اس صفحہ میں سورہ Az-Zalzala کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الزلزلة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا۔ } ”جب زمین ہلائی جائے گی جیسے کہ ہلائی جائے گی۔“ یعنی تم انسان یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس زلزلے کی کیفیت کیسی ہوگی۔ سورة الحج کے آغاز میں اس کیفیت کی شدت کا نقشہ بایں الفاظ کھینچا گیا ہے :{ یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمْج اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ - یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ۔ } ”اے لوگو ! تقویٰ اختیار کروا پنے رب کا ‘ یقینا قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہوگا۔ جس دن تم اس کو دیکھو گے ‘ اس دن حال یہ ہوگا کہ بھول جائے گی ہر دودھ پلانے والی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور دہشت کا عالم یہ ہوگا کہ ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور تم دیکھو گے لوگوں کو جیسے وہ نشے میں ہوں ‘ حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے ‘ بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہے۔“
آیت 2{ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا۔ } ”اور زمین اپنے سارے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی۔“ یعنی اس دن زمین اپنے اندر مدفون تمام انسانوں کو ‘ وہ جس حالت میں بھی ہوں گے ‘ نکال کر باہر ڈال دے گی۔ اگر ان کے ذرّات منتشر ہو کر زمین کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہوں گے تو ان کو بھی یکجا کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ جو انسان اصطلاحی مفہوم میں زمین کے اندر باقاعدہ دفن نہیں بھی ہوتے ‘ مثلاً سمندر میں غرق ہوجاتے ہیں یا جلا دیے جاتے ہیں ‘ ان کے اجسام کے اجزائی ذرات بھی کسی نہ کسی شکل میں بالآخر زمین میں ہی جذب ہوتے ہیں اور وہ قیامت کے دن زمین سے ہی برآمد ہوں گے۔ سورة طٰہٰ کی یہ آیت اس لحاظ سے بہت واضح ہے : { مِنْہَا خَلَقْنٰـکُمْ وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی۔ } ”اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے ‘ اور اسی میں سے ہم تمہیں ایک مرتبہ پھر نکالیں گے۔“
آیت 4{ یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا۔ } ”اس دن یہ اپنی خبریں کہہ سنائے گی۔“ اس دن اللہ تعالیٰ زمین کو بھی بولنے کی صلاحیت عطا فرمائے گا اور وہ ہر انسان کے بارے میں ایک ایک خبر دے گی کہ وہ اس کی پشت پر بیٹھ کر کیا کیا حرکتیں کرتا رہا ہے۔ یعنی جس طرح انسان کے ہاتھ پائوں اور دوسرے اعضاء اس دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اسی طرح زمین کا متعلقہ حصہ اور ٹکڑا بھی اس کے خلاف بطور گواہ کھڑا ہوگا۔ سورة حٰمٓ السجدۃ آیت 21 میں ان گواہیوں کے حوالے سے بہت عبرتناک مکالمات کا ذکر ہے۔ جب انسانوں کی جلدوں سمیت ان کے تمام اعضاء ان کے خلاف گواہیاں دے رہے ہوں گے تو وہ جھنجھلا کر اپنی جلدوں سے کہیں گے : { لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَیْنَاط } کہ تم کیوں ہمارے خلاف بول رہے ہو ؟ اس پر وہ ترکی بہ ترکی جواب دیں گی : { اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْئٍ } کہ آج ہمیں بھی اس اللہ نے بولنے کی صلاحیت عطا کردی ہے جس نے باقی ہرچیز کو بولنا سکھایا ہے۔ بہرحال اس دن اللہ تعالیٰ زمین کو بھی زبان عطا کرے گا اور وہ انسانوں سے متعلق تمام احوال کی ایک ایک تفصیل بیان کرے گی۔
آیت 6{ یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًاج } ”اس دن لوگ علیحدہ علیحدہ ہو کر نکل پڑیں گے“ اَشْتَاتًا جمع ہے شَتٌّکی ‘ یعنی منتشر و متفرق۔ نصب حالیت کی وجہ سے ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ سورة اللیل کی اس آیت میں بھی آیا ہے : { اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی۔ } کہ تم انسان بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہو لیکن تمہاری سعی و جہد کے رخ بالکل مختلف ہیں۔ { لِّیُرَوْا اَعْمَالَہُمْ۔ } ”تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیے جائیں۔“ اس منظر کی ایک جھلک سورة الکہف کی اس آیت میں بھی دکھائی گئی ہے :{ وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰٹہَاج وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاط وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا۔ } ”اور رکھ دیا جائے گا اعمال نامہ ‘ چناچہ تم دیکھو گے مجرموں کو کہ ڈر رہے ہوں گے اس سے جو کچھ اس میں ہوگا اور کہیں گے : ہائے ہماری شامت ! یہ کیسا اعمال نامہ ہے ؟ اس نے تو نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی کو ‘ مگر اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔ اور وہ پائیں گے جو عمل بھی انہوں نے کیا ہوگا اسے موجود۔ اور آپ کا رب ظلم نہیں کرے گا کسی پر بھی۔“ آج کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا مفہوم یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اس دن ایک بہت بڑا کمپیوٹر سرمحشر نصب کردیا جائے گا جس میں پوری نوع انسانی کے ایک ایک فرد کے اعمال سے متعلق تفصیلی ڈیٹا موجود ہوگا۔ جونہی کسی فرد کو حساب کے لیے پیش کیا جائے گا اس کی پوری زندگی کی آڈیو ویڈیو فلم فوراً سکرین پر چلنا شروع ہوجائے گی۔
آیت 8{ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ۔ } ”اور جس کسی نے ذرّہ کے ہم وزن کوئی بدی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔“ عربی لغت کے مطابق چیونٹی کے انڈے سے نکلنے والے بچے کو ”ذرّہ“ کہا جاتا ہے۔ یعنی بہت چھوٹی اور حقیر چیز۔ اسی مفہوم میں لفظ ”ذرّہ“ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ یہ آیت انسان کو اس اہم حقیقت پر متنبہ کرتی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی بہرحال اپنا ایک وزن اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے ‘ اور چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے۔ بسا اوقات انسان نیکی کے چھوٹے سے کام کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے ‘ اور بعض اوقات صغیرہ گناہوں کی پروا نہیں کرتا۔ یہ درست طرزعمل نہیں ہے۔ کسی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے چھوڑنا نہیں چاہیے اور کسی گناہ کو چھوٹا سمجھ کر اس پر جری نہیں ہونا چاہیے۔