سورۃ الفلق (113): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Falaq کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفلق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الفلق کے بارے میں معلومات

Surah Al-Falaq
سُورَةُ الفَلَقِ
صفحہ 604 (آیات 1 سے 5 تک)

سورۃ الفلق کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الفلق کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

کہو، میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul aAAoothu birabbi alfalaqi

اس سورت میں اللہ اپنی وہ صفات بیان فرماتا ہے ، جس کے ذریعہ اس شر سے پناہ حاصل ہوتی ہے ، جس کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔

قل اعوذ ................ الفلق (1:113) ” کہو ، میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی “۔ فلق کے معانی میں سے ایک معنی صبح کا ہے اور ایک معنی ” مخلوق “ کا بھی ہے۔ بایں معنی کہ ہر وہ چیز جس سے وجود اور زندگی پھوٹتی ہے جس طرح سورة انعام (95) میں کہا گیا ہے۔

ان اللہ فالق ........................................ من الحی (95:6) ” اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالنے والا ہے “۔ اور اگلی آیت (96) میں ہے۔

فالق الاصباح ............................ حسبانا (96:6) ” وہ صبح کو پھاڑ کر نکالنے والا ہے ، اس نے رات کو وجہ سکون بنایا۔ اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا “۔

اگر فلق کے معنی صبح کے لئے جائیں تو معنی یہ ہوں گے۔ صبح کے وہ رب جو روشنی پھیلا کر ہر چیز کو اس شر سے محفوظ کردیتا ہے جو اندھیروں میں مستور ہوتی ہے اور اگر فلق سے مراد مخلوق ہو تو معنی یہ ہوں گے۔ پناہ مانگتا ہوں مخلوق کے رب کی جو اپنی مخلوق کے شر سے پنا دینے والا ہے۔ لہٰذا دونوں صورتوں میں مفہوم بعد کے فقرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔

من شرما خلق (2:113) ” ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی یعنی مطلق اور اجمالاً تمام مخلوق کے شر سے۔ اللہ کی مخلوقات میں سے بعض جب بعض سے ملتی ہیں تو اس اتصال سے بعض اوقات شر پیدا ہوتا ہے جبکہ بعض حالات میں مخلوقات کے ملاپ اور اتصال سے خیر اور نفع پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا بتایا جاتا ہے کہ مخلوق کے شر سے پناہ مانگو تاکہ خیر ہی خیر رہ جائے۔ اور اللہ کی ذات جو اس مخلوقات کی خالق ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اس کو ایسی راہ کی ہدایت دے اور ایسی تدابیر کرے کہ ان سے خیر نمودار ہو اور شر کا ظہور نہ ہو۔

ومن شر ................ وقب (3:113) ” اور رات کی تاریکی کے شر سے جب وہ چھا جائے “۔ غاسق کے لغوی معنی کودنے والے کے ہوتے ہیں اور وقب پہاڑ کے اس سوراخ کو کہتے ہیں جس سے پانی نکلتا ہے۔ یہاں غاسق سے مراد رات ہے یعنی رات اور اس میں جو چیزیں پائی جاتی ہیں یعنی وہ رات جب وہ پھوٹ کر زمین پر چھا جاتی ہے۔ یہ رات بذات خود خوفناک ہوتی ہے اور اس وقت اس کی خوفناکی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب اس میں ہر خفیہ اور نامعلوم خطرہ درپیش ہوسکتا ہے مثلاً کوئی وحشی درندہ حملہ آور ہوجائے ، کوئی چور گھس جائے۔ کوئی فریب دہندہ دشمن ہاتھ دکھاجائے۔ کوئی زہریلا مکوڑا اور سانپ کاٹ جائے۔ پھر رات کے وقت خیالات ووساوس انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ دکھ اور درد یاد آتے ہیں۔ شعور وجذبات اور خواہشات ومیلانات کی گھٹن زوروں پر ہوتی ہے ، اور تمام شیطانی قوتیں کھل جاتی ہیں اور ہر طرف سے برے اشارے ملتے ہی ، اور انسانی شہوت رات کو زوروں پر ہوتی ہے۔ غرض رات کے ہر ظاہری اور خفیہ بلائیں حملہ آور ہوتی ہیں کیونکہ اس وقت اندھیرے چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔

ومن شر .................... فی العقد (4:113) ” اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے “۔ گرہوں میں پھونکنے والیاں کون ہیں ؟ وہ جادوگرنیاں جو انسان حواس پر سحرانگیزی کرکے اذیت دیتی ہیں جو اعصاب کو دھوکہ دیتی ہیں ، انسانی نفس کو اشارات دیتی ہیں اور انسانی شعور کو متاثر کرتی ہیں ۔ جو دھاگوں میں گرہیں ڈالا کرتی تھیں اور ان میں پھونکا کرتی ہیں جیسا کہ جادوگروں کی عادت ہوتی ہے۔

جادو چیزوں کی حقیقت اور ماہیت نہیں بدل سکتا۔ نہ کوئی نئی حقیقت پیدا کرسکتا ہے البتہ احساس و شعور پر ایسی تخیلاتی حالت طاری ہوجاتی ہے جس طرح کہ جادوگرچاہتا ہے۔ جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے میں سورة طہ (65 تا 69) میں قرآن کریم اس کی تصویر کشی کی ہے۔

قالوا یموسی .................................... الساحر حیث اتی (65:20 تا 69) ” جادوگربولے : موسیٰ تم پہلے پھینکتے ہو یا ہم پہلے پھینکیں ؟ موسیٰ نے کہا : ” نہیں تم ہی پھینکو “۔ یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ، ان کے جادو کے زور سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہونے لگیں اور موسیٰ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ہم نے کہا مت ڈرو ، تو ہی غالب رہے گا ۔ پھینک جو تیرے ہاتھ میں ہے۔ ابھی ان کی ساری بناﺅٹی چیزوں کو نگل جاتا ہے۔ یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادو کا فریب ہے۔ اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا خواہ کسی شان سے وہ آئے “۔

ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں سانپ نہ بن گئے تھے۔ البتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور عوام نے یہ خیال کیا کہ یہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ ہیں۔ یہاں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے نفس میں ڈر گئے اور اللہ کی طرف سے ان کو تسلی دینے کی ضرورت پیش آئی ۔ لیکن حقائق اس وقت سامنے آئے جب عصائے موسیٰ فعلااژدھا بن گیا اور ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل گیا۔

یہ ہے حقیقت سحر اور ہمیں چاہئے کہ ہم اسے اسی طرح تسلیم کریں۔ اس طرح یہ جادو لوگوں پر اثر ڈالتا ہے اور جادوگروں کے اشارے کے مطابق لوگوں کے حواس کو متاثر کرتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات اور انسانی شعور میں خوف پیدا کرتا ہے اور لوگوں کو اذیت دیتا ہے۔ اور انسانی حواس اس طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جدھر جادو گر چاہتا ہے۔ جادو گری کی حقیقت بیان کرنے اور گرہوں میں پھونکنے کے مفعوم میں بس یہی کافی ہے۔ یہ ایک شر ہے جس سے بچنے کے لئے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی پناہ مانگو اور اللہ کی پناہ میں آجاﺅ۔

بعض روایات میں آتا ہے۔ ان میں سے بعض اگرچہ متواتر نہیں مگر صحیح ہیں کہ لبید بن اعصم یہودی نے مدینہ میں نبی ﷺ پر جادو کیا تھا ، بعض روایات میں آتا ہے کہ اس کا اثر چند دن تک رہا اور بعض میں آتا ہے کہ کئی مہینوں تک رہا۔ یہاں تک کہ آپ یہ خیال کرتے کہ آپ اپنی بیویوں کے پاس گئے ہیں حالانکہ آپ نہ گئے ہوتے تھے۔ اور بعض اوقات یوں محسوس کرتے کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے ، حالانکہ آپ نے نہ کیا ہوتا تھا ، جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے اور پھر یہ سورتیں اس جادو کے بتانے کے لئے جھاڑ پھونک کے لئے نازل ہوئیں اور جب جادو کی وہ چیز حاضر کرلی گئی اور اس پر یہ سورتیں پڑھی گئیں تو وہ گرہیں کھل گئیں اور وہ برا اثر ختم ہوگیا۔ جس طرح بعض روایات میں آتا ہے۔

لیکن یہ روایات عصمت انبیاء کے بنیادی عقیدے کے خلاف ہیں کہ آپ اپنے تمام افعال اور تبلیغ میں معصوم عن الخطاء ہیں۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال وافعال سنت اور شریعت ہیں۔ یہ روایات اس سے بھی متصادم ہیں۔ پھر قرآن نے صراحت سے اس الزام کی تردید کی ہے کہ آپ پر جادو کیا گیا ہے کیونکہ مشرکین یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ پر کسی نے جادو کردیا ہے تب آپ یہ باتیں کرتے ہیں۔ اس لئے ہمارے نزدیک یہ روایات مستعبد ہیں۔ پھر خبر واحد کے ساتھ عقائد کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ عقائد کا ماخذ قرآن ہے اور احادیث سے عقائد تب ہی ثابت ہوتے ہیں جب وہ تواتر کی حد تک پہنچ جائیں اور جن روایات کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے وہ متواتر نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ راجح قول یہ ہے کہ یہ سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں جس سے ان روایات کی بنیاد ہی کمزور ہوجاتی ہے۔

ومن شر .................... اذا حسد (5:113) ” اور حاسد کے شر کے لئے جب وہ حسد کرے “۔ حسد کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کے اوپر اللہ کا کرم دیکھ کر کوئی برا تاثر لے اور یہ خواہش کرے کہ اس بندے پر سے اللہ کی نعمت زائل ہوجائے۔ چاہے اس تاثر کے بعد حاسد اس بندے سے نعمتوں کے دور کرنے کے لئے سعی بھی کرے۔ یا محض ذہنی تاثر کی حد تک رک جائے کیونکہ اس تاثر کے بعد ممکن ہے کہ وہ اس بندے کے خلاف کوئی شر عملاً بھی اٹھائے۔

اس کائنات کے بعض اسرار ، نفس انسانی کے بعض راز اور جسم انسانی کے بعض رموز ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں ابھی تک ہمار علم نامکمل ہے۔ اس لئے ہمیں بہت سختی سے ان کا انکار نہیں کرنا چاہئے۔ بعض پراسرار واقعات ان میدانوں میں واقع ہوتے ہیں اور ہم ان کی ماہیت تک نہیں پہنچ سکتے۔ مثلاً دور سے خیالات کی منتقلی کا عمل ، جب دو افراد کے درمیان رابطہ ہوجاتا ہے ، ایسے روابط کی خبریں اس قدر تواتر سے آرہی ہیں کہ انسان ان میں شک نہیں کرسکتا ، کیونکہ اس پر بہت تجربات ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں اور جو معلومات ہمیں دستیاب ہیں ان کی کوئی معقول توجیہ بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ مثلاً مقناطیسی عمل تنویم جو آج کل مکرر تجربے میں آرہا ہے لیکن اس کے راز سے کوئی واقف نہیں ہے۔ دور سے خیالات کی منتقلی اور مقناطیسی عمل تنویم (ہپنائزم) کے علاوہ جسم انسانی اور انسانی نفسیات کے بہت افعال جن کی تہہ تک ابھی تک انسان نہیں پہنچا۔

حاسد جدوجہد کرتا ہے اور اپنے اس تاثر کو اس شخص کی طرف بطور شر منتقل کرتا ہے تو ہم اس آثار کی اس منتقلی کا محض اس لئے انکار نہیں کرسکتے کہ ہمارے علم اور ہمارے آلات تجربہ کی رو سے اس انتقال کی کیفیت کو ابھی سمجھ نہیں سکے۔ اس لئے کہ نفس انسانی کے بارے میں ہماری معلومات ابھی تک ابتدائی ہیں اور یہ قلیل علم جو ہمیں حاصل ہوا ہے وہ محض اتفاقی طور پر ہمیں حاصل ہوا ہے ۔ اس کو حقیقت کی شکل دینا ابھی تک باقی ہے۔

بہرحال حاسد کا شر ہوتا ہے اور اس سے اللہ کی پناہ مانگنا چاہیے اور اللہ کی حفاظت میں اپنے آپ کو داخل کرنا چاہئے۔ یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ وہ اپنے رسول کو ہدایت فرماتا ہے کہ وہ اللہ کی پناہ میں آئیں اور آپ کے واسطہ سے آپ کے بعد آنے والی پوری امت کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بھی اللہ کی پناہ میں آئے۔ جو ہر قسم کے شر سے پناہ گاہ فراہم کرنے والا ہے۔

امام بخاری نے ، اپنی سند کے ساتھ ، حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم جب رات بستر پر لیٹتے تو دونوں ہتھیلیوں کو ملالیتے ، پھر ان میں۔

قل ھو اللہ احد ........................ برب الناس (1:114) پڑھ کر پھونکتے۔ اور پھر پورے جسم پر ہتھیلیوں کو پھیرتے ، جہاں تک ممکن ہوتا ۔ سر اور چہرے سے شروع کرتے ، اور جسم کے سامنے کے حصے پر جس قدر ممکن ہوتا اور یہ عمل آپ تین بار کرتے۔ (اس حدیث کو اصحاب سنن نے اس طرح روایت کیا ہے ) ۔

٭٭٭٭٭

اردو ترجمہ

ہر اُس چیز کے شر سے جو اُس نے پیدا کی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Min sharri ma khalaqa

اردو ترجمہ

اور رات کی تاریکی کے شر سے جب کہ وہ چھا جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamin sharri ghasiqin itha waqaba

اردو ترجمہ

اور گرہوں میں پھونکنے والوں (یا والیوں) کے شر سے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamin sharri alnnaffathati fee alAAuqadi

اردو ترجمہ

اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamin sharri hasidin itha hasada
604