سورہ کہف (50): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Qaaf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ ق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ کہف کے بارے میں معلومات

Surah Qaaf
سُورَةُ قٓ
صفحہ 518 (آیات 1 سے 15 تک)

قٓ ۚ وَٱلْقُرْءَانِ ٱلْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوٓا۟ أَن جَآءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ ٱلْكَٰفِرُونَ هَٰذَا شَىْءٌ عَجِيبٌ أَءِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِيدٌ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ ٱلْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِندَنَا كِتَٰبٌ حَفِيظٌۢ بَلْ كَذَّبُوا۟ بِٱلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ فَهُمْ فِىٓ أَمْرٍ مَّرِيجٍ أَفَلَمْ يَنظُرُوٓا۟ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَٰهَا وَزَيَّنَّٰهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ وَٱلْأَرْضَ مَدَدْنَٰهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَٰسِىَ وَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيجٍ تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ وَنَزَّلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً مُّبَٰرَكًا فَأَنۢبَتْنَا بِهِۦ جَنَّٰتٍ وَحَبَّ ٱلْحَصِيدِ وَٱلنَّخْلَ بَاسِقَٰتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِۦ بَلْدَةً مَّيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ ٱلْخُرُوجُ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَٰبُ ٱلرَّسِّ وَثَمُودُ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَٰنُ لُوطٍ وَأَصْحَٰبُ ٱلْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ ٱلرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ أَفَعَيِينَا بِٱلْخَلْقِ ٱلْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِى لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ
518

سورہ کہف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ کہف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ق، قسم ہے قرآن مجید کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaf waalqurani almajeedi

درس نمبر 247 ایک نظر میں

یہ اس سورت کا پہلا سبق ہے۔ اس کا موضوع مسئلہ بعث بعد الموت ہے۔ مشرکین مکہ اس کا انکار کرتے تھے بلکہ جو لوگ بعث بعد الموت کے قائل تھے وہ ان کی جانب سے یہ عقیدہ رکھنے پر تعجب کرتے تھے۔ لیکن قرآن صرف ان کے اس غلط خیال ہی کو موضوع بحث نہیں بناتا۔۔۔۔ ۔ انکار پر بحیثیت مجموعی تنقید کرتا ہے اور ان کی اصلاح کر کے اور ان کی کج فکری کو درست کر کے ان کو سچائی کی راہ کی طرف لوٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن کریم کی سعی یہ ہے کہ ان کے غافل دلوں کو جھنجھوڑے اور خوب جگائے تا کہ وہ اس کائنات کے اندر جو عظیم حقائق ہیں ، ان کو سمجھنے کے لئے اپنے دل کے دروازے کھولیں ۔ اس لیے قرآن کریم محض منطقی انداز مناظرہ میں ان کے ساتھ موضوع بعث بعد الموت پر کوئی مباحثہ نہیں کرتا ۔ وہ صرف ان کے مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے۔ ان کے زنگ آلود دماغ کو صیقل کرتا ہے کہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔ وہ ان کے وجدان کو چھوتا ہے تا کہ اس کے اندر احساس تیز ہو اور وہ اپنے ماحول کے اندر پائے جانے والے حقائق سے براہ راست متاثر ہو سکے۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جس سے وہ لوگ خوب استفادہ کرسکتے ہیں جن کا کام دلوں کی اصلاح کرنا ہو۔

سورت کا آغاز حرف ق اور قرآن مجید کی قسم سے ہوتا ہے ، مطلب یہ کہ یہ قرآن مجید تو ایسے ہی حروف سے مرکب ہے اور لفظ قرآن کا پہلا حرف ہی قاف ہے۔

٭٭٭٭٭

یہاں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ کس بات پر قسم اٹھائی جا رہی ہے۔ یہ قسم کلام کے آغاز میں ہے۔ اس کا پہلا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے کلام کا آغاز قسم سے کر رہا ہے ، لہٰذا بیدار ہوجاؤ، معاملہ غیر معمولی ہے۔ اللہ اور قسم ، لہٰذا معاملہ خطرناک ہے۔ شاید اس آغاز کا مقصد یہی ہے کیونکہ بجائے اس کے کہ بعد میں وہ بات ذکر کی جائے جس کے لئے قسم اٹھائی جا رہی ہے ، حرف اضراب “ بل ” کو لایا گیا ہے۔ کیونکہ قسم نے مخاطب پر خوب اثر ڈال دیا۔ اس لیے اب ان کے تعجب اور بعث بعد موت کو ایک “ انہونی بات سمجھنے ” کے موضوع کو لیا جاتا ہے ، اس اندز میں کہ گویا مشرکین کے سامنے جب رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ اٹھائے جانے کی بات کی تو انہوں نے اس کا یوں انکار کردیا گویا کفار کے نزدیک یہ ایک نئی بات ہے۔

اردو ترجمہ

بلکہ اِن لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود اِنہی میں سے اِن کے پاس آگیا پھر منکرین کہنے لگے "یہ تو عجیب بات ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal AAajiboo an jaahum munthirun minhum faqala alkafiroona hatha shayon AAajeebun

بل عجبوا ان ۔۔۔۔۔ شییء عجیب (2) ء اذا متنا ۔۔۔۔۔۔ رجع بعید (50 : 2 تا 3) “ بلکہ ان لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود انہی میں سے ان کے پاس آگیا۔ پھر منکرین کہنے لگے : “ یہ تو عجیب بات ہے ، کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہوجائیں گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے) ؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے ”۔

کیا یہ بات قابل تعجب ہو سکتی ہے کہ ایک ڈرانے والا ان میں سے آگیا ۔ اس میں تو کوئی تعجب نہیں بلکہ یہ تو بالکل ایک قدرتی بات ہے اور فطرت سلیمہ اسے بڑی سادگی اور خوشی خوشی قبول کرتی ہے۔ یہ نہایت ہی معقول بات ہے کہ لوگوں کا مصلح اپنی قوم میں سے ہو ، لوگون کے احساسات میں ، ان کے ساتھ شریک ہو ، انہی جیسا شعور رکھتا ہو ، ان کی زبان بولتا ہو ، ان کی زندگی اور ان کی دوڑ دھوپ اور غم درد میں شریک ہو ، ان کے میلانات اور جذبات کو جانتا ہو ، ان کی طاقت اور حد برداشت سے واقف ہوتا کہ وہ انہیں بتلائے کہ جس شرک ، ظلم اور بد عملی میں وہ مبتلا ہیں ، اس کے نتیجے میں بہت ہی برا انجام ان کے انتظار میں ہے اور تا کہ ان کو سکھائے کہ انہوں نے کس طرح سیدھا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اور جدید دعوت کو اگر وہ قبول کرلیں تو انہیں اپنے اندر کیا کیا تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ اور ان تبدیلیوں اور فرائض اور ذمہ داریوں میں وہ پہلا شخص ہوگا اور ان کے ساتھ شامل ہوگا۔

ان کو خود رسالت پر تعجب تھا۔ پھر جو رسول آیا اس نے اپنی دعوت میں سے عقیدہ بعث بعد الموت پر زیادہ زور دینا شروع کردیا۔ کیونکہ اسلامی نظام کا دارومدار ہی آخرت کی جواب دہی کے عقیدے پر ہے۔ آخرت کی جوابدہی کے عقیدے ہی کے تمام مطلوبہ اعمال تقاضے ہیں۔ مسلم کا پہلا فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ حق پر قائم ہو اور باطل کو نیچا دکھائے۔ وہ خیر کو لے کر اٹھے اور شرکا خاتمہ کر دے۔ اس کی پوری سرگرمی اللہ کی بندگی ہو۔ وہ ہر حرکت میں اللہ کی طرف متوجہ ہو ، اور تمام اعمال پر اس کے لئے جزاء ضروری ہے۔ کبھی تو یہ جزاء دنیا ہی میں ملتی ہے لیکن پوری جزاء صرف آخرت ہی میں مل سکتی ہے۔ ہر انسان کا آخری حساب و کتاب آخرت میں ہوگا۔ لہٰذا عالم آخرت نہایت منطقی اور ضروری ہے۔ لوگوں کو اٹھایا جانا ضروری ہے کہ وہ زندگی کا حساب دیں۔ جب کسی کے ذہن سے آخرت کی جوابدہی کا احساس ہی ختم ہوجائے تو اس شخص کی زندگی سے وہ تمام اعمال و اخلاق ناپید ہوجاتے ہیں جو اس عقیدے پر مبنی ہوں۔ ایسا شخص کم از کم ایک مسلمان ہرگز نہیں ہو سکتا۔

لیکن ان لوگوں نے اس مسئلے کو اس زاویہ سے نہیں دیکھا ۔ انہوں نے بالکل ایک دوسرے زاویہ سے اور بالکل ایک سادہ نقطہ نظر سے دیکھا ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے موت وحیات کی حقیقت پر بالکل غور نہیں کیا اور نہ انہوں نے اللہ کے نظام قضا وقدر کے کسی پہلو پر غور کیا۔ اس لئے وہ اس کے قائل ہوئے ۔

اردو ترجمہ

کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے)؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aitha mitna wakunna turaban thalika rajAAun baAAeedun

ء اذا متنا وکنا ترابا ذلک رجع بعید (50 : 3) ” کیا جب ہم مرجائیں گے اور خاک ہوجائیں گے ! یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے “۔ ان کی نظروں کی میں مسئلہ یہ ہے کہ مرنے اور خاک ہوجانے کے بعد زندگی کا دوبارہ پیدا ہونا مستعبد ہے اور یہ ایک نہایت ہی سادہ نظریہ ہے۔ کیونکہ ایک دفعہ جب مردہ مٹی میں زندگی ڈال دی گئی ہے تو دوبارہ مٹی میں اسی طرح زندگی ڈالنا کیا مشکل کام ہے جبکہ یہ معجزہ ان کے سامنے ہر لحظہ رو بعمل ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کائنات کے ہر پہلو میں ہو رہا ہے۔ اس سورت میں قرآن کریم نے ان کو اس نکتے کی طرف متوجہ کیا ہے۔

لیکن قبل اس کے کہ زندگی کی اس نمائش گاہ کے بارے میں ہم قرآن مجید کے اشارات اور تکوینی دلائل پر کوئی بات کریں۔ مناسب ہے کہ مرنے اور مٹی ہونے کی طرف انہوں نے جو اشارہ کیا اور جسے قرآن نے نقل کر کے اس پر تبصرہ کیا ، اس پر ذرا غور کریں۔

ء اذا متنا وکنا ترابا (50 : 3) ” کیا جب ہم مرجائیں گے اور خاک ہوجائیں گے “۔ ہاں ہم مر جائیں اور مٹی بھی ہوجائیں گے جو بھی قرآن کے ان الفاظ کو پڑھتا ہے جو قرآن نے کفار کے منہ سے لیے ہیں ، وہ اپنی ذات پر نگاہ ڈالتا ہے اپنے اردگرد دوسرے زندہ اشیاء کو دیکھتا ہے۔ اور وہ موت اور مٹی ہونے کے عمل پر ضرور غور کرتا ہے بلکہ جب وہ زندہ ہوتا ہے اور پھر رہا ہوتا ہے تو بھی وہ محسوس کرتا ہے کہ شاید مٹی ہونے کا عمل اس کے جسم میں جاری ہوچکا ہے۔ غرض موت کے سوا اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا تصور انسان کا دل ہلانہ دیتا ہو اور پھر قبر میں مٹی ہوجانے کے تصور ہی سے انسان کانپنے لگتا ہے۔

اردو ترجمہ

زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad AAalimna ma tanqusu alardu minhum waAAindana kitabun hafeethun

اس پر جو تبصرہ قرآن کرتا ہے وہ اس اثر کو مزید گہرا کردیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ زمین اس جسم کو آہستہ آہستہ کھاتی ہے۔

قد علمنا ما۔۔۔۔۔ کتب حفیظ (50 : 4) ” ( حالانکہ ) زمین ان کے جسم میں سے جو چکھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے “۔

انداز تعبیر ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ زمین کو زندہ اور متحرک کردیا گیا ہے اور وہ ان اجسام کو کھا رہی ہے جو اس کے منہ میں آہستہ آہستہ غائب ہو رہے ہیں۔ اور یہ زمین ان اجسام کو کھا رہی ہے ، نہایت آہستگی کے ساتھ۔ اور پھر ان کے اجسام کو یوں دکھایا گیا ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ کھائے جا رہے ہیں۔ زمین ان کے جسم کے جس حصے کو کھاتی ہے ، اسے اللہ جانتا ہے اور وہ لکھا جا رہا ہے کہ وہ حصہ کہا ہے۔ اس لئے ان کے جسم کے ذرے ، مرنے کے بعد کہیں گم نہیں ہوجاتے۔ رہی یہ بات کہ اس مٹی میں روح کس طرح ڈال دی جائے گی تو یہ بات تو ایک بار ہوچکی ہے ۔ اور ان کے اردگرد جو لاتعداد زندہ اشیاء پیدا کی جا رہی ہیں اور جن کی کوئی انتہا نہیں ہے ان کو تو وہ دیکھ رہے ہیں۔

یوں دلوں کو اس قدر تیز احساس دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ دل پگھل جاتے ہیں اور نرم ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر احساس کو اس قدر تیز احساس دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ دل پگھل جاتے ہیں اور نرم ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر احساس کو اس قدر تیز کردیا جاتا ہے کہ وہ بات کو جلدی مانتے ہیں۔ یہ بطور تمہید اصل مقصود بالذات بات کہنے سے پہلے کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

بلکہ اِن لوگوں نے تو جس وقت حق اِن کے پاس آیا اُسی وقت اُسے صاف جھٹلا دیا اِسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal kaththaboo bialhaqqi lamma jaahum fahum fee amrin mareejin

اس کے بعد ان کی شخصیت کا تجزیہ کر کے بتایا جاتا ہے اور وہ اصل سبب بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ وہی اعتراضات وہ کرتے ہیں یہ کہ انہوں نے سچائی کا مضبوط پلیٹ فارم چھوڑ دیا ہے ، ان کے پاؤں کے نیچے زمین ہی نہیں ہے۔ اس لیے یہ کسی موقف پر جم ہی نہیں سکتے۔

بل کذبوا بالحق لما جاءھم فھم فی امر مریج (50 : 5) “ بلکہ ان لوگوں نے تو جس وقت حق ان کے پاس آیا اسی وقت اسے صاف جھٹلا دیا۔ اسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں “۔

یہ بھی ایک نہایت منفرد انداز تعبیر ہے۔ جو لوگ مستقل سچائی کو ترک کرتے ہیں تو پھر ان کے قدم کسی جگہ نہیں جم سکتے۔

سچائی ایک ایسا نقطہ ہے جس پر وہ شخص قائم ہوتا ہے جو سچائی پر ایمان لاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے قدموں میں کوئی لغزش نہیں ہوتی ۔ اس روش میں اضطراب نہیں ہوتا کیونکہ اس کے قدموں کے نیچے زمین مضبوط ہوتی ہے۔ اس میں کوئی زلزلہ نہیں آتا اور نہ اس کا کوئی حصہ زمین میں دھنستا ہے جبکہ اس کے ماحول کے دوسرے افراد ڈانواں ڈول ، مضطرب ، بےثبات اور دولت یقین سے محروم ہوتے ہیں۔ نہ ان میں کوئی مضبوط کردار ہوتا ہے اور نہ وہ مشکلات برداشت کرسکتے ہیں۔ جس نے بھی حق سے تجاوز کرلیا اور ادھر ادھر ہوگیا ، وہ پھسل گیا۔ اور ثبات وقرار سے محروم ہوگیا۔ اور اسے کبھی اطمینان نہ ہوگا۔ وہ ہر وقت شک ، پریشانی اور بےچینی میں مبتلا رے گا۔

پھر جو شخص سچائی کو چھوڑ دے تو ہر طرف سے خواہشات نفس کی آندھیاں چلنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ میلانات و خواہشات ، بدلتی ہوئی خواہشات ، اسے کسی ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتیں ۔ حیران و پریشان ، افتاں و خیزاں کبھی ادھر دوڑتا ہے ، کبھی ادھر بھاگتا ہے۔ جہاں کھڑا ہوتا ہے وہاں مطمئن نہیں ہوتا۔ پاگلوں کی طرح کبھی دائیں ، کبھی بائیں ، کبھی آگے کبھی پیچھے دوڑتا رہتا ہے۔ اس کے لئے کوئی جائے امن وقرار نہیں ہوتی۔

یہ ایک عجیب انداز بیان ہے کہ وہ ” امر مریج “ میں پھنسا ہوا ہے ۔ ایسی حالت میں جس میں الجھن ہو اور وہ فیصلہ نہ کرسکتا ہو اور دائمی خلجان میں گرفتار ہو۔ انداز بیان ایسا ہے کہ ایسے شخص کی اندرونی کیفیات کو اس کی حرکات ظاہر کر رہی ہیں اور لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

اچھا، تو کیا اِنہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afalam yanthuroo ila alssamai fawqahum kayfa banaynaha wazayyannaha wama laha min furoojin

مضمون یہ چل رہا تھا کہ یہ لوگ بعث بعد الموت اور حشر ونشر کے قائل نہ تھے۔ اس کے لئے بتایا گیا تھا کہ اس کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ اس کائنات کی بنیاد حق پر ہے جو اس کے اندر جما ہوا ہے اور پہاڑ کی طرح بلند نظر آتا ہے۔ لہٰذا اب یہاں اس کائنات کے اندر پائے جانے والے حق کے بعض مناظر پیش کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ذرا آسمانوں اور زمین پر غور کرو ، زمین کے اندر جمے ہوئے پہاڑوں کو دیکھو۔ آسمانوں سے برسنے والی بارشوں کو دیکھو ، بلندیوں تک بڑھنے والے کھجور کے درختوں کو دیکھو ، با غات و نباتات کو دیکھو ، یہ سب حق کی علامات ہیں۔ جس طرح یہ چیزیں مستقل ہیں ، حق بھی مستقل ہے۔ نہایت ہی خوبصورت انداز میں تعبیر میں سچائی کی یہ مثالیں۔

افلم ینظروا الی ۔۔۔۔۔۔۔ من فروج (50 : 6) “ اچھا ، تو کیا انہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا ؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا ، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے “۔

یہ آسمان اس کائنات کی کتاب کا ایک صفحہ ہے۔ یہ کتاب اس سچائی پر گواہ ہے جس کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں۔ یہ دیکھتے نہیں کہ اس کائنات میں کس قدر بلندی ، ثبات اور قرار ہے ۔ اور پھر ان آسمانوں میں زیب وزینت اور کمال و جمال ہے اور ان کے نظام میں کوئی خلل اور کوئی اضطراب نہیں ہے۔ ثبات اور کمال و جمال آسمان کی صفت ہے اور یہ صفات یہاں انداز بیان کے اندر بھی ایک ہم آہنگی پیدا کرتی ہے کیونکہ حق میں بھی کمال و جمال اور ثبات وقرار ہوتا ہے۔ چناچہ آسمانوں کے لئے جمیعت ، خوبصورتی ، دوام اور سوراخوں اور دراڑوں سے پاک ہونے کی صفات لائی گئی ہیں۔

اردو ترجمہ

اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ جمائے اور اُس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اگا دیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalarda madadnaha waalqayna feeha rawasiya waanbatna feeha min kulli zawjin baheejin

ایسی ہی صفات زمین کے لئے استعمال ہوئی ہیں کیونکہ زمین بھی اس کائنات کی کتب کا ایک سور ہے۔ اور اسے ثبات اور کمال و جمال اور قرار حاصل ہے۔ زمین کو آسمانوں کے بالمقابل لایا گیا۔

والارض مددنھا ۔۔۔۔۔ کل زوج بھیج (50 : 7) ” اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ جمائے اور اس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اگادیں ”۔

زمین کا بچھایا ہوا ہونا ، پہاڑوں کا جما ہوا ہونا اور نباتات کا خوبصورت ہونا ، تمام صفات کمال و جمال دکھانے والی چیزیں ہیں اور بادی النظر میں یہ صفات نظر آتی ہیں۔ آسمان کی خوبصورت اور طویل و عریض تعمیر ، اور بچھی ہوئی زمین اور بلند وبالا پہاڑوں کے مناظر دکھا کر ان لوگوں کے دل و دماغ کو ایک نکتے کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے۔

اردو ترجمہ

یہ ساری چیزیں آنکھیں کھولنے والی اور سبق دینے والی ہیں ہر اُس بندے کے لیے جو (حق کی طرف) رجوع کرنے والا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tabsiratan wathikra likulli AAabdin muneebin

تبصرۃ وذکری لکل عبد منیب (50 : 8) ” یہ ساری چیزیں آنکھیں کھولنے والی اور سبق دینے والی ہیں ہر اس بندے کے لئے جو (حق کی طرف ) رجوع کرنے والا ہو ”۔

یہ بصیرت عطا کرنے والی باتیں ہیں۔ بصارت دینے والی باتیں ہیں اور دلوں کو قبولیت حق کے لئے کھولنے والی باتیں ہیں۔ اس مطالعہ سے انسانی دل و دماغ اور انسانی روح اس کائنات کے ساتھ جڑ جاتی ہے اور اس حکمت ، تربیت اور کمال تخلیق کو پا لیتی ہے جو اس کے اندر موجود ہے اور پھر جن لوگوں کا دل اپنے معبود کی طرف مائل ہوتا ہے وہ اپنے رب کے کمالات کو دیکھ کر لوٹ جاتا ہے۔

یوں انسانی دل اور اس عظیم اور خوبصورت کائنات کے درمیان اتحادو اتصال پیدا ہوجاتا ہے۔ انسان کتاب کائنات کا مطالعہ کرتا ہے اور اس کائنات سے متعارف ہوتا ہے اور انسانی دل اور انسانی سوچ پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ اور انسانی زندگی پر یہ تعلق اور رابطہ اثر انداز ہوتا ہے اور یہ وہ روابطہ ہے جو قرآن سائنس اور معرفت الٰہی کے درمیان پیدا کرتا ہے۔ یعنی اس معرفت کے درمیان جو انسان رکھتا ہے اور اس حقیقت کے درمیان جو سائنسی علم رکھتا ہے اور ہمارے دور میں علم کا جو سائنسی منہاج مروج ہے اس میں یہ حقیقت نہیں ہے۔ یہ رابطہ نہیں ہے۔ یوں اللہ نے انسانوں اور اس کائنات کے درمیان جس کے اندر وہ رہتے ہیں ایک تعلق پیدا کیا تھا اور جدید دور کے اہل علم اور سائنس دانوں نے یہ تعلق کاٹ دیا ہے۔ انسان اس کائنات کا حصہ ہے اور جب تک وہ اس کائنات کا ہمدم نہیں ہوگا اس وقت تک اس کی زندگی نہ مستحکم ہو سکتی ہے نہ مستقیم ۔ اور جب تک اس کے دل کی دھڑکن اور اس کائنات کی حرکت کے اندر ہم آہنگی نہ ہوگی ، وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ستاروں اور سیارو ، آسمانوں اور فضاؤں ، نباتات اور حیوانات اس کائنات اور اس کی وسعتوں کے اندر انسان جس قدر بھی نئی دریافت کرے۔ وہ دریافت دل سے ہم آہنگ ہو۔ اور انسان اس نئی دریافت کردہ دنیا کا دوست ہو اور اس طرح وہ اس نتیجے تک پہنچے کہ انسان اور اس کائنات کا آخری خالق اور سبب اللہ تعالیٰ ہے۔ جب تک علم ، دریافت اور معرفت کی آخری منزل ، خالق کی منزل تک نہ پہنچ سکے اسے سمجھاجائے کہ وہ علم ناقص ہے۔ ایسی ہر تحقیق اور ایسی ہر تحقیق کے ہر نتیجہ بانجھ ہے ، بےمقصد ہے اور انسان کے لئے غیر مفید ہے۔

یہ کائنات سچائی کی کھلی کتاب ہے جسے ہر زبان میں پڑھا جانا ہے اور ہر ذریعہ سے اس کا ادراک کیا جاتا ہے۔ اسے ایک خیمے اور جھونپڑی کا باشندہ بھی پڑھ سکتا ہے اور نہایت ہی تعلیم یافتہ اور محلات میں رہنے والا بھی پڑھ سکتا ہے۔ ہر شخص اپنے قوت ادراک کے مطابق اسے پڑھتا ہے۔ ” ہر کسے از غن خود شد یاد من “ اسے اپنی صلاحیت کے مطابق اس کے اندر حق نظر آتا ہے۔ بشرطیکہ وہ اسے اس نیت سے پڑھ رہا ہو کہ وہ حق اور سچائی تک پہنچ جائے۔ یہ کتاب ہر حال میں قائم ہے اور ہر کسی کے سامنے کھلی ہے۔

تبصرۃ وذکری لکل عبد منیب (50 : 8) ” یہ ساری چیزیں آنکھیں کھولنے والی اور نصیحت دینے والی ہر اس شخص کے لئے جو سچائی کا متلاشی ہو ”۔ لیکن جدید سائنسی علوم کو اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ ان سے یہ تبصرہ اور آنکھیں کھول دینے کی صلاحیت کو ختم کردیا گیا ہے ۔ انسان کے دل اور اس کی روح کا تعلق اس کائنات سے کاٹ دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ علم ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کے دل اندھے ہیں۔ اور ان کے سروں پر نام نہاد سائنسی انداز فکر سوار ہے۔ اور یہ سائنسی اندازیہ ہے کہ کائنات کا تعلق انسان کی روح سے کاٹ دیا جائے۔

لیکن کائنات کا ایمانی مطالعہ ان لوگوں کے نام نہاد سائنسی انداز میں بہرحال کوئی کمی نہیں کرتا بلکہ وہ اس پر یہ وظیفہ کرتا ہے کہ یہ کائناتی حقائق ایک دوسرے سے بھی مربوط ہیں اور پھر یہ حقائق ایک حقیقت کبریٰ سے بھی مربوط ہیں اور ان حقائق کو اس حقیقت کبریٰ سے مربوط کر کے پھر تمام حقائق کو انسانی ادراک اور انسانی شعور اور انسانی روح کے ساتھ یوں پیوست کرتا ہے کہ یہ انسان کو متاثر کریں۔ انسان کی زندگی کو متاثر کریں۔ یہ محض خشک معلومات ہی نہ ہوں جو ذہنوں میں دفن ہوں اور عملی زندگی میں ان کا کوئی مقصد نہ ہوگا بلکہ ان کو عملی زندگی پر ایمان کے راستے سے اثر انداز ہونا چاہئے اور ہماری تمام تحقیقات اور انکشافات کو ایمان کے راستے سے حقیقت کبریٰ سے جڑ کر انسان کی عملی زندگی پر اثر انداز ہونا چاہئے۔

اس طرح اس نکتے کی طرف توجہ مبذول کرانے کے بعد اب بحث اس کتاب کائنات کے اندر آگے بڑھتی ہے۔ پیش نظر یہی مضمون ہے کہ موت کے بعد حشر ونشر ہوگا اور حساب و کتاب ہوگا۔

اردو ترجمہ

اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا، پھر اس سے باغ اور فصل کے غلے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanazzalna mina alssamai maan mubarakan faanbatna bihi jannatin wahabba alhaseedi

اردو ترجمہ

اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کر دیے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بر تہ لگتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalnnakhla basiqatin laha talAAun nadeedun

آسمانوں سے جو پانی نازل ہوتا ہے وہ مردہ زمین کو زندہ کرنے سے بھی پہلے مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور اس کا نزول ہی دلوں پر بہت ہی اچھا اثر ڈالتا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ چھوٹے بچے ہی بارش سے خوش ہوتے ہیں اور اس کے لئے دوڑتے ہیں اس میں اچھلتے کودتے ہیں بلکہ معمر ہوگ جن کے اندر احساس جمال ہو وہ بھی بارش کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور ان کے دل بھی بارش میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ بچے تو ہوتے ہیں چھوٹے ہیں۔

یہاں بارش کے پانی کو ماء مبارک کہا گیا ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے پھلوں کے باغات اور کٹنے والی کھیتیاں تیار فرماتا ہے اور اسی کے ذریعہ کھجوروں کے اونچے درخت اور ان کے پختہ پھلوں اور خوبصورت درختوں کو اگایا جاتا ہے۔

والنحل بسقت لھا طلع نضید (50 : 10) ” بلند وبالا کھجور کے درخت پیدا کر دئیے ہیں جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بہ تہ لگتے ہیں “۔ خوشوں کے لئے تہ بہ تہ کی صفت لائی گئی ۔ اس سے بلند وبالا درخت کی خوبصورت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس کے اوپر تہ بہ تہ خوشے لگے ہوئے نظر آئیں۔ مضمون اور معنی کے اعتبار سے بھی یہ الفاظ مناسب ہیں کیونکہ بات حق و سچائی کی ہو رہی ہے۔ حق بلند وبالا بھی ہوتا ہے اور خوبصورت بھی اور اس کا بول بھی بالا ہونا چاہئے۔

اور انسان پر یہ مہربانیاں کر کے ، انسانی دل کے اندر ممنونیت پیدا کی جا رہی ہے کہ دیکھو یہ شفاف پانی ، یہ باغ و راغ ، یہ کھیت اور حیوانات اور یہ آسمانوں سے باتیں کرنے والے پھلوں سے لدے کھجور کے درخت ، یہ سب کچھ۔

اردو ترجمہ

یہ انتظام ہے بندوں کو رزق دینے کا اِس پانی سے ہم ایک مُردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں (مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے) نکلنا بھی اِسی طرح ہو گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rizqan lilAAibadi waahyayna bihi baldatan maytan kathalika alkhurooju

رزقا للعباد (50 : 11) ” یہ انتظام ہے بندوں کو رزق دینے گا “۔ اس رزق کے اسباب اللہ کہاں سے چلا کر لاتا ہے۔ پھر نباتات اگاتا ہے ، پھر ثمرات لگاتا ہے ، یہ سب کچھ بندوں کے لئے۔ اور اللہ ہی صحیح آقا ہے اور اس کا پورا پورا شکر ادا کرنے کی قدرت ہی یہ بندے نہیں رکھتے۔

اور اب یہ کہ یہ پوری کائنات اس ہدف کی طرف بڑھ رہی ہے۔

واحیینا بہ بلدۃ میتتا کذلک الخروج (50 : 11) ” اور اس پانی سے ہم ایک مردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں (مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے نکلنا بھی اسی طرح ہوگا “۔ یہ عمل تمہارے ماحول میں رات دن دہرایا جا رہا ہے ، تم اس کے عادی ہوگئے ہو۔ دیکھتے ہو لیکن یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آرہی ہے اور پھر بھی تم اعتراض کرتے ہو۔ اگر تم غور کرتے تو تمہیں اپنا اعتراض عجیب لگتا۔ جس طرح موجودہ زمین پر لوگ پیدا ہورہے ہیں۔ اسی سہولت سے دوبارہ اٹھا لیے جائیں گے۔ قرآن کا انداز کیا ہی شاندار ہے۔ پہلے دلائل دے کر بعد دعویٰ ، کہ کائنات سے مختلف قسم کے دلائل اور موثرات کی ایک طویل فہرست دے کر آخر میں کہتا ہے کہ ” یوں “ ۔ اور اس انداز سے انسان بہت متاثر ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور اصحاب الرس، اور ثمود

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kaththabat qablahum qawmu noohin waashabu alrrassi wathamoodu

اب انسانی تاریخ کے طویل ریکارڈ سے کچھ عبرتیں اور نصیحتیں ، اس سے قبل پورے دلائل دئیے گئے تھے وہ اس کائنات کی کھلی کتاب سے تھے۔ اب کتاب تاریخ کے اوراق الٹئے ! اور دیکھئے کہ جن لوگوں نے آخرت کی جوابدہی کا انکار کیا ان کا انجام کیا ہوا۔ اپنے رویے پر ذرا غور کرو۔ انہوں نے بھی اسی طرح تکذیب کی جس طرح تم کر رہے ہو اور ان پر جو عذاب آیا کیا تم پر ایسا عذاب نہیں آسکتا ؟

کذبت قبلھم ۔۔۔ وثمود (12) وعاد وفرعون واخوان لوط (13) واصحب الایکۃ ۔۔۔۔۔۔ فحق وعید (14) افعیینا بالحلق ۔۔۔۔۔ جدید (50 : 12 تا 14) ” ان سے پہلے نوح کی قوم ، اور اصحاب الرس اور ثمود اور عاد ، اور فرعون ، اور لوط کے بھائی ، اور ایکہ والے اور تبع کی قوم کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں۔ ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا اور آخر کار میری وعید ان پر چسپاں ہوگئی۔ کیا پہلی بات کی تخلیق سے ہم عاجز تھے ؟ مگر ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں “۔

اس کے معنی ہیں کنواں ، وہ کنواں جس کا من پتھروں سے بنا ہوا ہو ، اور ایکہ کے معنی ہیں درختوں کا جھنڈ۔ اصحاب الایکہ غالبا قوم شعیب ہے۔ اصحاب الراس کی تفصیلات قرآن میں وارد نہیں ہیں۔ تبع حمیری بادشاہوں کا لقب ہے۔ اور باقی اقوام جن کی طرف اشارہ کیا ہے وہ مشہور ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ یہاں اس سرسری اشارے سے مقصد ان اقوام کی تفصیلات دینا نہیں ہے۔ بلکہ صرف یہ بیان کرنا ہے کہ ان کو ہلاک کیا گیا۔ جب انہوں نے رب العالمین کے رسولوں کی تکذیب کی۔ قابل توجہ یہ فقرہ ہے۔

اردو ترجمہ

اور عاد، اور فرعون، اور لوطؑ کے بھائی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAadun wafirAAawnu waikhwanu lootin

اردو ترجمہ

اور ایکہ والے، اور تبع کی قوم کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا، اور آخر کار میری وعید اُن پر چسپاں ہو گئی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waashabu alaykati waqawmu tubbaAAin kullun kaththaba alrrusula fahaqqa waAAeedi

کل کذب الرسل فحق وعید (50 : 14) ” ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا آخر کار میری وعید ان چسپاں ہوگئی “ ۔ اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ رسول بھی ایک ہیں۔ ان کے منصب کی نوعیت بھی ایک ہے اور ان کا مقصد بھی ایک رہا ہے حالانکہ سب کے سب نے رسولوں کو نہ جھٹلایا تھا۔ بلکہ ایک رسول کو جھٹلایا لیکن ایک رسول کو جھٹلانا بھی دراصل سب کو جھٹلانا ہے۔ رسول سب بھائی ہیں اور رسالت ایک ہی شجرۂ نسب ہے جس کی جڑیں دور تک تاریخ میں چلی گئی ہیں اور اس شجرے کی ہر شاخ دراصل اس کی خصوصیات کی تلخیص ہے۔ اور اس کی ایک صورت ہے۔ ۔۔ جس نے ایک شاخ کو چھوڑ دیا اس نے پورے سلسلے کو پکڑ لیا۔ فحق وعید (50 : 14) ” پس ان پر میری وعید چسپاں ہوگئی ” ۔ جس کی تفصیلات سامعین کو معلوم ہیں۔

ان اقوام پر عذاب الٰہی تکذیب کی وجہ سے آیا اور تکذیب انہوں نے قیامت کی ، کی تھی ۔ تو اللہ کا سوال۔

اردو ترجمہ

کیا پہلی بار کی تخلیق سے ہم عاجز تھے؟ مگر ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AfaAAayeena bialkhalqi alawwali bal hum fee labsin min khalqin jadeedin

افعیینا بالخلق الاول (50 : 15) ” کیا پہلی بار کی تخلیق سے ہم عاجز تھے “۔ یعنی ان کے سامنے کیا یہ شہادت موجود نہ تھی ، تخلیق چونکہ موجود تھی اس لیے جواب نہ دیا۔

بل ھم فی لبس من خلق جدید (50 : 15) ” بلکہ ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے تھے “ ۔ یہ دیکھتے نہ تھے کہ ان کے سامنے یہ عمل موجود ہے۔ شہادت موجود ہے لہٰذا ان کا علاج ہی یہی تھا جو ہوا۔

518