سورہ نور (24): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Noor کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النور کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نور کے بارے میں معلومات

Surah An-Noor
سُورَةُ النُّورِ
صفحہ 350 (آیات 1 سے 10 تک)

سُورَةٌ أَنزَلْنَٰهَا وَفَرَضْنَٰهَا وَأَنزَلْنَا فِيهَآ ءَايَٰتٍۭ بَيِّنَٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِى فَٱجْلِدُوا۟ كُلَّ وَٰحِدٍ مِّنْهُمَا مِا۟ئَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِى دِينِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱلزَّانِى لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَٱلزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَآ إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلَّذِينَ يَرْمُونَ ٱلْمُحْصَنَٰتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا۟ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَٱجْلِدُوهُمْ ثَمَٰنِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا۟ لَهُمْ شَهَٰدَةً أَبَدًا ۚ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُوا۟ مِنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَٱلَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَٰجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَآءُ إِلَّآ أَنفُسُهُمْ فَشَهَٰدَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَٰدَٰتٍۭ بِٱللَّهِ ۙ إِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ وَٱلْخَٰمِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ ٱللَّهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ ٱلْكَٰذِبِينَ وَيَدْرَؤُا۟ عَنْهَا ٱلْعَذَابَ أَن تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَٰدَٰتٍۭ بِٱللَّهِ ۙ إِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلْكَٰذِبِينَ وَٱلْخَٰمِسَةَ أَنَّ غَضَبَ ٱللَّهِ عَلَيْهَآ إِن كَانَ مِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ وَلَوْلَا فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُۥ وَأَنَّ ٱللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ
350

سورہ نور کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نور کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے، اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں، شاید کہ تم سبق لو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sooratun anzalnaha wafaradnaha waanzalna feeha ayatin bayyinatin laAAallakum tathakkaroona

مسئلہ رجم اس بیان سے کہ ہم نے اس سورت کو نازل فرمایا ہے اس سورت کی بزرگی اور ضرورت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن اس سے یہ مقصود نہیں کہ اور سورتیں ضروری اور بزرگی والی نہیں۔ فرضناھا کے معنی مجاہد و قتادہ ؒ نے یہ بیان کئے ہیں کہ حلال و حرام، امرو نہی اور حدود وغیرہ کا اس میں بیان ہے۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں اسے ہم نے تم پر اور تمہارے بعد والوں پر مقرر کردیا ہے۔ اس میں صاف صاف، کھلے کھلے، روشن احکام بیان فرمائے ہیں تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو، احکام الٰہی کو یاد رکھو اور پھر ان پر عمل کرو۔ پھر زنا کاری کی شرعی سزا فرمائی۔ زنا کار یا تو کنوارا ہوگا یا شادی شدہ ہوگا یعنی وہ جو حریت بلوغت اور عقل کی حالت میں نکاح شرعی کے ساتھ کسی عورت سے ملا ہو۔ اور جمہور علماء کے نزدیک اسے ایک سال کی جلاوطنی بھی دی جائے گی۔ ہاں امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ یہ جلاوطنی امام کی رائے پر ہے اگر وہ چاہے دے چاہے نہ دے۔ جمہور کی دلیل تو بخاری مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ دو اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ایک نے کہا یارسول اللہ ﷺ میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کر بیٹھا، میں نے اس کے فدیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی۔ پھر میں نے علماء سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر شرعی سزا سو کوڑوں کی ہے اور ایک سال کی جلاوطنی اور اس کی بیوی پر رجم یعنی سنگ ساری ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا سنو ! میں تم میں اللہ کی کتاب کا صحیح فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تو تجھے واپس دلوا دی جائیں گی اور تیرے بچے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اے انیس تو اس کی بیوی کا بیان لے۔ یہ حضرت انیس ؓ قبیلہ اسلم کے ایک شخص تھے۔ اگر وہ اپنی سیاہ کاری کا اقرار کرے تو تو اسے سنگسار کردینا۔ چناچہ اس بیوی صاحبہ ؓ نے اقرار کیا اور انہیں رجم کردیا گیا ؓ۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کنورے پر سو کوڑوں کے ساتھ ہی سال بھر تک کی جلاوطنی بھی ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو وہ رجم کردیا جائے گا۔ چناچہ موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے ایک خطبہ میں حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ ﷺ پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب اللہ میں جرم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کی، یاد کیا، اس پر عمل بھی کیا خود حضور ﷺ کے زمانے میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ ﷺ کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے، ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا، چھوڑ کر گمراہ ہوجائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے۔ اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو، خواہ عورت ہو۔ جب کہ اس کے زنا پر شرعی دلیل ہو یا حمل ہو یا اقرار ہو۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں اس سے ہی مطول ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ رجم یعنی سنگساری کا مسئلہ ہم قرآن میں نہیں پاتے، قرآن میں صرف کوڑے مارنے کا حکم ہے۔ یاد رکھو خود رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ ﷺ کے بعد رجم کیا اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے، قرآن میں جو نہ تھا، عمر نے لکھ دیا تو میں آیت رجم کو اسی طرح لکھ دیتا، جس طرح نازل ہوئی تھی۔ یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں رجم کا ذکر کیا اور فرمایا رجم ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حدوں میں سے ایک حد ہے، خود حضور ﷺ نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ اگر لوگوں کے اس کہنے کا کھٹکا نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کی جو اس میں نہ تھی تو میں کتاب اللہ کے ایک طرف آیت رجم لکھ دیتا۔ عمر بن خطاب عبداللہ بن عوف اور فلاں اور فلاں کی شہادت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ یاد رکھو تمہارے بعد ایسے لوگ آنے والے ہیں جو رجم کو اور شفاعت کو اور عذاب قبر کو جھٹلائیں گے۔ اور اس بات کو بھی کہ کچھ لوگ جہنم سے اس کے بعد نکالے جائیں گے کہ وہ کوئلے ہوں گے۔ مسند احمد میں ہے کہ امیرالمونین حضرت عمر ؓ نے فرمایا، رجم کے حکم کے انکار کرنے کی ہلاکت سے بچنا۔ امام ترمذی ؒ بھی اسے لائے ہیں اور اسے صحیح کہا ہے۔ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ لوگ مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا، میں تمہاری تشفی کردیتا ہوں۔ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا، اس نے آپ ﷺ سے ہی ذکر کیا اور رجم کا بیان کیا۔ کسی نے کہا یارسول اللہ ﷺ آپ رجم کی آیت لکھ لیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اب تو میں اسے لکھ نہیں سکتا۔ یا اسی کے مثل۔ یہ روایت نسائی میں بھی ہے، پس ان سب احادیث سے ثابت ہوا کہ رجم کی آیت پہلے لکھی ہوئی تھی پھر تلاوت میں منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا۔ واللہ اعلم۔ خود آنحضرت ﷺ نے اس شخص کی بیوی کے رجم کا حکم دیا، جس نے اپنے ملازم سے بدکاری کرائی تھی۔ اسی طرح حضور ﷺ نے ماعز ؓ کو اور ایک غامدیہ عورت کو رجم کرایا۔ ان سب واقعات میں یہ مذکور نہیں کہ رجم سے پہلے آپ نے انہیں کوڑے بھی لگوائے ہوں۔ بلکہ ان سب صحیح اور صاف احادیث میں صرف رجم کا ذکر ہے کسی میں بھی کوڑوں کا بیان نہیں۔ اسی لئے جمہور علماء اسلام کا یہی مذہب ہے۔ ابوحنیفہ ؒ، مالک ؒ، شافعی رحمہم اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں پہلے اسے کوڑے مارنے چاہئیں۔ پھر رجم کرنا چاہئے تاکہ قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہوجائے جیسے کہ حضرت امیرالمومنین علی ؓ سے منقول ہے کہ جب آپ کے پاس سراجہ لائی گئی جو شادی شدہ عورت تھی اور زنا کاری میں آئی تھی تو آپ نے جمعرات کے دن تو اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن سنگسار کرا دیا۔ اور فرمایا کہ کتاب اللہ پر عمل کرکے میں نے کوڑے پٹوائے اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرکے سنگسار کرایا۔ مسند احمد، سنن اربعہ اور مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میری بات لے لو، میری بات لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے راستہ نکال دیا۔ کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کرلے تو سو کوڑے اور سال بھر کی جلاوطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ کرے تو رجم۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم کے ماتحت اس حد کے جاری کرنے میں تمہیں ان پر ترس اور رحم نہ کھانا چاہئے۔ دل کا رحم اور چیز ہے اور وہ تو ضرور ہوگا لیکن حد کے جاری کرنے میں امام کا سزا میں کمی کرنا اور سستی کرنا بری چیز ہے۔ جب امام یعنی سلطان کے پاس کوئی ایسا واقعہ جس میں حد ہو، پہنچ جائے، تو اسے چاہئے کہ حد جاری کرے اور اسے نہ چھوڑے۔ حدیث میں ہے آپس میں حدود سے درگزر کرو، جو بات مجھ تک پہنچی اور اس میں حد ہو تو وہ تو واجب اور ضروری ہوگئی۔ اور حدیث میں ہے کہ حد کا زمین میں قائم ہونا، زمین والوں کیلئے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ یہ بھی قول ہے کہ ترس کھاکر، مار کو نرم نہ کردو بلکہ درمیانہ طور پر کوڑے لگاؤ، یہ بھی نہ ہو کہ ہڈی توڑ دو۔ تہمت لگانے والے کی حد کے جاری کرنے کے وقت اس کے جسم پر کپڑے ہونے چاہئیں۔ ہاں زانی پر حد کے جاری کرنے کے وقت کپڑے نہ ہوں۔ یہ قول حضرت حماد بن ابو سلیمان رحمتہ اللہ کا ہے۔ اسے بیان فرما کر آپ نے یہی جملہ آیت (ولا تاخذ کم الخ) ، پڑھا تو حضرت سعید بن ابی عروبہ نے پوچھا یہ حکم میں ہے۔ کہا ہاں حکم میں ہے اور کوڑوں میں یعنی حد کے قائم کرنے میں اور سخت چوٹ مارنے میں۔ حضرت ابن عمر ؓ کی لونڈی نے جب زنا کیا تو آپ نے اس کے پیروں پر اور کمر پر کوڑے مارے تو حضرت نافعہ نے اسی آیت کا یہ جملہ تلاوت کیا کہ اللہ کی حد کے جاری کرنے میں تمہیں ترس نہ آنا چاہئے تو آپ نے فرمایا کیا تیرے نزدیک میں نے اس پر کوئی ترس کھایا ہے ؟ سنو اللہ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا نہ یہ فرمایا ہے کہ اس کے سر پر کوڑے مارے جائیں۔ میں نے اسے طاقت سے کوڑے لگائے ہیں اور پوری سزا دی ہے۔ پھر فرمایا اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت پر ایمان ہے تو تمہیں اس حکم کی بجا آوری کرنی چاہئے اور زانیوں پر حدیں قائم کرنے میں پہلو تہی نہ کرنی چاہئے۔ اور انہیں ضرب بھی شدید مارنی چاہئے لیکن ہڈی توڑنے والی نہیں تاکہ وہ اپنے اس گناہ سے باز رہیں اور ان کی یہ سزا دوسروں کیلئے بھی عبرت بنے۔ رجم بری چیز نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ﷺ میں بکری کو ضبح کرتا ہوں لیکن میرا دل دکھتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اس رحم پر بھی تجھے اجر ملے گا۔ پھر فرماتا ہے ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا مجمع ہونا چاہئے تاکہ سب کے دل میں ڈر بیٹھ جائے اور زانی کی رسوائی بھی ہو تاکہ اور لوگ اس سے رک جائیں۔ اسے علانیہ سزا دی جائے، مخفی طور پر مار پیٹ کر نہ چھوڑا جائے۔ ایک شخص اور اس سے زیادہ بھی ہوجائیں تو جماعت ہوگئی اور آیت پر عمل ہوگیا اسی کو لے کر امام محمد کا مذھب ہے کہ ایک شخص بھی طائفہ ہے۔ عطا ؒ کا قول ہے کہ دو ہونے چاہئیں۔ سعید بن جبیر ؒ کہتے ہیں چار ہوں۔ زہری ؒ کہتے ہیں تین یا تین سے زیادہ۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں چار اور اس سے زیادہ کیونکہ زنا میں چار سے کم گواہ نہیں ہیں، چار ہوں یا اس سے زیادہ۔ امام شافعی ؒ کا مذہب بھی یہی ہے۔ ربیعہ ؒ کہتے ہیں پانچ ہوں۔ حسن بصری ؒ کے نزدیک دس۔ قتادہ ؒ کہتے ہیں ایک جماعت ہو تاکہ نصیحت، عبرت اور سزا ہو۔ نصرت بن علقمہ رحمتہ اللہ کے نزدیک جماعت کی موجودگی کی علت یہ بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے جن پر حد جاری کی جا رہی ہے دعاء مغفرت و رحمت کریں۔

اردو ترجمہ

زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alzzaniyatu waalzzanee faijlidoo kulla wahidin minhuma miata jaldatin wala takhuthkum bihima rafatun fee deeni Allahi in kuntum tuminoona biAllahi waalyawmi alakhiri walyashhad AAathabahuma taifatun mina almumineena

اردو ترجمہ

زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alzzanee la yankihu illa zaniyatan aw mushrikatan waalzzaniyatu la yankihuha illa zanin aw mushrikun wahurrima thalika AAala almumineena

زانی اور زانیہ اور اخلاقی مجرم اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ زانی سے زنا کاری پر رضامند وہی عورت ہوتی ہے جو بدکار ہو یا مشرکہ ہو کہ وہ اس برے کام کو عیب ہی نہیں سمجھتی۔ ایسی بدکار عورت سے وہی مرد ملتا ہے جو اسی جیسا بدچلن ہو یا مشرک ہو جو اس کی حرمت کا قائل ہی نہ ہو۔ ابن عباس ؓ سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہاں نکاح سے مراد جماع ہے یعنی زانیہ عورت سے زنا کار یا مشرک مرد ہی زنا کرتا ہے۔ یہی قول مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر، عروہ بن زبر، ضحاک، مکحول، مقاتل بن حیان اور بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے۔ مومنوں پر یہ حرام ہے یعنی زناکاری کرنا اور زانیہ عورتوں سے نکاح کرنا یا عفیفہ اور پاک دامن عورتوں کو ایسے زانیوں کے نکاح میں دینا۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ بدکار عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں پر حرام ہے جیسے اور آیت میں ہے (مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ 25؀) 4۔ النسآء :25) یعنی مسلمانوں کو جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے ان میں یہ تینوں اوصاف ہونے چاہئیں وہ پاک دامن ہوں، وہ بدکار نہ ہوں، نہ چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ کرنے والی ہوں۔ یہی تینوں وصف مردوں میں بھی ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ اسی لئے امام احمد ؒ کا فرمان ہے کہ نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ہاں بعد از توبہ عقد نکاح درست ہے۔ اسی طرح بھولی بھالی، پاک دامن، عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ جب تک وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کرلے کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ یہ مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ ایک شخض نے ام مھزول نامی ایک بدکار عورت سے نکاح کرلینے کی اجازت آنحضرت ﷺ سے طلب کی تو آپ ﷺ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی طلب اجازت پر یہ آیت اتری۔ ترمذی شریف میں ہے کہ ایک صحابی جن کا نام مرثد بن ابو مرثد تھا، یہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھالایا کرتے تھے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکہ میں رہا کرتی تھی۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا۔ حضرت مرثد ؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کیلئے مکہ شریف گیا۔ میں ایک باغ کی دیوار کے نیچے پہنچا رات کا وقت تھا چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ اتفاق سے عناق آپہنچی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے ؟ میں نے کہا ہاں مرثد ہوں۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی چلو رات میرے ہاں گزارنا۔ میں نے کہا عناق اللہ تعالیٰ نے زناکاری حرام کردی ہے۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کیلئے غل مچانا شروع کیا کہ اے خیمے والو ہوشیار ہوجاؤ دیکھو چور آگیا ہے۔ یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا کرلے جایا کرتا ہے۔ لوگ جاگ اٹھے اور آٹھ آدمی مجھے پکڑنے کیلئے میرے پیچھے دوڑے۔ میں مٹھیاں بند کرکے خندق کے راستے بھاگا اور ایک غار میں جاچھپا۔ یہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے غار پر آپہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آ رہا تھا لیکن اللہ نے انہیں اندھا کردیا۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں۔ ادھر ادھر ڈھونڈ بھال کر واپس چلے گئے۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سوگئے ہوں گے تو یہاں سے نکلا، پھر مکہ کی راہ لی اور وہیں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا۔ چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے۔ میں جب اذخر میں پہنچا تو تھک گیا میں نے انہیں کمر سے اتارا ان کے بندھن کھول دیئے اور آزاد کردیا۔ اب اٹھاتا چلاتا مدینے پہنچ گیا۔ چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کرلوں۔ آپ ﷺ خاموش ہو رہے۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر بھی آپ ﷺ خاموش رہے اور یہ آیت اتری۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا، اے مرثد زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے۔ امام ابو داؤد اور نسائی بھی اسے اپنی سنن کی کتاب النکاح میں لائے ہیں۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے زانی جس پر کوڑے لگ چکے ہوں وہ اپنے جیسے سے ہی نکاح کرسکتا ہے۔ مسند امام احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، تین قسم کے لوگ ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے اور جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ 001 ماں باپ کا نافرمان۔ 002 وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں۔ 003 اور دیوث۔ اور تین قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ 001 ماں باپ کا نافرمان 002 ہمیشہ کا نشے کا عادی 003 اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتانے والا۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے 001 ہمیشہ کا شرابی۔ 002 ماں باپ کا نافرمان۔ 003 اور اپنے گھر والوں میں خباثت کو برقرار رکھنے والا۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے جنت میں کوئی دیوث نہیں جائے گا۔ ابن ماجہ میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ پاکدامن عورتوں سے نکاح کرے جو لونڈیاں نہ ہوں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ دیوث کہتے ہیں بےغیرت شخص کو۔ نسائی میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے اپنی بیوی سے بہت ہی محبت ہے لیکن اس میں یہ عادت ہے کہ کسی ہاتھ کو واپس نہیں لوٹاتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا طلاق دیدے۔ اس نے کہا مجھے تو صبر نہیں آنے کا۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر جا اس سے فائدہ اٹھا۔ لیکن یہ حدیث ثابت نہیں اس کا راوی عبدالکریم قوی نہیں۔ دوسرا راوی اس کا ہارون ہے جو اس سے قوی ہے مگر ان کی روایت مرسل ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے۔ یہی روایت مسند میں مروی ہے لیکن امام نسائی رحمتہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ مسند کرنا خطا ہے اور صواب یہی ہے کہ یہ مرسل ہے۔ یہ حدیث کی اور کتابوں میں ہے اور سندوں سے بھی مروی ہے۔ امام احمد ؒ تو اسے منکر کہتے ہیں۔ امام ابن قتیبہ ؒ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ جو کہا ہے کہ وہ کسی چھونے والے کے ہاتھ کو لوٹاتی نہیں اس سے مراد بیحد سخاوت ہے کہ وہ کسی سائل سے انکار ہی نہیں کرتی۔ لیکن اگر یہی مطلب ہوتا تو حدیث میں بجائے لامس کے لفظ کے ملتمس کا لفظ ہونا چاہئے تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی خصلت ایسی معلوم ہوتی تھی نہ یہ کہ وہ برائی کرتی تھی کیونکہ اگر یہی عیب اس میں ہوتا تو پھر آنحضرت ﷺ اس صحابی ؓ کو اس کے رکھنے کی اجازت نہ دیتے کیونکہ یہ تو دیوثی ہے۔ جس پر سخت وعید آئی ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ خاوند کو اس کی عادت ایسی لگی ہو اور اس کا اندیشہ ظاہر کیا ہو تو آپ ﷺ نے مشورہ دیا کہ پھر طلاق دیدو لیکن جب اس نے کہا کہ مجھے اس سے بہت ہی محبت ہے تو آپ ﷺ نے بسانے کی اجازت دیدی کیونکہ محبت تو موجود ہے۔ اسے ایک خطرے کے صرف وہم پر توڑ دینا ممکن ہے کوئی برائی پیدا کردے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ الغرض زانیہ عورتوں سے پاک دامن مسلمانوں کو نکاح کرنا منع ہے ہاں جب وہ توبہ کرلیں تو نکاح حلال ہے۔ چناچہ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک شخص نے پوچھا کہ ایک ایسی ہی واہی عورت سے میرا برا تعلق تھا۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں توبہ کی توفیق دی تو میں چاہتا ہوں کہ اس سے نکاح کرلوں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ زانی ہی زانیہ اور مشرکہ سے نکاح کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس آیت کا یہ مطلب نہیں تم اس سے اب نکاح کرسکتے ہوجاؤ اگر کوئی گناہ ہو تو میرے ذمے۔ حضرت یحییٰ سے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت منسوخ ہے اس کے بعد کی آیت (وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ 32؀) 24۔ النور :32) سے۔ امام ابو ابو عبداللہ محمد بن ادریس شافعی ؒ بھی یہی فرماتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena yarmoona almuhsanati thumma lam yatoo biarbaAAati shuhadaa faijlidoohum thamaneena jaldatan wala taqbaloo lahum shahadatan abadan waolaika humu alfasiqoona

تہمت لگانے والے مجرم جو لوگ کسی عورت پر یا کسی مرد پر زناکاری کی تہمت لگائیں اور ثبوت نہ دے سکیں۔ تو انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں گے، ہاں اگر شہادت پیش کردیں تو حد سے بچ جائیں گے اور جن پر جرم ثابت ہوا ہے ان پر حد جاری کی جائے گی۔ اگر شہادت نہ پیش کرسکے تو اسی کوڑے بھی لگیں گے اور آئندہ کیلئے ہمیشہ ان کی شہادت غیر مقبول رہے گی اور وہ عادل نہیں بلکہ فاسق سمجھے جائیں گے۔ اس آیت میں جن لوگوں کو مخصوص اور مستثنیٰ کردیا ہے تو بعض تو کہتے ہیں کہ یہ استثنا صرف فاسق ہونے سے ہے یعنی بعد از توبہ وہ فاسق نہیں رہیں گے۔ بعض کہتے ہیں نہ فاسق رہیں گے نہ مردود الشہادۃ بلکہ پھر ان کی شہادت بھی لی جائے گی۔ ہاں حد جو ہے وہ توبہ سے کسی طرح ہٹ نہیں سکتی۔ امام مالک، احمد اور شافعی ؒ کا مذہب تو یہ ہے کہ توبہ سے شہادت کا مردود ہونا اور فسق ہٹ جائے گا۔ سید التابعین حضرت سعید بن مسیب ؒ اور سلف کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے، لیکن امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں صرف فسق دور ہوجائے گا لیکن شہادت قبول نہیں ہوسکتی۔ بعض اور لوگ بھی یہی کہتے ہیں۔ شعبی اور ضحاک کہتے ہیں کہ اگر اس نے اس بات کا اقرار کرلیا کہ اسے بہتان باندھا تھا اور پھر توبہ بھی پوری کی تو اس کی شہادت اس کے بعد مقبول ہے۔ واللہ اعلم۔

اردو ترجمہ

سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور (اُن کے حق میں) غفور و رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa allatheena taboo min baAAdi thalika waaslahoo fainna Allaha ghafoorun raheemun

اردو ترجمہ

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں) سچا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena yarmoona azwajahum walam yakun lahum shuhadao illa anfusuhum fashahadatu ahadihim arbaAAu shahadatin biAllahi innahu lamina alssadiqeena

لعان سے مراد ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ رب العالمین نے ان خاوندوں کیلئے جو اپنی بیویوں کی نسبت ایسی بات کہہ دیں چھٹکارے کی صورت بیان فرمائی ہے کہ جب وہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو لعان کرلیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ امام کے سامنے آکر وہ اپنا بیان دے جب شہادت نہ پیش کرسکے تو حاکم اسے چار گواہوں کے قائم مقام چار قسمیں دے گا اور یہ قسم کھاکر کہے گا کہ وہ سچا ہے جو بات کہتا ہے وہ حق ہے۔ پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت۔ اتنا کہتے ہی امام شافعی ؒ وغیرہ کے نزدیک اس کی عورت اس سے بائن ہوجائے گی اور ہمیشہ کیلئے حرام ہوجائے گی۔ یہ مہر ادا کر دے گا اور اس عورت پر زنا ثابت ہوجائے گی۔ لیکن اگر وہ عورت بھی سامنے ملاعنہ کرے تو حد اس پر سے ہٹ جائے گی۔ یہ بھی چار مرتبہ حلفیہ بیان دے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس نکتہ کو بھی خیال میں رکھئے کہ عورت کیلئے غضب کا لفظ کہا گیا اس لئے کہ عموماً کوئی مرد نہیں چاہتا کہ وہ اپنی بیوی کو خواہ مخواہ تہمت لگائے اور اپنے آپ کو بلکہ اپنے کنبے کو بھی بدنام کرے عموماً وہ سچا ہی ہوتا ہے اور اپنے صدق کی بنا پر ہی وہ معذور سمجھا جاسکتا ہے۔ اس لئے پانچویں مرتبہ میں اس سے یہ کہلوایا گیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب آئے۔ پھر غضب والے وہ ہوتے ہیں جو حق کو جان کر پھر اس سے روگردانی کریں۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو پھر غضب والے وہ ہوتے ہیں جو حق کو جان کر پھر اس سے روگردانی کریں۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو ایسی آسانیاں تم پر نہ ہوتیں بلکہ تم پر مشقت اترتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمایا کرتا ہے گو کیسے ہی گناہ ہوں اور گو کسی وقت بھی توبہ ہو وہ حکیم ہے، اپنی شرع میں، اپنے حکموں میں، اپنی ممانعت میں " اس آیت کے بارے میں جو روایتیں ہیں وہ بھی سن لیجئے۔ " مسند احمد میں ہے جب یہ آیت اتری تو حضرت سعد بن عبادہ ؓ جو انصار کے سردار ہیں کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ آیت اسی طرح اتاری گئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا انصاریو سنتے نہیں ہو ؟ یہ تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ آپ درگزر فرمائیے یہ صرف ان کی بڑھی چڑھی غیرت کا باعث ہے اور کچھ نہیں۔ ان کی غیرت کا یہ حال ہے کہ انہیں کوئی بیٹی دینے کی جرأت نہیں کرتا۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ یہ تو میرا ایمان ہے کہ یہ حق ہے لیکن اگر میں کسی کو اس کے پاؤں پکڑے ہوئے دیکھ لوں تو بھی میں اسے کچھ نہیں کہہ سکتا یہاں تک کہ میں چار گواہ لاؤں تب تک تو وہ اپنا کام پورا کرلے گا۔ اس بات کو ذرا سی ہی دیر ہوئی ہوگی کہ حضرت ہلال بن امیہ ؓ آئے یہ ان تین شخصوں میں سے ایک غیر مرد ہے خود آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنیں۔ صبح ہی صبح رسول اللہ ﷺ سے یہ ذکر کیا آپ کو بہت برا معلوم ہوا اور طبیعت پر نہایت ہی شاق گزرا۔ سب انصار جمع ہوگئے اور کہنے لگے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے قول کی وجہ سے ہم اس آفت میں مبتلا کئے گئے مگر اس صورت میں کہ رسول اللہ ﷺ ہلال بن امیہ کو تہمت کی حد لگائیں اور اس کی شہادت کو مردود ٹھہرائیں۔ حضرت ہلال ؓ کہنے لگے واللہ میں سچا ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا چھٹکارا کردے گا۔ کہنے لگے یارسول اللہ ﷺ میں دیکھتا ہوں کہ میرا کلام آپ کی طبیعت پر بہت گراں گزرا۔ یارسول اللہ ﷺ مجھے اللہ کی قسم ہے میں سچا ہوں، اللہ خوب جانتا ہے۔ لیکن چونکہ گواہ پیش نہیں کرسکتے تھے قریب تھا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں حد مارنے کو فرماتے اتنے میں وحی اترنا شروع ہوئی۔ صحابہ آپ کے چہرے کو دیکھ کر علامت سے پہچان گئے کہ اس وقت وحی نازل ہو رہی ہے۔ جب اترچکی تو آپ ﷺ نے حضرت ہلال ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا، اے ہلال ؓ خوش ہوجاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کشادگی اور چھٹی نازل فرما دی۔ حضرت ہلال ؓ کہنے لگے الحمدللہ مجھے اللہ رحیم کی ذات سے یہی امید تھی۔ پھر آپ نے حضرت ہلال ؓ کی بیوی کو بلوایا اور ان دونوں کے سامنے آیت ملاعنہ پڑھ کر سنائی اور فرمایا دیکھو آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے سخت ہے۔ ہلال فرمانے لگے یارسول اللہ ﷺ میں بالکل سچا ہوں۔ اس عورت نے کہا حضور ﷺ یہ جھوٹ کہہ رہا ہے آپ نے حکم دیا کہ اچھا لعان کرو۔ تو ہلال کو کہا گیا کہ اس طرح چار قسمیں کھاؤ اور پانچویں دفعہ یوں کہو۔ حضرت ہلال ؓ جب چار بار کہہ چکے اور پانچویں بار کی نوبت آئی تو آپ سے کہا گیا کہ ہلال اللہ سے ڈر جا۔ دنیا کی سزا آخرت کے عذابوں سے بہت ہلکی ہے یہ پانچویں بار تیری زبان سے نکلتے ہی تجھ پر عذاب واجب ہوجائے گا تو آپ نے کہا یارسول اللہ ﷺ قسم اللہ کی جس طرح اللہ نے مجھے دنیا کی سزا سے میری صداقت کی وجہ سے بچایا، اسی طرح آخرت کے عذاب سے بھی میری سچائی کی وجہ سے میرا رب مجھے محفوظ رکھے گا۔ پھر پانچویں دفعہ کے الفاظ بھی زبان سے ادا کردیئے۔ اب اس عورت سے کہا گیا کہ تو چار دفعہ قسمیں کھا کہ یہ جھوٹا ہے۔ جب وہ چاروں قسمیں کھاچکی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے پانچویں دفعہ کے اس کلمہ کے کہنے سے روکا اور جس طرح حضرت ہلال ؓ کو سمجھایا گیا تھا اس سے بھی فرمایا تو اسے کچھ خیال پیدا ہوگیا۔ رکی، جھجکی، زبان کو سنبھالا، قریب تھا کہ اپنے قصور کا اقرار کرلے لیکن پھر کہنے لگی میں ہمیشہ کیلئے اپنی قوم کو رسوا نہیں کرنے کی۔ پھر کہہ دیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ پس آنحضرت ﷺ نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور حکم دیدیا کہ اس سے جو اولاد ہو وہ حضرت ہلال ؓ کی طرف منسوب نہ کی جائے۔ نہ اسے حرام کی اولاد کہا جائے۔ جو اس بچے کو حرامی کہے یا اس عورت پر تہمت رکھے، وہ حد لگایا جائے گا، یہ بھی فیصلہ دیا کہ اس کا کوئی نان نفقہ اس کے خاوند پر نہیں کیونکہ جدائی کردی گئی ہے۔ نہ طلاق ہوئی ہے نہ خاوند کا انتقال ہوا ہے اور فرمایا دیکھو اگر یہ بچہ سرخ سفید رنگ موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہو تو تو اسے ہلال کا سمجھنا اور اگر وہ پتلی پنڈلیوں والا سیاہی مائل رنگ کا پیدا ہو تو اس شخص کا سمجھنا جس کے ساتھ اس پر الزام قائم کیا گیا ہے۔ جب بچہ ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ اس بری صفت پر تھا جو الزام کی حقانیت کی نشانی تھی۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر یہ مسئلہ قسموں پر طے شدہ نہ ہوتا تو میں اس عورت کو قطعاً حد لگاتا۔ یہ صاحبزادے بڑے ہو کر مصر کے والی بنے اور ان کی نسبت ان کی ماں کی طرف تھی۔ (ابوداؤد) اس حدیث کے اور بھی بہت سے شاہد ہیں۔ بخاری شریف میں بھی یہ حدیث ہے۔ اس میں ہے کہ شریک بن عماء کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی۔ اور حضور ﷺ کے سامنے جب حضرت ہلال ؓ نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگے گی۔ حضرت ہلال ؓ نے کہا یارسول اللہ ﷺ ایک شخص اپنی بیوی کو برے کام پر دیکھ کر گواہ ڈھونڈنے جائے ؟ لیکن آنحضرت ﷺ یہی فرماتے رہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ دونوں کے سامنے آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی توبہ کرکے اپنے جھوٹ سے ہٹتا ہے ؟ اور روایت میں ہے کہ پانچویں دفعہ آپ ﷺ نے کسی سے کہا کہ اس کا منہ بند کردو پھر اسے نصیحت کی۔ اور فرمایا اللہ کی لعنت سے ہر چیز ہلکی ہے۔ اسی طرح اس عورت کے ساتھ کیا گیا۔ سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے مرد و عورت کی نسبت مجھ سے دریافت کیا گیا کہ کیا ان میں جدائی کرا دی جائے ؟ یہ واقعہ ہے حضرت ابن زبیر ؓ کی امارت کے زمانہ کا۔ مجھ سے تو اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا تو میں اپنے مکان سے چل کر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی منزل پر آیا اور ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ سب سے پہلے یہ بات فلاں بن فلاں نے دریافت کی تھی کہ یارسول اللہ ﷺ کوئی شخص اپنی عورت کو کسی برے کام پر پائے تو اگر زبان سے نکالے تو بھی بڑی بےشرمی کی بات ہے اور اگر خاموش رہے تو بھی بڑی بےغیرتی کی خاموشی ہے۔ آپ سن کر خاموش ہو رہے۔ پھر وہ آیا اور کہنے لگا حضور ﷺ میں نے جو سوال جناب سے کیا تھا افسوس وہی واقعہ میرے ہاں پیش آیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے سورة نور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں آپ ﷺ نے دونوں کو پاس بلا کر ایک ایک کو الگ الگ نصیحت کی۔ بہت کچھ سمجھایا لیکن ہر ایک نے اپنا سچا ہونا ظاہر کیا پھر دونوں نے آیت کے مطابق قسمیں کھائیں اور آپ ﷺ نے ان میں جدائی کرا دی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ کا ایک مجمع شام کے وقت جمعہ کے دن مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک انصاری نے کہا جب کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو پائے تو اگر وہ اسے مار ڈالے تو تم اسے مار ڈالو گے اور اگر زبان سے نکالے گا تو تم شہادت موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسی کو کوڑے لگاؤ گے اور اگر یہ اندھیر دیکھ کر خاموش ہو کر بیٹھا رہے تو یہ بڑی بےغیرتی اور بڑی بےحیائی ہے۔ واللہ اگر میں صبح تک زندہ رہا تو آنحضرت ﷺ سے اس کی بابت دریافت کروں گا۔ چناچہ اس نے انہی لفظوں میں حضور ﷺ سے پوچھا اور دعا کی کہ یا اللہ اس کا فیصلہ نازل فرما۔ پس آیت لعان اتری اور سب سے پہلے یہی شخص اس میں مبتلا ہوا۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت عویمر نے حضرت عاصم بن عدی سے کہا کہ ذرا جاؤ رسول اللہ ﷺ سے دریافت تو کرو کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پائے تو کیا کرے ؟ ایسا تو نہیں کہ وہ قتل کرے تو اسے بھی قتل کیا جائے گا ؟ چناچہ عاصم نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو رسول اللہ ﷺ اس سوال سے بہت ناراض ہوئے۔ جب عویمر ؓ عاصم سے ملے تو پوچھا کہ کہو تم نے حضور ﷺ سے دریافت کیا ؟ اور آپ نے کیا جواب دیا ؟ عاصم نے کہا تم نے مجھ سے کوئی اچھی خدمت نہیں لی افسوس میرے اس سوال پر رسول اللہ ﷺ نے عیب پکڑا اور برا مانا۔ عویمر ؓ نے کہا اب اگر میں اسے اپنے گھر لے جاؤں تو گویا میں نے اس پر جھوٹ تہمت باندھی تھی۔ پس آپ کے حکم سے پہلے ہی اس عورت کو جدا کردیا۔ پھر تو لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ مقرر ہوگیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ عورت حاملہ تھی اور ان کے خاوند نے اس سے انکار کیا کہ یہ حمل ان سے ہوا۔ اس لئے یہ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا رہا پھر منسون طریقہ یوں جاری ہوا کہ یہ اپنی ماں کا وارث ہوگا اور ماں اس کی وارث ہوگی۔ ایک مرسل اور غریب حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ سے پوچھا کہ اگر تمہارے ہاں ایسی واردات ہو تو کیا کرو گے ؟ دونوں نے کہا گردن اڑا دیں گے۔ ایسے وقت چشم پوشی وہی کرسکتے ہیں جو دیوث ہوں، اس پر یہ آیتیں اتریں۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلا لعان مسلمانوں میں ہلال بن امیہ ؓ اور ان کی بیوی کے درمیان ہوا تھا۔

اردو ترجمہ

اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے الزام میں) جھوٹا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalkhamisatu anna laAAnata Allahi AAalayhi in kana mina alkathibeena

اردو ترجمہ

اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص (اپنے الزام میں) جھوٹا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayadrao AAanha alAAathaba an tashhada arbaAAa shahadatin biAllahi innahu lamina alkathibeena

اردو ترجمہ

اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اُس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں) سچا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalkhamisata anna ghadaba Allahi AAalayha in kana mina alssadiqeena

اردو ترجمہ

تم لوگوں پر اللہ کا فضل اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے، تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walawla fadlu Allahi AAalaykum warahmatuhu waanna Allaha tawwabun hakeemun
350