سورہ تکویر (81): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Takwir کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التكوير کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ تکویر کے بارے میں معلومات

Surah At-Takwir
سُورَةُ التَّكۡوِيرِ
صفحہ 586 (آیات 1 سے 29 تک)

إِذَا ٱلشَّمْسُ كُوِّرَتْ وَإِذَا ٱلنُّجُومُ ٱنكَدَرَتْ وَإِذَا ٱلْجِبَالُ سُيِّرَتْ وَإِذَا ٱلْعِشَارُ عُطِّلَتْ وَإِذَا ٱلْوُحُوشُ حُشِرَتْ وَإِذَا ٱلْبِحَارُ سُجِّرَتْ وَإِذَا ٱلنُّفُوسُ زُوِّجَتْ وَإِذَا ٱلْمَوْءُۥدَةُ سُئِلَتْ بِأَىِّ ذَنۢبٍ قُتِلَتْ وَإِذَا ٱلصُّحُفُ نُشِرَتْ وَإِذَا ٱلسَّمَآءُ كُشِطَتْ وَإِذَا ٱلْجَحِيمُ سُعِّرَتْ وَإِذَا ٱلْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ أَحْضَرَتْ فَلَآ أُقْسِمُ بِٱلْخُنَّسِ ٱلْجَوَارِ ٱلْكُنَّسِ وَٱلَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَٱلصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ إِنَّهُۥ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ذِى قُوَّةٍ عِندَ ذِى ٱلْعَرْشِ مَكِينٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ وَلَقَدْ رَءَاهُ بِٱلْأُفُقِ ٱلْمُبِينِ وَمَا هُوَ عَلَى ٱلْغَيْبِ بِضَنِينٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَٰنٍ رَّجِيمٍ فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَٰلَمِينَ لِمَن شَآءَ مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ وَمَا تَشَآءُونَ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ
586

سورہ تکویر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ تکویر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha alshshamsu kuwwirat

یہ ایک منظر ہے جس میں اس پوری کائنات میں مکمل انقلاب کے نظارے کی عکاسی کی گئی ہے۔ تمام موجودات کے اندر انقلاب برپا ہے ، یہ انقلاب اجرام سماوی اور اس کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ وحشی جانور اور خانگی جانور بھی اس سے متاثر ہیں ، نفس انسانی اور اس کی حرکات بدل چکی ہیں ، ہر نامعلوم حقیقت آنکھوں کے سامنے ہے اور ہر راز طشت ازبام ہوچکا ہے۔ اور انسان اپنی کمائی اور اپنے اس زادراہ کے سامنے کھڑا ہے اور حساب و کتاب شروع ہے اور حیران وپریشان ہے کہ اس کے ارد گرد ہر چیز اس عظیم طوفان کی زد میں آچکی ہے ، اور کائنات کا تمام نظام اتھل پتھل ہوچکا ہے۔

یہ عظیم کائناتی واقعات اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ یہ حسین و جمیل اور یہ عظیم کائنات اور اس کا نظام ، جس کی تمام حرکات موزوں اور مرتب ہیں ، جس کی شاخت نہایت ہی مستحکم ہے۔ اور جس کے اندر قائم کشش نہایت موزوں ہے اور جسے نہایت علیم و حکیم ہاتھوں نے بنایا ہے ، یہ پوری کائنات بکھر بکھر جائے گی ، اس کے اس مستحکم نظام کی بندش کھل جائے گی۔ جن قوتوں اور جن صفات کی وجہ سے یہ اس طرح چل رہی ہے ، یہ سب جاتی رہیں گی ، غرض یہ پورا موجودہ نظام درہم برہم ہوجائے گا اور پھر یہ کائنات اور اس کی مخلوقات ایک نئی زندگی پائیں گے۔ یہ نئی کائنات اور یہ نئی زندگی موجودہ خصوصیات سے مختلف ہوگی۔

یہی تصور ہے جو یہ سورت قلب ونظر میں بٹھانا چاہتی ہے تاکہ انسان سوچ لے اور انسانی شعور ان ظاہری اور عارضی مناظر سے ہٹ جائے۔ اگرچہ بادی النظر میں یہ بہت ہی مضبوط نظر آئیں اور ان حقائق کو اپنے اندر سمولے جو باقی رہنے والے ہیں۔ انسان اس ذات باری کات صور کرے جو باقی اور لازوال ہے اور وہ ذات اس وقت بھی باقی ہوگی جبکہ یہ پوری کائنات زائل ہوجائے گی اور عظیم حوادث اس کی شکل ہی بدل دیں گے۔ اس سورت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس ظاہری اور عادی اور صرف نظر آنے والی کائنات کے دائرے سے نکل کر اس مطلق حقیقت اور ذات باری کے ساتھ جڑ جائے جو زمان ومکاں سے وراء ہے جو انسانی احساس اور تصور سے آگے ہے ، جو کسی دائرے اور حد کے اندر محدود نہیں ہے۔

یہ ہے وہ حقیقی شعور جو ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان ان عظیم انقلابی مناظر کو اس سورت میں دیکھتا ہے۔ اس مشاہدے سے گویا انسان پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور اللہ کی عظمت کا شعور ذہن میں بیٹھ جاتا ہے۔

لیکن عملاً کیا ہوگا ؟ تو اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ہمارا شعور اور ہمارا تصور بہت محدود ہے۔ آج ہم ان عظیم انقلابات کا پور اتصور نہیں کرسکتے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس زمین پر ایک عظیم زلزلہ برپا ہوگا۔ اور یہ زلزلہ ہر طرف تباہی مچا دے گا اور زمین کے اندر سے ایک ایسا ناقابل کنٹرول آتش فشانی کا عمل ہوگا اور زمین کے اوپر سیارے اور ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گریں گے اور سمندروں کا پانی طوفانی شکل اختیار کرلے گا اور یہ کو سورج کے اندر بھی آتش فشانی کا عمل ہوگا اور اس کے شعلے لاکھوں میلوں تک اٹھیں گے اور یہ مشاہدات انسان دیکھ بھی سکے گا۔

لیکن قیامت کے برپا ہونے کے وقت جو کائناتی انقلابات ہوں گے ، ہماری یہ سوچ یہ باتیں اور یہ مشاہدات ان کے مقابلے میں طفل تسلیاں ہیں۔ اگر ہمارے لئے ان کا سمجھنا ضروری ہے تو ہم صرف ایسی عبارات میں لاسکتے جو ان واقعات کا مجمل سا تصور پیش کریں کیونکہ اس کے سوا ہم اور کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

اذا الشمس کورت (1:81) ” جب سورج لپیٹ دیا جائے گا “۔ اس کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور اس کے اندر برپا اشتعال ختم ہوجائے گا۔ اس وقت سورج کے اندر جلن کا عمل شروع ہے اور اس سے جو شعلے اٹھ رہے ہیں ، وہ اس کے اردگرہزاروں میل تک بلند ہوتے ہیں۔ جب سورج گرہن ہوتا ہے تو اس وقت رصدگاہوں سے یہ عمل صاف نظر آتا ہے۔ اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ سورج کے اس جلنے کے عمل سے سورج پر موجود تمام مواد ایک اڑتے ہوئے گیس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور یہ گیس جلتی ہوئی سورج کی فضا میں بلند ہوتی ہے۔ یہ حالت اس طرح نہ رہے گی اور سورج اسی طرح ٹھنڈا ہوجائے گا۔ جس طرح ہماری یہ زمین ٹھنڈی ہوگئی ہے اور اس کے اوپر کوئی التہابی عمل نہیں ہے۔ اس کے سوا سورت کا اور مفہوم بھی ہوسکتا ہے جو ابھی تک ہمارے علم میں نہیں ہے۔ یہ عوامل کس طرح وجود میں آئیں گے ، ان کا علم اللہ ہی کو ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب تارے بکھر جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha alnnujoomu inkadarat

واذا ........................ انکدرت (2:81) ” اور جب تارے بکھر جائیں گے “۔ یعنی اس بندش کے نظام سے باہر نکل آئیں گے جو اس کائنات کے نظام میں موجود ہے اور جس نے سب کو باہم باندھا ہوا ہے۔ اور یہ کہ ان کی روشنی ختم ہوجائے گی اور وہ تاریک ہوجائیں گے۔ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کن ستاروں کے ساتھ یہ حادثہ ہوگا۔ یہ تمام ستارے ہوں گے یا ستاروں کا ایک گروہ ہوگا جو ہمارے قریب ہے۔ مثلاً سورج کے قریبی ستاروں میں یہ عمل ہوگا یا ہماری کہکشاں میں یہ عمل ہوگا ، جس میں کروڑوں ستارے ہیں۔ یہ تمام ستاروں میں ہوگا جن کے مقامات ومدارات کا علم بھی اللہ کو ہے اور تعداد کا علم بھی اللہ کو ہے کیونکہ جہاں تک ہماری رصدگاہیں ہمارے مشاہدے کو پہنچاتی ہی ان سے آگے بھی بیشمار جہاں ہیں۔ ہمارا ایمان یہ ہے کہ ستارے بےنور ہوجائیں گے یا بکھر جائیں گے اور پوری حقیقت کا علم صرف اللہ کو ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha aljibalu suyyirat

واذا .................... سیرت (3:81) ” جب پہاڑ چلائے جائیں گے “۔ پہاڑوں کے چلائے جانے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ، پیس کر ہوا میں بکھیر دیا جائے گا جیسا کہ دوسری سورت میں ہے۔

ویسئلونک ............................ نسفا (105:20) ” تم سے یہ لوگ پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دیں کہ تمہارا رب انہیں دھول بنا کر اڑادے گا “ اور دوسری جگہ ہے۔

وبست ............................ منبثا (6, 5:56) ” اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے “۔

وسیرت ........................ سرابا (20:78) ” اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہوجائیں گے “۔

ان سب آیات میں اس طرف اشارہ ہے کہ پہاڑوں کو ایک ایسا حادثہ پیش آئے گا ، جس سے ان کی مضبوطی ، ان کا باہم پیوست ہونا ، اور اپنی جگہ پر برقرار رہنا جاتا رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اس پورے عمل کا آغاز عملی زلزلہ سے ہو۔ اور اس زلزلہ کے بارے میں خود قرآن کریم تصریح کرتا ہے۔

اذا زلزلت ............................ اثقالھا (2, 1:99) ” جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی اور زمین اپنے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی “۔ یہ سب واقعات قیامت کے طویل دن میں رونما ہوں گے۔

اردو ترجمہ

اور جب دس مہینے کی حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha alAAisharu AAuttilat

واذا ................ عطلت (4:81) ” اور جب دس مہینے کی حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی “۔ العشار ، ان اونٹنیوں کو کہتے ہیں جو حاملہ ہوں اور حمل کے دس مہینے ہوچکے ہیں۔ عربوں کے نزدیک اس سے بہتر اور کوئی ملکیت نہ تھی۔ اس کی وہ بہت زیادہ دیکھ بھال کرتے تھے کیونکہ وہ قریب زمانے میں بچہ دینے والی ہوا کرتی تھی اور پھر دودھ دیتی اور اس کی افادیت قریب ہوتی۔ جس دن یہ عظیم انقلابات ہوں گے لوگ گھبراہٹ کے وجہ سے ایسے قیمتی مال کو بھی چھوڑ کر بھاگ نکلیں گے۔ کوئی بھی ایسے قیمتی مال کی طرف متوجہ نہ ہوگا۔ جس دور کے لوگوں سے قرآن مخاطب تھا ، خصوصاً عرب ، وہ ایسے مال کو ہرگز نہ چھوڑتے تھے الا یہ کہ ان پر کوئی عظیم مصیبت آجائے۔

اردو ترجمہ

اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha alwuhooshu hushirat

واذا .................... حشرت (5:81) ” اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کردیئے جائیں گے “۔ یہ وحوش جو انسانوں سے اور خود ایک دوسرے سے دور بھاگتے ہیں۔ ایسے خوفزدہ ہوں گے اور اس طرح ایک جگہ جمع ہوجائیں گے بجائے پہاڑوں میں بکھرنے کے اور اپنے اپنے سوراخوں ، غاروں اور بلوں میں گھسنے کے ، جو ان کا معمول ہوتا ہے ، ایک جگہ جمع ہوں گے ، نہ ان کو انسانوں سے خوف ہوگا اور نہ ایک دوسرے سے۔ درندے اپنے شکار کو بھول جائیں گے ، ادھر ادھر بھاگتے پھریں گے اور اپنے غاروں میں پناہ نہ لیں گے جیسا کہ بالعموم وہ ایسے بلوں میں گھس جانے کے عادی ہوتے ہیں۔ نہ شکاری درندہ شکار کے پیچھے بھاگے گا اور یہ حالت اس لئے ہوگی کہ یہ سب درندے اور پرندے خوفزدہ ہوں گے اور یوں اپنی حاجت ہی چھوڑ دیں گے۔ اگر حیوانوں کی یہ حالت ہوگی تو انسانوں کا کیا کہنا ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha albiharu sujjirat

واذا ................ سجرت (6:81) ” اور جب سمندر بھرکا دیئے جائیں گے “۔ سجرت کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں۔ سمندروں کو پانی سے بھر دیا جائے گا ۔ اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ سمندروں میں یہ پانی اس طرح آئے گا جس طرح بادلوں اور بارشوں کے طوفان زمین پر حملہ آور ہوئے ، جبکہ زمین سرد ہوئی اور اس کا چھلکا سخت ہوا۔ جس کا ذکر ہم نے سورة نازعات میں کیا یا یوں کہ زمین میں جب زلزلے پیدا ہوں گے اور آتش فشانی کا عمل ہوگا تو سمندر کے درمیان سے خشکی ختم ہوجائے گی اور سمندر ایک دوسرے کے اوپر چڑھ دوڑیں گے۔ یا اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان میں آگ لگ جائے گی اور وہ پھٹ پڑیں گے جیسا کہ دوسری جگہ میں ہے۔

واذا .................... فجرت (3:82) ” اور جب سمندر پھاڑ دیئے جائیں گے “۔ سمندروں کے پھٹنے کی عمل شکل یوں ہوسکتی ہے کہ پانی کے اجزاء ہائیڈروجن اور آکسیجن ایک جگہ جمع ہوجائیں یا ان کے اجزاء اس طرح پھٹ جائیں جس طرح ذرات اور ایٹم پھٹ جاتے ہیں۔ اور یہ شکل نہایت ہی ہولناک ہوگی ، جب یہ صورت ہوگی تو ایک ناقابل تصور آگ ان سمندروں میں شعلہ زن ہوجائے گی۔ ایک محدود تعداد میں اگر ایٹمی یا ہائیڈروجن کا دھماکہ ہوجائے تو اس سے بھی ایک ہولناک دھماکہ ہوتا ہے ، لیکن اگر تمام سمندروں کے ذرات پھٹ جائیں تو انسان اس ہولناک دھماکے کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس سے کس قدر عظیم جہنم برپا ہوجائے گا۔

اردو ترجمہ

اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑ دی جائیں گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha alnnufoosu zuwwijat

واذا……………. زوجت ( 7:81) ” اور جب جانیں جوڑ دی جائیں گی “۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ تمام روحیں ، اجسام کے ساتھ ملادی جائیں گی ، اور ان کو دوبارہ ملا کر از سر نو زندہ کردیا جائے گا اور یہ بھی احتمال ہے کہ معنی یہ ہو کہ لوگوں کے باہم متجانس گروپ بنا دیئے جائیں گے جیسا کہ دوسری جگہ آتا ہے۔

وکنتم……………. ثلثة (7:56) ” اور تم تین گروپ ہوگے “۔ یعنی مقربین الٰہی کا گروپ ، دائیں بازو والے اور بائیں بازو والے یا کسی اور اصول تقسیم کے مطابق لوگوں کو ملا دیا جائے گا۔

اردو ترجمہ

اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha almawoodatu suilat

اردو ترجمہ

کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Biayyi thanbin qutilat

واذا ........................ قتلت (9:81) ” اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کسی قصور میں ماری گئی “۔ دور جاہلیت میں انسانیت کی تذلیل اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ لوگوں میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا عام رواج تھا۔ یہ حرکت وہ دو وجوہات سے کرتے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اس بات کو عار سمجھتے تھے کہ ان کی لڑکیاں کسی کی بیوی یا لونڈیاں بنیں۔ دوسری وجہ یہ تھی وہ فقر اور غربت سے ڈرتے تھے۔ قرآن کریم نے اس عادت بد کو قلم بند کرکے دور جاہلیت کی اس برائی کو ہمیشہ کے لئے ریکارڈ کردیا۔ کیونکہ اسلام آیا ہی اس لئے تھا کہ عربوں اور پوری انسانیت کو اس پستی سے نکال دے۔ اور انسانیت کو ترقی اور رفعت عطا کرے۔ قرآن کہتا ہے۔

واذا بشر ................................ یحکمون (59-58:16) ” اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر سیاہی چھاجاتی ہے اور وہ بس خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لے رہے یا مٹی میں دبادے۔ دیکھو کتنے برے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں “۔ اور دوسری جگہ ہے۔

واذا بشر ............................ غیر مبین (18-17:43) ” اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کی یہ لوگ اس خدائے رحمن کی طرف نسبت کرتے ہیں ، اس کی ولادت کا مژدہ اگر جب خود ان میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اس کے منہ پر سیاہی چھاجاتی ہے ، اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پائی جاتی ہے۔ اور بحث اور حجت میں اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کرسکتی “۔ اور تیسری جگہ یہ فرمایا :

ولا تقتلوا .................................... وایاکم (31:12) ” اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ، ہما نہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے “۔

یہ رسم عملاً نہایت سنگدلی سے پوری کی جاتی تھی۔ بیٹی کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ ایک صورت یہ ہوتی کہ جب بچی چھ سال کی ہوجاتی تو باپ ماں سے کہتا کہ لڑکی تیار کرو ، میں اسے ماموں کے گھر لے جاتا ہوں۔ اس سے قبل وہ کسی خالی جگہ اس کے لئے کنواں کھود چکا ہوتا تھا۔ جب لڑکی کو لے جاکر کنویں پر پہنچا تو کہتا کہ کنویں میں دیکھو اور اسے کنویں میں گرا دیتا اور اوپر سے مٹی گرادیا۔ بعض اقوام میں رواج یہ ہوتا کہ جب کسی عورت کی ولادت کا وقت آتا تو اسے ایک گڑھے کے کنارے بٹھایا جاتا۔ اگر ولادت بیٹی کی ہوتی تو اسے گڑھے میں گرادیتی۔ اور اگر بیٹا ہوتا تو لے کر گھر آجاتی۔ اگر کوئی خاندان بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا اردہ نہ کرتا تو اسے نہایت ہی بری حالت میں رکھا جاتا اور جب وہ اونٹ چرانے کے قابل ہوتی تو اسے اون یابالوں سے بنا ہوا کی جبہ پہنادیا جاتا اور دیہات میں بمیج دیا جاتا کہ اونٹ چرائے۔

جو لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور نہ کرتے اور ان سے اونٹ بھی نہ چرواتے تو وہ دوسرے ذرائع سے ان کو زندہ درگور رکھتے۔ جب بیچاری کسی کے نکاح میں آتی اور خاوند مرجاتا تو خاندان کا سرپرست آتا اور اس کے سر پر کپڑا ڈال دیتا۔ اس کے معنی یہ ہوتے کہ اس عورت کے ساتھ کوئی شخص نکاح نہیں کرسکتا۔ اگر اسے خود پسند آتی تو اس کے ساتھ شادی کرلیتا چاہے وہ اس شادی کو پسند کرتی یا نہ کرتی۔ اگر یہ اسے پسند نہ ہوتی تو بھی وہ اسے روکے رکھتا یہاں تک کہ مرجاتی اور یہ اس کی وراثت پاتا۔ الایہ کہ اپنا مال دے کر یہ عورت اپنے آپ کو آزاد کرالیتی۔ بعض لوگ ایسے تھے کہ عورت کو اس شرط پر طلاق کرتے تھے کہ وہ صرف اس جگہ نکاح کرے گی جہاں ان کی مرضی ہوگی الایہ کہ وہ فدیہ دے کر اس شرط کو ساقط کروادیتی۔ بعض اوقات یوں ہوتا کہ اگر خاوند مرجاتا تو بیوی کو خاندان کے چھوٹے بیٹوں کے لئے روک رکھتے۔ لڑکا بالغ ہوتا اور نکاح کرتا۔ اگر کسی کی سرپرستی میں یتیم لڑکی ہوتی تو وہ اسے نکاح کرنے نہ دیتا تاکہ اس کی سرپرستی ختم نہ ہوجائے اور اس لئے کہ اگر اس کی بیوی مرجائے تو یہ اس کے ساتھ نکاح کرلے۔ یا اپنی چھوٹی اولاد کے ساتھ نکاح کرلے۔ یہ کام وہ محض مالی لالچ میں کرتے۔ یا اگر لڑکی اچھی ہوتی تو اسے خوبصورتی کی وجہ سے روک لیتے۔

بہرحال جاہلیت کے زمانے میں عورت بیچاری کے یہ شب وروز تھے۔ جب اسلام آیا تو اس نے ان تمام عادات ورسومات کی سخت مذمت کی۔ اس نے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی مذمت میں بہت مبالغہ کیا۔ اور یہ بتایا کہ قیامت کے میدان میں اٹھنے والے سوالات میں سے یہ ایک اہم سوال ہوگا۔ اور اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان ہولناک مناظر میں کیا ہے جن سے اس کائنات کا پورا نظام درہم برہم ہوگا ، گویا یہ بھی ایک ایسا حادثہ تھا جس سے عمرانی نظام درہم برہم ہوتا ہے۔ اگر زندہ درگور کی جانے والی لڑکی سے بھی باز پرس ہوگی کہ اس کے ساتھ یہ فعل کیوں ہوا ؟ تو جس شخص نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کیا اس سے تو لازماً سوال ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی جاہلی نظام میں عورت عزت کا مقام حاصل نہیں کرسکتی تھی۔ اگر اسلامی شریعت نے اور اسلامی نظام زندگی نے جنس بشر کو کرامت اور عزت عطا نہ کی ہوتی۔ اور اس تکریم اور اعزاز میں مرد اور عورت کو برابر نہ کیا ہوتا ، اور یہ نہ کہا ہوتا کہ انسان کے اندر اللہ نے اپنی روح پھونکی تو عورت کو یہ اعزاز کبھی نصیب نہ ہوتا جو اسلام نے اسے عطا کیا ہے۔ عورت عزت وشرف کی زندگی صرف اسلامی نظام سے حاصل کرسکتی ہے۔ اس کے سوا کسی اور عامل اور زندگی سے اسے عزت وشرف نہیں مل سکتا۔ نہ کسی معاشرے سے مل سکتا ہے۔

اس طرح انسانیت کو جو ایک نیا جنم ملا وہ ان اقدار کی بدولت ممکن ہوا جو آسمانوں سے طے ہوکر آئی تھیں ، اس کے نتیجے کے طور پر اس دنیا میں عورت کو بھی انپا مقام ملا ۔ چناچہ عورت کی فطری ضعف کی وجہ سے ، اس کی مادی زندگی کی ضروریات ، اس کے خاوند پر رکھی گئی ہیں ، اس کی وجہ سے اس کی قدروقیمت اور ان کے وزن اور مقام میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام میں مادی زندگی کی اس قدر اہمیت نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں اصل وزن روحانی اقدار کا ہے جن کا تعلق اللہ سے ہے اور روحانی اقدار کے اعتبار سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔

جب وہ دلائل گنے جائیں کہ یہ دین اللہ کی طرف سے ہے اور جس ذات بابرکات نے یہ دین پیش کیا ہے وہ اللہ کے رسول ہیں ، تو اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے ، وہ ان دلائل میں سرفہرست ہوگا۔ اس لئے کہ جس دور میں اسلام نے عورت کو یہ مقام دیا اس میں ایسی کوئی علامت ، کوئی تحریک یا کوئی سماجی مطالبہ اور ایسا نہ تھا کہ عورت کو یہ مقام دیاجانا چاہئے۔ نہ کوئی معاشی تحریک تھی اور نہ کوئی معاشرتی دباﺅ تھا کہ عورت کو یہ مقام دیا جائے ، یہ خالص اسلامی نظام تھا جس نے خالص وحی الٰہی کے تحت یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ اسلام نے محض ربانی ہدایات کے مطابق عورت کو جاہلیت کی اس پستی سے نکال کر مقام بلند دیا اور اس کی زندگی کے حالات ہی بدل کر رکھ دیئے۔

اردو ترجمہ

اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha alssuhufu nushirat

واذا ............ نشرت (10:81) ’ اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے “۔ صحف سے مراد نامہ اعمال ہے۔ نشر ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب لوگوں کے اعمال نامے خفیہ نہ رہیں گے ، کھل کر سب لوگوں کے سامنے آجائیں گے اور نہ ناقابل فہم رہیں گے۔ اور ان کا یہ انکشاف ہی بدکاروں کے لئے سوہان روح ہوگا۔ کیونکہ کئی ایسی خفیہ برائیاں ہوں گی کہ اگر ان کا انکشاف ہو تو بدکار کے لئے سخت شرمندگی کا باعث ہوگا اور وہ پگھل کر رہ جائے لیکن اس کا کیا حال ہوگا کہ جب اس وقت اس کے تمام اعمال لوگوں کے سامنے ہوں گے۔

اعمال ناموں کا نشر ہونا اور رازوں کا کھل جانا بھی اس دن کی ہولناکی میں اضافہ کردے گا اور یہ دنیا کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب ہوگا کہ راز کھل جائیں گے اور لوگوں کے وہ پوشیدہ راز بھی ظاہر ہوں گے جو سینوں میں ہوں گے۔

اردو ترجمہ

اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha alssamao kushitat

واذا ............ کشطت (11:81) ” اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا “۔ اعمال نامے تو زمین کے حالات پر مشتمل ہوں گے ، ان کے مقابلے میں آسمانوں کے حالات بھی کھل کر سامنے آجائیں گے ۔ لفظ آسمان کا پہلا مفہوم تو یہ ہے کہ ہمارے سروں پر جو نیلگوں پردہ ہے ، یہ ہٹ جائے گا۔ یہ کس طرح ہٹ جائے گا تو اس کی کیفیت کا علم اللہ ہی کو ہے۔ بہرحال ہمارے سروں سر جو نیلا گنبد نظر آتا ہے یہ نظر نہ آئے گا اور کوئی اور ہی منظر ہوگا۔

اردو ترجمہ

اور جب جہنم دہکائی جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha aljaheemu suAAAAirat

اور اب آخری منظر ، اس دن کے مناظر میں سے آخری منظر یوں ہوگا۔

واذا .................... ازلفت (13:81) ” اور جب جہنم دہکائی جائے گی ، اور جب جنت قریب لائی جائے گی “۔ یعنی جب جہنم میں آگ جلے گی اور اسے خوب دھکایا جائے گا اور اس کے شعلے زیادہ ہوں گے اور اس کا جوش و خروش اور حرارت زیادہ ہوجائے گی۔ یہ جہنم کہاں ہے اور کس طرح دھکائی جائے گی ؟ کیسا ایندھن استعمال ہوگا ، ہمارے پاس اس سلسلے میں صرف ایک آیت ہے۔

وقودھا ................ واحجارة (اس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے “۔ یہ حالت تو اس وقت کی ہوگی جب اہل جہنم کو اس کے اندر پھینک دیا جائے گا۔ اور جب جنت قریب کردی جائے گی ، اور جن لوگوں کو جنت میں داخل ہونا ہے ، یہ ان کے سامنے آجائے گی ، اور ان پر واضح ہوجائے گا کہ اب تو وہ بسہولت اس میں داخل ہوں گے تو ایسی صورت میں اسے ” مزلفہ “ کہا ججاتا ہے یعنی قریبہ اور اس حال میں کہ وہ تیار اور آراستہ ہے اور اب چند قدم لینے کی دیر ہے ، چند بےترتیب قدم بھی پہنچا سکتے ہیں۔

جب اس کائنات میں ، جب عالم اشیاء میں ، خواہ زندہ ہوں یا جمادات ہوں یا نباتات ، میں اس قدر انقلاب آجائے گا ، تو اب کسی کو کیا شک رہے گا کہ یہ مرحلہ آنے والا ہے ، ہر شخص کو یقینا اپنے اعمال یاد آجائیں گے ، وہ اعمال جو کسی نے اس دن کے لئے تیار کیے ، جو وہ لے کر آیا یا پیش کرنے کے لئے ، جو تیار کیے حساب اور جواب حساب کے لئے۔

اردو ترجمہ

اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha aljannatu ozlifat

اردو ترجمہ

اُس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAalimat nafsun ma ahdarat

علمت .................... احضرت (14:81) ” اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے “۔ اس خوفناک دن کے اندر ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے پاس کیا ہے اور اس کے ذمہ کیا ہے ، اس روز اس کو معلوم ہوجائے گا اور اس کی حالت یہ ہوگی کہ وہ کانپ رہا ہوگا اور اسے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اب وہ اپنے اعمال نامے میں کچھ بھی تغیر وتبدل نہیں کرسکتے گا۔ نہ اس میں کوئی زیادتی ہوگی اور نہ کمی ہوگی ، اسے یہ بات ایسے حالات میں معلوم ہوگی کہ وہ دنیا سے کٹ چکا ہوگا ، مستقبل کے بارے میں ان کے جو تصورات تھے ، وہ نہ رہے۔ وہ دنیا سے کٹ گئے اور دنیا ان سے دور ہوگئی۔ ہر شے متغیر ہوگئی اور ہر شے بدل سی گئی ہے۔ آج تو صرف ذات باری ہی قائم ودائم ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ لوگ اس دنیا ہی میں رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے تاکہ قیامت میں بدلتے ہوئے حالات میں بھی اللہ ان کے سامنے موجود ہوتا۔

ان موثر اشارات پر یہ پہلا پیرگراف ختم ہوتا ہے اور انسانی احساس کو گہرے شعور سے بھر دیتا ہے اور قیامت کے مناظر انسان کے ذہن میں بیٹھ جاتے ہیں اور انقلاب مکمل ہوتا ہے۔

اب دوسرا پیرگراف آتا ہے ، اس میں اس کائنات کے خوبصورت ترین مناظر کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ اس کے لئے نہایت ہی خوبصورت تصورات چنے گئے ہیں۔ وحی کیا ہے ، اس پر قسم ہے ، منصب رسالت اور وہ فرشتے کیسے ہیں جو اس کو لے کر آرہے ہیں اور اس قرآن کے مقابلے میں لوگوں کا جو رد عمل ہے وہ بھی دائرہ مشیت الٰہیہ میں ہے۔

اردو ترجمہ

پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fala oqsimu bialkhunnasi

الخنس ۔ الجوار ۔ الکنس تینوں سے مراد ستارے ہیں۔ الخنس وہ ستارے جو اپنے دورہ فلکی میں پلٹتے ہیں ، الجوار جو چلتے ہیں اور الکنس ، جو چھپتے ہیں۔ انداز بیان کے استعارات ان ستاروں کو ہر نوں کی طرح زندگی کی خصوصیات بخش دیتے ہیں ، جو پلٹتی ہیں ، دوڑتی ہیں اور اپنے غار میں گھس جاتی ہیں۔ ایک طرف سے دوسری طرف لوٹ جاتی ہیں ، یہ ستارے گویا زندہ ہر توں کی طرح دوڑتے گھومتے اور زندہ نظر آتے ہیں۔ انداز تعبیر ان ستاروں کی حرکت کو ایک حسن رفتار عطا کردیتا ہے۔ اور ان کے ظہور میں بھی جمال نظر آتا ہے۔ اور فضا میں بھی اس کا جمال ہے ۔ چھپنا بھی خوبصورت اور نمودار ہونا بھی خوبصورت۔ دوڑنا بھی اچھا اور مڑنا بھی اچھا۔ پھر الفاظ بھی خوبصورت اور ان کا تلفظ بھی پر نغمہ اور پر ترنم اور خوبصورت۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔

اردو ترجمہ

پلٹنے اور چھپ جانے والے تاروں کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aljawari alkunnasi

اردو ترجمہ

اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہوئی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallayli itha AAasAAasa

والیل .................... عسعس (17:81) ” اور رات کی جبکہ وہ تاریک ہوئی “۔ لیکن لفظ عسعس میں بھی مفہوم کی طرف اشارے ہیں۔ عس کے معنی اندھیرے میں ہاتھ پاﺅں کے ساتھ چلنے کے ہیں جبکہ آنکھوں سے کچھ نظر نہ آتا ہو ، گویا رات تاریکی میں چل رہی ہے۔ یہ نہایت ہی خوبصورت انداز گفتگو ہے۔

اردو ترجمہ

اور صبح کی جبکہ اس نے سانس لیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssubhi itha tanaffasa

والصبح اذا تنفس (18:81) ” اور صبح کی جبکہ اس نے سانس لیا “۔ بھی ایک زندہ بلکہ تابندہ انداز تعبیر ہے اور اس میں زیادہ اشاریت ہے۔ سپیدہ صبح گویا زندہ ہے اور سانس لے کر نمودار ہوتا ہے۔ روشنی گو صبح کی سانس ہے اور صبح کے وقت وحوش وطیور اور انسانوں کی حرکت اس کی علامت زندگی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں عربی زبان کے خوبصورت ترین اسالیب اظہار کے اندر سپیدہ صبح کی نموداری کے لئے کوئی ایسا خوبصورت فقرہ نہیں ہے۔ زندہ حساس دل صبح کو دیکھ کر یہ شعور اچھی طرح پالیتا ہے کہ یہ صبح سانس لے رہی ہے اور جب ایسا احساس دل پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھتا ہے تو وہ یہی کہتا ہے کہ یہ بھی میرے دل میں تھی۔

جو شخص اسالیب کلام کو سمجھنے کا ذوق رکھتا ہے اور وہ اچھی منظر کشی اور تصویر کشی سے لطف اندوز ہوسکتا ہے ، وہ جب یہ آیت پڑھتا ہے۔

فلا اقسم ........................ اذا تنفس (15:81 تا 18) پس نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں پلٹنے والے اور چھپ جانے والے تاروں کی ، اور رات کی جبکہ وہ تاریک ہوئی اور صبح کی جبکہ اس نے سانس لیا “۔ تو اسے معلوم ہوگا کہ یہ عبارت شعور ومعافی اور انداز تعبیر کا ایک بڑا ذخیرہ اپنے اندررکھتی ہے اور جن کائناتی حقائق کی طرف اس میں اشارہ ہے وہ اسکے علاوہ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کائناتی حقائق کو ایک تیز احساس اور شعور کے ساتھ لیا گیا ہے۔

یہ کائناتی مناظر جن کو زندگی کا لباس پہنایا گیا ہے ۔ اور ایک زندہ اور خوبصورت اسلوب بیان کے ذریعہ ان کی روح انسانی روح کے ساتھ ملادی گئی ہے۔ یہ مناظر انسان کی روح پر اس کے حقیقی اسرارورموز کھولتے ہیں ، اور اس وقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان سب چیزوں کے پیچھے کارفرما ہے۔ اور جس ایمانی حقیقت کی طرف بلایا جارہا ہے ، یہ مناظر اس کے زمزمہ خواں ہیں۔ اس کے بعد اس حقیقت کو نہایت ہی بہترین حالات میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ اسے یادرکھا جائے اور انسانی فطرت اس کا استقبال کرے۔

اردو ترجمہ

یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغام بر کا قول ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu laqawlu rasoolin kareemin

انہ لقول ............................ امین (19:81 تا 21) ” یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغمبر کا قول ہے ، جو بڑی توانائی رکھتا ہے ، عرش والے کے ہاں بلند مرتبہ ہے ، وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے ، وہ بااعتماد ہے “۔ یعنی یہ قرآن مجید جو آپ لوگوں کے سامنے پیش کیا جارہا ہے ، خصوصاً یہ قیامت کی ہولناکیاں جو بیان کی جارہی ہیں ، یہ رسول مکرم کا قول ہے ، یعنی جبرئیل (علیہ السلام) کا جو خدا کے فرستادہ ہیں اور جنہوں نے اس بات کو بحفاظت پہنچایا ہے اور گویا قرآن پہلے خدا کا قول ہے اور پھر جبرئیل (علیہ السلام) کا قول ہے کہ انہوں نے بطور پیغام الٰہی دہرایا ہے۔

اور یہ پیغام لانے والا ، جس کے ذمہ اس اہم پیغام کو آسمانوں سے نیچے پہنچانے کی ذمہ داری لگائی گئی وہ کیسی شخصیت ہے ؟ یہ اللہ کے ہاں نہایت مکرم ہے اور اللہ کا یہ کہنا ہے کہ وہ نہایت ہی پختہ صلاحیتوں والا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے پیغام کو پہنچانے کے لئے جس فرشتے کی ذمہ داری تھی اسے اس بات کی ضرورت تھی کہ اسے اس کام کے لئے توفیق عطا ہو۔ اس کا اللہ کے ہاں مقام و مرتبہ بلند ہو اور عرش عظیم کے مالک کے ہاں وہ مکرم ہو اور مقرب ہو اور امین اور قابل اعتماد ہو ، جو بات اسے دی گئی اسے پوری طرح پہنچاتا بھی ہو اور پہنچا بھی سکتا ہو۔

ان کی صفات سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ کلام نہایت مہتم بالشان ہے۔ بلند مرتبہ اور اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کس قدر مہربانی فرمائی ہے کہ انسان کی ہدایت کے لئے قرآن نازل کرنے کے لئے اس قسم کا پیغمبر مقرر کیا ہے جو نبی مختار تک یہ پیغام پہنچاتا ہے۔ یہ اس قدر عظیم مہربانی اور عنایت ہے کہ اگر انسان اس پغور کرے تو وہ پانی پانی ہوجائے کہ رب کائنات اسنان پر اس قدر کرم فرماتا ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں انسان مکرم ، اس پر آنے والا پیغام مکرم اور لانے والا فرشتہ مکرم ، اور جس نبی پر وہ آیا وہ نبی مختار مکرم ہے۔

یہ صفت تو اس پیغام لانے والے کی ہے جو اللہ کا کلام لایا اور نبی مختار کے حوالے کیا۔ اور اس رسول کا مقام ہے جو لوگوں کے پاس یہ پیغام لے کر آیا ہے تو وہ تو تمہارے ساتھی اور بھائی ہے۔ ایک طویل عرصہ تک تمہارے اندر رہا ہے لہٰذا یہ بات قابل تعجب ہے کہ جب وہ تمہارے پاس یہ کلام عالیشان لے کر آیا تو تم نے اس پر الزامات کی بوجھاڑ کردی۔ اور اس کے بارے میں تم نے مختلف رویے اختیار کرلیے حالانکہ وہ تمہارے ساتھی ہیں ، جس کے بارے میں تمہیں پوری پوری معلومات ہیں ، وہ تمہیں جو غیب کی باتیں بتاتے ہیں ان کے سلسلے میں وہ نہایت امین ہیں۔

اردو ترجمہ

جو بڑی توانائی رکھتا ہے، عرش والے کے ہاں بلند مرتبہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thee quwwatin AAinda thee alAAarshi makeenin

اردو ترجمہ

وہاں اُس کا حکم مانا جاتا ہے، وہ با اعتماد ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

MutaAAin thamma ameenin

اردو ترجمہ

اور (اے اہل مکہ) تمہارا رفیق مجنون نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama sahibukum bimajnoonin

وما صاحبکم ................................ رب العلمین (22:81 تا 29) ” اور (اے اہل مکہ) تمہارا رفیق مجنون نہیں ہے ، اس نے اس پیغمبر کو روشن افق پر دیکھا ہے۔ اور وہ غیب (کے اس علم کو لوگوں تک پہنچانے) کے معاملہ میں بخیل نہیں ہے۔ اور یہ کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے۔ پھر تم لوگ کدھر چلے جارہے ہو ؟ یہ تو سارے جہان والوں کے لئے ایک نصیحت ہے ، تم میں سے ہر اس شخص کے لئے جو راہ راست پر چلنا چاہتا ہو اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے “۔ یہ لوگ نبی کریم کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے ، یہ بھی جانتے تھے کہ آپ انتہائی عقلمند آدمی ہیں ، سچے اور امین ہیں اور ثابت قدم اور راہ راست پر ہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ کہتے تھے کہ آپ پاگل ہیں اور یہ کہ آپ جو باتیں فرماتے ہیں۔ آپ پر یہ شیطان القاء کرتا ہے۔ اور یہ باتیں وہ لوگ نبی کریم کے خلاف بطور سازش کرتے تھے جس کی تفصیلات کتب احادیث میں موجود ہیں اور بعض لوگ قرآن کریم کے کلام عالی سے مرعوب ہوکر ایسا کرتے تھے کہ کوئی انسان ایسا کلام پیش نہیں کرسکتا۔ نہ انہوں نے کسی انسان سے ایسا کلام سنا تھا۔ پھر ان کے اندر یہ تصور بھی تھا کہ ہر شاعر کے ساتھ ایک شیطان لگا ہوتا ہے اور وہ شاعروں پر یہ کلام القاء کرتا ہے اور ان کا یہ تصور بھی تھا کہ کاہنوں کے ساتھ بھی شیاطین لگتے ہوتے ہیں ، ان پر بھی وہ غیب کی باتیں القاء کرتے ہیں۔ اور یہ بات بھی ان میں عام تھی کہ بعض اوقات شیطان بعض لوگوں کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ اور ان کی زبان پر وہ اپنی بات کرتا ہے۔ لیکن اس کلام عالی شان کی سچی تاویل اور تعبیر کرنے کے لئے وہ بہرحال تیار نہ تھے کہ یہ کلام رب العالمین کی طرف سے ہے۔

چناچہ اس پیراگراف میں قرآن نے ان کو اس کائنات کی خوبصورتی کی طرف متوجہ کیا ، اس کائنات کے زندہ اور تابندہ مناظر پر غور کرنے کی دعوت دی اور اس کے ذریعہ ان کے ذہن میں یہ تصور بٹھایا کہ یہ قرآن بھی اس کائنات کی طرح ایک بدیع اور بےمثال کلام ہے۔ اور اس ذات کی طرف سے ہے جو اس کائنات کی خالق ہے۔ جس نے جس طرح اس کائنات میں جمال رکھا ہے اسی طرح قرآن میں بھی جمال رکھا ہے۔ جس کی کوئی مثال نہیں۔ چناچہ قرآن نے قرآن کے حامل فرشتے ، قرآن کے مبلغ رسول کی صفات بیان کیں کہ یہ رسول تو تمہارا ساتھی ہے ، تم اسے جانتے ہو۔ اس میں مجنون ہونے کی کوئی صفت نہیں ہے اور اس نے اپنی آنکھوں سے اس فرشتے کو دیکھا ہے ، جو اس پر کلام لایا ہے۔ اس وقت وہ فرشتہ افق پر چھایا ہوا تھا اور رسول کو حق الیقین تھا کہ یہ فرشتہ ہے ، فرستادہ رب العالمین ہے اور جو غیب کے علوم حضور پر آتے ہیں آپ نہایت امانت پے پہنچاتے ہیں۔ ان باتوں میں کوئی مشکوک بات نہیں ہے۔ خود تم نے بھی رسول اللہ سے کبھی کوئی غلط بات نہیں سنی۔

اردو ترجمہ

اُس نے اُس پیغام بر کو روشن افق پر دیکھا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad raahu bialofuqi almubeeni

اردو ترجمہ

اور وہ غیب (کے اِس علم کو لوگوں تک پہنچانے) کے معاملے میں بخیل نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama huwa AAala alghaybi bidaneenin

اردو ترجمہ

اور یہ کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama huwa biqawli shaytanin rajeemin

وما ھو ............................ رجیم (25:81) ” اور یہ شیطان مردود کا قول نہیں ہے “۔ اس لئے کہ شیطان اس قسم کا سیدھا راستہ لوگوں کو نہیں بتلایا کرتا۔ اللہ تعالیٰ نہایت تنبیہہ کے انداز میں پوچھتے ہیں کہ تم کدھر جارہے ہو ؟

اردو ترجمہ

پھر تم لوگ کدھر چلے جا رہے ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faayna tathhaboona

فاین تذھبون (26:81) ” پھر تم کدھر چلے جارہے ہو ؟ “۔ تم کس قدر غلط فیصلہ کرتے ہو ، کس قدر بودی بات کرتے ہو ؟ حق سے منہ موڑ کر کدھر جارہے ہو ؟ حالانکہ حق اور سیدھا راستہ تمہارے سامنے ہے۔

اردو ترجمہ

یہ تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In huwa illa thikrun lilAAalameena

ان ھو ................ للعلمین (27:81) ” یہ تو سارے جہاں والوں کے لئے ایک نصیحت ہے “۔ یہ ایک یاد دہانی ہے اور ان کو بتاتی ہے کہ تمہارے وجود کی حقیقت کیا ہے ؟ تمہاری پیدائش کا مقصد کیا ہے ؟ تمہارے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات کا مقصد کیا ہے ؟ یہ دعوت تو ایک عالمی دعوت ہے۔ اگرچہ یہ دعوت اس وقت دشمنوں کے نرغے میں ہے لیکن یہ دراصل ایک عالمی تحریک ہے۔ یہ آیت اس بات پر شہادت ہے کہ دعوت اسلامی اپنے آغاز ہی سے ایک عالمی دعوت تھی۔

اس کے بعد ان کو بتایا جاتا ہے کہ ہدایت اور نصیحت ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اس کی طرف آگے بڑھنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ چونکہ اللہ نے تمہیں یہ سہولیات فراہم کردی ہیں ، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تم ارادہ کرلو اور اس راستے پر چل نکلو۔ اگر تم نہ چلو گے تو تم سے باز پرس ہوگی۔

اردو ترجمہ

تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے جو راہ راست پر چلنا چاہتا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liman shaa minkum an yastaqeema

لمن شآئ .................... یستقیم (28:81) ” تم میں سے ہر اس شخص کے لئے جو سیدھے راستے پر چلنا چاہے “۔ یعنی جو وراہ ہدایت لینے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اللہ کی طرف چلنا چاہتا ہو۔ کیونکہ اس کلام کے بعد تو اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں رہتا کہ اللہ کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ اس کلام اور تذکرہ کے بعد تو تمام عذرات ساقط ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ یہ کلام ایک صحیح اور سلیم دل پر راہ راست آشکارا کردیتا ہے۔ لہٰذا اب جو راہ راست سے انحراف کرے گا اس سے باز پرس ہوگی۔

حقیقت یہ ہے کہ انفس وآفاق میں اشارات ایمان اور دلائل ہدایت اس قدر کثرت سے ہیں کہ ہر انسان بمشکل ان کے دائرہ اثر سے پانے آپ کو نکالتا ہے اور اس کے لئے اسے عمداً سعی کرنی پڑتی ہے۔ ہر انسان پر ان دلائل کا زبردست اثر ہر وقت قائم رہتا ہے۔ خصوصاً جو شخص قرآن پر غور و تدبر کرے اور قرآن کے نہایت موثر اسلوب کلام کو سمجھتا ہو ، اور جو لوگ بھی قرآن کو سنیں اور سمجھیں۔ وہ راہ حق سے انحراف عمداً کریں گے اور ان کے پاس کبھی بھی کوئی معقول عذر اور وجہ جواز نہ ہوگا۔

جب یہ بتا دیا گیا کہ تمام لوگوں کا راہ ہدایت پر آنا ممکن ہے اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ الہل نے ہر کسی کے لئے راہ حق پر چلنا آسان کردیا ہے ، تو اس مقام پر مناسب سمجھا گیا کہ لوگوں کی خواہش کے پس پردہ جو عظیم حقیقت کار فرما ہے ، وہ بھی انہیں صاف صاف بتادی جائے۔ وہ یہ کہ اگر وہ چاہیں بھی تو ، توفیق الٰہی کے بغیر راہ راست پر نہیں آسکتے۔

اردو ترجمہ

اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama tashaoona illa an yashaa Allahu rabbu alAAalameena

وما تشآ ءون .................... رب العلمین (29:81) ” اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا الیہ کہ اللہ رب العالمین چاہے “۔ یہ اس لئے کہ وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ان کی مشیت اللہ کی وسیع تر مشیت سے آزاد اور جدا ہے ، جس کی طرف تمام امور لوٹتے ہیں ، اللہ کی طرف سے اختیار دیا جانا اور راہ ہدایت پانے کے لئے سہولت فراہم کرنا بھی اللہ کی عظیم مشیت کے اندر محدود ہے ، جس کے دائرے کے اندر وہ تمام امور محدود ہیں جو ہوچکے ہیں اور جو ہونے والے ہیں۔

یہ آیت اور اس قسم کی تمام دوسری آیات جن میں لوگوں کی مشیت کے متصلا بعد یہ کہا جاتا ہے کہ ہوتا وہی کچھ ہے جو اللہ چاہے۔ یہ اس لئے لائی جاتی ہیں کہ اللہ کی مشیت کی عمومیت اور ہمہ گیری کے بارے میں لوگوں کے تصورات کو درست کیا جائے۔ یہ ایک عظیم حقیقت ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام امور اللہ کی مشیت کے دائرے میں ہیں۔ اور اللہ نے لوگوں کو جو آزادانہ اختیارات دیئے ہیں وہ اس کی وسیع تر مشیت کے دائرے کے اندر ہیں۔ مثلاً یوں کہ اللہ نے فرشتوں کو یہ توفیق دے دی ہے کہ وہ اللہ کے احکام کی تعمیل کریں۔ ان کو یہ اجازت بھی دے دی ہے کہ وہ ایسا کریں ، اور استطاعت بھی دے دی ہے کہ وہ ایسا کرسکیں تو یہ بھی اللہ کی مشیت کا ایک پہلو ہے کہ وہ دو راستوں میں سے جو راستہ چاہیں اختیار کریں اور یہ اختیار وہ تعلیم اور بیان کے بعد استعمال کریں۔

مومنین کو چاہئے کہ وہ اپنے عقیدے اور اپنے تصورات میں اس حقیقت کا اقرار کریں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ اصل حقیقت کیا ہے ، وہ اللہ کی مشیت کبریٰ کو دیکھتے ہوئے اللہ ہی پر بھروسہ کریں ، اللہ کی توفیق کے طالب ہوں اور جو راہ اختیار کریں اور جو راہ ترک کریں اس میں قدرت الٰہیہ اور مشیت الٰہیہ ان کے سامنے ہو۔

586