سورہ نحل (16): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nahl کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النحل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نحل کے بارے میں معلومات

Surah An-Nahl
سُورَةُ النَّحۡلِ
صفحہ 267 (آیات 1 سے 6 تک)

سورہ نحل کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نحل کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

آ گیا اللہ کا فیصلہ، اب اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ پاک ہے وہ اور بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ata amru Allahi fala tastaAAjiloohu subhanahu wataAAala AAamma yushrikoona

آیت نمبر 1 تا 2

مشرکین مکہ اس معاملے میں جلدی کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ جس طرح اقوام سابقہ کی ہلاکت کی بات کرتے ہیں ، ہم پر بھی دنیا یا آخرت کا عذاب لے آئیں۔ مکہ میں آپ ﷺ کی زندگی گزر رہی تھی اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے وہ اپنے اس مطالبے پر زیادہ زور دیتے۔ بلکہ مذاق کرنے لگتے اور خندہ و استہزاء میں بہت ہی آگے بڑھ جاتے۔ وہ اس تاثر کا اظہار کرتے کہ حضرت محمد ﷺ انہیں خواہ مخواہ ڈراتے ہیں ، جو ڈراوے وہ دیتے ہیں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس لیے وہ محض اوہام پر ایمان نہیں لا سکتے ہیں ، نہ ایسی چیز کے سامنے سر تسلیم خم کرسکتے ہیں جن کا وجود ہی نہ ہو۔ اللہ ان کو جو مہلت دے رہا تھا اور مواقع فراہم کر رہا تھا اس میں گہری حکمت اور رحمت تھی اور وہ اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ مزید یہ قرآن کریم جو آیات کونیہ پیش کر رہا تھا اور خود قرآن جو عقلی دلائل پیش کر رہا تھا وہ اس پر غوروفکر نہ کرتے تھے ، حالانکہ یہ دلائل قلب و نظر پر جو اثرات چھوڑتے تھے ، وہ تخویف بذریعہ عذاب سے زیادہ کارگر ہو سکتے تھے۔ انسان کو اللہ نے عقل و خرد سے نوازا ہے ، اس کے شایان شان تو یہ ہے کہ وہ ان دلائل پر غور کرے ، محض ڈراوے سے تسلیم کرنا تو ان لوگوں کے لئے ہے جو عقل و خرد کے پہلو سے کمزور ہوں۔ ذراوے سے حریت ارادہ پر بھی زد پڑتی ہے۔

ایسے حالات میں فرمایا :

اتی امر اللہ (16 : 1) “ اللہ کا فیصلہ آگیا ”۔ یعنی اللہ فیصلہ کرچکے ہیں ، ان کا ارادہ متوجہ ہوگیا ہے جو وقت صدور اللہ نے مقرر کیا ہے اس میں ان اوامرو احکام اور فیصلوں کا صدور ہوجائے گا۔ لہٰذا :

فلا تستعجلوہ (16 : 1) “ جلدی نہ مچاؤ ”۔ اللہ کے فیصلے اس کی مشیت کے مطابق ہوتے ہیں۔ تمہاری طرف سے شتابی کرنا اللہ کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ تمہاری طرف سے درازی مہلت کی امیدیں بھی ان کو موخر نہیں کرسکتیں۔ عذاب آتا ہے یا قیامت برپا ہوتی ہے ، اس کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کا وقوع اور نفاذ اپنے مقررہ وقت پر بہرحال ہوگا۔ اس میں تقدیم و تاخیر ممکن نہیں ہے۔

ایک شخص اپنی حالت پر جس قدر جمنے کی کوشش بھی کرے یہ فیصلہ کن انداز گفتگو اسے بہرحال متاثر کرتا ہے ، چاہے وہ استکبار کی وجہ سے اپنے تاثر کو ظاہر نہ کرے۔ جس قدر انداز فیصلہ کن ہے اسی طرح یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ اللہ کا حکم جب آتا ہے تو وہ اٹل ہوتا ہے ۔ بس صرف اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ کا ارادہ کسی امر سے متعلق ہوجائے بس وہ امر واقع ہوجاتا ہے۔ چشم زدن میں وہ وجود میں آجاتا ہے۔ لہٰذا یہ زور دار انداز کلام کسی شاعرانہ مبالغہ آرائی پر بھی مبنی نہیں ہے۔ جس طرح انداز کلام شعور کو متاثر کرتا اسی طرح اللہ کے فیصلے واقعی صورت حالات میں انقلاب برپا کردیتے ہیں۔

رہے مشرکین مکہ کے اعمال شرکیہ اور عقائد شرکیہ اور ان کے وہ تمام تصورات جو اعمال شرکیہ اور عقائد شرکیہ پر مبنی ہیں تو اللہ کی ذات ان سے پاک ہے۔

سبحنہ وتعالیٰ عما یشرکون (16 : 1) “ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ”۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے تمام ان مشرکوں سے جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں۔ یادر ہے کہ شرک میں کوئی انسان تب ہی مبتلا ہوتا ہے جب وہ فکر اعتبار سے گرا پڑا ہو اور اس کے تصورات کسی دلیل پر مبنی نہ ہوں۔

اللہ کے احکام واوامر آگئے ، جو شرک سے پاک ہیں اور امر دینے والے باری تعالیٰ بھی شرک سے پاک ہیں اور اہل مکہ اللہ تعالیٰ کو جو مقام دیتے ہیں وہ اس سے بہت بلند ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گمراہانہ خیالات میں ڈوبا ہوا نہیں چھوڑتے ۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے فرشتے بھیجتے ہیں اور یہ فرشتے ایسے پیغام کے حامل ہوتے ہیں جو انسانوں کی حیات نو اور نجات اخروی کے پروگرام پر مشتمل ہوتا ہے۔

ینزل الملئکۃ ۔۔۔۔۔۔ من عبادہ (16 : 2) “ وہ اس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے ” اور یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ آسمانوں سے فقط بارش ہی نہیں برساتا جو ان کے جسم کے لئے سازو سامان فراہم کرتی ہے بلکہ وہ ملائکہ کو انسان کی روحانی غذا دے کر بھی بھیجتا ہے۔ قرآن کریم اور اسلام کو روح کہنا نہایت ہی معنی خیز ہے۔ پیغام قرآن ایک سوسائٹی کو اسی طرح زندہ کرتا ہے جس طرح ایک انسان کے جسم میں روح ڈال کر زندہ کیا جاتا ہے۔ اس پیغام سے نفس و ضمیر زندہ ہوتا ہے۔ عقل و شعور کو جلا ملتی ہے اور سوسائٹی اس طرح زندہ اور صحت مند ہوتی ہے کہ اس سے ہر قسم کے فساد ختم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا آسمانوں سے انسانی زندگی کے لئے جو برکات و انعامات نازل ہوتے ہیں ، یہ ان میں سے اعلیٰ و افضل ہے۔ یہ نعمت عظمیٰ وہ مخلوق لے کر آتی ہے جو پاک طینت ہے۔ جو اللہ کے بندوں میں سے برگزیدہ افراد پر نازل ہوتی ہے ، جو افضل العباد ہوتے ہیں اور اس روح کائنات کا خلاصہ کیا ہے۔

لا الہ الا انا فاتقون (16 : 2) “ میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا تم مجھ ہی سے ڈرو ”۔

اللہ وحدہ لا شریک حاکم و معبود ہیں۔ یہ تمام عقیدہ عقائد کی روح ہے ، یہ نفس انسانی کی زندگی ہے ، یہ وہ تصور ہے جس سے سوسائٹی زندہ و توانا ہوتی ہے اور اس کے سوا جو تصورات ہیں انسانی سوسائٹی کے لئے مہلک اور تباہ کن ہیں۔ جو شخص اللہ وحدہ کی ذات پر ایمان نہیں رکھتا وہ حیران و پریشان ، تباہ و برباد ہوتا ہے۔ اسے ہر طرف سے ایک باطل عقیدہ اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے ، اوہام پر مبنی باہم تناقص تصورات ہر طرف سے دامن گیر ہوتے ہیں اور اس کا نفس ہر وقت وساوس ، ان جانے خوف اور وہم کی آماجگاہ بنا رہتا ہے اور وہ کبھی بھی کسی ایک سمت میں کسی متعین ہدف کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ افکار پریشان اور اعمال بےترتیب کے اندر گھرا ہوتا ہے۔

اسلام کی تعبیر روح سے کرنا دراصل ان تمام مفہومات کا اظہار ہے اور سورة کے آغاز میں جہاں اللہ تعالیٰ اپنے تمام انعامات کا ذکر فرماتے ہیں ، اسلام کو روح حیات قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظریہ حیات دراصل وہ نعمت عظمیٰ ہے ، جس کے بغیر انسان اللہ کی دوسرے نعمتوں سے بھی کماحقہ مستفید نہیں ہو سکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ نعمت کسی کو نہ دی گئی ہو تو اس کے لئے دوسرے انعامات بھی اپنی قدرو قیمت کھو دیتے ہیں کیونکہ یہ نعمت ہی دراصل انسان کو حیات جاوداں بخشتی ہے۔

اس آیت میں ڈراوے اور انذار کو وحی و رسالت کا اصل مشن قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ اس سورة کے پورے مضامین مکذبین ، مشرکین اور اللہ کی نعمتوں کے منکر اور ناشکرے طبقات کے گرد گھومتے ہیں۔ نیز اس میں ان لوگوں پر بھی تنقید کی گئی ہے جو حلال کو حرام قرار دیتے ہیں جو بہت بڑا جرم ہے اور شرک ہے ، نیز اللہ کے ساتھ عہد کر کے توڑنے والوں پر بھی اس سورة میں تنقید ہے ، نیز جہاں ان لوگوں سے بھی بحث کی گئی ہے جو اسلام کو قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا آغاز سورة میں یہ کہنا کہ لوگوں کو ان گھناؤنے جرائم سے ڈراؤ، ایک مناسب آغاز کلام سے کہ لوگو احتیاط کرو ، اللہ سے ڈرو ، اور آخرت کا خوف کرو۔

٭٭٭

اس تمہید کے بعد لوگوں کے سامنے وہ دلائل و شواہد پیش کئے جاتے ہیں جو اس پوری کائنات میں بکھرے پڑے ہیں ، جو توحید باری تعالیٰ پر دلالت کرتے ہیں۔ پھر اللہ کے بعض انعامات کا ذکر ہے جو منعم حقیقی کے احسان پر دلالت کرتے ہیں۔ ان نشانات و انعامات کا ذکر بکثرت اور فوج در فوج ہے۔ آغاز تخلیق ارض و سما اور تخلیق حضرت انسان سے ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

وہ اِس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے (اِس ہدایت کے ساتھ کہ لوگوں کو) "آگاہ کر دو، میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yunazzilu almalaikata bialrroohi min amrihi AAala man yashao min AAibadihi an anthiroo annahu la ilaha illa ana faittaqooni

اردو ترجمہ

اُس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa alssamawati waalarda bialhaqqi taAAala AAamma yushrikoona

آیت نمبر 3 تا 4

وہی بات کہ تخلیق کائنات حق پر ہے۔

خلق السموت والارض بالحق (16 : 3) “ اس نے زمین و آسمان کو برحق پیدا کیا ہے ”۔ گویا اس کی تخلیق کا بنیادی عنصر حق ہے۔ اس کائنات کو حق کے مطابق چلایا جا رہا ہے اور اس کائنات کو چلانے اور اس کے اندر موجود تمام مخلوقات کو چلانے کا بنیادی عنصر اور بنیادی قوت حق اور سچائی ہے۔ اس کائنات کی کوئی چیز عبث ، اتفاقی اور بےمقصد نہیں ہے۔ یہ چیز سچائی پر قائم ہے۔ سچائی کے ساتھ وابستہ ہے ، وہ سچائی کی طرف بڑھتی ہے اور اس کا انجام بھی سچائی کے مطابق ہوگا۔

تعلی عما یشرکون (16 : 3) “ وہ بہت بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں ”۔ اللہ لوگوں کے شرک سے بہت بلند اور دور ہے ، اللہ جو خالق سماوات والارض ہے ، اس کے ساتھ خود اس کی مخلوق میں سے بعض چیزوں کو شریک کرنے کی تک کیا ہے ؟ لہٰذا اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کے شریک ہونے کے لائق ہی نہیں ہے ، لہٰذا وہ واحد لا شریک ہے۔

خلق الانسان من نطفۃ فاذا ھو خصیم مبین (16 : 4) “ اس نے انسان کو ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے وہ صریحاً جھگڑالو ہستی بن گیا ”۔ اس کے آغاز کو دیکھو اور اس کی تکمیل کے بعد اس کے نخروں کو دیکھو کس قدر عظیم فرق ہے۔ اس حقیر اور سادہ بوند کو دیکھو اور پھر ایک مکمل جھگڑالو اور خالق کے مقابل میں آنے والے اس حضرت کو دیکھو کہ وہ خود خالق کے ساتھ مجادلہ کرتا ہے ، خالق کے وجود تک کا منکر ہوجاتا ہے یا اس کی وحدانیت کا انکار کر کے اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتا ہے۔ اس کی حالت نطفہ اور حالت جدال کے درمیان زمان و مکان کا کوئی بہت بڑا فاصلہ بھی نہیں ہوتا ۔ قرآن بھی ایسا انداز تعبیر اختیار کرتا ہے کہ یہ فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ انسان کے آغاز و انجام میں یہ فرق جس قدر عظیم اور واضح ہے اسی طرح اچانک ہے۔ چناچہ ایک ہی لمحے میں انسان کے سامنے دو مختلف مناظر آجاتے ہیں۔ ایک وہ منظر کہ انسان ایک حقیر بوند ہے اور دوسرا وہ منظر کہ وہ کامل ہو کر ناز نخرے کرتا ہے اور خود خالق کے بالمقابل آکھڑا ہوتا ہے۔ تصویر کشی کا یہ اعجاز بھی ہے اور ایجاز بھی یعنی مختصر ترین الفاظ میں معجزانہ طرز ادا۔

اب ذرا منظر کائنات پر غور کریں ، یہ ایک وسیع منظر ہے۔ زمین و آسمان کا وسیع دائرہ جس میں حضرت انسان کھڑا ہے۔ اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی یہ پوری کائنات انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہے۔ اس میں بحث کا آغاز ان جانوروں سے کیا جاتا ہے جو واضح طور پر خادم انسان ہیں۔

اردو ترجمہ

اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa alinsana min nutfatin faitha huwa khaseemun mubeenun

اردو ترجمہ

اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaalanAAama khalaqaha lakum feeha difon wamanafiAAu waminha takuloona

آیت نمبر 5 تا 8

جس معاشرے میں قرآن مجید نازل ہوا ، مثلاً سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں ، اور اس قسم کے تمام معاشرے جو آج بھی موجود ہیں ، خصوصاً وہ سوسائٹیاں جن کی معیشت زراعت پر مبنی ہے۔ ایسے معاشروں میں انسان کی زندگی کا تصور بھی ان جانوروں کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ جزیرۃ العرب میں متعارف جانور یہی تھے ، اونٹ ، گائے بھینس اور بھیڑ بکریاں کھانے پینے کے لئے اور گھوڑے اور خچر اور گدھے سواریوں اور زینت کے لئے۔ گھوڑوں کے بارے میں فقہی اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اس کا کھانا حرام سمجھتے ہیں کہ بعض احادیث میں اس سے منع کیا گیا ہے نیز قرآن نے اسے رکوب کے لئے بتایا ہے جبکہ دوسرے ائمہ جائز سمجھتے ہیں کیونکہ صحیح احادیث میں گھوڑوں کا گوشت کھانا جائز بتایا گیا ہے۔

قرآن کریم نے یہاں ان جانوروں کو بطور نعمت پیش کیا ہے ، اس لیے کہ ان میں بعض کے ساتھ انسان کی مادی ضروریات وابستہ ہیں اور بعض انسان کے لئے زینت ہیں۔ نیز ان کی جلد سے انسان اپنے لیے لباس بناتا ہے ، ان کی اون اور بالوں سے مختلف مصنوعات تیار ہوتی ہیں ، ان کا دودھ ، گوشت وغیرہ استعمال ہوتا ہے۔ گھی اور چربی اور ہڈیاں تک کام میں آتی ہیں۔ یہ جانور بار برداری کا کام کرتے ہیں کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک انسان خود بھی سامان پہنچا سکتا ہے مگر بہت بڑی مشقت کے ساتھ۔ نیز صبح جب تم مویشی نکالتے ہو چرنے کے لئے اور شام کو واپس لاتے ہو ، تو یہ تمہارے لئے ایک جمال ہے۔ تم انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہو۔ جب وہ خوبصورت اور موٹے تازے تمہاری نگاہوں کے سامنے آتے ہیں ، شام کے وقت جب خوب پھلے پھولے واپس آتے ہیں ۔ دیہاتی لوگ ان آیات کا مفہوم ، شہریوں کی نسبت زیادہ گہرائی تک سمجھتے ہیں۔ گھوڑے ، خچر اور گدھے زیادہ تر بار برداری کے کام آتے ہیں ۔ ان کو سواری کے طور پر بہت خوبصورت بھی بنایا جاتا ہے۔

لترکبوھا وزینۃ (16 : 8) “ تا کہ ان پر سوار ہو اور تمہاری زندگی کی رونق بنیں ”۔ لفظ زینہ یہاں زیادہ توجہ کے قابل ہے۔ اس سے زندگی کے بارے میں اسلام اور قرآن کا نقطہ نظر سامنے آتا ہے۔ اسلامی زاویہ سے جمال اور حسن زندگی کا اصلی جزو ہے۔ نعمت کا مفہوم ضروریات زندگی ، کھانے پینے اور سواری تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ انسانی شوق اور تفریح بھی ضروریات زندگی میں سے ہے ۔ حسن و جمال کی حس ، تفریح اور مسرت کا شعور اور اعلیٰ انسانی ذوق ، محض حیوانی ضروریات و حاجات سے ، اسلام کی نظر میں زیادہ اہم ہے۔

ان ربکم لرؤف رحیم (16 : 7) “ تمہارا رب بڑا شفیق و مہربان ہے ”۔ یہ تعقیب اس حقیقت پر ہے کہ باربرداری کا کام اگر خود انسان کو کرنا پڑے تو یہ بہت ہی مشقت کا کام ہے۔ لہٰذا اللہ نے باربرداری کے لئے جو جانور پیدا کئے ہیں وہ اللہ کی رحمت بےپایاں اور نعمت عظیم ہے۔

ویخلق ما لا تعلمون (16 : 8) “ اور وہ بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں ”۔ یہ تعقیب ہے اس پر کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جانور پیدا کئے جنہیں تم کھاتے بھی ہو۔ باربرداری کا کام بھی ان سے لیتے ہو اور وہ تمہارے لیے زینت اور خوشی اور مسرت کا سامان بھی ہیں۔ یہاں مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض ایسی چیزوں کی تخلیق بھی کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔ لہٰذا ان مقاصد تک رسائی حاصل کرنے کے لئے انسانی سوچ کو کھلا رکھا گیا ہے کیونکہ دور جدید میں حمل ونقل کے نئے نئے ذرائع بھی تخلیقات الہٰیہ میں آتے ہیں ، نیز زیب وزینت اور تفریح و مسرت کے نئے نئے ذرائع بھی تم پیدا کرسکتے ہو۔ لہٰذا اس تصور کو ابتدائی معاشرہ جس میں قرآن مجید نازل ہوا ، اسی تک محدود نہیں کردیا گیا۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات زمان و مکان میں مقید نہیں۔ ہر دور اور ہر زمان و مکان کے آگے مزید دور اور مزید زمان ومکان آتے ہیں اور ان میں ضرورت و مسرت کے جدید ذرائع ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کو یہ امید دی جاتی ہے کہ وہ مزید تخلیقات الٰہیہ کی توقع رکھیں۔ اگر توفیق الٰہی سے انسان کوئی جدید سہولت اور زینت ایجاد کرتا ہے تو وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ، یہ نہ ہو کہ وہ اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ اور جدید انکشافات و ایجادات سے فائدہ نہ اٹھائیں اور یہ نہ کہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد تو مذکورہ بالا جانوروں ہی سے ضرورت پوری کرتے تھے۔ گھوڑے ، خچر اور گدھوں ہی سے باربرداری کا کام لیتے تھے لہٰذا ہم جدید ذرائع حمل ونقل کو کام میں نہیں لاتے اور نہ ہی ان سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ کہ چونکہ قرآن نے صرف مذکورہ بالا اقسام کی تصریح کردی ہے لہٰذا ان کے سوا سہولیات ، خوراک اور زیبائش حرام ہے اسی لیے کہا گیا کہ تخلیقات کا دائرہ وسیع ہے۔

اسلام ایک ایسا نظریہ ہے جو کھلا اور لچکدار ہے۔ وہ زندہ کی تمام قوتوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کرتا ہے اس لیے قرآن کریم مسلمانوں کے ذہن کو آنے والے ادوار کی قوتوں اور علوم کی فراہم کردہ سہولیات سے استفادے کے لئے تیار کرتا ہے۔ ایک مسلمان کا ذہن اس قدر کھلا ہوتا ہے کہ وہ مستقبل کے تمام انکشافات کو دینی ذہن کے ساتھ قبول کرتا ہے اور اسے از عجائبات الٰہی اور عجائبات علوم میں سے سمجھتا ہے اور زندگی کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔

دور جدید میں حمل ، نقل اور سواری کے نئے نئے وسائل ایجاد ہوگئے ہیں۔ سہولیات کے ساتھ ساتھ یہ وسائل زیب وزینت کے بھی اعلیٰ ذرائع ہیں۔ نزول قرآن کے دور کے لوگ ان کے بارے میں تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ نیز آئندہ ایسے وسائل بھی ایجاد ہوں گے جن کے بارے میں ہمارے دور کے لوگ سوچ نہیں سکتے۔ ایسے ہی حالات کے لیے قرآن کریم لوگوں کو فکری زاویہ سے تیار کرتا ہے کہ ان کا ذہن منجمد نہ ہو۔ یہی ہے مفہوم ویخلق ما لا تعلمون (16 : 8) کا۔

یہاں بحث یہ تھی کہ اللہ نے انسان کے لئے ذرائع نقل و حمل پیدا کئے۔ ان ذرائع کو استعمال کر کے انسان بڑے بڑے فاصلے طے کرتا ہے۔ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے ، موضوع کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ روحانی راستے اور روحانی سفر اور ان کے ذرائع نقل و حمل کی طرف بھی اشارہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی طرف جانے کے بھی راستے ہیں۔ اللہ تک پہنچنے کا راستہ بالکل سیدھا راستہ ہے۔ دنیا میں اللہ تک پہنچانے کے لئے بعض ٹیڑھے راستے بھی ہیں ، جو در حقیقت اللہ تک نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تک پہنچنے کا راستہ خود اللہ ہی بتا تا ہے۔ اس راستے کو معلوم کرنے کے لئے اللہ نے اس کائنات میں نشانات رکھے ہوئے ہیں ان پر تدبر کیا جانا چاہئے اسی لئے خود انسانوں میں سے بعض افراد کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے کہ وہ بھی اس راستے کی نشاندہی کردیں۔

اردو ترجمہ

اُن میں تمہارے لیے جمال ہے جب کہ صبح تم انہیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انہیں واپس لاتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walakum feeha jamalun heena tureehoona waheena tasrahoona
267