوک ہوگا۔“
آیت 42{ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ۔ } ”یہی ہوں گے وہ کافر اور فاجر لوگ۔“ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں اپنے نفس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود کو لائق اعتناء نہیں سمجھتے تھے۔