سورۃ الانبیاء (21): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Anbiyaa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنبياء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانبیاء کے بارے میں معلومات

Surah Al-Anbiyaa
سُورَةُ الأَنبِيَاءِ
صفحہ 322 (آیات 1 سے 10 تک)

ٱقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا ٱسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا۟ ٱلنَّجْوَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ هَلْ هَٰذَآ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ ٱلسِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ قَالَ رَبِّى يَعْلَمُ ٱلْقَوْلَ فِى ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ ۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ بَلْ قَالُوٓا۟ أَضْغَٰثُ أَحْلَٰمٍۭ بَلِ ٱفْتَرَىٰهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِـَٔايَةٍ كَمَآ أُرْسِلَ ٱلْأَوَّلُونَ مَآ ءَامَنَتْ قَبْلَهُم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَٰهَآ ۖ أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِىٓ إِلَيْهِمْ ۖ فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ وَمَا جَعَلْنَٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ ٱلطَّعَامَ وَمَا كَانُوا۟ خَٰلِدِينَ ثُمَّ صَدَقْنَٰهُمُ ٱلْوَعْدَ فَأَنجَيْنَٰهُمْ وَمَن نَّشَآءُ وَأَهْلَكْنَا ٱلْمُسْرِفِينَ لَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكُمْ كِتَٰبًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
322

سورۃ الانبیاء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانبیاء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

قریب آ گیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Iqtaraba lilnnasi hisabuhum wahum fee ghaflatin muAAridoona

سورة الانبیآء مکیۃ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اقترب للناس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واھلکنا المسرفین (1 : 9)

یہ نہایت ہی زور دار آغاز ہے ‘ کسی بھی غافل شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ حساب سر پر ہے اور لوگ غفلت اور لاپرواہی میں بیٹھے ہیں۔ بڑی بےتابی سے رسول ان کے سامنے آیات الہیہ پیش کررہے ہیں اور وہ منہ موڑ کر دوسری جانب جارہے ہیں۔ فوراً چوکنا ہونے کی ضورت ہے اور یہ لوگ ہیں کہ خطرے کا شعور بھی نہیں رکھتے بلکہ جب بھی ان کو متنبہ کرنے کی نئی کوشش کی جاتی ہے یہ مذاق کرتے ہیں اور دعوت کو غیر اہم سمجھ کر کھیل میں لگ جاتے ہیں۔

لاھیۃ قلو بھم (12 : 3) ” ان کے دل غافل ہیں “۔ ان کے دل و دماغ اور شعور و وجدان کے تار بالکل خاموش ہیں۔ ان کے اندر کوئی نغمہ نہیں ہے۔ یہ ان شخصیات کی تصویر کشی ہے جو غایت درجہ لاابالی ہیں اور سنجیدگی ان میں مفقود ہے ‘ جو نہایت ہی خطرناک مقامات پر بھی غیر سنجیدہ رہتے ہیں ‘ جو نہایت محتاط رہنے کے مقام پر بھی گپ لگاتے ہیں ‘ نہایت ہی مقدس موقف اور مقدس مقام میں بھی گندگی گراتے ہیں۔ یہ قرآن جو ان کو منایا جارہا ہے ‘ یہ تو رب ذوالجلال کی طرف سے ایک پیغام ہے اور یہ اس سے لاپرواہ ہیں۔ کوئی وقار ‘ کوئی پاکیزگی ان میں نہیں ہے۔ جن لوگوں میں سنجیدگی ‘ وقار ‘ پاکیزگی ‘ جدت نظر نہیں ہوتی وہ آخرکار اس قدر ہلکے ‘ خشک ہوجاتے ہیں اور اس طرح ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں کہ وہ کسی اونچے مشن یا اہم فرائض کی ادائیگی اور بھاری بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ ان کی زندگی ڈھیلی ‘ ان کے اخلاق گرے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی اقدار ارزاں ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں میں ایک قسم کی بےباکی پیدا ہوجاتی ہے او وہ مقدس سے مقدس قدر کو بھی ہلکا سمجھتے ہیں۔ یہ شتر بےمہار ہوتے ہیں ‘ کس یدستور اور ضابطے کے پابند نہیں ہوتے۔ اور ان کو خیر و شر کا شعور ہی نہیں رہتا۔

اس قسم کے لوگ اس قرآن مجید کو سنجیدگی سے نہ لیتے تھے حالانکہ یہ قرآن مجید تو دستور حیات ‘ نظام زندگی ‘ نظام عمل ‘ نظام معاملہ تھا۔ اس کو سنجیدگی سے دیکھا چاہیے تھا لیکن ان لوگوں نے اسے نہایت ہی لا بالی پن سے ایک ستر بےمہار شخص کی طرح غفلت سے لیا اور مذاق کرنے لگے ۔ ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں۔ جب روح انسان اس طہارت اور اقدا کے اس تقدس کو خیر باد کہہ دے تو پھر معاشرہ مریض انسان پیدا کرتا ہے ‘ ستر بےمہار انسان پیدا کرتا ہے ‘ لا ابالی انسان پیدا کرتا ہے ‘ جن کا نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور نہ وہ کسی چیز کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان نے اس سورة کو اس سندیگی ‘ اور اس اہمیت سے لیا کہ ان کے دل دنیا ومافیہا سے بےنیاز ہوگئے۔ ترجمہ آمدی میں عامر ابن ربیعہ کا یہ واقعہ آیا ہے کہ ان کے پاس عرب کا ایک آدمی آیا۔ اس نے ان کی بڑی قدر و منزلت کی اور عزت سے ٹھہرایا۔ اس کے بعد وہ شخص دوبارہ عامر کے پاس آیا۔ اس وقت اسے زمین الاٹ ہوچکی تھی اور کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سرزمین عرب کی ایک پوری وادی بطور جاگیر الاٹ کرالی ہے ‘ میں چاہتا ہوں کہ اس میں سے ایک ٹکڑا تمہیں دے دوں تاکہ وہ تمہیں اور تمہارے بعد تمہاری اولاد کے کام آئے۔ اس پر عامر نے کہا ‘ مجھے تمہاری اس جاگیر میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ آج ایک سورة نازل ہوئی ہے ‘ اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب دنیا میں ہماری کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔

اقترب للناس۔۔۔۔۔۔۔۔ معرضون (12 : 1) ” قریب آگیا ہے ‘ لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں “۔

یہ ہے فرق دلوں میں۔ ایک طرف ہیں زندہ ‘ قبول کنندہ اور اثر گثرندہ دل اور دوسری جانب ہیں مردہ ‘ بجھے ہوئے اور ایسے دل جن میں فکر و شعور کے داخلے کی تمام کھڑکیاں بند ہیں۔ ان مردہ دلوں پر لہو و لعت کے کفن ہیں اور ان کو بےمہاری کے لا ابالی پن کے قبرستان میں دفنا دیا گیا ہے۔ قرآن کا ان پراثر نہیں ہوتا کیونکہ ان کے دل بجھ گئے ہیں اور وہ اس طرح ہوگئے ہیں کہ ان میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں ہے۔

واسروا۔۔۔۔۔ ظلموا (12 : 3) ” اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں “۔ اہل مکہ ہر وقت رسول اللہ ﷺ اور آپ کی تحریک کے بارے میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ پھر یہ سرگوشیاں ان کی سازشوں کی شکل اختیار کرتی تھیں اور پھر یوں تبصرے کرتے تھے۔

ھل ھذآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وانتم تبصرون (12 : 3) ” یہ شخص آخر تم جیسا بشر ہی تو ہے تو کیا پھر تم آنکھوں دیکھتے (سمجھتے بوجھتے) جادو کے پھندے میں پھنس جائو گے “۔ یہ لوگ تو درحقیقت مرچکے ہیں اور ان کے جسم میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں ہے اس لیے یہ قرآن سے خود تو متاثر ہوتے نہیں تھے لیکن جن دوسرے لوگوں پر قرآن کے اثرات ہوتے تھے ان کو یہ لوگ یوں بدراہ کرتے تھے کہ لوگوں دیکھو ‘ یہ محمد تو ہم جیسا انسان ہے ‘ تو اس پر کیوں ایمان لاتے ہو۔ اس کلام کا تم پر جو اثر ہوتا ہے تو وہ ایک جادو ہے۔ تم دیکھتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے اس جادو کا اثر لیتے ہو۔

جب وہ ایسے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے تو رسول اللہ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیں۔ یہ جو مشورے کررہے ہیں اور قرآن کے اثرات سے بچنے کے لیے جو بہانے اور پرو پیگنڈے کرتے ہیں ان کا کوئی اثر نہ ہوگا۔

اردو ترجمہ

ان کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اُس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma yateehim min thikrin min rabbihim muhdathin illa istamaAAoohu wahum yalAAaboona

اردو ترجمہ

دِل ان کے (دوسری ہی فکروں میں) منہمک ہیں اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ "یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahiyatan quloobuhum waasarroo alnnajwa allatheena thalamoo hal hatha illa basharun mithlukum afatatoona alssihra waantum tubsiroona

اردو ترجمہ

رسُولؐ نے کہا میرا رب ہر اُس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں کی جائے، وہ سمیع اور علیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbee yaAAlamu alqawla fee alssamai waalardi wahuwa alssameeAAu alAAaleemu

قل ربی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وھو السمیع العلیم (12 : 4) ” رسول نے کہا میرا بر ہر اس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں کی جائے اور وہ سمیع وعلیم ہے “۔ زمین کے جس حصے میں بھی تحریک اسلامی کے خلاف کوئی سرگوشی ہو ‘ اللہ تعالیٰ سنتا اور جانتا ہے کیونکہ اللہ تو وہ ہے جو زمین و آسمان میں بولے جانے والے تمام اقوال کو جانتا ہے اور اس کے ہاں وہ ریکارڈ ہوتے ہیں اور وہ جو سازشیں بھی پکائیں اللہ اپنے رسول کو پہلے سے بتا دیتا ہے کہ وہ سمیع وعلیم ہے۔

انہوں نے بہت سوچا کہ قرآن کے اثرات کو کس پروپیگنڈے سے روکیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سحر ہے۔ یہ ایک مخلوط قسم کی سوچ اور منتشر افکار ہیں ‘ جن کو محمد جمع کرکے پیش کرتا ہے ‘ کبھی شعر ‘ کبھی کہانت کیا کہا۔

اردو ترجمہ

وہ کہتے ہیں "بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں، بلکہ یہ اِس کی مَن گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal qaloo adghathu ahlamin bali iftarahu bal huwa shaAAirun falyatina biayatin kama orsila alawwaloona

بل قالو۔۔۔۔۔۔۔ شاعر (12 : 5) ” وہ کہتے ہیں بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں بلکہ یہ اس کی من گھڑت بات ہے بلکہ یہ شخص شاعر ہے “۔ یہ بلکہ بلکہ ہی کرتے رہیں گے ‘ کسی ایک بات پر بھی جم نہیں سکتے ‘ نہ ان کی ایک رائے ہے ‘ اصل بلکہ یہ ہے کہ دراصل یہ لوگ مختلف تدابیر اختیار کرتے ہیں کہ قرآن کے ان ولولہ انگیزاثرات کو کس طرس روکیں ‘ جو لوگوں پر اثر کررہے اور یہ لوگ دعوے پر دعویٰ کرتے چلے آرہے ہیں ‘ ایک سبب کے بعد دوسرا سبب لاتے ہیں۔ لیکن سخت حیراں ہیں ‘ کسی ایک بات پر جمتے نہیں ‘ اس لیے تمام حرکتوں اور اقوال کو چھوڑ کر آئو اس طرف آتے ہیں کہ کوئی ایسا معجزہ دکھا دیا جائے جو گزرے ہوئے رسولوں نے دکھائے تھے۔

فلیاتنا بأیۃ کمآ ارسل الاولون (12 : 5) ” ورنہ یہ لائے کوئی ایسی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے “۔ ہاں اس سے قبل رسولوں نے خارق عادت معجزات دکھائے تھے لیکن کیا جن کے سامنے معجزے پیش ہوئے تھے وہ سب ایمان لائے تھے۔ نہیں وہ تو ایمان نہ لائے اسی لیے تو ہلاک ہوئے اور یہ سنت الہیہ ہے۔ اٹل سنت الہیہ کہ جب کوئی خارق عادت معجزہ پیش ہوجائے اور پھر بھی لوگ نہ مانیں تو ان کو تباہ کرنا لازم ہے۔

اردو ترجمہ

حالاں کہ اِن سے پہلے کوئی بستی بھی، جسے ہم نے ہلاک کیا، ایمان نہ لائی، اب کیا یہ ایمان لائیں گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma amanat qablahum min qaryatin ahlaknaha afahum yuminoona

مآامنت۔۔۔۔۔۔۔۔ اھلکنھا (12 : 6) ” حالانکہ ان سے پہلے کوئی بستی بھی جسے ہم نے ہلاک کیا ‘ ایمان نہ لائی “۔ یہ اس وہ سے کہ جب کوئی قوم بغض وعناد کے اس مرتبے تک پہنچ جائے کہ وہ ایک محسوس خارق عادت معجزے کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو پھر تو اسے ہلاک کیا جانا ہی ٹھہرتا ہے۔

بار بار معجزات آئے ‘ باربار اقوام نے تکذیب کی اور بار بار ان مکذبین کو تاریخ میں ہلاک کیا جاتا رہا۔ تو اگر ان لوگوں کو ویسا ہی معجزہ دکھادیا جائے اور یہ بھی اسی طرح ایمان نہ لائیں تو پھر ہلاکت کے سوا اور کیا انجام ہوگا۔

افھم یومنون (12 : 6) ” کیا یہ ایمان لائیں گے “۔

اردو ترجمہ

اور اے محمدؐ، تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ کتاب سے پوچھ لو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama arsalna qablaka illa rijalan noohee ilayhim faisaloo ahla alththikri in kuntum la taAAlamoona

ومآ ارسلنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وما کانوا خلدین (12 : 8) (12 : 7 : 8) ” اور اے نبی ﷺ تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔ تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔ ان رسولوں کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں اور نہ وہ سداجینے والے تھے “۔ اللہ کی حکمت کا تقاضایہی تھا کہ رسول انسان ہوں ‘ وہ اللہ سے وحی اخذ کریں اور لوگوں تک اسے پہنچائیں۔ اس سے قبل جس قدر رسول گزرے وہ جسم و جان رکھتے تھے اور جسم و جان رکھنے کے بعد وہ کھانا بھی کھاتے تھے ‘ کیونکہ کھانا جسم کا لازمی تقاضا ہے اور بشریت کے اعتبار سے اور جسمانیت کے اعتبار سے وہ دائمی زندگی والے بھی نہ تھے۔ اگر تم اس بات کو نہیں جانتے تو رسولوں کی جسدیت ‘ کھانے پینے کے بارے میں اہل کتاب سے معلومات حاصل کرلو کیونکہ کھانا لازمی تقاضا ہے اور بشریت کے اعتبار سے اور جسمانیت کے اعتبار سے وہ دائمی زندگی والے بھی نہ تھے۔ اگر تم اس بات کو نہیں جانتے تو رسولوں کی جسدیت ‘ کھانے پینے کے بارے میں اہل کتاب سے معلومات حاصل کرلو کیونکہ اہل کتاب عربوں کے مقابلے میں علوم انبیاء سے زیادہ علم رکھتے تھے۔

واقعہ یہ ہے کہ تمام رسول بشر تھے۔ انسانوں کی طرح زندہ رہتے تھے۔ تاکہ ان کی عملی زندگی شریعت کی صورت اختیار کرلے۔ ان کا عملی مڈل لوگوں کے لیے اعلیٰ زندگی کا ماڈل ہو ‘ کیونکہ جو دعوت زندہ ہو اور زندگی کی عملی شکل میں ماڈل اور نمونہ ہو وہی موثر بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ دعوت عملاً مجسم شکل میں قائم ہے اور اس کو عملی شکل دے دی گئی ہے۔

اگر رسول غیر بشر ہوتے نہ کھاتے پیتے ‘ نہ بازاروں میں پھرتے ‘ عورتوں کے ساتھ ان کی معاشرت نہ ہوتی ‘ ان کے دلوں میں انسانی جذبات و میلانات نہ ہوتے تو ان کے اور لوگوں کے درمیان گہرا تعلق قائم نہ ہو سکتا۔ نہ وہ ان میلانات کو سمجھ سکتے جو انسان رکھتے ہیں اور نہ انسان ان کو اچھی طرح سمجھ سکتے اور نہ ان کی پیروی کرتے کیونکہ ان کی زندگی میں انسانوں کی پیروی کے لیے کوئی ماڈل ہی نہ ہوتا۔

اگر داعی جن لوگوں کو دعوت دیتا ہے ان کے رحجانات کو نہیں سمجھتا ‘ ان کے شعور ‘ جذبات اور خواہشات کو نہیں سمجھتا ‘ اور لوگوں کے اندر نہیں جاتا ان سے دور دور رہتا ہے ‘ وہ لوگوں کے ساتھ نہیں چلتا اور لوگ اس کے ساتھ نہیں چلتے وہ لوگوں کے سامنے جس قدر چلا چلا کر تقریریں کے تو لوگ اس کی تقریروں سے ہر گز متاثر نہ ہوں گے کیونکہ ان کے درمیان احساس و شعور کے فاصلے ہیں۔

ہر وہ داعی جس کا عمل اس کی بات کی تصدیق نہ کرے ‘ اس کے الفاظ لوگوں کے کانوں سے ٹکراکر واپس ہوں گے۔ دلوں کے اندر نہ اتر سکیں گے اگر چہ اس کے الفاظ زور دار ہوں اور اس کا کلام بلیغ ہو ‘ وہ سادہ بات جس کی پشت پر عمل ہوتا ہے جس سے کہنے والا خود متاثر ہوتا ہے ‘ وہی مفید ہو سکتی ہے اور لوگوں کے اندر حرکت پیدا کرسکتی ہے۔

جو لوگ یہ تجویز کرتے تھے کہ رسول کو ایک فرشتہ ہونا چاہیے ‘ جس طرح آج کل کے بعض لوگ رسول کو انسانی خواص سے عاری قرار دیتے ہیں ‘ یہ لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں کہ فرشتے اپنی تخلیقی ساخت اور اپنی فطرت کے اعتبار سے انسانوں جیسی زندگی گزارہی نہیں سکتے کیونکہ وہ جسم اور اس کے تقاضوں کے مطابق انسان کے احساس و شعور کو سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ لہٰذا اس اعتبار سے ان کے لیے انسانوں جیسی زندگی گزارنا ممکن ہی نہیں ہے۔ رسول کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان انسانی احساسات اور تقاضوں کو سمجھتا ہو اور اپنی عملی زندگی میں ان احساسات اور ان تقاضوں پر عمل بھی کرتا ہوتا کہ وہ لوگوں کے لیے عملی دستور حیات بن سکے۔

یہ باتیں تو اپنی جگہ پر ہیں لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر رسول فرشتہ ہو تو اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے جنس بشری کو جو عظیم اعزاز دیا ‘ بشریت اس سے محروم ہوجاتی۔ یہ نہ ہوتا کہ انسانوں میں سے ایک انسان عالم بالا سے رابطہ قائم کرے یا اللہ سے ہمکلام ہو۔

بہرحال رسولوں کے انتخاب میں یہ اللہ کی سنت ہے کہ رسول بشر ہو اور یہ بھی سنت ہے کہ اللہ ان کو نجات دے اور مسرفین اور مکذبین کو ہلاک کردے۔

ثم صدقنھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ المسرفین (12 : 9) ” پھر دیکھ لو کہ آخر کار ان کے ساتھ ہم نے اپنے وعدے پورے کیے اور انہیں جس کسی کو ہم نے چاہا ‘ بچا لیا اور مسرفین کو ہلاک کردیا “۔ تو رسولوں کے انتخاب کے لیے جو سنت ہے ‘ اسی طرح مکذبین کے لیے بھی یہ سنت ہے اور اللہ نے ان کو اور ان کے ساتھ فی الحقیقت ایمان لانے والوں کو بھی ہلاک کردیا۔ ایسے ایمان لانے والے جن کا عمل ان کے ایمان کی تصدیق نہ کرتا ہو۔ اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرتا ہے جو حد سے گزرتے ہیں۔

مشرکین جو حضور اکرم ﷺ کو اور آپ ﷺ کے ساتھی مسلمانوں کو ایڈادیتے تھے اور ان کی تکذیب کرنے میں حد سے گزر گئے تھے ‘ ان کو اللہ اس سنت سے ڈراتا ہے اور ان کو سمجھا تا ہے کہ یہ ان پر اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ اللہ نے کوئی مادی خارق عادت معجزہ نہیں بھیجا جس کو اگر یہ جھٹلا دیتے جس طرح اقوام سابقہ نے جھٹلایا تھا تو یہ بھی ہلاک کردیئے جاتے۔ اس خارق عادت معجزے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے تمہیں قرآن کا معجزہ دیا ہے اور یہ کتاب تمہارے لیے باعث عزو شرف ہے کہ یہ تمہاری زبان میں ہے ‘ تمہاری زندگی کو استوار کرتی ہے اور یہ تمہاری تعمیر و تربیت اس طرح کرتی ہے کہ تمہیں وہ ایک قابل ذکر امت بنا دے۔ یہ کتاب لوگوں کے سامنے کھلی پڑی ہے ‘ چاہیے کہ وہ اس پر غور کریں اور اس کے ذریعہ انسانیت کے ارتقاء کی سیڑھی پر چڑھتے چلے جائیں۔

اردو ترجمہ

اُن رسُولوں کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں، اور نہ وہ سدا جینے والے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama jaAAalnahum jasadan la yakuloona alttaAAama wama kanoo khalideena

اردو ترجمہ

پھر دیکھ لو کہ آخرکار ہم نے ان کے ساتھ اپنے وعدے پُورے کیے، اور انہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا، اور حد سے گزر جانے والوں کو ہلاک کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma sadaqnahumu alwaAAda faanjaynahum waman nashao waahlakna almusrifeena

اردو ترجمہ

لوگو، ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad anzalna ilaykum kitaban feehi thikrukum afala taAAqiloona

لقد انزلنآ۔۔۔۔۔۔۔۔ افلا تعقلون ( ” ۔

قرآن ایک ایسا معجزہ ہے کہ یہ تمام نسلوں کے لی کھلا معجزہ ہے۔ یہ ایسا معجزہ نہیں ہے کہ ایک ہی نسل میں اس کا مظاہرہ ہو ‘ لوگ اس سے متاثر ہوں اور وہ ختم ہوجائے۔ یہ ایک دائم وقائم معجزہ ہے۔

قرآن کریم کے ذریعہ عربوں کو بھی بڑی شہرت ملی جب وہ قرآن کے پیغام کو لے کر مشرق و مغرب تک جا پہنچے۔ اس سے پہلے وہ کوئی قابل ذکر لوگ نہ تھے۔ نہ ان کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کوئی قابل ذکر چیز تھی۔ جب تک عربوں نے اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رکھا انہوں نے اس کے ذریعہ پوری انسانیت کی راہنمائی کی ‘ تو وہ بھی کامیاب رہے اور اس کی وجہ سے پوری انسانیت کو بھی کامیابی اور خوسحالی نصیب ہوئی ‘ جب عربوں نے اس کتاب کو چھوڑا تو انسانیت نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور لوگوں کے اندر عربوں کا ذکر ختم ہونے لگا۔ یہ لوگ قافلہ انسانیت کے دم چھلا بن گئے اور انسانوں میں سے جو چاہے ‘ انہیں اچک لیتا ہے لیکن جب یہ کتاب انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھی تھی تو لوگ ان کے ماحول میں اچک لیے جاتے تھے اور یہ محفوظ تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ عرب قرآن کے سوا انسانیت کو کیا تحفہ دے سکتے ہیں ؟ قرآن کے سوا ان کے پاس اور ہے کیا ؟ ان کے پاس قرآنی فکر کے سوا انسانیت کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی اور فکر نہیں ہے۔ اگر وہ انسانیت کے سامنے یہ کساب پیش کریں گے تو انسانیت ان کو پہچان لے گی۔ ان کا ذکر کرے گی اور ان کو سروں پر اٹھائے گی کیونکہ اسے عربوں سے ایک نفع بخش پیغام ملے گا۔ لیکن اگر وہ انسانوں کے سامنے محض عربوں کو بحیثیت ایک قوم پیش کریں گے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی حیثیت کیا ہے اور وہ کیا ہیں ؟ اس کتاب کے سوا ان کے اس نسب نامے کی کیا وقعت ہے۔ انسانیت نے عربوں کو اس کتاب کے ذریعے ‘ اسلامی نظریہ حیات کے ذریعے اور اس کتاب سے اخذ کردہ نظام حیات کے ذریعے پہچانا تھا۔ انسانیت میں ان کو جو مقام حاصل ہوا تھا وہ اس لیے نہ تھا کہ وہ عرب ہیں۔ کیونکہ صرف عرب ہونا تاریخ انسانیت میں کوئی چیز نہیں ہے اور تہذیب کی ڈکشنری میں لفظ عرب کا کوئی مقام نہیں ہے۔ عربوں کی پہچان اسلامی تہذیب و تمدن سے تھی اور ہے۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی فکر ‘ اسلامی فلسفہ اور اسلامی تمدن کے تو تمدن کی ڈکشنری میں نام ملیں گے لیکن عرب کا اس میں کوئی نام نہیں ہے۔

اسی حقیقت کی طرف قرآن کریم یہاں ارشارہ کررہا ہے۔ مشرکین کو مخاطب کر کے کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب تمہاری پہچان ہے۔ لیکن تم اس کتاب میں آنے والی نئی تعلیمات کا استقبال غفلت ‘ اعراض اور تکذیب اور مذاق کے ساتھ کرتے تھے۔

لقد انزلنآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افلا تعقلون (12 : 01) ” لوگو ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ‘ کیا تم سمجھتے نہیں ہو “۔

عرب مشرکین پر اللہ کا کرم تھا کہ ان کے سامنے نبی ﷺ کے ذریعہ کوئی خارق عادت معجزہ پیش نہ کیا گیا ‘ ورنہ وہ انکار کرتے اور ان کی بیح گنی اسی طرح سنت الہیہ کے مطابق ہوجاتی جس طرح تاریخ میں کئی اقوام اور کئی بستیوں کی ہوئی۔ یہاں اللہ تعالیٰ ایک زندہ منظر کی شکل میں ایسی اقوام کے استیصال اور تباہی و بربادی کو دکھاتے ہیں۔

322