اس صفحہ میں سورہ At-Takaathur کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التكاثر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ اَلْہٰٹکُمُ التَّکَاثُرُ۔ } ”تمہیں غافل کیے رکھا ہے بہتات کی طلب نے !“ التکاثر کے معنی مال جمع کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے بھی ہیں اور مال و دولت کی کثرت پر فخر کرنے کے بھی۔ دولت انسان کے پاس چاہے جتنی بھی ہو اس کی طبیعت اس سے بھرتی نہیں اور وہ بدستور مزید حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔
آیت 2{ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۔ } ”یہاں تک کہ تم قبروں کو پہنچ جاتے ہو۔“ یعنی انسان اپنی ساری عمر اسی تگ و دو میں کھپا دیتا ہے اور مرتے دم تک یہ فکر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ انسان کی حرص و ہوس کے پیمانے کو صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے 1۔ سورة الحدید کی آیت 20 میں انسانی زندگی کے جن مراحل کا ذکر ہوا ہے ان میں آخری مرحلہ تکاثر فی الاموال والاولاد کا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آخری عمر میں انسان کی یہ حرص مزید بڑھ جاتی ہے۔
آیت 4{ ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔ } ”پھر کوئی بات نہیں ! بہت جلد تمہیں معلوم ہوجائے گا۔“ اپنے اسلوب کے اعتبار سے یہ آیات سورة النبا کی ان آیات سے مشابہ ہیں : { کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ - ثُمَّ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ۔ }۔ یعنی ابھی تم لوگ ”تَـکَاثُر“ کے نشے میں مست ہونے کی وجہ سے موت کا تصور بھی ذہن میں لانے کے لیے تیار نہیں ہو ‘ مگر وہ وقت دور نہیں جب موت خود آکر تم سے ملاقات کرے گی : { قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّــہٗ مُلٰقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَــبِّئُـکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ } الجمعۃ ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ تم سے ملاقات کر کے رہے گی ‘ پھر تمہیں لوٹا دیا جائے گا اس ہستی کی طرف جو غیب اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے ‘ پھر وہ تمہیں جتلا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے“۔ بہرحال جونہی تمہاری آنکھیں بند ہوں گی ‘ وہ تمام حقائق تم پر روشن ہوجائیں گے جن سے تم اس وقت نظریں چرانے کی کوشش کر رہے ہو۔
آیت 5{ کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ۔ } ”کوئی بات نہیں ! کاش کہ تم علم یقین کے ساتھ جان جاتے !“ یعنی موت یا قیامت کا علم دراصل یقینی علم ہے ‘ کاش کہ تمہیں اس کا شعور ہوتا۔ حکماء کے ہاں ہمیں یقین کے تین درجوں کا ذکر ملتا ہے : علم الیقین ‘ عین الیقین اور حق الیقین۔ علم الیقین وہ یقین ہے جو انسان کو علم ‘ معلومات یا استدلال کی بنیاد پر حاصل ہو۔ مثلاً آپ نے دور سے دھواں اٹھتا دیکھا تو آپ نے کہا کہ وہاں آگ لگی ہوئی ہے ‘ حالانکہ آگ آپ نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی۔ پھر جب آپ نے وہاں جا کر خود اپنی آنکھوں سے آگ کو دیکھ لیا تو آپ کو عین الیقین حاصل ہوگیا۔ لیکن حق الیقین کا درجہ اس سے بھی آگے ہے۔ یقین کا یہ درجہ باقاعدہ تجربے سے حاصل ہوتا ہے اس لیے کہ آنکھ سے دیکھنے میں بھی دھوکے کا امکان ہے۔ ضروری نہیں کہ کوئی چیز جیسی نظر آرہی ہے حقیقت میں بھی ویسی ہو۔ جیسے آج کل بعض الیکٹرک ہیٹرز میں انگارے دہکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ‘ لیکن جب آپ غور سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو محض دکھاوے کا منظر ہے اور حرارت کا اصل منبع کہیں اور ہے۔ چناچہ آگ کے بارے میں آپ کو ”علم الیقین“ تو محض دھواں دیکھنے سے ہی حاصل ہوگیا۔ پھر جب آپ نے آگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو آپ کا یقین ”عین الیقین“ میں بدل گیا۔ اس کے بعد جب آپ نے آگ کو چھو کر یا اس کے قریب ہو کر اس کی حرارت کو عملی طور پر محسوس کیا تو آگ کی موجودگی کے بارے میں آپ کا یقین ”حق الیقین“ کے درجے میں آگیا۔
آیت 8{ ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۔ } ”پھر اس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا نعمتوں کے بارے میں۔“ اس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک ایک نعمت کے بارے میں تم سے جواب طلبی ہوگی کہ دنیا میں تم نے اس کی کون کون سی نعمتوں سے استفادہ کیا اور ان کے حقوق کہاں تک ادا کیے۔