اس صفحہ میں سورہ Al-Fajr کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفجر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 24{ یَـقُوْلُ یٰــلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ۔ } ”وہ کہے گا : اے کاش میں نے اپنی زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا !“ یہاں لفظ حَیَاتِیْ میری زندگی خاص طور پر لائق توجہ ہے۔ یعنی اس وقت انسان کو معلوم ہوجائے گا کہ میری اصل زندگی تو یہ ہے جواَب شروع ہوئی ہے۔ میں خواہ مخواہ دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھتا رہا جو اس اصل زندگی کی تمہید تھی۔ دراصل انسانی زندگی عالم ارواح سے شروع ہوتی ہے اور دنیا سے ہوتی ہوئی ابد الاباد تک جاتی ہے۔ دنیا کے ماہ و سال اور شب و روز کی گنتی سے زندگی کے اس طویل سفر کا حساب ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے اس فلسفے کی ترجمانی یوں کی ہے : ؎تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی !چنانچہ انسان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس کی دنیوی زندگی اس کی جاودانی زندگی کے تسلسل کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے امتحان کے لیے منتخب فرمایا ہے اور اس وقفہ امتحان کے اختتام کی علامت کے طور پر اس نے موت کو تخلیق فرمایا ہے ‘ تاکہ ہر انسان کے اعمال کی جانچ کی جاسکے : { الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط } الملک : 2 ”اس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔“
آیت 26{ وَّلَا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗٓ اَحَدٌ۔ } ”اور اس کا سا باندھنا کوئی اور نہیں باندھ سکتا۔“ میدانِ حشر میں ایک طرف تو یہ نقشہ ہوگا اور دوسری طرف کچھ ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہوں گے جن سے کہا جائے گا :
آیت 27{ یٰٓــاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ } ”اے نفس ِمطمئنہ !“ ّ جو اس امتحانی زندگی میں مطمئن ہو کر یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کی بندگی میں لگا رہا اور اس کے دین کے ساتھ چمٹارہا۔
آیت 28{ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔ } ”اب لوٹ جائو اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تم اس سے راضی ‘ وہ تم سے راضی۔“ سورة البینہ کی آیت 8 میں ایسے خوش قسمت لوگوں کی یہی کیفیت { رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُط } ”اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی !“ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔
آیت 29{ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۔ } ”تو داخل ہو جائو میرے نیک بندوں میں۔“ اللہ تعالیٰ کے ان نیک بندوں کی نشاندہی سورة النساء کی اس آیت میں کی گئی ہے : { وَمَنْ یُّطِـعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔ } ”اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور رسول ﷺ کی تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں معیت حاصل ہوگی ان کی جن پر اللہ کا انعام ہوا ‘ یعنی انبیاء کرام ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے !“
آیت 30{ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ } ”اور داخل ہو جائو میری جنت میں !“ چناچہ اس نَفسِ مُطمَئنّہسے کہا جائے گا کہ آئو ! میرے ان انعام یافتہ بندوں کی صف میں شامل ہو جائو۔ ایسے خوش قسمت لوگوں کے مراتب کی بلندی کے تصور اور اپنی تہی دامنی کے احساس کے پیش نظر ہمارا ان کی معیت کے لیے دعا مانگنا اگرچہ ”چھوٹا منہ بڑی بات“ کے زمرے میں آتا ہے مگر پھر بھی دل سے بےاختیار دعا نکلتی ہے : اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔۔۔۔ آمین !