سورہ عادات (100): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Aadiyaat کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ العاديات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ عادات کے بارے میں معلومات

سورہ عادات کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

قسم ہے اُن (گھوڑوں) کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaalAAadiyati dabhan

اللہ تعالیٰ یہاں سواروں کے دستے کی قسم اٹھاتے ہیں۔ ان کی ایک ایک جنگی حرکت کو ترتیب کے ساتھ لایا جاتا ہے۔ جب یہ دستہ اپنے حملے کا آغاز کرتا ہے اور تیز رفتاری کے ساتھ منزل کی طرف بڑھتا ہے۔ گھوڑے پھنکارمارتے آگے جارہے ہیں۔ یہ اپنے سموں سے پتھروں سے چنگاڑیاں نکالتے جاتے ہیں۔ پھر عین صبح کے وقت یہ دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں ، یہ حملہ نہایت سرعت کے ساتھ ہوتا ہے اور اچانک ہوتا ہے۔ حملہ کے وقت گھوڑوں کی بھگدڑ سے غبار اڑتا ہے۔ کیونکہ دشمن حملے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور اس کی حرکات غیر مرتب ہیں ، جب یہ دستہ دشمن کی صفوں میں خلاف توقع جاگھستا ہے تو سخت انتشار و اضطراب برپا ہوجاتا ہے۔

یہ کسی بھی حملہ کے وہ پے درپے اقدامات ہیں جن سے عرب خوف واقف تھے۔ اس قسم کے دستے اور گھوڑوں کی حرکات کی قسم کھانے کا مطلب یہی ہوا کہ اسلام میں اس قسم کے معرکے بہت محبوب ہیں ، یہ اللہ کو بھی محبوب ہیں ، اللہ ایسی حرکات کو اچھی نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ پسندیدہ قدریں ہیں۔

پھر ، یہ مناظر اور جنگی ایکشن ان معانی سے زیادہ ہم آہنگ ہیں جن پر یہاں قسم اٹھائی جارہی ہے ، جیسا کہ ہم نے تبصرے میں وضاحت کی۔ جس مفہوم اور معنی پر قسم اٹھائی جارہی ہے۔ یہ انسان کی ایک نفسیاتی بیماری ہے اور یہ انسان کو اس وقت لاحق ہوتی ہے جب انسان نفسیات ایمان سے خالی ہوں۔ قرآن مجید اس حقیقت کی طرف بار بار اشارہ کرتا ہے تاکہ لوگ اس کے خلاف جدوجہد کریں ۔ اس لئے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ انسانی نفسیات کے اندر یہ بیماری کس قدر گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ اور انسانی شخصیت پر اس کے کتنے اثرات ہوا کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

پھر (اپنی ٹاپوں سے) چنگاریاں جھاڑتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalmooriyati qadhan

اردو ترجمہ

پھر صبح سویرے چھاپہ مارتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalmugheerati subhan

اردو ترجمہ

پھر اس موقع پر گرد و غبار اڑاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faatharna bihi naqAAan

اردو ترجمہ

پھر اِسی حالت میں کسی مجمع کے اندر جا گھستے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fawasatna bihi jamAAan

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna alinsana lirabbihi lakanoodun

ان الانسان ............................ لشدید (6:100 تا 8) ” حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے ، اور وہ خود اس پر گواہ ہے ، اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے “۔ بیشک انسان اپنے رب کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے اور اللہ کے فضل وکرم کا عملی انکار کرتا ہے۔ اور اس کی یہ ناشکری اور کفران نعمت کئی شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے افعال سے اور اس کے اقوال سے ، چناچہ اس کے اعمال واقوال ہی اس کے اس جرم پر گواہ ہوتے ہیں۔ گویا آفتاب آمد دلیل آفتاب ، وہ اپنے اوپر خود گواہ بن جاتا ہے ، اور قیامت میں بھی ایسا ہی ہوگا۔

وانہ .................... ذلک لشھید (7:100) ” وہ خود اس پر گواہ ہے “۔ اور ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ سچائی کی شہادت خود اپنے خلاف دے گا۔ جس میں کوئی شک اور نزاع نہیں۔

وانہ ................ لشدید (8:100) ” اور یہ مال اور دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے “۔ یہ اپنی جان اور اپنے مفاد کو بہت ہی محبوب رکھتا ہے۔ اس لئے اسے دولت کے ساتھ بہت محبت ہے ، دولت کو یہاں ” خیر “ سے تعبیر کیا گیا ہے ، کیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ اس کی بھلائی مال ومتاع اور اقتدار و حکومت میں ہے جو دنیا کے سازو سامان ہیں۔

یہ ہے انسان کی فطرت ، یہ ہے اس کا مزاج اور یہ تب بدل سکتا ہے جب اس کے مزاج اور اس کی نفسیات میں ایمان داخل ہوجائے۔ ایمان کی وجہ سے اس کے تصورات ، اس کی قدریں اور اس کے پیمانے ہی بدل جاتے ہیں۔ اس کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ جب اس کی نفسیات میں ایمان داخل ہوتا ہے تو پھر انکار اور ناشکری اللہ کے فضل کے اعتراف اور شکر میں بدل جاتی ہے۔ جبکہ بخل اور دولت کی محبت ، ایثار اور محبت سے بدل جاتی ہے۔ یہ امان انسان کو ایسی قدریں عطا کرتا ہے جن کے لئے انسان حرص ، لالچ ، مناقست اور جدوجہد کرتا ہے۔ اور یہ قدریں مال و دولت اور اقتدار اور حکومت سے زیادہ بلند ہوتی ہیں ، اور وہ تمام دنیاوی اور حیوانی قدروں سے برتر ہوتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان ایمان کے بغیر نہایت ہی چھوٹا اور حقیر ہوتا ہے ، جس کی امیدیں حقیر ، جس کی ترجیحات حقیر اور جس کے اہداف حقیر ہوتے ہیں اگرچہ بظاہر وہ بہت عظیم مقاصد نظر آئیں۔ جوں جوں انسان کا حرص اور اس کی طمع بڑھتی ہے اور جوں جوں اس کا لالچ شدید ہوتا ہے ، اسکے مقاصدبلند ہوتے ہیں ، وہ زمینی قدروں کے دلدل میں گرتا جاتا ہے۔ اس کی تمام سرگرمیاں اس عمر کے لئے ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ذات کے اندر محدود اور قید ہوجاتا ہے اور اس قید سے اسے رہائی صرف اس صورت میں نصیب ہوسکتی ہے جب وہ اس دنیا سے ایک بڑی دنیا کے ساتھ مربوط ہوجائے ۔ جو اس دنیا سے بہت بلند اور دور ہے ، جو اس کی ذاتی محدود دنیا سے بہت وسیع ہے۔ وہ ایسی دنیا ہے جو اللہ ازلی کی تخلیق ہے ، جس میں تمام امور اللہ ازلی وابدی کی طرف لوٹتے ہیں۔ اور جس میں اس محدود دنیا کی سرحدیں ایک وسیع اور لازوال دنیا سے جاملتی ہیں۔

چناچہ سورت کی آخری جھلک اسی کے بارے میں ہے تاکہ انکار اور ناشکری کا علاج ہوسکے ، تاکہ خود غرضی اور مفاد پرستی کی بیماری کا علاج کیا جاسکے تاکہ نفس پرستی کے قلعے کو توڑ کر حقیقی انسان کو اس سے رہائی دلائی جاسکے۔ چناچہ حشر ونشر کے منظر کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ انسان اس دنیا پرستی اور خود غرضی کو ، مارے خوف کے بھول جائے اور خواب خرگوش سے بیدار ہوکر چوکنا ہوجائے۔

اردو ترجمہ

اور وہ خود اِس پر گواہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainnahu AAala thalika lashaheedun

اردو ترجمہ

اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainnahu lihubbi alkhayri lashadeedun

اردو ترجمہ

تو کیا وہ اُس حقیقت کو نہیں جانتا جب قبروں میں جو کچھ (مدفون) ہے اُسے نکال لیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afala yaAAlamu itha buAAthira ma fee alquboori

یہ ایک شدید اور موثر منظر ہے۔ قبروں سے انسانوں کا نکالا جانا ، اس عمل کے لئے ” بعثرہ “ کا شدید لفظ لایا گیا ہے اور پھر اس منظر میں ان رازوں کو کھینچ کھینچ کر باہر نکالا جارہا ہے جن کو نفوس انسانی نے دبائے اور چھپائے رکھا تھا۔ حصلت کا لفظ اس کے لئے استعمال ہوا کہ گویا سرکاری کارندے زبردستی حاصل کررہے ہیں۔ سرکاری تحصیل دار پہنچے ہوتے ہیں اور نہایت شدید پکڑ دھکڑ کا منظر ہے۔

کیا انسان نہیں جانتا کہ اسے اس قسم کے منظر سے گزرنا ہے۔ اسے کچھ یاد ہے ان حقائق کے بارے میں ، یہ حقائق تو ہر انسان کی فطرت میں ہیں۔ اگر اسے علم ہے اور یاد ہے تو بس اس کی اصلاح کے لئے تو یہی کافی ہے۔ اس علم کا جواب نہیں دیا جاتا کہ اگر وہ جانتا تو کیا ہوتا ؟ تم خودہی سوچ لو کہ کیا ہوتا۔ بہت کچھ ہوجاتا۔ اگر انسان اس بات کو جانتا ، بہت بڑے بڑے نتائج برآمد ہوجاتے ، مجرد اس علم سے ۔ یہ سب حرکات اور یہ جھلکیاں ایک آخری سکون وقرار پر ختم ہوتی ہیں جس تک پہنچ کر ہر حرکت اور ہر بات اپنے ٹھکانے تک پہنچ جاتی ہے۔

599