سورۃ الممتحنہ (60): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Mumtahana کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الممتحنة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الممتحنہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Mumtahana
سُورَةُ المُمۡتَحنَةِ
صفحہ 549 (آیات 1 سے 5 تک)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ عَدُوِّى وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَآءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِٱلْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا۟ بِمَا جَآءَكُم مِّنَ ٱلْحَقِّ يُخْرِجُونَ ٱلرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَٰدًا فِى سَبِيلِى وَٱبْتِغَآءَ مَرْضَاتِى ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِٱلْمَوَدَّةِ وَأَنَا۠ أَعْلَمُ بِمَآ أَخْفَيْتُمْ وَمَآ أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ إِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا۟ لَكُمْ أَعْدَآءً وَيَبْسُطُوٓا۟ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُم بِٱلسُّوٓءِ وَوَدُّوا۟ لَوْ تَكْفُرُونَ لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَآ أَوْلَٰدُكُمْ ۚ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُوا۟ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٰٓؤُا۟ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَٰوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَحْدَهُۥٓ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَٰهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ أَمْلِكُ لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍ ۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَٱغْفِرْ لَنَا رَبَّنَآ ۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
549

سورۃ الممتحنہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الممتحنہ کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور میری رضا جوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم اُن کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور اُن کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اِس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو تم چھپا کر اُن کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tattakhithoo AAaduwwee waAAaduwwakum awliyaa tulqoona ilayhim bialmawaddati waqad kafaroo bima jaakum mina alhaqqi yukhrijoona alrrasoola waiyyakum an tuminoo biAllahi rabbikum in kuntum kharajtum jihadan fee sabeelee waibtighaa mardatee tusirroona ilayhim bialmawaddati waana aAAlamu bima akhfaytum wama aAAlantum waman yafAAalhu minkum faqad dalla sawaa alssabeeli

حضرت حاطب بن ابوبلتہ ؓ کے بارے میں اس سورت کی شروع کی آیتیں نازل ہوئی ہیں، واقعہ یہ ہوا کہ حضرت حاطب مہاجرین میں سے تھے بدر کی لڑائی میں بھی آپ نے مسلمانوں کے لشکر میں شرکت کی تھی ان کے بال بچے اور مال و دولت مکہ میں ہی تھا اور یہ خود قریش سے نہ تھے صرف حضرت عثمان ؓ کے حلیف تھے اس وجہ سے مکہ میں انہیں امن حاصل تھا، اب یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ شریف میں تھے یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے عہد توڑ دیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان پر چڑھائی کرنا چاہی تو آپ کی خواہش یہ تھی کہ انہیں اچانک دبوچ لیں تاکہ خونریزی نہ ہونے پائے اور مکہ شریف پر قبضہ ہوجائے اسی لئے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی کہ باری تعالیٰ ہماری تیاری کی خبریں ہمارے پہنچنے تک اہل مکہ کو پہنچیں ادھر آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا حضرت حاطب ؓ نے اس موقعہ پر ایک خط اہل مکہ کے نام لکھا اور ایک قریشیہ عورت کے ہاتھ اسے چلتا کیا جس میں رسول اللہ ﷺ کے اس ارادے اور مسلمانوں کی لشکر کشی کی خبر درج تھی، آپ کا ارادہ اس سے صرف یہ تھا کہ میرا کوئی احسان قریش پر رہ جائے جس کے باعث میرے بال بچے اور مال دولت محفوظ رہیں، چونکہ حضور ﷺ کی دعا قبول ہوچکی تھی ناممکن تھا کہ قریشیوں کو کسی ذریعہ سے بھی اس ارادے کا علم ہوجائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس پوشیدہ راز سے مطلع فرما دیا اور آپ نے اس عورت کے پیچھے اپنے سوار بھیجے راستہ میں اسے روکا گیا اور خط اس سے حاصل کرلیا گیا، یہ مفصل واقعہ صحیح احادیث میں پوری طرح آچکا ہے، مسند احمد میں ہے حضرت علی ؓ فرماتے ہیں مجھے، حضرت زبیر ؓ اور حضرت مقداد ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے بلوا کر فرمایا تم یہاں سے فوراً کوچ کرو روضہ خاخ میں جب تم پہنچو گے تو تمہیں ایک سانڈنی سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے تم اسے قبضہ میں کر کے یاں لے آؤ، ہم تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت تیز رفتاری سے روانہ ہوگئے روضہ خاخ میں جب پہنچے تو فی الواقع ہمیں ایک سانڈنی سوار عورت دکھائی دی ہم نے اس سے کہا کہ جو خط تیرے پاس ہے وہ ہمارے حوالے کر، اس نے صاف انکار کردیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہم نے کہا غلط کہتی ہے تیرے پاس یقین ط ہے اگر تو راضی خوشی نہ دے گی تو ہم جامہ تلاشی کر کے جبراً وہ خط تجھ سے چھینیں گے، اب تو وہ عورت سٹ پٹائی اور آخر اس نے اپنی چٹیا کھول کر اس میں سے وہ پرچہ نکال کر ہمارے حوالے کیا ہم اسی وقت وہاں سے واپس روانہ ہوئے اور حضور ﷺ کی خدمت میں اسے پیش کردیا، پڑھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت حاطب ؓ نے اسے لکھا ہے اور یہاں کی خبر رسانی کی ہے۔ حضور ﷺ کے ارادوں سے کفار مکہ کو آگاہ کیا ہے، آپ نے کہا حاطب یہ کیا حرکت ہے ؟ حضرت حاطب ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ جلدی نہ کیجئے میری بھی سن لیجئے، میں قریشویں میں ملا ہوا تھا خود قریشیوں میں سے نہ تھا پر آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھ ہجرت کی جتنے اور مہاجرین ہیں ان سب کے قرابت دار مکہ میں موجود ہیں جو ان کے بال بچے وغیرہ مکہ میں رہ گئے ہیں وہ ان کی حمایت کرتے ہیں لیکن میرا کوئی رشتہ دار نہیں جو میرے بچوں کی حفاظت کرے اس لئے میں نے چاہا کہ قریشیوں کے ساتھ کوئی سلوک و احسان کروں جس سے میرے بچوں کی حفاظت وہ کریں اور جس طرح اوروں کے نسب کی وجہ سے ان کا تعلق ہے میرے احسان کی وجہ سے میرا تعلق ہوجائے۔ یا رسول اللہ ﷺ میں نے کوئی کفر نہیں کیا نہ اپنے دین سے مرتد ہوا ہوں نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہوا ہوں بس اس خط کی وجہ سے صرف اپنے بچوں کی حفاظت کا حیلہ تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا لوگو تم سے جو واقعہ حاطب بیان کرتے ہیں وہ بالکل حرف بہ حرف سچا ہے کہ اپنے نفع کی خاطر ایک غلطی کر بیٹھے ہیں نہ کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا یا کفار کی مدد کرنا ان کے پیش نظر ہو، حضرت فاروق اعظم ؓ اس موقعہ پر موجود تھے اور یہ واقعات آپ کے سامنے ہوئے آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمانے لگے یا رسول اللہ ﷺ مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں آپ نے فرمایا تمہیں کیا معلوم نہیں ؟ کہ یہ بدری صحابی ہیں اور بدر والوں پر اللہ تعالیٰ نے جھانکا اور فرمایا جو چاہو عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا، یہ روایت اور بھی بہت سی حدیث کی کتابوں میں ہے، صحیح بخاری شریفک تاب المغازی میں اتنا اور بھی ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری اور کتاب التفسیر میں ہے کہ حضرت عمرو ؓ نے فرمایا اسی بارے میں آیت (ترجمہ) الخ، اتری لیکن راوی کو شک ہے کہ آیت کے اترنے کا بیان حضرت عمرو ؓ کا ہے یا حدیث میں ہے، امام علی بن مدینی ؒ فرماتے ہیں حضرت سفیان ؒ سے پوچھا گیا کہ یہ آیت اسی میں اتری ہے ؟ تو سفیان نے فرمایا یہ لوگوں کی بات میں ہے میں نے اسے عمرو ؓ سے حفظ کیا ہے اور ایک حرف بھی نہیں چھوڑا اور میرا خیال ہے کہ میرے سوا کسی اور نے اسے حفظ بھی نہیں رکھا، بخاری مسلم کی ایک روایت میں حضرت مقداد ؓ کے نام کے بدلے حضرت ابومرتد ؓ کا نام ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے یہ بھی بتادیا تھا کہ اس عورت کے پاس حضرت حاطب ؓ کا خطہ ہے، اس عورت کی سواری کو بٹھا کر اس کے انکار پر ہرچند ٹٹولا گیا لیکن کوئی پرچہ ہاتھ نہ لگا آخر جب ہم عاجز آگئے اور کہیں سے پرچہ نہ ملا تو ہم نے اس عرت سے کہا کہ اس میں تو مطلق شک نہیں کہ تیرے پاس پرچہ ہے گو ہمیں نہیں ملتا لیکن تیرے پاس ہے ضرور، یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بات غلط ہو اب اگر تو نہیں دیتی تو ہم تیرے کپڑے اتار کر ٹٹولیں گے، جب اس نے دیکھ لیا کہ انہیں پتہ یقین ہے اور یہ لئے بغیر نہ ٹلیں گے تو اس نے اپنا سر کھول کر اپنے بالوں میں سے پرچہ نکال کر ہمیں دے دیا ہم اسے لے کر واپس خدمت نبوی ﷺ میں اضر ہوئے، حضرت عمر ؓ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا اس نے اللہ، اس کے رسول ﷺ کی اور مسلمانوں کی خیانت کی مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئے، حضور ﷺ نے حضرت حاطب ؓ سے دریافت کیا اور انہوں نے وہ جواب دیا جو اوپر گذر چکا آپ نے سب سے فرما دیا کہ انہیں کچھ نہ کہو اور حضرت عمر ؓ سے بھی وہ فرمایا جو پہلے بیان ہوا کہ بدری صحابہ میں سے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت واجب کردی ہے جسے سن کر حضرت عمر ؓ رو دیئے اور فرمانے لگے اللہ کو اور اس کے رسول ﷺ کو ہی کامل علم ہے، یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح بخاری کتاب المغازی میں غزوہ بدر کے ذکر میں ہے اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے مکہ جانے کا ارادہ اپنے چند ہم راز صحابہ کبار ؓ کے سامنے تو ظاہر کیا تھا جن میں حضرت حاطب ؓ بھی تھے باقی عام طور پر مشہور تھا کہ خیبر جا رہے ہیں، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ہم خط کو سارے سامان میں ٹٹول چکے اور نہ ملا تو حضرت ابو مرتد ؓ نے کہا شاید اس کے پاس کوئی پرچہ ہی نہیں اس پر حضرت علی ؓ نے فرمایا ناممکن ہے نہ رسول اللہ ﷺ جھوٹ بول سکتے ہیں نہ ہم نے جھوٹ کہا، جب ہم نے اسے دھمکایا تو اس نے ہم سے کہا تمہیں اللہ ا خوف نہیں ؟ کیا تم مسلمان نہیں ؟ ایک روایت میں ہے کہ اس نے پرچہ اپنے جسم میں سے نکالا۔ حضرت عمر ؓ کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا یہ بدر میں موجود تو ضرور تھے لیکن عہد شکنی کی اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا اولاد عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھی حضرت حاطب ؓ نے اسے کچھ دینا کیا تھا اور اس نے اپنے بالوں تلے کاغذ رکھ کر اوپر سے سرگوندھ لیا تھا آپ نے اپنے گھوڑ سواروں سے فرما دیا تھا کہ اس کے پاس حاطب ؓ کا دیا ہوا اس مضمون کا خط ہے، آسمان سے اس کی خبر حضور ﷺ کے پاس آئی تھی بنو ابو احمد کے حلیفہ میں یہ عورت پکڑی گئی تھی، اس عورت نے ان سے کہا تھا کہ تم منہ پھیر لو میں نکال دیتی ہوں انہوں نے منہ پھیرلیا پھر اس نے نکال کر حوالہ کیا، اس روایت میں حضرت حاطب ؓ کے جواب میں یہ بھی ہے کہ اللہ کی قسم میں اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہوں کوئی تغیر تبدل میرے ایمان میں نہیں ہوا، اور اسی بارے میں اس سورت کی آیتیں حضرت ابراہیم کے قصہ کے ختم تک اتریں، ایک اور روایت میں ہے کہ اس عورت کو اس کی اجرت کے دس درہم حضرت حاطب ؓ نے دیئے تھے، اور حضور ﷺ نے اس خط کے حاصل کرنے کے لئے حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کو بھیجا تھا اور حجفہ میں یہ ملی تھی۔ مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ اے مسلمانو ! مشرکین اور کفار کو جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مومن بندوں سے لڑنے والے ہیں، جن کے دل تمہاری عداوت سے پر ہیں تمہیں ہرگز لائق نہیں کہ ان سے دوستی اور محبت میل ملاپ اور اپنایت رکھو تمہیں اس کے خلاف حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے (ترجمہ) الخ، اے ایماندار و یہود و نصاریٰ سے دوستی مت گانٹھو وہ آپس میں ہی ایک دوسروں کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے سوالات و محبت کرے وہ انہی میں سے شمار ہوگا۔ اس میں کس قدر ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے اور جگہ ہے (ترجمہ) الخ، مسلمانو ! ان اہل کتاب اور کفار سے دوستیاں نہ کرو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھ رہے ہیں اگر تم میں ایمان ہے تو ذات باری سے ڈرو، ایک اور جگہ ارشاد ہے مسلمانو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں نہ کرو کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا کھلا الزام ثابت کرلو، ایک اور جگہ فرمایا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنوں کے علاوہ کافروں سے دوستانہ نہ کریں جو ایسا کیر گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں ہاں بطور دفع الوقتی اور بچاؤ کے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آپ سے ڈرا رہا ہے، اسی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت حاطب ؓ کا عذر قبول فرما لیا کہ اپنے مال و اولاد کے بچاؤ کی خاطر یہ کام ان سے ہوگیا تھا، مستند احمد میں ہے کہ ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ نے کئی مثالیں بیان فرمائیں ایک اور تین اور پانچ اور سات اور نو اور گیارہ پھر ان میں سے یہ تفصیل صرف ایک ہی بیان کی باقی سب چھوڑ دیں، فرمایا ایک ضعیف مسکین قوم تھی جس پر زور آور ظالم قوم چڑھائی کر کے آگئی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کمزوروں کی مدد کی اور انہیں اپنے دشمن پر غالب کردیا غالب آ کر ان میں رعونت سما گئی اور انہوں نے ان پر مظالم شروع کردیئے جس پر اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ کے لئے ناراض ہوگیا۔ پھر مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے کہ تم ان دشمنان دین سے کیوں مودت و محبت رکھتے ہو ؟ حالانکہ یہ تم سے بدسلوکی کرنے میں کسی موقعہ پر کمی نہیں کرتے کیا یہ تازہ واقعہ بھی تمہارے ذہن سے ہٹ گیا کہ انہوں نے تمہیں بلکہ خود رسول اللہ ﷺ کو بھی جبراً وطن سے نکال باہر کیا اور اس کی کوئی اور وجہ نہ تھی سوائے اس کے کہ تمہاری توحید اور فرمانبرداری رسول ﷺ ان پر گراں گذرتی تھی۔ جیسے اور جگہ ہے (ترجمہ) یعنی مومنوں سے صرف اس بنا پر مخاصمت اور دشمنی ہے کہ وہ اللہ برتر بزرگ پر ایمان رکھتے ہیں اور جگہ ہے یہ لوگ محض اس وجہ سے ناحق جلا وطن کئے گئے کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔ پھر فرماتا ہے اگر سچ مچ تم میری راہ کے جہاد کو نکلے ہو اور میری رضامندی کے طالب ہو تو ہرگز ان کفار سے جو تمہارے اور میرے دشمن ہیں میرے دین کو اور تمہارے جان و مال کو نقصان پہنچا رہے ہیں دوستیاں نہ پیدا کرو، بھلا کس قدر غلطی ہے کہ تم ان سے پوشیدہ طور پر دوستانہ رکھو ؟ کیا یہ پوشیدگی اللہ سے بھی پوشیدہ رہ سکتی ہے ؟ جو ظاہر وباطن کا جاننے والا ہے، دلوں کے بھید اور نفس کے وسوسے بھی جس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ بس سن لو جو بھی ان کفار سے موالات و محبت رکھے وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا۔ تم نہیں دیکھ رہے ؟ کہ ان کافروں کا اگر بس چلے اگر انہیں کوئی موقعہ مل جائے تو نہ اپنے ہاتھ پاؤں سے تمہیں نقصان پہنچانے میں دریغ کریں نہ برا کہنے سے اپنی زبانیں روکیں جو ان کے امکان میں ہوگا وہ کر گذریں گے بلکہ تمام تر کوشش اس امر پر صرف کردیں گے کہ تمہیں بھی اپنی طرح کافر بنالیں، پس جب کہ ان کی اندرونی اور بیرنی دشمنی کا حال تمہیں بخوبی معلوم ہے پھر کیا اندھیر ہے ؟ کہ تم اپنے دشمنوں کو دوست سمجھ رہے ہو اور اپنی راہ میں آپ کانٹے بو رہے ہو، غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو کافروں پر اعتماد کرنے اور ان سے ایسے گہرے تعلقات رکھنے اور دلی میل رکھنے سے روکا جا رہا ہے اور وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جو ان سے علیحدگی پر آمادہ کردیں۔ تمہاری قرابتیں اور رشتہ داریاں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی، اگر تم اللہ کو ناراض کر کے انہیں خوش کرو اور چاہو کہ تمہیں نفع ہو یا نقصان ہٹ جائے یہ بالکل خام خیالی ہ، نہ اللہ کی طرف کے نقصان کو کوئی ٹال سکے نہ اس کے دیئے ہوئے نفع کو کوئی روک سکے، اپنے والوں سے ان کے کفر پر جس نے موافقت کی وہ برباد ہوا، گو رشتہ دار کیسا ہی ہو کچھ نفع نہیں، مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا جہنم میں۔ جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا سن میرا باپ اور تیرا باپ دونوں ہی جہنمی ہیں۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں اور سنن ابو داؤد میں بھی ہے۔ مسلمانو ! تمہارے لئے حضرت ابراہیم ؑ میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ اور اچھی پیروی موجود ہے۔ جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے عقائد کے منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت و بغض ظاہر ہوگیا لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں، اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ اے اللہ تو ہمیں کافروں کا زبردست اور تختہ مشق نہ بنا اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے، بیشک تو ہی غالب حکمتوں والا ہے۔ یقیناً تمہارے لئے ان میں نیک نمونہ اور عمدہ پیروی ہے خاص کر ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کا اعتقاد رکھتا ہو اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اللہ تعالیٰ بالکل بےپرواہ ہے اور وہ سزا وار حمد وثناء ہے۔

اردو ترجمہ

اُن کا رویہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پا جائیں تو تمہارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمہیں آزار دیں وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہو جاؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In yathqafookum yakoonoo lakam aAAdaan wayabsutoo ilaykum aydiyahum waalsinatahum bialssooi wawaddoo law takfuroona

اردو ترجمہ

قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمہاری اولاد اُس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا، اور و ہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lan tanfaAAakum arhamukum wala awladukum yawma alqiyamati yafsilu baynakum waAllahu bima taAAmaloona baseerun

اردو ترجمہ

تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا "ہم تم سے اور تمہارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ" مگر ابراہیمؑ کا اپنے باپ سے یہ کہنا (اِس سے مستثنیٰ ہے) کہ "میں آپ کے لیے مغفرت کی درخواست ضرور کروں گا، اور اللہ سے آپ کے لیے کچھ حاصل کر لینا میرے بس میں نہیں ہے" (اور ابراہیمؑ و اصحاب ابراہیمؑ کی دعا یہ تھی کہ) "اے ہمارے رب، تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کر لیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad kanat lakum oswatun hasanatun fee ibraheema waallatheena maAAahu ith qaloo liqawmihim inna buraao minkum wamimma taAAbudoona min dooni Allahi kafarna bikum wabada baynana wabaynakumu alAAadawatu waalbaghdao abadan hatta tuminoo biAllahi wahdahu illa qawla ibraheema liabeehi laastaghfiranna laka wama amliku laka mina Allahi min shayin rabbana AAalayka tawakkalna wailayka anabna wailayka almaseeru

عصبیت دین ایمان کا جزو لاینفک ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کفار سے موالات اور دوستی نہ کرنے کی ہدایت فرما کر ان کے سامنے اپنے خلیل اور ان کے اصحاب کا نمونہ پیش کر رہا ہے کہ انہوں نے صاف طور پر اپنے رشتہ کنبے اور قوم کے لوگوں سے برملا فرما دیا کہ ہم تم سے اور جنہیں تم پوجتے ہو ان سے بیزار بری الذمہ اور الگ تھلگ ہیں، ہم تمہارے دین اور طریقے سے متنفر ہیں، جب تک تم اسی طریقے اور اسی مذہب پر ہو تم ہمیں اپنا دشمن سمجھوناممکن ہے کہ برادری کی وجہ سے ہم تمہارے اس کفر کے باوجود تم سے بھائی چارہ اور دوستانہ تعلقات رکھیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تم اللہ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان لے آؤ اس کی توحید کو مان لو اور اسی ایک عی ابدت شروع کردو اور جن جن کو تم نے اللہ کا شریک اور ساجھی ٹھہرا رکھا ہے اور جن جن کی پوجا پاٹ میں مشغول ہو ان سب کو ترک کردو اپنی اس روش کفر اور طریق شرک سے ہٹ جاؤ تم پھر بیشک ہمارے بھائی ہو ہمارے عزیز ہو ورنہ ہم میں تم میں کوئی اتحاد و اتفاق نہیں ہم تم سے اور تم ہم سے علیحدہ ہو، ہاں یہ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے والد سے جو استغفار کا وعدہ کیا تھا اور پھر اسے پورا کیا اس میں ان کی اقتداء نہیں، اس لئے کہ یہ استغفار اس وقت تک رہا جس وقت تک کہ اپنے والد کا دشمن اللہ ہونا ان پر وضاحت کے ساتھ ظاہر نہ ہوا تھا جب انہیں یقینی طور پر اس کی اللہ سے دشمنی کھل گئی تو اس سے صاف بیزاری ظاہر کردی، بعض مومن اپنے مشرک ماں باپ کے لئے دعاء و استغفار کرتے تھے اور سند میں حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے والد کے لئے دعا مانگنا پیش کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فرمان (ترجمہ) پوری دو آیتوں تک نازل فرمایا اور یہاں بھی اسوہ ابراہیمی میں سے اس کا استثناء کرلیا کہ اس بات میں ان کی پیروی تمہارے لئے ممنوع ہے اور حضرت ابراہیم کے اس استغفار کی تفصیل بھی کردی اور اس کا خاص سبب اور خاص وقت بھی بیان فرما دیا، حضرت ابن عباس مجاہد قتادہ مقاتل بن حیان صحاک وغیرہ نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ قوم سے برات کر کے اب اللہ کی بار گاہ میں آتے ہیں اور جناب باری میں عاجزی اور انکساری سے عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ تمام کاموں میں ہمارا بھروسہ اور اعتماد تیری ہی پاک ذات پر ہے ہم اپنے تمام کام تجھے سونپتے ہیں تیری طرف رجوع ورغبت کرتے ہیں، دار آخرت میں بھی ہمیں تیری ہی جانب لوٹنا ہے۔ پھر کہتے ہیں الٰہی تو ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا، یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ ہم پر غالب آ کر ہمیں مصیبت میں مبتلا کردیں، اسیط رح یہ بھی نہ ہو کہ تیری طرف سے ہم پر کوئی عتاب و عذاب نازل ہو اور وہ ان کے اور بہکنے کا سبب بنے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو اللہ انہیں عذاب کیوں کرتا ؟ اگر یہ کسی میدان میں جیت گئے تو بھی ان کے لئے یہ فتنہ کا سبب ہوگا وہ سمجھیں گے کہ ہمیں اس لئے غالب آئے کہ ہم ہی حق پر ہیں، اسیطرح اگر یہ ہم پر غالب آگئے تو ایسا نہ ہو کہ ہمیں تکلیفیں پہنچا پہنچا کر تیرے دین سے برگشتہ کردیں۔ پھر دعا مانگتے ہیں کہ الٰہی ہمارے گناہوں کو بھی بخش دے، ہماری پردہ پوشی کر اور ہمیں معاف فرما، تو عزیز ہے تیری جناب میں پناہ لینے والا نامراد نہیں پھرتا تیرے در پر دستک دینے والا خالی ہاتھ نہیں جاتا، تو اپنی شریعت کے تقرر میں اپنے اقوال و افعال میں اور قضا و قدر کے مقدر کرنے میں حکمتوں والا ہے، تیرا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ پھر بہ طور تاکید کے وہی پہلی بات دوہرائی جاتی ہے کہ ان میں تمہارے لئے نیک نمونہ ہے جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے آنے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو اسے ان کی اقتداء میں آگے بڑھ کر قدم رکھنا چاہئے اور جو احکام اللہ سے روگردانی کرے وہ جان لے کہ اللہ اس سے بےپرواہ ہے وہ لائق حمد وثناء ہے مخلوق اس خالق کی تعریف میں مشغول ہے، جیسے اور جگہ ہے (ترجمہ) " اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کفر پر اور اللہ کے نہ ماننے پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ سب سے غنی سب سے بےنیاز اور سب سے بےپرواہ ہے اور وہ تعریف کیا گیا ہے " حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں غنی اسے کہا جاتا ہے جو اپنی غنا میں کامل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر طرح سے بےنیاز اور بالکل بےپرواہ ہے کسی اور کی ذات ایسی نہیں، اس کا کوئی ہمسر نہیں اس کے مثل کوئی اور نہیں وہ پاک ہے اکیلا ہے سب پر حاکم سب پر غالب سب کا بادشاہ ہے، حمید ہے یعنی مخلوق اسے سراہ رہی ہے، اپنے جمیع اقوال میں تمام افعال میں وہ ستائشوں اور تعریفوں والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے سوا کوئی پالنے والا نہیں، رب وہی ہے معبود وہی ہے۔

اردو ترجمہ

اے ہمارے رب، ہمیں کافروں کے لیے فتنہ نہ بنا دے اور اے ہمارے رب، ہمارے قصوروں سے درگزر فرما، بے شک تو ہی زبردست اور دانا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana la tajAAalna fitnatan lillatheena kafaroo waighfir lana rabbana innaka anta alAAazeezu alhakeemu
549