اس صفحہ میں سورہ Al-Humaza کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الهمزة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ۔ } ”بڑی خرابی ہے ہر اس شخص کے لیے جو لوگوں کے عیب ُ چنتا رہتا ہے اور طعنے دیتا رہتا ہے۔“ ہُمَزَۃ اور لُمَزَۃ دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سے باہم بہت قریب ہیں۔ بعض اہل لغت کے نزدیک روبرو طعنہ زنی کرنے والے کو ہُمَزَۃ اور پس پشت عیب جوئی کرنے والے کو لُمَزَۃ کہتے ہیں ‘ جبکہ بعض اہل لغت نے ان کا معنی برعکس بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس - کا قول ہے کہ ہر چغلی کھانے والے ‘ دوستوں میں جدائی اور تفرقہ ڈالنے والے ‘ بےقصور اور بےعیب انسانوں میں نقص نکالنے والے کو ہُمَزَۃ اور لُمَزَۃ کہتے ہیں۔
آیت 2{ نِ الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ۔ } ”جو مال جمع کرتا رہا اور اس کو گنتا رہا۔“ جس نے اپنی زندگی اور زندگی کی ساری جدوجہد مال کمانے اور اس کا حساب رکھنے میں برباد کردی۔ وہ یہی سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہا کہ اس ماہ میرے اکائونٹس میں اتنے فیصد اضافہ ہوگیا ہے اور پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال میرے اثاثہ جات اس قدر بڑھ گئے ہیں۔
آیت 3{ یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ۔ } ”وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا۔“ گویا اس کے مال نے اسے زندئہ جاوید کردیا ہے۔ ایک دولت مند آدمی اپنی دولت کے ذریعے دنیا میں ایسے آثار و نقوش چھوڑ کر جانا چاہتا ہے جن کی وجہ سے اس کا نام دنیا میں ہمیشہ رہے۔ انسان کی اسی خواہش نے اسے اہرام مصر جیسے عجائبات کی تخلیق پر مجبور کیا۔ مشہور انگریزی نظم The Pyramids کے ان الفاظ میں انسان کی اسی نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے :Calm and self possessed ,Still and resolute ,rؔPyramids echo into eternity ,They defined cry of mans willTo strive conquer the storms of time.
آیت 4{ کَلَّا لَـیُنْبَذَنَّ فِی الْْحُطَمَۃِ۔ } ”ہرگز نہیں ‘ وہ تو یقینا جھونک دیا جائے گا حطمہ میں۔“ حُطَمَۃ : حَطَمَسے ہے ‘ یعنی توڑ ڈالنے والی ‘ پیس ڈالنے والی ‘ چور چور اور ریزہ ریزہ کردینے والی۔ یہ دوزخ کے ایک خاص طبقے کا نام ہے جس کی آگ اتنی تیز ہوگی کہ اس میں جو شے بھی ڈالی جائے گی اس کو آنِ واحد میں پیس کر رکھ دے گی۔
آیت 7{ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ۔ } ”جو دلوں کے اوپر جا چڑھے گی۔“ یعنی اس آگ کی حدت اور تپش انسان کی جلد سے زیادہ اس کے دل پر اثر انداز ہوگی۔ بہرحال آج جب انسان خود Infra red Rays اور Ultra violet Rays سمیت آگ اور حرارت کی رنگا رنگ اقسام ایجاد کرچکا ہے اس کے لیے ”حُطَمَہ“ کی مذکورہ خصوصیت کو سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ ایک صاحب نے خیال پیش کیا ہے کہ حُطَمَۃ ایٹمی حرارت کی کوئی شکل ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایٹم سے جو حرارت پھیلتی ہے وہ براہ راست آگ نہیں ہوتی لیکن انسان کے وجود کو چیرتی چلی جاتی ہے۔
آیت 8{ اِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُّؤْصَدَۃٌ۔ } ”بیشک وہ آگ ان پر بند کردی جائے گی۔“ تاکہ اس کی تمام تر حرارت ان پر اثر انداز ہو اور انہیں زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچے۔