اس صفحہ میں سورہ An-Naazi'aat کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النازعات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا۔ } ”قسم ہے ان فرشتوں کی جو غوطہ لگا کر کھینچتے ہیں۔“ نزع کے معنی سختی سے کھینچنے کے ہیں۔ یعنی ان فرشتوں کی قسم جو انسان کے وجود کی گہرائی میں اتر کر بڑی سختی اور شدت سے اس کی جان کو کھینچ نکالتے ہیں۔
آیت 2{ وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا۔ } ”اور ان فرشتوں کی قسم جو گرہیں کھولتے ہیں آسانی سے۔“ یہ بھی انسان کی جان قبض ہونے کی ہی ایک کیفیت کا ذکر ہے۔ حضور ﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ جب فرشتہ بندئہ مومن کی جان قبض کرتا ہے تو اسے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مشک کے بند منہ سے پانی کا ایک قطرہ ٹپک گیا ہے اور جب وہ کسی کافر کی جان قبض کرتا ہے تو اسے ایسی سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے سیخ پر سے کباب کھینچا جا رہا ہے اَعاَذنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ ۔ بہرحال یہاں یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان دونوں کیفیات کا تعلق انسان کی روح سے ہے ‘ اس کے ظاہری جسم سے نہیں۔ جسمانی طور پر تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے نیک بندوں پر بھی نزع کا وقت سخت انداز میں وارد ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ظاہری تکلیف تو خود حضور ﷺ پر بھی طاری ہوئی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت فاطمہ رض حضور ﷺ کی تکلیف کو دیکھ کر بار بار روتی تھیں اور ان رض کے منہ سے بےاختیار یا ابتاہ ! یا ابتاہ ! ہائے میرے ابا جان ﷺ کی یہ تکلیف ! کے الفاظ نکلتے تھے۔ حضور ﷺ یہ سن کر فرماتے کہ بیٹی آج کے بعد تیرے باپ ﷺ کے لیے کوئی سختی نہیں ہے۔ فداہ آبائنا وامھاتنا !
آیت 3{ وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا۔ } ”اور ان فرشتوں کی قسم جو تیزی سے تیرتے ہوئے جاتے ہیں۔“ فرشتے تیرتے ہوئے ان ارواح کو لے کر کہاں جاتے ہیں اور انہیں کہاں رکھا جاتا ہے ؟ اس بارے میں وضاحت آگے سورة المُطفِّفین میں آئے گی۔
آیت 5{ فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا۔ } ”پھر حسب حکم معاملات کی تدبیر کرتے ہیں۔“ یعنی ہر مرنے والے کی روح کو فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سِجِّین یا عِلِّیّین میں لے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان قسموں کا جواب یا مقسم علیہ چونکہ محذوف ہے ‘ اس لیے ان قسموں کا مقسم علیہ بھی وہی تصور ہوگا جو سورة الذاریات اور سورة المرسلات میں مذکور ہے۔ یعنی : { اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ - وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ۔ } الذّٰرِیٰت ”جو وعدہ تمہیں دیا جا رہا ہے وہ یقینا سچ ہے۔ اور جزا و سزا ضرور واقع ہو کر رہے گی“۔ اور { اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَـوَاقِعٌ۔ } المرسلٰت ”جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقینا واقع ہو کر رہے گی۔“
آیت 6 { یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ۔ } ”جس دن کانپے گی کانپنے والی۔“ یعنی قیامت کے دن شدید زلزلے کی وجہ سے پوری زمین لرز اٹھے گی۔ قیامت کے زلزلے اور اس دن کی ہولناک کیفیات کا ذکر قرآن مجید میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ سورة الحج کی ابتدائی آیات کا یہ انداز بہت عبرت آموز ہے :{ یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمْج اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ - یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰـکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ۔ } ”اے لوگو ! تقویٰ اختیار کروا پنے رب کا ‘ یقینا قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہوگا۔ جس دن تم اس کو دیکھو گے ‘ اس دن حال یہ ہوگا کہ بھول جائے گی ہر دودھ پلانے والی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور دہشت کا عالم یہ ہوگا کہ ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور تم دیکھو گے لوگوں کو جیسے وہ نشے میں ہوں ‘ حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے ‘ بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہے۔“
آیت 7{ تَتْبَعُہَا الرَّادِفَۃُ۔ } ”اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا آئے گا۔“ اس سے نفخہ ثانیہ مراد ہے ‘ جس کے بعد سب ُ مردے دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔
آیت 9{ اَبْصَارُہَا خَاشِعَۃٌ۔ } ”ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔“ فرطِ خوف سے آنکھیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی ‘ اوپر آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ ہوگی۔
آیت 10{ یَقُوْلُوْنَ ئَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْْحَافِرَۃِ۔ } ”یہ لوگ کہتے ہیں : کیا ہمیں لوٹا دیا جائے گا الٹے پائوں ؟“ کہ کیا مرنے کے بعد ہمیں پھر سے زندہ کر دیاجائے گا ؟
آیت 12{ قَالُوْا تِلْکَ اِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ۔ } ”کہتے ہیں : تب تو یہ لوٹنا بہت گھاٹے کا سودا ہوگا۔“ قیامت سے متعلق خبروں پر وہ لوگ طنزیہ انداز میں ایسے تبصرے کرتے تھے۔
آیت 14{ فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ۔ } ”تو وہ سب کے سب ایک چٹیل میدان میں ہوں گے۔“ نفخہ ثانیہ کے بعد سب کے سب انسان زندہ ہو کر میدانِ حشر میں جمع ہوجائیں گے۔