اس صفحہ میں سورہ Hud کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ هود کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
تعارف قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو حروف سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفصیل اس تفسیر کے شروع میں سورة بقرہ کے ان حروف کے بیان میں گزر چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ قرآن لفظوں میں محکم اور معنی میں مفصل ہے۔ پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کامل ہے۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے۔ سب رسولوں پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے۔ سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آجاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا ہوں اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں، ان کی میں بشارت سناتا ہوں۔ حضور ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں۔ زیادہ قریب والے پہلے، پھر ترتیب وار جب سب جمع ہوجاتے ہیں تو آپ ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تمہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہوگا۔ پس تم ان سے ہوشیار ہوجاؤ۔ پھر ارشاد ہے کہ اے نبی ﷺ یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اگر تم بھی ایسا ہی کرتے رہے تو دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرو گے اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی بڑے بلند درجے عنایت فرمائے گا۔ قرآن کریم نے (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 97) 16۔ النحل :97) میں فرمایا ہے کہ جو مرد و عورت ایمان دار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے۔ صحیح حدیث میں بھی ہے۔ حضور ﷺ نے حضرت سعد ؓ سے فرمایا کہ اللہ کی رضامندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا۔ یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہوگئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جاکر بھی نو نیکیاں بچ رہیں۔ پھر جس کی اکائیاں دھائیوں پر غالب آجائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی رو گردانی کرلیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام، مخلوق کی نئی پیدائش، سب اس کے قبضے میں ہے۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا۔
اندھیروں کی چادروں میں موجود ہر چیز کو دیکھتا ہے آسمان کی طرف اپنی شرم گاہ کا رخ کرنا وہ مکروہ جانتے تھے۔ ابن عباس ؓ کی قرآت میں تثنونی ہے۔ مجامعت کے وقت اور تنہائی میں وہ عریانی سے حجاب کرتے تھے کہ پاخانہ کے وقت آسمان تلے ننگے ہوں یا مجامعت اس حالت میں کریں۔ وہ اپنے سروں کو ڈھاپ لیتے اور یہ بھی مراد ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں شک کرتے تھے اور کام برائی کے کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ برے کام یا برے عمل کے وقت وہ جھک جھک کر اپنے سینے دوہرے کر ڈالتے گویا کہ وہ اللہ سے شرما رہے ہیں۔ اور اس سے چھپ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ راتوں کو کپڑے اوڑھے ہوئے بھی جو تم کرتے ہو اس سے بھی اللہ تو خبردار ہے۔ جو چھپاؤ جو کھولو، جو دلوں اور سینوں میں رکھو، وہ سب کو جانتا ہے، دل کے بھید سینے کے راز اور ہر ایک پوشیدگی اس پر ظاہر ہے۔ زہیر بن ابو سلمہ اپنے مشہور معلقہ میں کہتا ہے کہ تمہارے دلوں کی کوئی بات اللہ تعالیٰ پر چھپی ہوئی نہیں، تم گو کسی خیال میں ہو لیکن یاد رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ممکن ہے کہ تمہارے بد خیالات پر وہ تمہیں یہیں سزا کرے اور ہوسکتا ہے کہ وہ نامہ اعمال میں لکھ لیے جائیں اور قیامت کے دن پیش کئے جائیں یہ جاہلیت کا شاعر ہے۔ اسے اللہ کا، اس کے کامل علم کا، قیامت کا اور اس دن کی جزا سزا کا، اعمال نامے کا اور قیامت کے دن اس کے پیش ہونے کا اقرار ہے۔ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جب رسول مقبول ﷺ کے پاس سے گزرتے تو سینہ موڑ لیتے اور سر ڈھانپ لیتے۔ (اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ ۭ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ) 11۔ ھود :5) ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سے چھپنا چاہتے ہیں یہی اولیٰ ہے کیونکہ اسی کے بعد ہے کہ جب یہ لوگ سوتے وقت کپڑے اوڑھ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کو ان کے تمام افعال کا جو وہ چھپ کر کریں اور جو ظاہر کریں علم ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس کی قرأت میں (آیت الا انھم تثنونی صدورھم) ہے۔ اس قرأت پر بھی معنی تقریبا یکساں ہیں۔