سورہ لیل (92): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Lail کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الليل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ لیل کے بارے میں معلومات

سورہ لیل کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

قسم ہے رات کی جبکہ وہ چھا جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallayli itha yaghsha

نیکی کے لیے قصد ضروری ہے :مسند احمد میں ہے حضرت علقمہ شام میں آئے اور دمشق کی مسجد میں جاکر دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے نیک ساتھی عطا فرما پھر چلے تو حضرت ابو الدرداء سے ملاقات ہوئی پوچھا کہ تم کہاں کے ہو تو حضرت علقمہ نے کہا میں کوفے والا ہوں پوچھا ام عبد اس سورت کو کس طرح پڑھتے تھے ؟ میں نے کہا والذکر والانثٰی پڑھتے تھے، حضرت ابو الدرداء فرمانے لگے میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے یونہی سنا ہے اور یہ لوگ مجھے شک و شبہ میں ڈال رہے ہیں پھر فرمایا کیا تم میں تکئے والے یعنی جن کے پاس سفر میں حضور ﷺ کا بسترہ رہتا تھا اور راز دان ایسے بھیدوں سے واقف جن کا علم اور کسی کو نہیں وہ جو شیطان سے بہ زبان رسول اللہ ﷺ بچالئے گئے تھے وہ نہیں ؟ یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ۔ یہ حدیث بخاری میں ہے اس میں یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے شاگرد اور ساتھی حضرت ابو الدردا کے پاس آئے آپ بھی انہیں ڈھونڈتے ہوئے پہنچے پھر پوچھا کہ تم میں حضرت عبداللہ کی قرأت پر قرآن پڑھنے والا کون ہے ؟ کہا کہ ہم سب ہیں، پھر پوچھا کہ تم سب میں حضرت عبداللہ کی قرأت کو زیادہ یاد رکھنے والاکون ہے ؟ لوگوں نے حضرت علقمہ کی طرف اشارہ کیا تو ان سے سوال کیا کہ واللیل اذا یغشیکو حضرت عبداللہ سے تم نے کس طرح سنا ؟ تو کہا وہ والذکر والانثی پڑھتے تھے کہا میں نے بھیحضور ﷺ سے اسی طرح سنا ہے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں وما خلق الذکر والا انثی پڑھوں اللہ کی قسم میں تو ان کی مانوں گا نہیں، الغرض حضرت ابن مسعود اور حضرت ابو الدرداء ؓ کو قرأت یہی ہے اور حضرت ابو الدرداء نے تو اسے مرفوع بھی کہا ہے۔ باقی جمہور کی قرأت وہی ہے جو موجودہ قرآن وں میں ہے، پس اللہ تعالیٰ رات کی قسم کھاتا ہے جبکہ اس کا اندھیرا تمام مخلوق پر چھا جائے اور دن کی قسم کھاتا ہے جبکہ وہ تمام چیزوں کو روشنی سے منور کر دے اور اپنی ذات کی قسم کھاتا ہے جو نر و مادہ کا پیدا کرنے والا ہے، جیسے فرمایا وخلقنا کم ازواجاہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے اور فرمایا۔ وکل شئی خلقنا زوجین ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں، ان متضاد اور ایک دوسری کے خلاف قسمیں کھاکر اب فرماتا ہے کہ تمہاری کوششیں اور تمہارے اعمال بھی متضاد اور ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ بھلائی کرنے والے بھی ہیں اور برائیوں میں مبتلا رہنے والے بھی ہیں پھر فرمایا ہے کہ جس نے دیا یعنی اپنے مال کو اللہ کے حکم کے ماتحت خرچ کیا اور پھونک پھونک کر قدم رکھا ہر ایک امر میں خوف الہ کرتا رہا اور اس کے بدلے کو سچا جانتا رہا اس کے ثواب پر یقین رکھا حسنیٰ کے معنی لا الہ الا اللہ کے بھی کئے گئے ہیں۔ اللہ کی نعمتوں کے بھی کئے گئے ہیں، نماز زکوٰۃ صدقہ فطر جنت کے بھی مروی ہیں پھر فرمایا ہے کہ ہم آسانی کی راہ آسان کردیں گے یعنی بھلائی، جنت اور نیک بدلے کی اور جس نے اپنے مال کو راہ اللہ میں نہ دیا اور اللہ تعالیٰ سے بےنیازی برتی اور حسنٰی کی یعنی قیامت کے بدلے کی تکذیب کی تو اس پر ہم برائی کا راستہ آسان کردیں گے جیسے فرمایا ونقلب افیدتگم وابصارھم الخ، یعنی ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح وہ پہلی بار قرآن پر ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں ہی بہکنے دیں گے، اس مطلب کی آیتیں قرآن کریم کی جگہ موجد ہیں کہ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے خیر کا قصد کرنے والے کو توفیق خیر ملتی ہے اور شر کا قصد رکھنے والوں کو اسی کی توفیق ہوتی ہے۔ اس معنی کی تائید میں یہ حدیثیں بھی ہیں، حضرت صدیق اکبر نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ہمارے اعمال فارغ شدہ تقدیر کے ماتحت ہیں یا نوپید ہماری طرف سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا بلکہ تقدیر کے لکھے ہوئے کے مطابق، کہنے لگے پھر عمل کی کیا ضرورت ؟ فرمایا ہر شخص پر وہ عمل آسان ہوں گے جس چیز کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے (مسند احمد) حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ بقیع غرقد میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں تھے تو آپ نے فرمایا سنو تم میں سے ہر ایک کی جگہ جنت و دوزخ میں مقرر کردہ ہے۔ اور لکھی ہوئی ہے لوگوں نے کہا پھر ہم اس پر بھروسہ کرکے بیٹھ کیوں نہ رہیں ؟ تو آپ نے فرمایا عمل کرتے رہو ہر شخص سے وہی اعمال صادر ہوں گے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے پھر آپ نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں (صحیح بخاری شریف) اسی روایت کے اور طریق میں ہے کہ اس بیان کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا اور سر نیچا کئے ہوئے زمین پر اسے پھیر رہے تھے۔ الفاظ میں کچھ کمی بیشی بھی ہے، مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کا بھی ایسا ہی سوال جیسا اوپر کی حدیث میں حضرت صدیق کا گذرا مروی ہے اور آپ کا جواب بھی تقریبا ً ایسا ہی مروی ہے۔ ابن جریر میں حضرت جابر سے بھی ایسی ہی روایت مروی ہے، ابن جریر کی ایک حدیث میں دو نوجوانوں کا ایسا ہی سوال اور حضور ﷺ کا ایسا ہی جواب مروی ہے، اور پھر ان دونوں حضرات کا یہ قول بھی ہے کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم بہ کوشش نیک اعمال کرتے رہیں گے حضرت ابو الدرداء سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہر دن غروب کے وقت سورج کے دونوں طرف دو فرشتے ہوتے ہیں اور وہ با آواز بلند دعا کرتے ہیں جسے تمام چیزیں سنتی ہیں سوائے جنات اور انسان کے کہ اے اللہ سخی کو نیک بدلہ دے اور بخیل کا مال تلف کر یہی معنی ہیں قرآن کی ان چاروں آیتوں کے۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں اس پوری سورت کا شان نزول یہ لکھا ہے کہ ایک شخص کا کھجوروں کا باغ تھا ان میں سے ایک درخت کی شاخیں ایک مسکین شخص کے گھر میں جا کر وہاں کی کھجوریں اتارتا اس میں جو کھجوریں نیچے گرتیں انہیں اس غریب شخص کے بچے چن لیتے تو یہ آکر ان سے چھین لیتا بلکہ اگر کسی بچے نے منہ میں ڈال لی ہے تو انگلی ڈال کر اس کے منہ سے نکلوا لیتا، اس مسکین نے اسکی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی آپ نے اس سے فرما دیا کہ اچھا تم جاؤ اور آپ اس باغ والے سے ملے اور فرمایا کہ تو اپنا وہ درخت جس کی شاخیں فلاں مسکین کے گھر میں ہیں مجھے دے دے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تجھے جنت کا ایک درخت دے گا وہ کہنے لگا اچھا حضرت میں نے دیا مگر مجھے اس کی کھجوریں بہت اچھی لگتی ہیں میرے تمام باغ میں ایسی کھجوریں کسی اور درخت کی نہیں، آنحضرت ﷺ یہ سن کر خاموشی کے ساتھ واپس تشریف لے گئے۔ ایک شخص جو یہ بات چیت سن رہا تھا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا حضرت اگر یہ درخت میرا ہوجائے اور میں آپ کا کردوں تو کیا مجھے اس کے بدلے جنتی درخت مل سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، یہ شخص اس باغ والے کے پاس آئے ان کا بھی باغ کھجوروں کا تھا یہ پہلا شخص ان سے وہ ذکر کرنے لگا کہ حضرت مجھے فلاں درخت کھجور کے بدلے جنت کا ایک درخت دینے کو کہہ رہے تھے۔ میں نے یہ جواب دیا یہ سن کر خاموش ہو رہے پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ کیا تم اسے بیچنا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو قیمت اس کی مانگوں وہ کوئی مجھے دے دے۔ لیکن کون دے سکتا ہے ؟ پوچھا کیا قیمت لینا چاہتے ہو ؟ کہا چالیس درخت خرما کے۔ اس نے کہا یہ تو بڑی زبردست قیمت لگا رہے ہو ایک کے چالیس ؟ پھر اور باتوں میں لگ گئے پھر کہنے لگے اچھا میں اسے اتنے ہی میں خریدتا ہوں اس نے کہا اچھا اگر سچ مچ خریدنا ہے تو گواہ کرلو، اس نے چند لوگوں کو بلا لیا اور معاملہ طے ہوگیا گواہ مقرر ہوگئے پھر اسے کچھ سوجھی تو کہنے لگا کہ دیکھئے صاحب جب تک ہم تم الگ نہیں ہوئے یہ معاملہ طے نہیں ہوا۔ اس نے بھی کہا بہت اچھا میں بھی ایسا احمق نہیں ہوں کہ تیرے ایک درخت کے بدلے جو خم کھایا ہوا ہے اپنے چالیس درخت دے دوں تو یہ کہنے لگا کہ اچھا اچھا مجھے منظور ہے۔ لیکن درخت جو میں لوں گا وہ تنے والے بہت عمدہ لوں گا اس نے کہا اچھا منظور۔ چناچہ گواہوں کے روبرو یہ سودا فیصل ہوا اور مجلس برخاست ہوئی۔ یہ شخص خوشی خوشی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ اب وہ درخت میرا ہوگیا اور میں نے اسے آپ کو دے دیا۔ رسول اللہ ﷺ اس مسکین کے پاس گئے اور فرمانے لگے۔ یہ درخت تمہارا ہے اور تمہارے بال بچوں کا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس پر یہ سورت نازل ہوئی ابن جریر میں مروی ہے کہ یہ آیتیں حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ مکہ شریف میں ابتداء میں اسلام کے زمانے میں بڑھیا عورتوں اور ضعیف لوگوں کو جو مسلمان ہوجاتے تھے آزاد کردیا کرتے تھے اس پر ایک مرتبہ آپ کے والد حضرت ابو قحافہ نے جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کہا کہ بیٹا تم جو ان کمزور ہستیوں کو آزاد کرتے پھرتے ہو اس سے تو یہ اچھا ہو کہ نوجوان طاقت والوں کو آزاد کراؤ تاکہ وقت پر وہ تمہارے کام آئیں، تمہاری مدد کریں اور دشمنوں سے لڑیں۔ تو صدیق اکبر ؓ نے جواب دیا کہ ابا جی میرا ارادہ دینوی فائدے کا نہیں میں تو صرف رضائے رب اور مرضی مولا چاہتا ہوں۔ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئیں۔ تروی کے معنی مرنے کے بھی مروی ہیں اور آگ میں گرنے کے بھی۔

اردو ترجمہ

اور دن کی جبکہ وہ روشن ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalnnahari itha tajalla

اردو ترجمہ

اور اُس ذات کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama khalaqa alththakara waalontha

اردو ترجمہ

درحقیقت تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna saAAyakum lashatta

اردو ترجمہ

تو جس نے (راہ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faamma man aAAta waittaqa

اردو ترجمہ

اور بھلائی کو سچ مانا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wasaddaqa bialhusna

اردو ترجمہ

اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasanuyassiruhu lilyusra

اردو ترجمہ

اور جس نے بخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma man bakhila waistaghna

اردو ترجمہ

اور بھلائی کو جھٹلایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakaththaba bialhusna

اردو ترجمہ

اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasanuyassiruhu lilAAusra

اردو ترجمہ

اور اُس کا مال آخر اُس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہو جائے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yughnee AAanhu maluhu itha taradda

اردو ترجمہ

بے شک راستہ بتانا ہمارے ذمہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna AAalayna lalhuda

مومن کی منزل اللہ تعالیٰ کی رضا :یعنی حلال و حرام کا ظاہر کردینا ہمارے ذمے ہے، یہ بھی معنی ہیں کہ جو ہدایت پر چلا وہ یقینا ہم تک پہنچ جائیگاجی سے فرمایا وعلی اللہ قصد السبیل آخرت اور دنیا کی ملکیت ہماری ہی ہے۔ میں نے بھڑکتی ہوئی آگ سے تمہیں ہوشیار کردیا ہے مسند احمد میں ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے خطبہ کی حالت میں سنا ہے آپ بہت بلند آواز سے فرما رہے تھے یہاں تک کہ میری اس جگہ سے بازار تک آواز پہنچے اور بار بار فرماتے جاتے تھے لوگو ! میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرا چکا۔ لوگو ! میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرا رہا ہوں، بار بار یہ فرما رہے تھے یہاں تک کہ چادر مبارک کندھوں سے سرک کر پیروں میں گر پڑی صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے ہلکے عذاب والا جہنمی قیامت کے دن وہ ہوگا جس کے دونوں قدموں تلے دو انگارے رکھ دئیے جائیں جس سے اس کا دماغ ابل رہا ہو، مسلم شریف کی حدیث میں ہے ہلکے عذاب والا ہے جہنمی ہوگا جس کی دونوں جوتیاں اور دونوں تسمے آگ کے ہوں گے جن سے اس کا دماغ اس طرح ابل رہا وہ گا جس طرح ہنڈیا جوش کھا رہی ہو باوجود یہ کہ سب سے ہلکے عذاب والا یہی ہے لیکن اس کے خیال میں اس سے زیادہ عذاب والا اور کوئی نہ ہوگا، اس جہنم میں صرف وہی لوگ گھیر گھار کر بدترین عذاب کیے جائیں گے جو بدبخت تر ہوں جن کے دل میں کذب بعض ہو اور اسلام پر عمل نہ ہو، مسند احمد کی حدیث میں بھی ہے کہ جہنم میں صرف شقی لوگ جائیں گے لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں ؟ فرمایا جو اطاعت گذار نہ ہوں اور نہ اللہ کے خوف سے کوئی بدی چھوڑتا ہو مسند کی اور حدیث میں ہے میری ساری امت جنت میں جائیگی سوائے اس کے جو جنت میں جانے سے انکار کریں لوگوں نے پوچھا جنت میں جانے سے انکار کرنے والا کون ہے ؟ فرمایا جو میری اطاعت کرے وہ جنت میں گیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا جنت میں جانے سے انکار کردیا اور فرمایا جہنم سے دوری اسے ہوگی جو تقویٰ شعار، پرہیزگار اور اللہ کے ڈر والا ہوگا جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے تاکہ خود بھی پاک ہوجائے اور اپنی چیزوں کو بھی پاک کرلے اور دین دنیا میں پاکیزگی حاصل کرلے کیونکہ یہ شخص اس کے لیے کسی کے ساتھ سلوک نہیں کرتا کہ اس کا کوئی احسان اس پر ہے بلکہ اس لیے کہ آخرت میں جنت ملے اور وہاں اللہ کا دیدار نصیب ہو پھر فرماتا ہے کہ بہت جلد بالیقین ایسی پاک صفتوں والا شخص راضی ہوجائیگا اکثر مفسرین کہتے ہیں یہ آیتیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بارے میں اتری ہیں یہاں تک کہ بعض مفسرین نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے بیشک صدیق اکبر اس میں داخل ہیں اور اس کی عمومیت میں ساری امت سے پہلے ہیں گو الفاظ آیت کے عام ہیں لیکن آپ سے اول اس کے مصداق ہیں ان تمام اوصاف میں اور کل کی کل نیکیوں میں سب سے پہلے اور سب سے آگے اور سب سے بڑھے چڑھے ہوئے آپ ہی تھے آپصدیق تھے پرہیزگار تھے بزرگ تھے سخی تھے۔ آپ مالوں کو اپنے مولا کی اطاعت میں اور رسول اللہ ﷺ کی امداد میں دل کھول کر خرچ کرتے رہتے تھے ہر ایک کیساتھ احسان و سلوک کرتے اور کسی دنیوی فائدے کی چاہت پر نہیں کسی کے احسان کے بدلے نہیں بلکہ صرف اللہ کی مرضی کے لیے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کے لیے جتنے لوگ تھے خواہ بڑے ہوں خواہ چھوٹے سب پر حضرت صدیق اکبر ؓ کے احسانات کے بار تھے یہاں تک کہ عروہ بن مسعود جو قبیلہ ثقیف کا سردار تھا صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جبکہ حضرت صدیق نے اسے ڈانٹا ڈپٹا اور دو باتیں سنائیں تو اس نے کہا کہ اگر آپ کے احسان مجھ پر نہ ہوتے جس کا بدلہ میں نہیں دے سکا تو میں آپ کو ضرور جواب دیتا پس جبکہ عرب کے سردار اور قبائل عرب کے بادشاہ کے اوپر آپ کے اس قدر احسان تھے کہ وہ سر نہیں اٹھا سکتا تھا تو بھلا اور تو کہاں ؟ اسی لیے یہاں بھی فرمایا گیا کہ کسی پر احسان کا بدلہ انہیں دینا نہیں بلکہ صرف دیدار اللہ کی خواہش ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص جوڑا اللہ کی راہ میں خرچ کرے اسے جنت کے داروغے پکاریں گے کہ اے اللہ کے بندے ادھر سے آؤ یہ سب سے اچھا ہے تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ ! کوئی ضرورت تو ایسی نہیں لیکن فرمائیے تو کیا کوئی ایسا بھی ہے جو جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہے اور مجھے اللہ سے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو۔ الحمد اللہ سورة اللیل کی تفسیر ختم ہوئی۔ اللہ کا احسان ہے اور اس کا شکر ہے۔

اردو ترجمہ

اور درحقیقت آخرت اور دنیا، دونوں کے ہم ہی مالک ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna lana lalakhirata waaloola

اردو ترجمہ

پس میں نے تم کو خبردار کر دیا ہے بھڑکتی ہوئی آگ سے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faanthartukum naran talaththa
595