اس صفحہ میں سورہ Al-Mumtahana کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الممتحنة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
سورت کا آغاز نہایت ہی محبوب آواز سے ہوتا ہے جہاں بھی اس آواز سے مسلمانوں کو خطاب کیا جاتا ہے اس کے اندر گہرے اشارات ہوتے ہیں۔
یایھا الذین امنوا (06 : 1) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو “۔ یہ آواز اس رب کی جانب سے ہے جس پر وہ ایمان لاچکے ہیں۔ ان کو اہل ایمان کے نام سے پکارا جاتا ہے ، کہ تمہارے ایمان کے کچھ تقاضے ہیں۔ تم نہایت ہی خطرناک موڑ پر کھڑے ہو ، تمہارے ارد گرد دشمن سازشوں کے جال بن رہے ہیں۔ اور تم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے .... اپنائیت کے انداز میں۔ اللہ اپنے دشمنوں کو ان کا دشمن اور ان کے دشمنوں کو اپنے دشمن سے تعبیر کرتا ہے ، تاکہ مسلمانوں کے اندر یہ شعور ہو کہ وہ اللہ کے سپاہی ہیں۔ اسی کی طرف ہی ان کو جانا ہے۔ اللہ کا دشمن ان کا دشمن ہے۔
لا تتخذو .................... بالمودة (06 : 1) ” میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ کہ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو “۔ یہاں مومنین کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ وہ میرے ہیں اور میری طرف آنے والے ہیں۔ اس لئے میں تمہارے دشمنوں کا دشمن ہوں۔ لہٰذا وہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی طرف منسوب ہیں ، جو اس زمین پر اللہ کے جھنڈے بلند کرنے والے ہیں۔ وہ اللہ کے محبوب اور دوست ہیں۔ لہٰذا ان کے شایان شان یہ بات نہیں ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کریں۔ یہاں ان کو یاد دلایا کہ ذرا سوچو تو سہی کہ یہ دشمن تمہارے خلاف کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ تمہارے دین اور تمہارے رسول کے بارے میں ان کا رویہ کیا رہا ہے۔ یہ جنون کی حد تک تم پر مظالم کرتے رہے۔
وقد کفروا ............................ باللہ ربکم (0 : 1) ” حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب ، اللہ پر ایمان لائے ہو “۔ آخر ان جرائم کے بعد ان کے ساتھ دوستی اور محبت کی کیا بنیاد رہ گئی ہے۔ انہوں نے سچائی سے کفر کیا۔ رسول اللہ کو اپنے گھر اور شہر سے نکالا۔ مومنین کو نکالا اور ان کا اس کے سوا کوئی جرم نہ تھا کہ وہ اللہ رب العالمین پر ایمان لائے تھے۔ مسلمانوں کو وہ باتیں یاددلائی جارہی ہیں جن کا تعلق ان کے عقیدے سے ہے۔ اس عقیدے ہی کی وجہ سے ان کے ساتھ مشرکین نے جنگ کی تھی اور اس عقیدے کے سوا اس مسلسل جنگ کی اور کوئی وجہ نہ تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ مسئلہ ہی ایمان کا تھا۔ جس پر اس قدر جنگیں اور دشمنیاں ہوئیں۔ یہ عقائد کی جنگ ہے ، نظریات کی جنگ ہے۔ صرف یہ مسئلہ ہے کہ انہوں نے سچائی سے انکار کیا ، انہوں نے رسول کو اور ایمان کی وجہ سے مسلمانوں کو نکالا
جب یہ مسئلہ واضح ہے اور ظاہر ہے تو ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ اب تو ان کے ساتھ مروت و محبت کا کوئی جو ازہی نہیں ہے۔ بشرطیکہ تم صرف اس مقصد کے لئے آئے ہو ، اگر کسی کا کوئی اور مقصد ہے تو وہ یایھا الذین امنوا (06 : 1) سے مخاطب نہیں ہے۔
ان کنتم .................... مرضاتی (06 : 1) ” اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لئے اور میری رضا جوئی کی خاطر نکلے ہو “۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک شخص جہاد کے لئے آیا ہو اور اللہ کی رضا کی خاطر مہاجر ہوا ہو اور پھر اسے اس کے ایمان کی وجہ سے نکالا گیا ہو اور وہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جنہوں نے اسے نکالا ہو اور وہ اس کے اور اللہ کے دشمن ہوں۔
اس کے بعد ان کو اس بات سے ڈرایا جاتا ہے جو ان کے دلوں میں خفیہ طور پر بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ کہ وہ اللہ کے دشمنوں کی محبت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ، حالانکہ اللہ سے تو کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تو خفیہ اور علانیہ سب چیزوں کو جانتا ہے۔
تشرون ........................ وما اعلنتم (06 : 1) ” تم چھپا کر ان کو دومستانہ پیغام بھیجتے ہو ، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو ، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں “۔
اس کے بعد ان کو ذرا شدید انداز میں دھمکی دی جاتی ہے۔ اس قدر شدید کہ ایک مومن کا دل دہل جاتا ہے۔
ومن .................... السبیل (06 : 1) ” جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقینا راہ راست سے بھٹک گیا “۔ مومن نے سب قربانیاں تو ایمان کی خاطر دی ہیں۔ اگر ایمان ہی کو خطرہ لاحق ہوگیا تو اس کے سوا اس کے لئے کیا اور خطرہ ہوسکتا ہے ؟
ان دونوں تخویفات اور تنبیہات کے بعد دوبارہ اہل ایمان کو بتایا جاتا ہے کہ کفار تمہارے بارے میں کیا کچھ سوچتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں۔
ان یثقفوکم .................... بالسوء (0 : 2) ” ان کا رویہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پاجائیں تو تمہارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمہیں آزار دیں “۔ وہ جب بھی مسلمانوں کے خلاف کوئی موقعہ پاتے ہیں ، اپنے کمینے اور دشمنی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ جس قدر اذیت مومنین کو دے سکتے ہیں ، دیتے ہیں۔ یہ ہاتھوں سے اذیت ہو ، یا زبانوں سے اذیت ہو ، ہر طریقے اور ہر سبیل سے وہ اس کام کے لئے تیار ہیں .... اور سب سے بڑی بات اور سب سے خوفناک بات یہ ہے :
وودوا لوتکفرون (06 : 2) ” وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ “۔ صحیح مومنین کے لیے یہ تمام اذیتوں سے بڑی اذیت ہے۔ ہر جسمانی ، لسانی اور روحانی اذیت سے ان کے لئے یہ بڑی اذیت ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ ان کے ہاتھ سے نہایت ہی قیمتی خزانہ چلا جائے گا۔ ایمان کا خزانہ اور وہ مرتد ہوجائیں گے اور یہ ان کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی ہوگی۔
اس خزانے کی قدروقیمت اسی شخص کو معلوم ہے ، جو کفر کے بعد مومن ہوا ہے ، جس نے گمراہی کے بعد نورہدایت دیکھا ہو۔ اور اب وہ اپنے تصورات ، اپنے افکار ، اپنے شعور کے ساتھ ایمانی زندگی بسر کررہا ہو ، نہایت اطمینان کے ساتھ۔ ایسا شخص کسی صورت میں بھی اپنی سابقہ حالت کی طرف نہیں لوٹ سکتا۔ ایسا شخص کفر کو اس طرح ناپسند کرتا ہے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے۔ پس مومنین کا دشمن وہ ہے جو انہیں دوبارہ کفر کی جہنم میں ڈال دینا چاہتا ہے جبکہ اللہ نے ان کو توفیق دے دی ہے کہ وہ جنت ایمانی میں زندگی بسر کریں۔ یہ ایمانی زندگی کو بھر پور اور بامعنی بنا دیتا ہے جبکہ کفر کی زندگی خالی اور بےمعنی ہوتی ہے۔ یوں قرآن کریم تدریج کے ساتھ بتاتا ہے کہ مسلمانوں اور اللہ کے دشمن اہل ایمان کو دوبارہ کافر بنانا چاہتے ہیں ، یہ ان کی اصولی اسکیم ہے ، اور اسی لئے تو تم مکہ سے بھاگ نکلے ہو۔ یادرکھو۔
وودوا لوتکفرون (06 : 2) ” اور وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح دوبارہ کافر ہوجاؤ “۔
یہ تھا پہلا دور ، جس کے اندر متعدد حقائق ہدایات اور بیداری کے لئے تیز چٹکیاں تھیں۔ اس کے بعد ایک دور جس کے اندر ایک ہی تیز احساس دے دیا گیا ہے کہ یہ قرابت داریاں ، جو انسان کو خفیہ دوستی پر مجبور کرتی ہیں ، اور دو ٹوک نظریاتی موقف کو بھلا دیتی ہیں یہ بالکل مفید نہیں ہیں۔
لن تنفعکم .................... بصیر (06 : 3) ” قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمہاری اولاد۔ اس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا اور وہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے “۔
مومن نیکی کرتا ہے اور آخرت کام اجر چاہتا ہے۔ وہ دنیا میں بوتا ہے اور آخرت میں کاٹے گا۔ اور اس پر یہ بات اثرانداز ہوتی ہے کہ جب آخرت میں ایمان اور عقیدے کا تعلق نہ ہوگا تو رشتہ داری کا تعلق بھی کٹ جائے گا ، تو اس طرح اس دنیا کی مختصر زندگی میں اس کے دل سے اس رشتہ داری اور قرابت داری کے تعلقات کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ اور وہ ایسے تعلق کو اہمیت دینے لگتا ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں مفیدہوتا ہے اور قائم رہتا ہے اور وہ نظریاتی اور ایمانی تعلق ہوتا ہے۔
لن تنفعکم .................... اولادکم (0 : 3) ” قیامت کے دن تمہاری رشتہ داریاں اور اولاد تمہارے کسی کام نہ آئے گی “۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی طرف تم لپکتے ہو اور تمہارے دل ان سے متعلق ہیں اور یہ تعلقات تمہیں مجبور کرتے ہیں کہ تم اپنے دشمنوں کے ساتھ دوستی کرو ، تاکہ تم ان تعلقات کو بچا سکو۔ جب کہ حضرت حاطب نے اپنی اولاد اور مال کی خاطر یہ کیا۔ جس طرحدوسروں کے دل اپنی اولاد اور مال کے لئے جوش مارتے ہیں ، تو یہ چیزیں بھی تمہیں کوئی نفع نہ دیں گی۔ قیامت کے دن تو یفصل بینکم ” اس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی کردے گا “۔ کیونکہ رشتہ داری اور قرابت دار کی رسی اس دن ٹوٹ جائے گی ، اس دن صرف اللہ کی رسی کام کرے گی۔
واللہ ............ بصیر (06 : 3) ” اور وہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے “۔ وہ ظاہر ، باطن اور نیت تک سے واقف ہے۔
اب تیسرا پیراگراف آتا ہے۔ اس میں امت مسلمہ کو اس امت کے سرچشمے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے جایا جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم سے ادھر ایک ہی قافلہ ہے ، اور ایک ہی امت ہے ، تاریخ کی طویل وادیوں میں یہ چلا آرہا ہے۔ اس قافلے کا سامان ، سامان ایمان ہے۔ یہ قافلہ ہر قسم کے تعلقات سے برات کرتا ہے ، ماسوائے تعلقات عقیدہ کے۔ یہی امت ہے جو حضرت ابراہیم سے چلی۔ یہ ابو الانبیاء تھے اور دین حنیف کے داعی۔ وہ قابل تقلید ہیں ، نہ صرف عقیدے میں ، بلکہ سیرت اور انداز تبلیغ میں بھی۔ ان کو بھی یہی قرابت داری اور رشتہ داری کا مسئلہ درپیش تھا۔ چناچہ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھی مومنین ان رشتہ داریوں اور علاقوں کو چھوڑ کر چلے گئے اور انہوں نے صرف اپنا عقیدہ اپنا لیا۔
انہی لوگوں کے طرفز عمل میں تمہارے لئے ہر اس شخص کے لئے اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخر کا امیدوار ہو۔ اس سے کوئی منحرف ہو تو اللہ بےنیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے “۔
ایک مسلم جب تاریخ پر نظر ڈالتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی ایک طویل تاریخی نسب نامہ اور شجرہ ایمان ہے۔ یہ ماضی کی تاریخ میں بہت دور تک پھیلا ہوا ہے ، دور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے عقائد ونظریات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پیروکار ہے بلکہ اہل ایمان اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دعوتی تجربات بھی ایک ہی جیسے ہیں اس لئے ایک مومن یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کے پاس تجربات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ نہ صرف وہ تجربات جن سے وہ گزر رہا ہے بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تجربات بھی اس میں شامل ہیں۔ قافلہ ایمان جو اب مکہ میں ہے ، یہ تو ماضی کی تاریخ زمان ومکان میں بہت دور تک چلا ہے۔ کئی وادیاں اس نے طے کی ہیں۔ یہ صرف اسی جھنڈے تلے چلتا رہا ہے اور ایسے ہی حالات سے گزرا ہے جن سے وہ گزر رہے ہیں ، یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے کہ گویا صرف تم ان مشقتوں سے دو چار ہوگئے ہو۔ آج اگر مومنین کا تعلق اپنے دشمنوں سے کٹ گیا تو کیا بات ہے۔ وہ ایک ایسے نظریہ کی ایک شاخ ہے جس کی نہایت ہی سایہ دار شاخیں تاریخ کی فضا میں ، دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ وہ درخت ہے جس کا پودا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے لگایا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اس تجربے سے گزرے تھے ، جس سے مدینہ میں مسلمان گزر رہے تھے اور حضرت ابراہیم میں الہ ایمان کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔
اذ قالو ........................ وحدہ (0 : 4) ”” تم لوگوں کے لئے ابراہیم (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں میں اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا “۔ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو ، قطعی بیزار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت ہوگئی اور بیر پڑگیا۔ جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ “۔ اس میں انہوں نے اپنی قوم ، ان کے معبودوں ، اور ان کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کردیا۔ دوسرے الفاظ میں ان کا کفر کیا اور اللہ پر ایمان لائے اور یہ عداوت اور بغض اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ اللہ وحدہ پر ایمان نہ لائے۔ یہ دو ٹوک ، فیصلہ کن اور پختہ قطع تعلق تھا ، جس کے بعد فریقین کے درمیان سے ہر قسم کے روابط کٹ گئے ، ماسوائے تعلق ایمان کے۔ یہی فیصلہ اہل ایمان کا فیصلہ ہے اور یہی قرار داد ان اہل ایمان کی ہے جو مدینہ میں ہیں۔ اور ایسا ہی ہونا چاہئے جس طرح امت ابراہیمی نے فیصلہ کیا۔
بعض مومنین یہ دیکھتے تھے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے باوجود قطع تعلق کے اپنے والد کے لئے استغفار کیا حالانکہ وہ مسرک تھے۔ اس میں بعض مسلمانوں کے لئے دبے ہوئے جذبات ابھرانے کی راہ تھی۔ جو وہ اپنے مشرک بھائیوں کے لئے رکھتے تھے۔ چناچہ قرآن نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس استغفار کی توضیح کردی۔ کیونکہ انہوں نے باپ سے کہا تھا۔
لا ستغفرن لک (06 : 4) ” میں تمہارے لئے ضروری استغفار کروں گا “۔ یہ بات انہوں نے اس وقت کہہ دی ، جب ان کے والد نے شرک پر اصرار نہ کیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت اپنے والد کے ایمان کے بارے میں توقع رکھتے تھے۔
فلما .................... منہ ” جب یہ بات کھل گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے بیزاری کا اعلان کردیا “۔ جیسا کہ دوسری سورت میں آیا ہے۔
یہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سارا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا تھا اور توکل اور یکسوئی کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔
وما املک .................... المصیر (06 : 4) ” اور اللہ سے آپ کے لئے کچھ حاصل کرلینا میرے بس میں نہیں ہے “ (اور ابراہیم (علیہ السلام) واصحاب ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا یہ تھی کہ) ” اے ہمارے رب ، تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کرلیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے “۔ یوں اللہ کے سامنے مطلق سپردگی کا اعلان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرت کا خاصہ ہے۔ اور اس کی طرف یہاں اہل ایمان کے دلوں کو متوجہ کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کا یہ انداز ہے کہ وہ کسی بھی قصے کی ایک ہی کڑی کو لے کر اس کا تجزیہ کرتا ہے اور اہل ایمان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے۔ اور اس کڑی کے اندر مسلمانوں کے لئے جو سبق ، نصیحت ، حکمت اور دانائی کی قابل تقلید مثال ہوتی ہے ، اسے واضح کردیتا ہے۔
اس قصے کے دوران حضرت ابراہیم کی دعا کا یہ حصہ بھی اہم ہے۔
ربنا لا ........................ کفروا (06 : 5) ” اے ہمارے رب ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا دے “ ان کافروں کو ہم پر مسلط نہ کر ، کہ یہ تسلط ان کافروں کے لئے فتنہ ہوجائے ، وہ یہ کہیں کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے اور ان کا ایمان ان کو بچا سکتا ، تو ہم ان پر کس طرح غالب ہوجاتے۔ اور یہی شبہات ہر دور میں اہل ایمان کے دلوں میں بھی پیدا ہوتے ہیں ، جب اہل باطل اور اہل کفر اہل ایمان پر غالب ہوجاتے ہیں۔ اور باغی اور سرکشی اہل ایمان پر غالب ہوتے ہیں اور اس میں بھی اللہ کی حکمت ہوتی ہے۔ اور یہ غلبہ ایک وقت کے لئے ہوتا ہے۔ مومن ان ابتلاؤں پر صبر کرتا ہے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی اہل ایمان کو دعا کرنا چاہئے کہ وہ ان کو ایسی آزمائشوں میں نہ ڈالے۔
واغفرلنا ربنا (0 : 5) ” اے ہمارے رب ، ہمارے قصوروں سے درگزر فرما “۔ یہ دعا حضرت ابراہیم خلیل اللہ کررہے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کی بندگی کا جو اعلیٰ مقام ہے۔ اس تک پہنچنا مشکل ہے اور اللہ کی نعمتوں اور احسانات کے برابر اللہ کی بندگی کوئی بشر نہیں کرسکتا جو اللہ کی پاکی اور جلالت شان کے برابر ہو۔ اس لئے آپ یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کے بعد آنے والوں کے لئے یہ نمونہ ہو۔
آپ کی دعا ، آپ کا رجوع الی اللہ ، آپ کے استغفار ، آپ کی تعریف رب کا خاتمہ یوں ہے :
انک انت .................... الحکیم (06 : 5) ” بیشک تو ہی زبردست اور دانا ہے “۔ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور تیرے سب کام حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔
ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کے اس طرز عمل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں تمہارے لئے ایک بہترین نمونہ ہے جنہوں نے مشکل ترین حالات میں رجوع الی اللہ کیا اور اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا۔