سورۃ الفاتحہ (1): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Faatiha کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفاتحة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الفاتحہ کے بارے میں معلومات

سورۃ الفاتحہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bismi Allahi alrrahmani alrraheemi

سورة فاتحہ ایک نظر میں

اس مختصر اور سات آیتوں پر مشتمل چھوٹی سی صورت کو ایک مسلمان ‘ رات دن میں کم از کم سترہ مرتبہ دہراتا ہے اور جب وہ سنتیں پڑھتا ہے تو یہ تعداد اس سے بھی دوچند ہوجاتی ہے اور اگر کوئی فرائض وسنن کے علاوہ نوافل بھی پڑھتا ہے تو وہ اسے بیشمار مرتبہ دہراتا ہے ۔ اس سورت کی تلاوت کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ صحیح حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ” اس کی نماز نہیں ہوتی جس نے فاتحہ نہ پڑھی “

اس سورت میں اسلامی عقائد کے بلند اصول ‘ اسلامی تصور حیات کے کلیات و مبادی اور انسانی شعور اور انسانی دلچسپیوں کے لئے نہایت ہی اہم اصولی ہدایات بیان کی گئی ہیں ‘ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کی ہر رکعت میں اس سورت کا پڑھنا ضروری قرار دیا ہے ‘ اور جس نماز میں اس سورت کی تلاوت نہ ہو اسے فاسد قرار دیا گیا ہے۔

اس سورت کا آغاز ”﷽“ سے ہوا ہے ۔ اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ ہر سورت کی ایک آیت ہے یا پورے قرآن مجید کی ایک آیت ہے ‘ اور صرف پڑھتے وقت ہر سورت کا آغاز اس سے کیا جاتا ہے ‘ لیکن راسخ بات یہی ہے کہ بسم اللہ سورة فاتحہ کی ایک آیت ہے اور اس کو ملاکر ہی سورة فاتحہ کی آیتوں کی تعداد سات ہوتی ہے ۔ قرآن کریم میں آتا ہے : وَ لَقَد اٰتَینَکَ سَبعًا مِّنَ المَثَانِی وَ القُراٰنَ العَظِیمَ (حجر :87) ” ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائے جانے کے لائق ہیں ‘ اور تمہیں قرآن کریم عطا کیا ۔ “ اس آیت کے مفہوم کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے ‘ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور اسے مثانی اس لئے کہا گیا ہے کہ اسے نماز میں باربار دہرایا جاتا ہے ۔

بسم اللہ سے آغاز کرنا ان اداب میں سے ہے جو اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو آغاز وحی کے وقت بتادیئے تھے ۔ اِقرَا بِاسمِ رَبِّکَ ” پڑھئے اپنے رب کے نام سے ۔ “ اور یہ ان آداب میں سے ہے ‘ جو اسلامی تصور حیات کے اساسی عقیدے سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ھُوَ الاَوَّلُ وَ الاٰخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ البَاطِنُ (حدید :3) ” وہی پہلے ہے ‘ وہی پیچھے ہے ‘ وہی ظاہر ہے ‘ وہی مخفی ہے۔ “ صرف اللہ موجود برحق اور حقیقی وجود رکھتا ہے اور تمام دوسرے موجودات اپنا وجود اس سے لیتے ہیں ۔ ہر چیز کا آغاز اس سے ہوتا ہے لہٰذا ایک مسلمان ہر آغاز اور ہر حرکت اسی کے نام سے کرتا ہے۔

اللہ کی صفات رحمان ورحیم ‘ جنہیں شروع میں لایا گیا ہے ۔ رحمت کے تمام حالات اپنے اندر لئے ہوئے ہیں ۔ ان دونوں کو یکجا طور پر اللہ ہی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ الرحمن اکیلا بھی صرف اللہ ہی کے لئے استعمال ہوسکتا ہے ۔ یہ تو جائز ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی انسان کو بھی رحیم کہہ دیں لیکن اسلامی عقائد کی رو سے یہ جائز نہیں کہ ہم بندے کو رحمان کہیں ۔ افضل یہ ہے کہ اللہ کے لئے ان دونوں صفات کو بیک وقت استعمال کیا جائے یعنی ” رحمان ورحیم “ اگرچہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں سے کس لفظ کے معنی وسیع تر ہیں لیکن قرآن کے اس سائے میں ہمیں ایسی بحثوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے ‘ ہاں ان کا خاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں صفات ملکہ رحمت کے تمام معانی ‘ تمام وسعتوں کو اپنے اندر لئے ہوئے ہیں ۔ ﷽سے آغاز کلام ‘ اللہ کی عظمت اور وحدانیت کے معانی پر مشتمل ہوتے ہوئے اگر اسلامی تصور حیات کا پہلا اصول ہے رحمان رحیم کی دوصفتوں میں رحمت کے تمام مفاہیم تمام حالات اور تمام وسعتوں کا سمو دینا ‘ اسلامی تصور حیات کا دوسرا زریں اصول ہے ۔ جس سے ایک بندے اور اس کے اللہ کے درمیان تعلق کی صحیح نوعیت کا اظہار ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhamdu lillahi rabbi alAAalameena

بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ آغاز کرنے کے بعد ‘ اب انسان اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اس کی تعریف کرتا ہے اور پوری کائنات کے لئے اس کی عالمگیر ربوبیت کا اعلان کرتا ہے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے “۔ اللہ کی تعریف وہ شعور ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتے ہی قلب مومن میں موجزن ہوتا ہے اور مومن کا دل اس سے سرشار ہوجاتا ہے کیونکہ وجود انسانی اپنے آغاز ہی میں بےپایاں نعمتوں اور فیوض میں سے ایک فیض ہے ‘ جو قلب مومن میں اللہ کی حمد وثناکے جذبات کے مہمیز کا کام کرتا ہے۔

اللہ کی نعمتیں قدم قدم پر ‘ لمحہ لمحہ ‘ مسلسل اور جوق درجوق آتی ہیں اور اللہ کی تمام مخلوقات اور بالخصوص اس ” انسان “ کو فیض یاب کررہی ہے۔ لہٰذا اللہ کی حمد سے ہر کام کا آغاز اور اسی کی تعریف وثنا پر ہر کام کا انجام اسلامی تصور حیات کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول ہے وَ ھُوَ اللہ ُ لَآ اِٰلہَ اِلَّا ھُوَ لَہُ الحَمدُ فِی الاُولٰی وَ الاٰخِرَةِ ’ وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے مستحق نہیں اس کے لئے حمد ہے ۔ اول میں بھی اور آخر میں بھی ۔ “ ایسے بندے پر ذرا اللہ کے فضل وکرم کو تو دیکھئے ! جب وہ اپنی زبان سے ” الحمدﷲ“ ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں وہ بھلائی لکھ دیتا ہے جو سب نیکیوں پر بھاری ہوتی ہے ۔ ابن ماجہ میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کردہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ” کسی بندے نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا یَارَبِّ لَکَ الحَمدُ کَمَا یَنبَغِی لِجَلَالِ وَجھِکَ وَعَظِیمِ سُلطَانِکَ ” اے اللہ تیرے لئے ایسی حمد ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہو۔ “

” فرشتے اس معاملے میں متحیر ہوئے اور فیصلہ نہ کرسکے کہ اسے کس طرح لکھیں چناچہ وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی ” یا خدایا ! تیرے بندے نے ایک ایسی بات کہی ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کس طرح لکھیں ۔ “ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بندے نے کیا کہا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا ” تو میرے بندے نے کیا کہا ؟ “ فرشتوں نے عرض کی ‘ اس نے کہا ” اے اللہ تیرے لئے ایسی تعریف ہے جو تیرے چہرے کی عظمت و جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اسی طرح لکھو کہ جس طرح میرے بندے نے کہا ۔ قیامت کے دن وہ مجھ سے ملے گا اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔ “

غرض اللہ کی تعریف کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہونا ایک مومن کا وہ شعور ہے جو اللہ کا نام زبان پر آتے ہی ‘ قلب مومن میں موجزن ہوتا ہے ۔ اس آیت کا دوسرا حصہ رب العالمین بھی لفظ اسلامی تصور حیات کا ایک بنیادی اصول ہے ۔ اللہ کی عالمگیر اور مطلق ربوبیت اسلامی عقائد کا اصل الاصول ہے ۔ رب اس ذات کو کہتے ہیں جو مالک اور متصرف ہو اور عربی لغت میں یہ لفظ اس سربراہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو اصلاح وتربیت کی خاطر کسی چیز میں تصرف کرتا ہے ۔ اصلاح تربیت کے لئے تصرف اور ربوبیت تمام جہانوں اور تمام مخلوقات کو شامل ہے ‘ اللہ نے مخلوقات کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ اسے یونہی مسلسل چھوڑدیا جائے ‘ بلکہ اللہ ہی اس کائنات میں متصرف اور اس کا مصلح ہے ‘ وہ اس کی نگرانی کرتا ہے اور اسے مسلسل پال رہا ہے ‘ تمام جہانوں اور تمام مخلوقات کی دیکھ بھال رب العالمین کی نگرانی میں کی جارہی ہے ‘ خالق اور مخلوق کے درمیان ربط وصلہ ہر لمحہ اور ہر حال میں قائم ہے اور ہر وقت رواں دواں ہے۔

اس مکمل اور ہمہ گیر عقیدہ توحید کی تشریح و توضیح اور اس ژولیدہ فکری کے درمیان قطعی امتیاز کرکے رکھ دیتی ہے ۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے اور اب بھی ہورہا ہے کہ لوگ خدائے واحد اور صانع کائنات کا اعتراف بھی کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود وہ متعدد الٰہوں اور ارباب کے بھی قائل ہیں اور وہ ان الٰہوں اور ارباب کو اپنی زندگی میں حاکم تسلیم کرتے ہیں ۔ اگرچہ بادی النظر ہی میں یہ عقیدہ نہایت ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت واقعہ یہی ہے کہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ تھا اور اب بھی ہے۔ قرآن کریم نے ‘ بعض مشرکین کا یہ عقیدہ بیان کیا ہے ۔ جو وہ اپنے الٰہوں اور ارباب کے بارے میں رکھتے تھے۔

مَا نَعبُدُہُم اِلَّا لِیُقَرِّبُونَآ اِلَی اللہ ِ زُلفٰی (زمر : 3) ” ہم تو ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں “۔ جیسا کہ اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا ۔ اِتَّخَذُوآ اَحبَارَھُم وَ رُہبَانَہُم اَربَابًا مِّن دُونِ اللہ ِ (توبة : 13) ” انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا ہے ۔ “ نزول قرآن کے وقت مشرکین عرب کی حالت یہ تھی کہ وہ بڑے الٰہوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ارباب کے بھی قائل تھے ‘ اور یہ چھوٹے ارباب ان کے خیالات کے مطابق وہ تھے جو بڑے خداؤں کے ساتھ ساتھ خدائی کا کام کررہے تھے ۔

غرض اس صورت میں عالمگیر ربوبیت کا بیان کرنا اور اسے تمام جہانوں کے لئے عام و شامل کرنے سے غرض یہ ہے کہ جاہلیت کے فکری انتشار اور اسلام کی نظریاتی ہم آہنگی کے درمیان واضح طور پر خط فاضل کھینچ دیا جائے تاکہ یہ پوری کائنات اور تمام لوگ صرف ایک اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی حاکمیت مطلقہ (Boundless Sovereignty) کا اقرار کریں اور اپنی گردنوں سے ارباب متفرقوں کی غلامی کا جو اتار پھینکیں اور بیشمار خداؤں کو ماننے سے وہ جس فکری انتشار و پریشانی میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں اس سے نجات پائیں ۔ اور اس طرح اللہ کی مخلوق کا ضمیر اللہ تعالیٰ کی دائمی نگرانی اور قائم ربوبیت کے سائے میں مطمئن ہوجائے ‘ وہ ربوبیت جو کسی وقت بھی منقطع نہیں ہوتی ‘ جس کا سلسلہ ابد الآباد تک قائم دائم اور جاری وساری ہے ۔ یاد رہے یہ کوئی ایسی ربوبیت نہیں جس کا تصور ارسطو نے پیش کیا کہ اللہ نے اس کائنات کی تخلیق کی اور پھر اسے یونہی چھوڑدیا ۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے سے فرو تر چیزوں کے بارے میں فکر کرے ‘ وہ صرف اپنی ذات کے بارے میں فکر کرتا ہے ۔ “ یہ خیال اس شخص کا ہے جو ایک عظیم فلسفی سمجھا جاتا ہے ‘ اس کا فلسفہ ایک ٹھوس مانا جاتا ہے اور اس کی عقل کو عقل رسا اور اسے عبقری تسلیم کیا جاتا ہے۔

جب اسلامی تعلیمات کا آغاز ہوا تو اس دنیا میں عقائد و تصورات ‘ افکار وتوہمات اور فلسفوں اور روایات کا ایک عظیم ذخیرہ موجود تھا جس میں حق و باطل کا کوئی امتیاز نہ تھا ۔ کھرے اور کھوٹے میں کوئی جدائی نہ تھی ۔ خرافات دین کا جزو تھے ۔ فلسفے اور عقائد اوہام و خرافات کا پلندہ تھے ‘ اور انسانی ضمیر ان اوہام وروایات کے تہہ بہ تہہ ذخیرے کے نیچے دب گیا تھا اور یقین سے محروم وہم و گمان کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا تھا ۔

یہ حیرانی و پریشانی کیا تھی ‘ جس میں اسے نہ سکون ملتا اور نہ نور ہدایت کی کرن نظر آتی ؟ یہ فقط اس وقت کا تصور الٰہ تھا ۔ الٰہ العالمین اس کی صفات ‘ مخلوق سے اس کا تعلق ایسے مسائل ‘ بالخصوص اللہ تعالیٰ اور انسان کے باہم تعلق کی صحیح نوعیت ‘ اس وقت کے تمام عقائد اس ضلالت اور گمراہی کا شکار تھے ۔

اور اس سے قبل کے انسان اپنے اللہ اور اس کی صفات کے بارے میں کوئی تصور قائم کرتا اور اس وقت کی موجود سرگرمی ‘ سرگردانی اور اوہام و تخیلات کے بھاری بھرکم ذخیرے سے نجات پاتا ‘ انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ اس کا ضمیر اس کائنات کے بارے میں یا خود اپنے نفس کے بارے میں اور اپنے لئے کسی نظام زندگی کے بارے میں مطمئن ہوجائے اور اسے قرار و سکون حاصل ہوسکے (لہٰذا سب سے پہلے تصور الٰہ کی درستگی اور ان باطل نظریات سے نجات ضروری تھی)

اس سکون اور تطہیر عقائد کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ‘ انسان کو اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس فکری ضلالت کے طول وعرض سے خوب واقفیت نہ رکھتا ہو ‘ اور اسے اس بارے میں پوراعلم نہ ہو کہ جب اسلام آیا تو انسان کے دل و دماغ پر غلط عقائد و تصورات ‘ باطل فلسفوں اور غلط روایات کی کس قدر تہیں جمی ہوئی تھیں ۔ ہم نے یہاں تو ان کی طرف اجمالی اشارہ کیا ہے۔ تفصیلی بحث ان مقامات میں ہوگی جہاں قرآن کریم نے تفصیلاً ان تصورات سے بحث کی ہے ۔

ان وجوہات کی بناپر اسلام نے سب سے پہلے اسلامی عقائد اور اسلام کے اساسی تصورات سے تفصیلی بحث کی اور اللہ کی ذات وصفات ‘ مخلوقات سے اس کے تعلق اور مخلوق کے اپنے خالق کے ساتھ ربط کی نوعیت کے بارے میں اسلامی تصور کو قطعی اور یقینی طور پر واضح اور متعین کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تصور حیات کی بنیاد ‘ وہ کامل ‘ خالص اور ہمہ گیر توحید بنی جس میں شرک کا شائبہ تک نہ تھا۔ اسلامی تعلیمات میں مسلسل اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔ اس کے بارے میں اٹھنے والے تمام شکوک و شبہات کا قلع قمع کیا گیا ۔ اس کے متعلق ہر قسم کے خلجان اور اجمال کو دور کیا گیا اور اسے پاک وصاف کرکے خالص اور واضح شکل میں دل مومن میں جاگزیں کیا گیا تاکہ وہ اس معاملے میں کسی طرح وہم و گمان کا شکار نہ ہو ‘ اسلام نے اللہ کی صفات اور صفت ربوبیت مطلقہ کے بارے میں بھی دوٹوک اور واضح تعلیمات دیں ۔ کیونکہ غلط فلسفوں اور بےاصل نظریات کا ایک بڑا حصہ انہی شرکیہ اوہام واساطیر پر مشتمل تھا جو اللہ کی صفات کے بارے میں ‘ ان غلط فلسفوں نے لوگوں کے دل و دماغ میں جاگزیں کردی تھیں اور انسانی ضمیر پر ان کا بڑا اثر تھا اور پھر انسانی طرزعمل پر بھی یہ تصورات اثر انداز ہورہے تھے ۔

جن لوگوں نے ان کوششوں کا سرسری مطالعہ کیا ہے جو اسلام نے اللہ کی ذات وصفات اور مخلوق کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کے لئے اور جن کے بیان میں قرآن کی لاتعداد آیات نازل ہوئیں اور اس نے ان باطل فلسفوں اور شرکیہ نظریات کا مطالعہ نہیں کیا جن کے بھاری بھرکم بوجھ تلے انسانی ضمیر دبا ہوا تھا ۔ اور پوری انسانیت ان نظریات میں گم گشتہ تھی ‘ تو وہ قرآن مجید کی ان کوششوں ‘ عقائد کے بارے میں بےحد تاکید و تکرار اور تفصیل و توضیح کی حقیقی وجہ کو ہرگز نہ پاسکے گا۔ لیکن اس کے برعکس جو شخص ان باطل نظریات و عقائد کا گہرا مطالعہ کرے گا جو نزول قرآن کے وقت رائج تھے ‘ اس پر ان کوششوں کی حقیقت واہمیت اور ضرورت اچھی طرح واضح ہوجائے گی ۔ وہ سمجھ سکے گا کہ عقیدہ توحید نے انسانی ضمیر کی آزادی میں کیا پارٹ ادا کیا ۔ کیونکہ اس سے انسان کو اوہام و اساطیر اور متعدد خداؤں کی دیومالائی تصورات سے نجات دی۔

غرض عقیدہ توحید کا حسن ‘ اس کا کمال ‘ اس کی ہم آہنگی اور جس حقیقت کا اس میں اظہار کیا گیا ہے ‘ اس کی سادگی اور واقعیت پسندی ‘ اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک انسان ان باطل تصورات و عقائد اور اساطیر وروایات کا اچھی طرح جائزہ نہ لے جو اس وقت دنیا میں رائج تھے ۔ بالخصوص ذات باری کی حقیقت ‘ اس دنیا کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت وغیرہ ‘ غرض ان باطل افکار کے گہرے مطالعے کے بعد ہی یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات دراصل ایک نعمت ہے ۔ یہ قلب ونظر دونوں کے لئے رحمت ہے ‘ اس کا حسن اور سادگی انعام الٰہی ہے ‘ انسانی فطرت سے اس کی ہم آہنگی اور معقولیت ‘ ذہن انسانی سے قرب اور مانوسیت اور اس کا توازن اور اعتدال یہ سب کچھ اللہ کی رحمت خاص ہے جو اس نے اپنی مخلوق پر کی ۔

اردو ترجمہ

رحمان اور رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alrrahmani alrraheemi

الرحمن الرحیم کی صفت کو یہاں وسط سورت میں بطور ایک مستقل آیت پھر دہرایا جارہا ہے ۔ یہ رحمت و شفقت کے تمام معانی ‘ تمام حالات اور تمام وسعتوں کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ اور یہاں دوبارہ لانے کی غرض وغایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عالمگیر ربوبیت کی ان صفات کے ایک نہایت ہی ممتاز پہلو کو نمایاں کیا جائے اور خالق و مخلوق اور اللہ اور اس کے پروردہ بندوں کے درمیان ربط وتعلق کو حمد وثناپر ابھارتا ہے اور یہ وہ تعلق ہے جو اطمینان قلب کی اساس پر قائم ہے اور اس کی تاریں محبت کے ساتھ بھرے ہوئے دل میں جڑی ہوئی ہیں ۔ لہٰذا الحمد للہ درحقیقت انسانی فطرت کی وہ آواز ہے جو وہ اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت کے جواب میں بلند کرتی ہے ۔

اسلام نے اللہ اور رب کا جو تصور پیش کیا ہے وہ اس تصور سے سراسر مختلف ہے جو اولمپک (Olympic) خداؤں کے متعلق یونانی افکار نے پیش کیا ۔ اس تصور کے مطابق یہ قسی القلب خدا زمانہ امن اور حالت جنگ دونوں میں یکساں طور پر اپنے بندوں کے پیچھے پڑے رہتے تھے ۔ اور ایک دشمن کی طرح اپنے بندوں کے تعاقب میں لگے رہتے تھے ۔ لیکن اسلام کا الٰہ العالمین اپنے بندوں کے لئے وہ انتظامی تدابیر اختیار نہیں کرتا جن کا ذکر عہد نامہ قدیم کی منحرف روایات میں ہوا ہے ۔ مثلاً سفر تکوین کے باب 11 میں بابل کے متعلق جو داستان بیان کی گئی ہے وہ اس کی واضح ترین مثال ہے (” اور تمام زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی اور ایسا ہوا کہ مشرق کی طرف سفر کرتے ان کو ملک سنمار میں ایک میدان ملا اور وہاں بس گئے اور انہوں نے آپس میں کہا آؤ ہم اینٹیں بنائیں اور ان کو آگ میں خوب پکائیں ۔ سو انہوں نے پتھر کی جگہ اینٹ سے اور چونے کی جگہ گارے سے کام لیا ۔ پھر وہ کہنے لگے آؤہم اپنے واسطے ایک شہر اور ایک برج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے ‘ بنائیں اور یہاں اپنانام کریں ۔ ایسا نہ ہو کہ ہم تمام روئے زمین پر پراگندہ ہوجائیں اور خداوند اس شہر اور برج کو جس کو بنی آدم بنانے لگے ‘ دیکھنے کو اترا اور خداوند نے کہا دیکھو ! یہ لوگ سب ایک ہیں اور ان سبھوں کی ایک ہی زبان ہے ۔ وہ جو یہ کرنے لگے ہیں تو اب کچھ بھی جس کا وہ ارادہ کریں ان سے باقی نہ چھوٹے گا۔ سو آؤ ہم وہاں جا کر ان کی زبان میں اختلاف ڈالیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھ سکیں ۔ پس خداوند نے ان کو وہاں سے تمام روئے زمین میں پراگندہ کیا ۔ سو وہ اس شہر کے بنانے سے باز آئے ۔ اس لئے اس کا نام بابل ہوا کیونکہ خدا نے وہاں ساری زمین کی زبان میں اختلاف ڈالا اور وہاں سے خداوند نے ان کو تمام روئے زمین پر پراگندہ کیا۔ “ )

اردو ترجمہ

روز جزا کا مالک ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Maliki yawmi alddeeni

مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ ” روز جزاء کا مالک ہے۔ “ اس آیت میں اسلام کا وہ اصولی اور بنیادی عقیدہ بیان کیا گیا ہے ‘ جس کے اثرات پوری انسانی زندگی پر نہایت گہرے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے روزجزاء کے بارے میں ملکیت کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ جو قبضہ واستیلاء اور تصرف واختیار کے نہایت اعلیٰ درجے کو ظاہر کررہا ہے ۔ یوم الدین سے مراد قیامت کا روز جزاء ہے ۔ یاد رہے کہ نزول قرآن کے وقت بعض ایسے لوگ بھی تھے جو اللہ تعالیٰ کو الٰہ مانتے تھے ۔ اور اللہ کی صفت تخلیق پر بھی یقین رکھتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ اللہ ہی اس دنیا کو عدم سے وجود میں لایا ‘ اس کے باوجود وہ یوم جزاء اور حساب کتاب کے قائل نہ تھے ۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے : وَلَئِن سَاَلتَھُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ لَیَقُولُنَّ اللّٰہ ” اگر آپ نے ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہیں گے اللہ نے ۔ “ اور دوسری جگہ میں ہے : بَل عَجِبُوآ اَن جَآئَہُم مُّنذِرٌ مِّنہُم فَقَالَ الکٰفِرُونَ ھٰذَا شَیئٌ عَجِیبٌ، أَ اِذَا مِتنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ذٰلِکَ رَجعٌ م بَعِیدٌ(ق : 3۔ 2) ” انہیں یہ بات عجیب لگی کہ ان کے پاس خود ان میں سے ڈرانے ولا آیا ۔ کافروں نے کہا یہ اچھنبے کی بات ہے ۔ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہوجائیں گے تو پھر آنا عقل سے بعید کی بات ہے ۔ “

یوم آخرت پر ایمان اسلام کے اساسی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ہے اور لوگوں کے دل اور دماغ میں ‘ اس جہاں سے آگے ‘ دارآخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا کرنے میں اس کی اہمیت حددرجہ مسلمہ ہے ۔ اس عقیدے پہ ایمان لانے والے اس دنیائے دنی کی ضروریات کے حصول ہی میں منہمک نہیں ہوجاتے بلکہ اس عقیدے پر ایمان لانے کے بعد وہ دنیاوی حوائج و ضروریات سے بلند ہوکر سوچتے ہیں ۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ اس محدود مختصر عمر اور دنیا کے اس تنگ دائرہ مکافات میں انہیں اپنے اعمال حسنہ کی پوری جزاء ملتی ہے یا نہیں ۔ بلکہ ان کی تمام نیکی اور اللہ کی راہ میں تمام جدوجہد سے مقصود صرف اللہ کی رضاجوئی ہوتی ہے ۔ وہ اعمال کا بدلہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتے ہیں ۔ خواہ وہ اس دنیا میں ملے یا آخرت میں ملے ۔ وہ مطمئن رہتے ہیں ۔ انہیں حق وصداقت پر بھروسہ ہوتا ہے ۔ وہ حق پر جم جاتے ہیں اور وہ دولت یقین ‘ وسعت قلب ونظر اور حسن خلق کے مالک ہوجاتے ہیں .... غرض یہ اصولی عقیدہ اس بات کے لئے معیاروکسوٹی ہے کہ کوئی انسان محض اپنی خواہشات ومرغوبات کا بندہ و غلام ہے یا اسے انسان کی انسانیت کے لائق آزادی وحریت بھی حاصل ہے ۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس جہاں میں دنیاوی اقدار ‘ مادی تصورات اور جاہلیت کو برتری حاصل ہے یا ربانی اقدار ‘ روحانی تصورات اور اسلامی نظریہ حیات کو جاہلیت کی منطق پہ غلبہ حاصل ہے ۔ نیز اس اصولی عقیدے کے ذریعے وہ بلند مقام نکھر کر سامنے آتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے اور ناقص ‘ ناخالص اور منحرف تصورات حیات اور انسانیت کے اس بلند مقام کے درمیان فرق و امتیاز بھی واضح ہوجاتا ہے۔

جب تک انسانوں کے دل و دماغ میں یہ اصولی عقیدہ جاگزیں نہیں ہوجاتا ‘ اور لوگوں کے دلوں میں یہ اطمینان پیدا نہیں ہوجاتا کہ دنیاوی فوائد اور مادی مرغوبات انسان کا پورا مقدر نہیں ہے اور جب تک محدود عمر رکھنے والا یہ انسان ‘ یہ یقین نہیں کرلیتا کہ ایک آنے والی زندگی بھی ہے اور اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اگلے جہاں اور اس زندگی کے لئے بھی محنت کرے ‘ اس کے لئے قربانی دے ‘ حق کی نصرت کرے ‘ بھلائی میں تعاون کرے اور یہ کہ ان سب باتوں کا اجر اسے آخرت میں ملے گا ‘ اس وقت تک انسانی زندگی اسلامی نظام حیات کے مطابق استوار نہیں ہوسکتی ۔

عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے والا اور اس کا انکار کرنے والا اخلاق و شعور اور فکر وعمل میں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے ۔ لہٰذا یہ دونوں گروہ اللہ کی مخلوقات کے علیحدہ علیحدہ انواع ہیں ۔ یہ دونوں مختلف طبائع رکھتے ہیں اور اس دنیا میں ان دونوں کا طرز عمل ہرگز ایک نہیں ہوسکتا اور نہ آخرت میں یہ دونوں ایک ہی طرح کے جزاء کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں ۔ لہٰذا یہ عقیدہ ان دونوں کے درمیان ایک واضح فرق و امتیاز کا باعث بن جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Iyyaka naAAbudu waiyyaka nastaAAeenu

اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ ” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔ “ یہ بھی ایک اصولی عقیدہ ہے اور اس سے پہلے جن عقائد کا ذکر ہوا ہے انہی کا منطقی نتیجہ ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی بندگی اور عبادت کے قابل نہیں ہے ‘ اور نہ کوئی اس قابل ہے کہ اس سے مدد مانگی جائے ۔ یہ عقیدہ بھی اس میدان میں حق و باطل کے درمیان فرق کرکے رکھ دیتا ہے ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ہر قسم کی غلامیوں سے مکمل آزادی کیا ہوتی ہے ‘ اور انسان کی جانب سے دوسرے انسانوں کی غلامی کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ اصول دراصل اس بات کا اہم اعلان عام ہے کہ انسان کو مکمل اور بھرپور آزادی ملنی چاہئے ۔ اوہام و خرافات کی پیروی سے آزادی ‘ غلط اوضاع واطوار کی پابندی سے آزادی اور باطل نظام زندگی کی اطاعت سے آزادی صرف ایک اللہ کی بندگی رہے اور صرف ایک اللہ سے نصرت طلب ہو تو انسانی ضمیر کو دوسرے انسانوں ، جاہلی نظامہائے حیات اور رسم و رواج کی جکڑبندیوں سے آزادی نصیب ہوتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اوہام و خرافات اور مذہبی دیومالائی تصورات (Mythology) اور کائناتی قوتوں (Physical Power) کے بارے میں ایک مسلمان کے نقطہ نظر کو واضح کردیاجائے ۔

ایک مسلمان کے نقطہ نظر سے انسانی قوت واقتدار کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک وہ قوت ہے جو ہدایت اور صراط مستقیم پر قائم ہوتی ہے اور اسلامی نظام زندگی کی مطیع ہوتی ہے ۔ اس کے بارے میں ایک مسلم کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ وہ بھلائی ، سچائی اور اصلاحی کاموں میں اس کا معاون و مددگار ہوتا ہے اور اسے اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے ۔ دوسری جاہلی قوت ہوتی ہے جو صراط مستقیم سے بھٹکی ہوئی ہوتی ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کی مطیع نہیں ہوتی ۔ اس کے بارے میں ایک مسلمان کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرتا ہے ، اس سے لڑتا ہے اور اسے ختم کرکے اس کی جگہ صحیح قوت واقتدار قائم کرنے میں مدد دیتا ہے ۔

یادرکھیئے ! مسلم کو جاہلی قوت کی ظاہری جسامت اور شان و شوکت کو دیکھ کر مضطرب نہ ہونا چاہیے ۔ کیونکہ ایک مسلمان کے لئے قوت کا اصل سرچشمہ ذات باری ہے ۔ اور جاہلیت اپنی طاقت کے اس اصل سرچشمے کو کھوچ کی ہوتی ہے ، جو مسلسل اور دائمی طور پر انسان کو قوت فراہم کررہا ہوتا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اجرام فلکی میں سے کوئی عظیم جسم جب کسی جلتے ہوئے ستارے سے جدا ہوتا ہے تو بہت دیر نہیں گزرتی کہ وہ بجھ کر رہ جاتا ہے ۔ اس کی روشنی مدہم اور تپش ختم ہوجاتی ہے ، اگرچہ اس کا ظاہری جسم عظیم الشان ہو۔ لیکن اس کے برعکس اگر ایک حقیر ذرہ بھی اپنی قوت اور روشنی کے اصل منبع سے جڑا ہوتا ہے تو وہ اس سے مسلسل حرارت و روشنی حاصل کرتا رہتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے : کَم مِّن فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَت فِئَةً کَثِیرَةً م بِاِذنِ اللہ ِ ” بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل جماعت نے اللہ کے حکم سے ایک کثیر جماعت پر غلبہ پایا “ (البقرہ : 249) ۔

رہی طبیعاتی قوت تو اس کے ساتھ ایک مومن کا تعلق علم ومعرفت اور دوستی وہم آہنگی کا تعلق ہوتا ہے ۔ خوف اور دشمنی کا تعلق نہیں ہوتا ۔ کیونکہ انسانی اور طبعی دونوں قوتیں ایک مصدر اور ایک مشیت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ یعنی ارادہ ربی کے تابع ہوتی ہیں اور دونوں خالق کائنات کے ارادوں کے سامنے محکوم ومقہور ہیں ۔ ان کے درمیان مکمل آہنگی اور پوراتعاون ہے۔ وہ یکساں طور پر متحرک ہوتی ہیں اور ان کی حرکت کی سمت بھی ایک ہوتی ہے ۔

ایک مسلمان کا عقیدہ اور نظریہ حیات ہی اسے یہ سکھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بنایاہی اس لئے ہے کہ مومن اس کا دوست ، معاون اور پشتیبان ہو اور اس دوستی کا تحقق اس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک مومن کائنات میں غور وفکر کرے ، اس سے متعارف ہو ۔ اس کے ساتھ تعاون کرے اور اس کائنات کے ساتھ مل کر اپنے رب کی طرف منہ موڑے۔ اگرچہ بظاہر بعض اوقات طبعی قوتیں انسان کے لئے باعث مضرت ہوتی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہوتی ہے انسان ان کے سمجھنے میں غلطی کرتا ہے ۔ وہ ان کے بارے میں گہری سوچ وبچار نہیں کرتا اور وہ اس اصلی طاقت کو بھول جاتا ہے جو اس پوری کائنات کو چلارہی ہے۔

رومی جاہلیت کے وارث مغرب کے ہاں یہ فیشن سا ہوگیا ہے کہ وہ طبعی طاقتوں کے استعمال کو ” تسخیر طبیعت “ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ تعبیر صاف صاف بتارہی ہے کہ اس جاہلیت کا رشتہ رب کائنات سے ٹوٹ چکا ہے اور اسے کائنات کی اس روح سے کوئی تعلق نہیں ہے جو اللہ کو لبیک کہہ رہی ہے ۔ رہا وہ مسلمان جس کا دل رحمان ورحیم سے متعلق ہے اور وہ اس کائنات سے بھی پیوستہ ہے جو اللہ رب العالمین کی تسبیح وتہلیل میں ہر قوت محو ہوتی ہے ، وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ قہر وجفا کے علاوہ کائنات کے ساتھ تعلق کی ایک دوسری نوعیت بھی ہے ۔ اس کا یہ ایمان ہوتا ہے کہ اللہ ہی اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہے ۔ اسی نے اس پوری کائنات اور اس کی تمام قوتوں کو پیدا کیا ہے ۔ اور اس کے لئے قانون قدرت کا ضابطہ کار مقرر کیا تاکہ یہ تمام قوتیں ، اس کے دائرے کے اندر اندر ، وہ مقاصد پورے کریں جو اللہ کو مطلوب ہیں ۔ اللہ نے اس کائنات کو صرف انسان کے لئے پیدا کیا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سہولت دی کہ وہ اس کے قوانین و ضوابط کو سمجھ سکے اور اس کے بھیدوں کو پاسکے ۔ جب بھی وہ ان رازوں میں سے کسی نئے راز کو پالے تو اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کیونکہ اللہ ہی ہے جس نے اس کیلئے اس کائنات کو مسخر کیا ہے ۔ ازخود انسان کے بس میں یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرے کیونکہ اللہ ہی ہے جس نے اس کے لئے اس کائنات کو مسخر کیا ہے۔ ازخود انسان کے بس میں یہ بات نہ تھی کہ وہ اس کائنات کو مسخر ومغلوب کرسکتا۔ سَخَّرَ لَکُم مَّا فِی الاَرضِ ۔” مسخر کیا اس نے تمہارے لئے ان سب چیزوں کو جو زمین میں ہیں۔ “

اس تصور کے نتیجے میں ، ان کائناتی قوتوں کے بارے میں ایک مومن کا احساس و شعور ، ہر قسم کے اوہام و خرافات سے پاک ہوتا ہے ۔ اس کے اور ان کائناتی قوتوں کے درمیان خوف وہراس کے پردے حائل نہیں ہوتے ۔ وہ صرف خدائے واحد پر ایمان لاتا ہے ، صرف خدائے واحد کی بندگی کرتا ہے اور صرف رب یکتا سے نصرت کا طلب گار ہوتا ہے ۔ رہیں یہ طبعی قوتیں تو اس کے تصور کائنات کی رو سے، یہ بھی اللہ کی مخلوقات کا ایک حصہ ہوتی ہیں۔ وہ ان میں غور وفکر کرتا ہے ، ان میں دلچسپی لیتا ہے ، اور ان کے بھیدوں کو پانے کی کوشش کرتا ہے ، اس کے جواب میں یہ تکوینی قوتیں اس کی مددگارہوتی ہیں اور اس کے سامنے اپنے رازکھول کر رکھ دیتی ہیں اور وہ ان قوتوں کے ساتھ پرامن ” شفیقانہ “ ایک صدیق صمیم اور یار مانوس کی سی زندگی بسر کرتا ہے ۔ جبل احد کی طرف نظر اٹھاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے کیا خوب کہا ” یہ پہاڑ ہے اسے ہم سے محبت ہے اور ہمیں اس سے محبت ہے ۔ “ یہ کلمات اس حقیت کا اظہار کررہے ہیں کہ مسلم اول حضرت نبی ﷺ کے دل میں اس کائنات کی ٹھوس ترین شکل ایک پہاڑ کی بھی کس قدر وقعت اور محبت تھی اور ان کو اس کے ساتھ کس قدر لگاؤ تھا۔

اسلامی تصور حیات کی ان اصولی باتوں کے بعد اور اس بات کی وضاحت کے بعد کے عبادت واستعانت میں ایک مسلم کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا ہوتا ہے ۔ اب ان باتوں کی عملی تطبیق شروع ہوتی ہے ۔ دعا اور تضرع کے ذریعے اب بندہ مومن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور یہ دعا بھی ایک اصولی دعا ہے جو اس صورت کی اصولی فضاء اور اس کے مجوعی مزاج سے مکمل ہم آہنگی اور مطابقت رکھتی ہے۔

اردو ترجمہ

ہمیں سیدھا راستہ دکھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ihdina alssirata almustaqeema

ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔

” ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔ یعنی ہمیں سیدھے اور منزل مقصود تک پہنچانے والے راستے کو سمجھنے کی توفیق دے۔ اور اس کو سمجھنے کے بعد اس پر چلنے کی استقامت دے ۔ کیونکہ معرفت حق اور پھر اس پر استقامت دراصل اللہ کی رحمت شفقت اور رہنمائی کا ثمرہ ہوتی ہے اور اسی بارے میں اللہ کی طرف رجوع کرنا دراصل عقیدہ توحید کا ثمرہ ہے۔ لہٰذا ایک مومن جن معاملات میں اپنے رب سے مدد اور نصرت طلب کرتا ہے ان میں سے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق کی دعا ایک نہایت ہی اہم اور عظیم مطلوب ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا وعقبیٰ کی سعادت اس پر موقوف ہے کہ انسان جادہ مستقیم کی طرف راہنمائی پائے ۔ اور جادہ مستقیم تک رسائی دراصل اس الٰہی ناموس تک رسائی ہوتی ہے جو اس پوری کائنات کی حرکت اور اس کے اندر اس چھوٹے سے انسان کی حرکت کے درمیان توازن وتناسق پیدا کررہا ہے اور ان دونوں کو اللہ رب العالمین کی طرف متوجہ کررہا ہے۔

اس کے بعد باری تعالیٰ اس راستے کی حقیقت کو بیان فرماتے ہیں ” وہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے انعام فرمایا ، جو معتوب نہیں ہوئے اور جو بھٹکے ہوئے نہیں۔ “ یعنی ان لوگوں کا راستہ جن کی قسمت میں اللہ کا انعام لکھا ہوا ہے اور ان لوگوں کا راستہ نہیں جنہوں نے حق کو جانا اور پھر اس سے روگردانی اختیار کی ۔ یا جو سرے سے راہ حق کی معرفت ہی سے محروم رکھے گئے ۔ اور ہدایت ہی نہ پاسکے ۔ بلکہ ان لوگوں کی راہ سعادت مند اور واصلین حق ہیں ۔

غرض یہ ایک مختصر اور بکثرت نماز میں دہرائے جانے والی سورت ہے ، جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور مختصر ہونے کے باوجود اسلامی نظریہ حیات کے نہایت ہی اہم اور اصولی عقائد پر مشتمل ہے ۔ نیز اس میں وہ شعوری ہدایات دی گئی ہیں جن کے سرچشمے اسلامی تصور حیات سے پھوٹتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sirata allatheena anAAamta AAalayhim ghayri almaghdoobi AAalayhim wala alddalleena

ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا ، جو معتوب نہیں ہوئے اور جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ “

صحیح مسلم میں حضرت علاء رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں :” اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان پورا پورا تقسیم کردیا ہے ۔ نصف اپنے لئے اور نصف بندے کے لئے اور میرے بندے کے لئے وہ سب کچھ ہے جو وہ طلب کرے ۔ جب بندہ کہتا ہے الحمد للہ رب العالمین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” میرے بندے نے میری حمد اور تعریف کی “ اور جب بندہ الرحمن الرحیم ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” میرے بندے نے میری ثناء کی “ جب وہ مالک یوم الدین پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی ۔ اور جب وہ کہتا ہے ” إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ “ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے کے لئے وہ کچھ ہے جو اس نے طلب کیا اور جب وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ…….. وَلا الضَّالِّينَ ” تک پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے بندے کے لئے ہے اور اس کے لئے وہ کچھ ہے جو اس نے مانگا۔ “

اس بیان اور تفسیر کی روشنی میں وہ حکمت کھل کر سامنے آجاتی ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس سورت کو کم ازکم سترہ مرتبہ نماز کے دوران پڑھنا فرض قرار دیا ہے ‘ اور اگر کوئی اس سے زیادہ پڑھتا ہے تو یہ اس سے بھی زیادہ مرتبہ دہرائی جاتی ہے۔

1