اس صفحہ میں سورہ Al-Hijr کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحجر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
سورتوں کے اول جو حروف مقطعہ آئے ہیں ان کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ آیت میں قرآن کی آیتوں کے واضح اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے کے قابل ہونے کا بیان فرمایا ہے۔
بعد از مرگ پشیمانی کافر اپنے کفر پر عنقریب نادم و پشیمان ہوں گے اور مسلمان بن کر زندگی گزارنے کی تمنا کریں گے۔ یہ بھی مروی ہے کہ کفار بدر جب جہنم کے سامنے پیش کئے جائیں گے آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ دنیا میں مومن ہوتے۔ یہ بھی ہے کہ ہر کافر اپنی موت کو دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کرتا ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہر کافر کی یہی تمنا ہوگی۔ جہنم کے پاس کھڑے ہو کر کہیں گے کہ کاش کہ اب ہم واپس دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو نہ تو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے نہ ترک ایمان کریں۔ جہنمی لوگ اوروں کو جہنم سے نکلتے دیکھ کر بھی اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔ ابن عباس اور انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ گنہگار مسلمانوں کو جہنم میں مشرکوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ روک لے گا تو مشرک ان مسلمانوں سے کہیں گے کہ جس اللہ کی تم دنیا میں عبادت کرتے رہے اس نے تمہیں آج کیا فائدہ دیا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اور ان مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے کا اس وقت کافر تمنا کریں گے کا کاش وہ بھی دنیا میں مسلمان ہوتے۔ ایک روایت میں ہے کہ مشرکوں کے اس طعنے پر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے آزاد کردو، الخ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں لا الہ الا اللہ کے کہنے والوں میں بعض لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے جہنم میں جائیں گے پس لات و عزیٰ کے پجاری ان سے کہیں گے کہ تمہارے لا الہ الا اللہ کہنے نے تمہیں کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ ہی جہنم میں جل رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اللہ ان سب کو وہاں سے نکال لے گا۔ اور نہر حیات میں غوطہ دے کر انہیں ایسا کر دے گا جیسے چاند گہن سے نکلا ہو۔ پھر یہ سب جنت میں جائیں گے وہاں انہیں جہنمی کہا جائے گا۔ حضرت انس ؓ سے یہ حدیث سن کر کسی نے کہا کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ کی زبانی سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ مجھ پر قصدا جھوٹ بولنے والا اپنی جگہ جہنم میں بنا لے۔ باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود رسول کریم ﷺ کی زبانی سنی ہے۔ اور روایت میں ہے کہ مشرک لوگ اہل قبلہ سے کہیں گے کہ تم تو مسلمان تھے پھر تمہیں اسلام نے کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو۔ وہ جواب دیں گے کہ ہمارے گناہ تھے جن کی پاداش میں ہم پکڑے گئے الخ اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چھٹکارے کے وقت کفار کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے اور ان کی طرح جہنم سے چھٹکارا پاتے۔ پھر حضور ﷺ نے آیت (اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) پڑھ کر شروع سورت سے مسلمین تک تلاوت فرمائی۔ یہی روایت اور سند سے ہے اس میں اعوذ کے بدلے آیت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کا پڑھنا ہے اور روایت میں ہے کہ ان مسلمان گنہگاروں سے مشرکین کہیں گے کہ تم تو دینا میں یہ خیال کرتے تھے کہ تم اولیاء اللہ ہو پھر ہمارے ساتھ یہاں کیسے ؟ یہ سن کر اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کی اجازت دے گا۔ پس فرشتے اور نبی اور مومن شفاعت کریں گے اور اللہ انہیں جہنم سے چھوڑا جائے گا اس وقت مشکر لوگ کہیں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے تو شفاعت سے محروم نہ رہتے اور ان کے ساتھ جہنم سے چھوٹ جاتے۔ یہی معنی اس آیت کے ہیں یہ لوگ جب جنت میں جائیں گے تو ان کے چہروں پر قدرے سیاہی ہوگی اس وجہ سے انہیں جہنمی کہا جاتا ہوگا۔ پھر یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ لقب بھی ہم سے ہٹا دے پس انہیں جنت کی ایک نہر میں غسل کرنے کا حکم ہوگا اور وہ نام بھی ان سے دور کردیا جائے گا۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بعض لوگوں کو آگ ان کے گھٹنوں تک پکڑ لے گی اور بعض کو زانوں تک اور بعض کو گردن تک جیسے جن کے گناہ اور جیسے جن کے اعمال ہوں گے۔ بعض ایک مہینے کی سزا بھگت کر نکل آئیں گے سب سے لمبی سزا والا وہ ہوگا جو جہنم میں اتنی مدت رہے گا جتنی مدت دنیا کی ہے یعنی دنیا کے پہلے دن سے دنیا کے آخری دن تک۔ جب ان کے نکالنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کرلے گا اس وقت یہود و نضاری اور دوسرے دین والے جہنمی ان اہل توحید سے کہیں گے کہ تم اللہ پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر ایمان لائے تھے پھر بھی آج ہم اور تم جہنم میں یکساں ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو سخت غصہ آئے گا کہ ان کی اور کسی بات پر اتنا غصہ نہ آیا تھا پھر ان موحدوں کو جہنم سے نکال کر جنت کی نہر کے پاس لایا جائے گا۔ یہ ہے فرمان آیت (رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ) 15۔ الحجر :2) میں ہے۔ پھر بطور ڈانٹ کے فرماتا ہے کہ انہیں کھاتے پیتے اور مزے کرتے چھوڑ دے آخر تو ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ تم کھا پی لو، تمہارا مجرم ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ انہیں ان کی دور دراز کی خواہشیں توبہ کرنے سے، اللہ کی طرف جھکنے سے غافل رکھیں گی۔ عنقریب حقیقت کھل جائے گی۔ اتمام حجت کے بعد ہم کسی بستی کو دلیلیں پہنچانے اور ان کا مقرر وقت ختم ہونے سے پہلے ہلاک نہیں کرتے۔ ہاں جب وقت مقررہ آجاتا ہے پھر تقدیم تاخیر ناممکن ہے اس میں اہل مکہ کی تنبیہ ہے کہ وہ شرک سے الحاد سے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت سے باز آجائیں ورنہ مستحق ہلاکت ہوجائیں گے اور اپنے وقت پر تباہ ہوجائیں گے۔
سرکش و متکبر ہلاک ہوں گے کافروں کا کفر، ان کی سرکشی تکبر اور ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ بطور مذاق اور ہنسی کے رسول اللہ ﷺ سے کہتے تھے کہ اے وہ شخص جو اس بات کا مدعی ہے کہ تجھ پر قرآن اللہ کا کلام اتر رہا ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو سراسر پاگل ہے کہ اپنی تابعداری کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اور ہم سے کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے دین کو چھوڑ دیں۔ اگر سچا ہے تو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا جو تیری سچائی ہم سے بیان کریں۔ فرعون نے بھی ہی کہا تھا کہ آیت (فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ 53) 43۔ الزخرف :53) اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ اس کے ساتھ مل کر فرشتے کیوں نہیں آئے ؟ رب کی ملاقات کے منکروں نے آواز اٹھائی کہ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کئے جاتے ؟ یا یہی ہوتا کہ ہم خود اپنے پروردگار کو دیکھ لیتے دراصل یہ گھمنڈ میں آگئے اور بہت ہی سرکش ہوگئے۔ فرشتوں کو دیکھ لینے کا دن جب آجائے گا اس دن ان گنہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی یہاں بھی فرمان ہے کہ ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں یعنی رسالت یا عذاب کے ساتھ اس وقت پھر کافروں کو مہلت نہیں ملے گی۔ اس ذکر یعنی قرآن کو ہم نے ہی اتارا ہے اور اس کی حفاظت کے ذمے دار بھی ہم ہی ہیں، ہمیشہ تغیر و تبدل سے بچا رہے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ لہ کی ضمیر کا مرجع نبی ﷺ ہیں یعنی قرآن اللہ ہی کا نازل کیا ہوا ہے اور نبی ﷺ کا حافظ وہی ہے جیسے فرمان ہے آیت (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 67) 5۔ المآئدہ :67) تجھے لوگوں کی ایذاء رسانی سے اللہ محفوظ رکھے گا۔ لیکن پہلا معنی اولی ہے اور عبارت کی ظاہر روانی بھی اسی کو ترجیح دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو تسکین دیتا ہے کہ جس طرح لوگ آپ کو جھٹلا رہے ہیں اسی طرح آپ سے پہلے کے نبیوں کو بھی وہ جھٹلا چکے ہیں۔ ہر امت کے رسول ﷺ کی تکذیب ہوئی ہے اور اسے مذاق میں اڑایا گیا ہے۔ ضدی اور متکبر گروہ کے دلوں میں بہ سبب ان کے حد سے بڑھے ہوئے گناہوں کے تکذیب رسول سمو دی جاتی ہے یہاں مجرموں سے مراد مشرکین ہیں۔ وہ حق کو قبول کرتے ہی نہیں، نہ کریں۔ اگلوں کی عادت ان کے سامنے ہے جس طرح وہ ہلاک اور برباد ہوئے اور ان کے انبیاء نجات پا گئے اور ایمان دار عافیت حاصل کر گئے۔ وہی نتیجہ یہ بھی یاد رکھیں۔ دنیا آخرت کی بھلائی نبی ﷺ کی متابعت میں اور دونوں جہان کی رسوائی نبی کی مخالفت میں ہے۔
ان کی سرکشی، ضد، ہٹ، خود بینی اور باطل پرستی کی تو یہ کیفیت ہے کہ بالفرض اگر ان کے لئے آسمان کا دروازہ کھول دیا جائے اور انہیں وہاں چڑھا دیا جائے تو بھی یہ حق کو حق کہہ کر نہ دیں گے بلکہ اس وقت بھی ہانک لگائیں گے کہ ہماری نظر بندی کردی گئی ہے، آنکھیں بہکا دی گئی ہیں، جادو کردیا گیا ہے، نگاہ چھین لی گئی ہے، دھوکہ ہو رہا ہے، بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔
ستارے اور شیطان اس بلند آسمان کا جو ٹھہرے رہنے والے اور چلنے پھرنے والے ستاروں سے زینت دار ہے، پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ جو بھی اسے غور و فکر سے دیکھے وہ عجائبات قدرت اور نشانات عبرت اپنے لئے بہت سے پاسکتا ہے۔ بروج سے مراد یہاں پر ستارے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت (تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا 61) 25۔ الفرقان :61) بعض کا قول ہے کہ مراد سورج چاند کی منزلیں ہیں، عطیہ کہتے ہیں وہ جگہیں جہاں چوکی پہرے ہیں۔ اور جہاں سے سرکش شیطانوں پر مار پڑتی ہے کہ وہ بلند وبالا فرشتوں کی گفتگو نہ سن سکیں۔ جو آگے پڑھتا ہے، شعلہ اس کے جلانے کو لپکتا ہے۔ کبھی تو نیچے والے کے کان میں بات ڈالنے سے پہلے ہی اس کا کام ختم ہوجاتا ہے، کبھی اس کے برخلاف بھی ہوتا ہے جیسے کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں صراحتا مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی امر کی بابت فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر۔ پھر جب ان کے دل مطمئن ہوجاتے ہیں تو دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ؟ وہ کہتے ہیں جو بھی فرمایا حق ہے اور وہی بلند وبالا اور بہت بڑا ہے۔ فرشتوں کی باتوں کو چوری چوری سننے کے لئے جنات اوپر کی طرف چڑھتے ہیں اور اس طرح ایک پر ایک ہوتا ہے۔ راوی حدیث حضرت صفوان نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح بتایا کہ داہنے ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کر کے ایک کو ایک پر رکھ لی۔ شعلہ اس سننے والے کا کام کبھی تو اس سے پہلے ہی ختم کردیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے کان میں کہہ دے۔ اسی وقت وہ جل جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ اس سے اور وہ اپنے سے نیچے والے کو اور اسی طرح مسلسل پہنچا دے اور وہ بات زمین تک آجائے اور جادوگر یا کاہن کے کان اس سے آشنا ہوجائیں پھر تو وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پیلا دیتا ہے۔ جب اس کی وہ ایک بات جو آسمان سے اسے اتفاقا پہنچ گئی تھی صحیح نکلتی ہے تو لوگوں میں اس کی دانشمندی کے چرچے ہونے لگتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے فلاں دن یہ کہا تھا بالکل سچ نکلا۔ پھر اللہ تعالیٰ زمین کا ذکر فرماتا ہے کہ اسی نے اسے پیدا کیا، پھیلایا، اس میں پہاڑ بنائے، جنگل اور میدان قائم کئے، کھیت اور باغات اور تمام چیزیں اندازے، مناسبت اور موزونیت کے ساتھ ہر ایک موسم، ہر ایک زمین، ہر ایک ملک کے لحاظ سے بالکل ٹھیک پیدا کیں جو بازار کی زینت اور لوگوں کے لئے خوشگوار ہیں۔ زمین میں قسم قسم کی معیشت اس نے پیدا کردیں اور انہیں بھی پیدا کیا جن کے روزی رساں تم نہیں ہو۔ یعنی چوپائے اور جانور لونڈی غلام وغیرہ۔ پس قسم قسم کی چیزیں، قسم قسم کے اسباب، قسم قسم کی راحت، ہر طرح کے آرام، اس نے تمہارے لئے مہیا کر دئیے۔ کمائی کے طریقے تمہیں سکھائے جانوروں کو تمہارے زیر دست کردیا تاکہ کھاؤ بھی، سواریاں بھی کرو، لونڈی غلام دیئے کہ راحت و آرام حاصل کرو۔ ان کی روزیاں بھی کچھ تمہارے ذمہ نہیں بلکہ ان کا رزاق بھی اللہ ہے۔ نفع تم اٹھاؤ روزی وہ پہنچائے فسبحانہ اعظم شانہ۔