اس صفحہ میں سورہ Al-Ghaashiya کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الغاشية کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ ہَلْ اَتٰٹکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ۔ } ”کیا پہنچ چکی ہے آپ ﷺ کے پاس اس ڈھانپ لینے والی آفت کی خبر ؟“ یعنی قیامت کی خبر ‘ جو پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
آیت 2{ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ۔ } ”بہت سے چہرے اس دن ذلیل ہوں گے۔“ یہ مضمون اس سے پہلے سورة القیامہ اور سورة عبس میں بھی آچکا ہے۔ سورة القیامہ میں اس صورت حال کا نقشہ یوں دکھایا گیا ہے : { وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ - اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ - وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍم بَاسِرَۃٌ - تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ۔ } ”کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے ‘ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے اور کچھ چہرے اس دن افسردہ ہوں گے۔ خیال کر رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ سلوک ہونے والا ہے“۔ جبکہ سورة عبس میں یہی کیفیت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے : { وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ - ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ - وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ - تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ۔ } ”اس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے۔ مسکراتے ہوئے خوش و خرم۔ اور کچھ چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے۔ ان پر سیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔“
آیت 7{ لَّایُسْْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ۔ } ”جو نہ تو موٹا کرے اور نہ ہی بھوک مٹائے۔“ اسے کھانے سے نہ تو انہیں کوئی تقویت ملے گی اور نہ ہی بھوک کا احساس ختم ہوگا۔ کسی بھی غذا کے یہی دو فائدے ہوتے ہیں ‘ لیکن اہل جہنم کو اس کھانے سے ان میں سے کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اب اگلی آیات میں نیک لوگوں کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے :
آیت 8{ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ۔ } ”بہت سے چہرے اس روز تروتازہ ہوں گے۔“ ان کے چہرے ناز و نعمت میں پلے بڑھے لوگوں کے چہروں کی طرح بارونق ہوں گے۔
آیت 9{ لِّسَعْیِہَا رَاضِیَۃٌ۔ } ”وہ اپنی کوشش کے نتائج پر راضی ہوں گے۔“ وہ لوگ اپنی دنیوی زندگیوں میں آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتے رہے تھے اور آخرت کی کامیابی کے لیے مسلسل کوشاں بھی تھے۔ چناچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی کوششیں اور محنتیں قبول فرمائے گا۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے : { وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْکُوْرًا۔ } ”اور جو کوئی آخرت کا طلب گار ہو ‘ اور اس کے لیے اس کے شایانِ شان کوشش کرے اور وہ مومن بھی ہو تو یہی لوگ ہوں گے جن کی کوشش کی قدر افزائی کی جائے گی۔“
آیت 1 1{ لَّا تَسْمَعُ فِیْہَا لَاغِیَۃً۔ } ”وہ اس میں کوئی لغو بات نہیں سنیں گے۔“ وہاں انہیں کوئی ایسی فضول یا غلط بات سنائی نہیں دے گی جس سے انہیں کو فت ہو۔
آیت 16{ وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ۔ } ”اور مخمل کے نہالچے جگہ جگہ پھیلے ہوئے۔“ اگلی چار آیات قرآن مجید کی ان آیات میں سے ہیں جو بقول علامہ اقبال شعوری مشاہدے پر زور دیتی ہیں کہ چیزوں کو دیکھو ‘ ان پر غور کرو اور اپنی عقل اور منطق کے مطابق ان سے نتائج اخذ کرو۔ ظاہر ہے عقل ‘ شعور اور حواس کی صلاحیتیں انسان کو اسی لیے دی گئی ہیں کہ اپنی زندگی میں وہ ان سے کام لے : { وَلاَ تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً۔ } بنی اسرائیل ”اور مت پیچھے پڑو اس چیز کے جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں۔ یقینا سماعت ‘ بصارت اور عقل سبھی کے بارے میں بازپرس کی جائے گی“۔ واضح رہے کہ علم کے میدان میں یہ سائنٹیفک رجحان قرآن مجید نے متعارف کرایا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان ہرچیز کو پہلے عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور پھر کوئی رائے قائم کرے۔ عقل سے ماوراء صرف الہامی علم ہے۔ اس لیے وحی کی سند کے بغیر انسان کوئی ایسی بات تسلیم نہ کرے جس کے پیچھے کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ ہو۔ قرآن مجید کا عطا کردہ یہی وہ اندازِ فکر ہے جس نے ہر قسم کی توہم پرستی کی جڑکاٹ کر رکھ دی ہے۔
آیت 17{ اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ۔ } ”تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کو کہ انہیں کیسے بنایا گیا ہے !“ کیا یہ لوگ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیوں پر غور نہیں کرتے ؟ اور نہیں تو یہ اونٹ کی تخلیق کو ہی دیکھ لیتے کہ اس جانور کے جسم کی ریگستان کے ماحول کے ساتھ کس قدر ہم آہنگی ہے۔ ریگستان کی گرمی میں یہ کئی کئی دن کھائے پئے بغیر چلتا رہتا ہے۔ اس کے پائوں ایسے بنائے گئے ہیں کہ ریت میں نہیں دھنستے۔
آیت 18{ وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ۔ } ”اور کیا یہ دیکھتے نہیں آسمان کو کہ کیسے بلند کیا گیا ہے !“ یہ ماہرین فلکیات کے لیے صلائے عام ہے کہ وہ اس میدان میں تحقیق کر کے ستاروں اور کہکشائوں کی دنیا کے اسرار و رموز معلوم کریں۔
آیت 19{ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ۔ } ”اور کیا یہ دیکھتے نہیں پہاڑوں کو کہ کیسے گاڑ دیے گئے ہیں !“ پہاڑوں کی بناوٹ اور کرئہ ارضی پر ان کے اثرات وغیرہ کے بارے میں تحقیق کرنا ماہرین ارضیات کا کام ہے۔
آیت 20{ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ۔ } ”اور کیا یہ دیکھتے نہیں زمین کی طرف کہ کیسے بچھا دی گئی ہے !“ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے چند نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مضمون قرآن میں بار بار آیا ہے لیکن ان آیات میں خصوصی طور پر قرآن مجید کے مخاطبین اوّلین سے خطاب ہے۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں سرزمین حجاز کے باشندوں کا زیادہ تر وقت صحرائی مسافتوں میں گزرتا تھا ‘ جیسا کہ سورة قریش کی آیت { رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ } میں بھی ذکر ہوا ہے۔ چناچہ اپنے سفروں کے دوران جس ماحول سے ان لوگوں کا دن رات واسطہ رہتا تھا ان آیات میں اسی ماحول کی چار چیزوں کو گنوا کر انہیں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ یعنی ایک وہ اونٹ جو ان کے صحرائی سفر کی واحد سواری تھی ‘ اوپر آسمان ‘ نیچے زمین اور اطراف و جوانب میں پہاڑی سلسلے۔ یہ تھا وہ ماحول جس میں عام طور پر ان لوگوں کے شب وروز گزرتے تھے۔ بہرحال قرآن مجید کی ایسی تمام آیات صاحب شعور انسانوں کو دعوت ِفکر دیتی ہیں کہ تم لوگ ان مظاہر ِ فطرت کو غور سے دیکھا کرو۔ ان میں سے ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کی نشانی اور اس کی صناعی و خلاقی کا نمونہ ہے : { اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۔ } ”یقینا آسمان اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ان کشتیوں اورجہازوں میں جو سمندر میں یا دریائوں میں لوگوں کے لیے نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں اور اس پانی میں کہ جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے پھر اس سے زندگی بخشی زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد ‘ اور ہر قسم کے حیوانات اور چرند پرند اس کے اندر پھیلادیے ‘ اور ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو معلق کردیے گئے ہیں آسمان اور زمین کے درمیان ‘ یقینا نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔“ اسی حقیقت کو شیخ سعدی رح نے اپنے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے :برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار ہر ورقش دفترے است معرفت ِکردگار !کہ ایک صاحب شعور انسان کے لیے سبز درختوں کا ایک ایک پتا ّگویا معرفت ِخداوندی کا دفتر ہے۔ شیخ سعدی رح نے تو اپنے زمانے میں یہ بات اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر کہی تھی لیکن آج سائنسی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ سبز درختوں کا ایک ایک پتا ّدراصل phtosynthesis کی فیکٹری ہے۔ یہ فیکٹریاں سارا دن آکسیجن بنانے اور سورج کی روشنی کو جذب کرکے درختوں کی لکڑی کی طرف منتقل کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ صفحات ایسی مثالوں کی تفصیل کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس حوالے سے انسان کے سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کو محض حیوانی آنکھ سے نہیں بلکہ عقل اور شعور کی نظر سے دیکھے۔ علامہ اقبال نے اس حوالے سے ”زبورِعجم“ میں کیا پتے کی بات کہی ہے :دم چیست ؟ پیام است ‘ شنیدی نشنیدی !در خاکِ تو یک جلوئہ عام است ندیدی !دیدن دگر آموز ‘ شنیدن دگر آموز !کہ اے غافل انسان ! تمہارا ہر سانس اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے۔ کیا تم نے اس پیغام کو کبھی سنا ؟ نہیں سنا ! اور تمہاری اس خاک حیوانی جسم کے اندر ایک جلوئہ ربانی نورانی روح بھی پوشیدہ ہے ‘ لیکن تم نے اس جلوے کو کبھی دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ چناچہ تمہیں چاہیے کہ تم اس کائنات کی چیزوں کو حیوانی آنکھوں سے دیکھنا اور حیوانی کانوں سے سننا چھوڑو اور انسانوں کا سا دیکھنا اور سننا سیکھو۔ تم اشرف المخلوقات ہو ‘ تمہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور سمیت بہت سی اعلیٰ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے ‘ ان صلاحیتوں کو استعمال میں لائو۔ مظاہر فطرت اور دوسری چیزوں کو دیکھو اور ان پر غور کرو : { خَلَقَ لَـکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاق } البقرۃ : 29 یہ زمین پر جو کچھ ہے سب اللہ نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے۔ ان چیزوں پر تحقیق کرو ‘ نئے نئے قوانین فطرت کو تلاش کرو ‘ انہیں کام لائو۔ تمہیں زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت عطا ہوئی ہے۔ اس حیثیت سے خود زمین ‘ اس پر موجود تمام چیزیں ‘ یہ ہوائیں ‘ یہ فضائیں ‘ ستارے ‘ سیارے ‘ کہکشائیں سب تمہارے لیے مسخر ہیں۔ یاد رکھو ! اگر تم عقل و شعور سے کام لوگے تو ان پر حکومت کرو گے ‘ لیکن اگر تم توہمات میں پڑ جائو گے تو ان چیزوں کے غلام بن جائو گے۔
آیت 22{ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ۔ } ”آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں۔“ آپ ﷺ کی ذمہ داری صرف تذکیر اور نصیحت تک ہے ‘ کسی کو زبردستی راہ ہدایت پر لانا آپ کا کام نہیں ہے۔
آیت 24{ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ۔ } ”تو اس کو اللہ عذاب دے گا سب سے بڑا عذاب۔“ بلاشبہ اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا کلام اور پیغام اپنی بےداغ اور مثالی سیرت کی گواہی کے ساتھ امت تک اس انداز میں پہنچا دیا ہے کہ حق کو سمجھنے کے بارے میں کہیں کوئی ابہام نہیں رہا۔ اب اس کے بعد بھی جو شخص حق سے منہ موڑے گا تو وہ گویا حق کو حق سمجھتے ہوئے اسے ٹھکرائے گا اور اس سے یہی ثابت ہوگا کہ اس کے اندر بھلائی اور خیر کی کوئی رمق موجود ہی نہیں۔ چناچہ ایسا ہر شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے شدید ترین عذاب کا مستحق ہے۔
آیت 26{ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ۔ } ”پھر ان کا حساب ہمارے ذمہ ہے۔“ آپ ﷺ تذکیر اور یاد دہانی کے حوالے سے اپنا فرض ادا کرتے جایئے۔ ان کی جوابدہی اور حساب کا معاملہ آپ ہم پر چھوڑ دیں۔ یہ وہی انداز اور اسلوب ہے جو اس گروپ کی سورتوں میں قبل ازیں بھی کئی بار آچکا ہے۔ اس دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں مشرکین کو مہلت دینے کا ذکر بہت خصوصیت کے ساتھ آیا ہے۔ مثلاً سورة المزمل میں فرمایا گیا : { وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ وَمَہِّلْہُمْ قَلِیْلًا۔ } ”آپ ﷺ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں ‘ جو بڑی نعمتوں سے نوازے گئے ہیں اور ابھی آپ ﷺ انہیں کچھ مہلت دیں“۔ اسی طرح سورة الطارق کی آخری آیت میں بھی یہ مضمون خصوصی اسلوب کے ساتھ آیا ہے۔ اس آیت میں اس مفہوم کے دو صیغے مَھِّلْ۔ اَمْھِلْ باب تفعیل اور باب افعال سے آئے ہیں۔ یہاں فرمایا کہ ”ان سب کو لوٹ کر ہماری ہی طرف آنا ہے۔ پھر ان کا حساب ہمارے ذمہ ہے !“ اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَّسِیْرًا۔ آمین یاربّ العالمین !