سورۃ الجمعہ (62): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Jumu'a کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الجمعة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الجمعہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Jumu'a
سُورَةُ الجُمُعَةِ
صفحہ 553 (آیات 1 سے 8 تک)

يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ٱلْمَلِكِ ٱلْقُدُّوسِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَكِيمِ هُوَ ٱلَّذِى بَعَثَ فِى ٱلْأُمِّيِّۦنَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا۟ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَٰلٍ مُّبِينٍ وَءَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا۟ بِهِمْ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ذَٰلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ مَثَلُ ٱلَّذِينَ حُمِّلُوا۟ ٱلتَّوْرَىٰةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ ٱلْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًۢا ۚ بِئْسَ مَثَلُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ ۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ هَادُوٓا۟ إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَآءُ لِلَّهِ مِن دُونِ ٱلنَّاسِ فَتَمَنَّوُا۟ ٱلْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُۥٓ أَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِٱلظَّٰلِمِينَ قُلْ إِنَّ ٱلْمَوْتَ ٱلَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُۥ مُلَٰقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَٰلِمِ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
553

سورۃ الجمعہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الجمعہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yusabbihu lillahi ma fee alssamawati wama fee alardi almaliki alquddoosi alAAazeezi alhakeemi

اس آغاز میں بتایا جاتا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کررہی ہے۔ لیکن یہ کائنات جو تسبیح کررہی ہے اس میں سے جن چیزوں کا انتخاب کیا گیا ہے وہ اس سورت کے موضوع اور محور کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ اور اس کے ساتھ گہرا ربط رکھتی ہیں۔ سورت کا نام جمعہ ہے۔ اس میں یہ تعلیم ہے کہ جمعہ کی اہمیت کیا ہے ، اس دن تمام امور سے فارغ ہوکر اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور جمعہ کی نماز کے وقت لہو ولعب اور محنت وتجارت چھوڑ کر ، اللہ کے ذکر کی طرف آنا چاہئے۔ لوگ جمعہ کو چھوڑ کر اور خطبہ جمعہ چھوڑ کر جس مال تجارت کی طرف بھاگے ہیں ، اس کا مالک تو اللہ ہے ، جو بادشاہ مطلق ہے۔ دنیا کا یہ مال اس کے اختیار میں ہے اور وہ ” القدوس “ ہے۔ وہ مقدس ہے اور پاک ہے اور پوری کائنات اس کی پاکی اور تقدیس بیان کررہی ہے۔ جبکہ یہ لوگ اس کی تقدیس چھوڑ کر لہو ولعب اور تجارت کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ وہ ” العزیز “ ہے ، یہودیوں کو جو دعوت مباہلہ دے رہا ہے ، وہی غالب ہے ، وہ سب لوگوں کو اٹھا کر ان سے حساب و کتاب کا انتظام کرتا ہے۔ اور وہ ” الحکیم “ ہے۔ جس نے عربوں جیسی ناخواندہ قوم سے ایک رسول اٹھایا جو آیات پڑھ کر سناتا ہے ، علم و دانش سکھاتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم خطبہ جمعہ کا مقصود ہے۔ غرض جو صفات یہاں آغاز میں لائی گئی ہیں ، سورت کا مضمون بھی انہی کی سمت پر ہے۔

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee baAAatha fee alommiyyeena rasoolan minhum yatloo AAalayhim ayatihi wayuzakkeehim wayuAAallimuhumu alkitaba waalhikmata wain kanoo min qablu lafee dalalin mubeenin

کہا گیا ہے کہ عربوں کو امی اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ لوگ بالعموم لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے۔ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مہینہ تو یوں ہے ، یوں ہے اور یوں ہے اور دس انگلیوں کے ساتھ تین بار اشارہ کیا اور فرمایا ہم ایک امی امت ہیں ، ہم حساب اور کتاب نہیں کرتے “۔ (جصاص) یہ بھی کہا گیا ہے جو لکھا پڑھا نہیں ہے اسے امی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس حال میں ہے جس طرح ماں سے پیدا ہوا ہے۔ کیونکہ لکھنا پڑھنا تو بعد میں سیکھنے سے ہوتا ہے۔

اور ممکن ہے امی اس لئے کہا گیا ہو کہ یہودی دوسری اقوام کو ” گویم “ کہتے تھے۔ عبرانی زبان میں گویم اقوام کو کہتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ہم تو اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں اور دوسرے لوگ عام اقوام یعنی امم ہیں۔ یوں وہ عربوں کو امی کہتے تھے۔ امی کا یہ مفہوم کہ وہ امہ کی طرف منسوب ہے زیادہ موزوں نظر آتا ہے بجائے اس کے کہ وہ ام کی طرف منسوب ہیں۔

یہودیوں کا یہ پختہ خیال تھا کہ نبی آخرالزمان ﷺ ان سے مبوث ہوگا اور ان کے اندر ، جو اختلافات ہیں ، ان کو وہ ختم کردے گا۔ اور دنیا میں جو دوسری اقوام کے مقابلے میں شکست کھاگئے ہیں ان کو فتح نصیب ہوگی اور ذلت کے مقابلے میں ان کی عزت حاصل ہوگی اور وہ اس نبی کی برکت سے عربوں پر فتح کی دعا کیا کرتے تھے۔

حکمت ربانی کا تقاضا یہ ہوا کہ نبی آخرالزمان ﷺ عربوں سے پیدا ہو۔ یعنی امبین غیر الیسود میں پوری انسانی قیادت کے لئے درکار تھی ، جیسا کہ اس سورت کے دوسرے پیرگراف میں آرہا ہے۔ اور جس طرح سورة صف میں گزرا کہ یہ لوگ گمراہ ہوگئے ہیں۔ اور انہوں نے فکرونظر کی کوتاہی اور ٹیڑھ پن کو اپنا لیا تھا۔ اور انہوں نے اپنی طویل تاریخ میں اللہ کی امانت کے حوالے سے جو کچھ کیا اس کے پیش نظراب وہ اس قابل نہیں ہے کہ آخری امانت ان کے سپرد کی جائے۔

اس علاقے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی ایک مرکز دعوت بنایا تھا اور دعوت کا آغاز بیت اللہ کے سایہ میں حضرت خلیل اللہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے فرمایا تھا۔

واذ یرفع ........................ العزیز الحکیم (921) (2 : 721۔ 921) ” اور یاد کرو ، ابراہیم اور اسماعیل کو جب اس گھر کی دیوار میں اٹھا رہے تھے ، تو دعا کرتے جاتے تھے۔ اے ہمارے رب ، ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے۔ تو سب کچھ سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما۔ تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو ! جو انہیں تیری آیات سنائے ، ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوار دے تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے “۔

غیب کے پردوں کے پیچھے یہ دعا موجود تھی ، صدیاں پیچھے ، اللہ کے ہاں محفوظ تھی ، یہ درخواست ضائع نہیں ہوئی تھی اور یہ اس لئے رکھی گئی تھی کہ اللہ نے اس کے لئے اپنی حکمت کے مطابق جو وقت مقرر کیا تھا ، وہ ابھی نہ آیا تھا۔ جب اس کی حکمت کے مطابق مقرر کردہ وقت آگیا تو اللہ نے دعا منظور فرمائی اور رسول بھی آیا اور دعا کی منظوری بھی ہوگئی کیونکہ اللہ کے نظام قضا وقدر میں ہر کام اپنے وقت پر ہوتا ہے ، نہ آگے ہوتا ہے اور نہ پیچھے ہوتا ہے۔

غرض یہ درخواست اللہ کے نظام قضا وقدر کے مطابق حقیقت بن گئی۔ یہ درخواست انہی الفاظ میں یہاں منظور کی جاتی ہے جن میں حضرت ابراہیم نے کی تھی۔ حضرت ابراہیم کے الفاظ تھے :

رسولا منھم .................... والحکمة (26 : 2) یہاں تک کہ حضرت ابراہیم نے اللہ کی حمد اور صفت میں یہ فرمایا تھا۔

انک انت ................ الحکیم یہی الفاظ یہاں بھی دہرائے گئے۔

وھوالعزیز الحکیم (26 : 3) رسول اللہ ﷺ سے خود ان کے بارے میں جب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ” میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت ہوں۔ اور جب میری ماں کو حمل ٹھہرا تو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا ہے ، جس کی وجہ سے شام کے علاقہ بصری کے محلات روشن ہوگئے “۔ (روایت ابن اسحاق جس کی سند کو ابن کثیر نے جید کہا ہے)

ھوالذی .................... ضلل مبین (26 : 2) ”” وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھای ، جو انہی اس کی آیات سناتا ہے ، ان کی زندگی سنورتا ہے ، انکو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ، حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے “۔ اور یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے امیوں میں خود انہی میں سے ایک رسول اٹھایا اور اسے کتاب دے کر انہیں بھی اہل کتاب بنا دیا۔ ان میں سے ایک رسول بنایا اور اس کی وجہ سے ان کا مقام و مرتبہ بھی بلند ہوگیا۔ انہیں امیت اور اممیت سے نکالا۔ یعنی ان پڑھ ہونے کے بجائے تعلیم یافتہ بنادیا اور عوامی قوم (گویم) ہونے کے بجائے ممتاز قوم بنادیا۔ ان کے حالات بدل دیئے اور وہ پوری دنیا کے ممتاز لوگ بن گئے۔

ویزکیھم (26 : 2) ” ان کی زندگیوں کو پاک کرتا ہے “۔ اسلام جو کچھ انہیں سکھاتا تھا وہ تزکیہ اور تطہیر ہی تھی۔ ضمیر و شعور کی تطہیر ، عمل اور طرز عمل کی تطہیر ، خاندانی زندگی کی تطہیر ، اجتماعی زندگی کی تطہیر ، اور نظریات کی ایسی تطہیر کہ تمام شرکیہ عقائد نکال کر صرف ایک عقیدہ توحید دے دیا۔ تمام باطل تصورات ختم کرکے صرف صحیح اور برحق عقیدہ توحید عطا کردیا۔ افسانوی افکار و عقائد کے بجائے واضح اور یقینی عقائد دے دیئے۔ اسی طرح اخلاقی طوائف الملوکی سے نجات دے کر ایمانی اخلاق کی سطح پر ان کو پہنچادیا۔ معیشت سے ناپاک سودی نظام کی جگہ عادلانہ رزق حلال کا طریقہ بتایا۔ غرض ایک ہمہ گیر تطہیر کا انتظام کیا ۔ اور ایک فرد ، ایک جماعت اور ظاہروباطن سب کی تطہیر کردی۔ انسان کو اس زمینی زندگی اور زمینی تصورات سے بلند کرکے ایک ایسے نورانی مقام تک بلند کردیا جو ربانی مقام ہے۔ اس مقام پر انسان کا معاملہ اللہ سے ہوگیا۔ یوں انسان اپنے آپ کو زمین کی ایک عاجز مخلوق سمجھنے کے بجائے ایک علوی مخلوق بن گیا۔

یویعلمھم ............ والحکمة (26 : 2) ” اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے “۔ یہ رسول ان کو کتاب کی تعلیم دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ امی بھی اہل کتاب ہوگئے۔ انہیں حکمت سکھاتا ہے اور اس پوری دنیا کے حقائق سے آگاہ کرتا ہے۔ چناچہ وہ تمام اشیا کی قیمت متعین کرنے میں صحیح اندازہ کرتے ہیں ، ان کی روح صحیح فیصلے کرتی ہے۔ وہ صحیح عمل اختیار کرتے ہیں اور اس سے بڑی دانائی اور نہیں ہے۔

وان کانوا .................... مبین (26 : 2) ” حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے “۔ ایسی جاہلیت جس کی تعریف حضرت جعفر ابن ابوطالب نے حبشہ کے نجاشی کو بتایا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب قریش مکہ نے نجاشی کے پاس ایک سفارت بھیجی ، جو عمر ابن العاص اور عبداللہ ابن ابو ربیعہ پر مشتمل تھی۔ تاکہ وہ اس کے سامنے مہاجرین مسلمانوں کی بھیانک تصویر کھینچی اور اس کے ہاں اس کے موقف کو غلط رنگ میں پیش کریں تاکہ وہ ان کو اپنی مہمانی اور اپنے ہاں امانت سے نکال دے ، تو اس موقعہ پر حضرت جعفر نے فرمایا :

” بادشاہ وقت ! ہم ایک جاہل قوم تھے ، بتوں کو پوجتے تھے ، مردار کھاتے تھے ، فحاشی کرتے تھے ، صلہ رحمی نہ کرتے تھے ، پڑوسیوں کا کوئی خیال نہ رکھتے تھے ، ہم میں سے زور آور کمزور کو کھا جاتا تھا ، ایسے حالات میں تھے کہ اللہ نے ہم میں ایک رسول بھیج دیا۔ اس نے دعوت دی کہ ہم ایک ہی خدا کو پکاریں اور اس کی بندگی کریں ، ہم اس کے نسب کو جانتے ہیں ، اس کی صداقت سے واقف ہیں ، اس کی امانت اور عفت کے معترف ہیں۔ اس نے دعوت دی کہ ہم صرف اللہ وحدہ کو پکاریں اور اس کے علاوہ ہم جو پتھروں ، بتوں کی بندگی کرتے تھے ، انہیں ترک کردیں۔ وہ کہتا ہے تم سچ کہو ، امانت ادا کرو ، صلہ رحمی کرو ، پڑوسی کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرو ، اور حرام چیزوں اور خون ریزی سے بچو ، اس نے ہمیں ہر قسم کے فواحش سے روک دیا ہے ، جھوٹ سے روک دیا ہے۔ تیم کا مال کھانے سے روک دیا ہے۔ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے روک دیا ہے۔ حکم دیا ہے اللہ کی بندگی کریں اور کسی اور کو اس کے ساتھ شریک نہ کریں۔ وہ ہمیں نماز ، روزہ اور زکوة کا حکم دیتا ہے “۔

باوجود اس کے کہ وہ جاہلیت اور گمراہی میں کانوں تک ڈوبے ہوئے تھے اللہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اس نظریہ کے اٹھانے کے قابل ہیں۔ اس کے امین ہوں گے اور ان کے اندر صلاحیتیں موجود ہیں اور جدید دعوت کے لئے ضروری صلاحیت وہ رکھتے ہیں۔ جبکہ یہودیوں کی فطرت میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے اور مصر کی غلامی نے ان کو ناقابل اصلاح بنادیا ہے۔ ان کی نفسیات میں الجھن کجی اور انحراف پیدا ہوگیا ہے۔ اس لئے اب ان کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ نہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں درست ہوئے اور نہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یہ لوگ درست ہوئے ، یہاں تک کہ اللہ نے ان پر لعنت اور غضب لکھ دیا اور وہ اس دنیا میں اللہ کے دین کے حامل نہ رہے اور قیامت تک ان سے یہ اعزاز چھن گیا۔ پھر اللہ کو اس بات کا بھی علم تھا کہ اس زمانے میں جزیرة العرب ہی دعوت اسلامی کے لئے بہترین مرکز کا کام کرسکتا تھا۔ اور پوری انسانیت کو جاہلیت کی گمراہی سے نجات دے سکتا تھا۔ کیونکہ دونوں بڑی شہنشاہوں نے تہذیب و تمدن کو بگاڑ دیا تھا۔ ان کی حکومت کو گھن لگ گیا لھا اور اندر سے ان کو کھوکھلا کردیا تھا اور حالت یہ تھی جس پر ڈیٹسن پر تبصرہ کرتا ہے۔

” پانچویں اور چھٹی صدی میں دین دار دنیا ہلاکت اور بربادی کے قریب جاپہنچی تھی کیونکہ وہ عقائد ونظریات جو کسی تہذیب و تمدن کو جنم دیا کرتے ہیں وہ گر گئے تھے ، اور ان گرے ہوئے نظریات کی جگہ لینے کے لئے کوئی دینی نظریہ موجود نہ تھا۔ یوں نظر آتا تھا کہ جس تہذیب و تمدن کی تعمیر میں ، انسانیت کو چار ہزار سال تک محنت کرنی پڑی ، وہ ٹوٹنے والا ہے اور اس کا شیرازہ بکھرنے ہی والا ہے۔ اور انسانیت ایک بار پھر جہالت کے دور میں واپس جانے والی ہے۔ کیونکہ پوری دنیا میں قبائل ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے نظر آتے تھے۔ پوری دنیا میں کوئی قانون اور کوئی نظام نہ تھا۔ انسانی تمدن ایک وسیع درخت کی طرح تھا جس کی وسیع شاخیں پوری دنیا پر سایہ فگن تھیں لیکن یہ درخت جھک گیا تھا اور گھن نے اسے کھوکھلا کردیا تھا۔ ایسے ہی ہمہ گیر فساد کے اندر ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نے تمام انسانیت کو پھر سے مجتمع کردیا “۔ یہ شخص تھے حضرت محمد ﷺ ، اور یہ صورت حال انسانیت کی ، تو ایک یورپین مصنف کے نقطہ نظر سے تھی ، لیکن اسلامی زاویہ نگاہ سے وقت اس سے تاریک تر تھی۔

اللہ تعالیٰ نے بلا شبہ جزیرة العرب سے اس بدوی امت کو اٹھایا۔ وہ قرآن وسنت لے کر اٹھی ، اس کے اندر صلاحیت موجود تھی۔ سب سے پہلے اس نے اپنی اصلاح کی ، اور پھر پوری دنیا کی تقدیر بدل دی۔ اللہ نے اس بدوی قوم کو رسول دیا۔ کتاب دی ، رسول اور کتاب نے ان کو پاک کردیا اور ان کو حکمت اور دانائی دی ، اگرچہ پہلے وہ گمراہ تھے۔

اردو ترجمہ

اور (اس رسول کی بعثت) اُن دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی اُن سے نہیں ملے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waakhareena minhum lamma yalhaqoo bihim wahuwa alAAazeezu alhakeemu

واخرین .................... الحکیم (26 : 3) ” اور ان دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں ، اللہ زبردست اور حکیم ہے “۔ یہ آخر ون کون ہیں ان کے بارے میں متعدد روایات آئی ہیں۔

امام بخاری نے روایت کی ہے ، عبدالعزیز ابن عبداللہ سے ، انہوں نے سلیمان ابن بلال سے ، انہوں نے ثور سے ، انہوں نے ابو الغیث سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ فرماتے ہیں ” ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر سورة جمعہ نازل ہوئی۔

واخرین ................ بھم (26 : 3) ” اور ان دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں “۔ تو صحابہ کرام ؓ نے پوچھا اللہ کے رسول وہ کون تو حضور نے ان کے سوال کا جواب نہ دیا ، یہاں تک کہ تین بار آپ سے پوچھا گیا۔ ہم میں سلمان فارسی بھی موجود تھے۔ تو حضور نے اپنا دست مبارک سلمان فارسی پر رکھا اور پھر کہا ، ” اگر ایمان ثریا کے اندر بھی ہو تو ان لوگوں سے بعض لوگ یا ایک شخص اسے پالے گا “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں اہل ایران شامل ہیں۔ اس لئے مجاہد کہتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگوں میں وہ سب ہیں ، جنہوں نے نبی ﷺ کی تصدیق کی۔

ابن ابو حاتم نے روایت کی ہے ، اپنے والد سے ، انہوں نے ابراہیم ابن علاء زبیری سے ، انہوں نے ولید ابن مسلم سے ، انہوں نے ابو محمد عیسیٰ ابن موسیٰ سے ، انہوں نے ابوحازم سے ، انہوں نے سہل ابن سعد ساعدی سے ، وہ کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا میری امت کے بعض لوگوں کی پشتوں کی پشتوں میں اسے مرد اور عورتیں ہوں گی جو جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے اور اس کے بعد آپ نے پڑھا۔

واخرین ................ بھم (26 : 3) یعنی محمد ﷺ کے بعد آئندہ آنے والے لوگ۔ دونوں اقوال کی گنجائش ہے یعنی وہ لوگ جو عرب کے علاوہ ہیں اور وہ لوگ جو مسلمان ہوگئے تھے ، حضور ﷺ کے دور میں اور ان کی اولاد جو بعد میں پیدا ہوگی۔ ان آیات اور روایات میں اشارہ ہے کہ یہ امت آئندہ زمانوں اور زمین کے تمام حصوں میں مسلسل رہنے والی امت ہے ، اور اس نے اس ذمہ داری کو قیامت تک پورا کرنا ہے۔ اس آخری دین کی حامل یہ امت آخر زمانے تک رہے گی۔

وھوالعزیز الحکیم (26 : 3) ” اور اللہ زبردست اور حکیم ہے “۔ وہ قوی ہے ، اور کسی امت کو مختار بنانے کی قدرت رکھتا ہے اور وہ حکیم ہے اور اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کس منصب کے لئے چنے گئے۔ اور متقدمین اور متاخرین میں سے لوگوں کو درجے دینا بھی اس کا فضل وکرم ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ زبردست اور حکیم ہے یہ اس کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika fadlu Allahi yuteehi man yashao waAllahu thoo alfadli alAAatheemi

ذلک فضل .................... العظیم (26 : 4) ” یہ اس کا فضل ہے ، جسے چاہتا ہے دیتا ہے ، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے “۔

اللہ کی جانب سے کسی امت ، کسی جماعت ، کسی فرد کو اس کام کے لئے چن لینا کہ وہ اس عظیم امانت کا حامل ہو ، اور اللہ کے نور اور فیض کا سرچشمہ ہو ، اور ایسا مرکز ہو ، جس پر زمین و آسمان ملتے ہوں ، یہ اختیارو انتخاب اللہ کا بہت بڑا فضل وکرم ہوتا ہے۔ اس سے بڑا فضل کہ اگر مومن اپنی جان اور مال اور اس دنیا کا سب کچھ بھی دے دے تو وہ اس سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس سے بڑا فضل کہ اگر مومن اپنی جان اور مال اور اس دنیا کا سب کچھ بھی دے دے تو وہ اس سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس راہ میں جدوجہد ، مشکلات ، جہاد غرض سب مشقتوں سے زیادہ قیمتی اور اہم۔

اللہ تعالیٰ مدینہ کی اسلامی جماعت اور ان کے بعد آنے والے لوگوں ، اور اسی راہ پر چلنے والوں کو یاد دلاتا ہے کہ یہ بہت بڑا فضل وکرم ہے تم پر ، کہ اس نے تمہیں اس عظیم مقصد کے لئے منتخب کیا ہے۔ تمہارے اندر رسول بھیجا ہے ، جو تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور علم و حکمت کا یہ سرمایہ آنے والی نسلوں کے لئے جمع کرتا ہے ، جو تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور علم و حکمت کا یہ سرمایہ آنے والی نسلوں کے لئے جمع کرتا ہے ، اور پہلی جماعت اسلامی کے کارہائے نمایاں بطور نمونہ اور مثال قائم کرتا ہے۔ اللہ مسلمانوں کو یاد دلاتا ہے کہ یہ ہے عظیم فضل الٰہی جس کے مقابلے میں تمام دنیاوی واخروی انعامات ہیچ ہیں ، جبکہ اس کے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہر قسم کی مالی اور جانی قربانیاں بھی ہیچ ہیں بمقابلہ اس اعزاز اور فضل کبیر کے۔

اس کے بعد اللہ ان کو یقین دہانی کراتا ہے کہ یہودیوں کا دور اس کرہ ارض پر سے ختم ہوگیا ہے۔ اب وہ حاملین امانت الٰہیہ نہیں رہے۔ نہ ان کے دلوں میں یہ بات ہے اور نہ ان کے کردار میں یہ بات ہے کیونکہ اس امانت کو اٹھانے والے دل فقیہ ، صاحب ادراک ، مخلص اور باعمل دل ہوتے ہیں۔

اردو ترجمہ

جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا، اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اِس سے بھی زیادہ بری مثال ہے اُن لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Mathalu allatheena hummiloo alttawrata thumma lam yahmilooha kamathali alhimari yahmilu asfaran bisa mathalu alqawmi allatheena kaththaboo biayati Allahi waAllahu la yahdee alqawma alththalimeena

مثل الذین ............ القوم الظلمین (26 : 5) ” جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا ، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا “۔

بنی اسرائیل کو توریت دی گئی اور وہ نظریہ اور شریعت کی امانت کے حامل بنے۔ لیکن انہوں نے۔

لم یحملوھا (26 : 5) ” انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا “۔ کیونکہ اس امانت کو ادراک تفقہ اور فہم و فراست اور حکمت و دانائی کے ساتھ اٹھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ضمیر کی دنیا میں اور عمل کی دنیا میں اس ذمہ داری کو قبول کرنا چھوڑ دیا تھا اور قرآن نے جس طرح بنی اسرائیل کی سیرت کا ریکارڈ پیش کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس امانت کی کوئی قدر نہ کی۔ وہ صرف ایک بوجھ اٹھا رہے تھے۔ اسامانت اور دین کے مقاصد پورے نہ کررہے تھے۔

یہ نہایت ہی حقیر تصویر ہے ، ان کو جو یہاں قرآن کریم نے کھینچی ہے ، لیکن یہ تصویر ان کی حقیقت کا اظہار نہایت ہی عمدہ طریقے سے کرتی ہے۔

بئس مثل .................... الظلمین (26 : 5) ” اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ، ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہی دیتا “۔

اور جن لوگوں کو یہ آخری امانت دی گئی ہے ، وہ اگر یہی رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی مثال بھی ایسی ہی ہے وہ سب لوگ جن کو دینی امانت دی گئی اور وہ اس کا حق ادا نہیں کرتے۔ ان کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ مسلمان جن پر صدیاں گزر گئیں اور وہ مسلمانوں کے صرف نام اٹھائے ہوئے ہیں ، ان کے اندر مسلمانوں کے اعمال نہیں ہیں ، خصوصاً وہ لوگ جو قرآن اور کتب اسلامی کو پڑھتے ہیں اور وہ فرائض ادا نہیں کرتے جو ان میں ہیں۔ یہ سب لوگ ایسے ہی ہیں جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ ہمارے دور میں ایسے لوگ بہت ہیں۔ مسئلہ کتابوں اور تدریس وتعلیم کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ عمل اور ذمہ داریاں اٹھانے کا ہے۔

یہودیوں کا زعم یہ تھا اور اب بھی ان کے اندر یہ زعم موجود ہے کہ وہ اللہ کی مختار قوم ہیں ، پسندیدہ اور برگزیدہ ! اور یہ کہ وہ اللہ کے محبوب ہیں بمقابلہ تمام دوسری اقوام کے۔ جبکہ دوسری اقوام گویم ہیں یا امی ہیں یا اممی ہیں۔ لہٰذا ان پر اپنے دن کے احکام پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔ یہ گویم کے لئے ہے۔

وقالوا لیس ................ سبیل اگر ہم دوسری اقوام کے لوگوں پر کوئی زیادتی کریں تو ہم پر مواخذے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے دعوے وہ کرتے تھے۔ جن پر کوئی دلیل نہ تھی۔ یہاں اللہ ان کو دعوت مباہلہ دیتا ہے۔ دعوت مباہلہ ان کو بھی دی گئی اور نصاریٰ کو بھی۔

اردو ترجمہ

اِن سے کہو، "اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو، اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اِس زعم میں سچے ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul ya ayyuha allatheena hadoo in zaAAamtum annakum awliyao lillahi min dooni alnnasi fatamannawoo almawta in kuntum sadiqeena

قل یایھا الذین .................... کنتم تعملون (8) (26 : 6 تا 8) ” ان سے کہو ، ” اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو ، اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمناکرو۔ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو “۔ لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں ، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ ان سے کہو ” جس موت سے تم بھاگتے ہو ، وہ تو تمہیں آکر رہے گی۔ پھر تم اس کے سامنے پیش کیے جاﺅ گے جو پوشیدہ وظاہر کا جاننے والا ہے ، اور وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو “۔

مباہلہ کے معنی یہ ہیں کہ فریقین آمنے سامنے کھڑے ہوجائیں اور دونوں مل کر دعا کریں کہ اے اللہ ہم دونوں میں سے جو برسرباطل ہے ، اسے ہلاک کردے۔ رسول اللہ ﷺ نے جن جن لوگوں کو مباہلہ کے لئے دعوت دی وہ ڈر کر سامنے نہیں آئے۔ کسی نے بھی حضور اکرم کی دعوت مباہلہ قبول نہیں کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے دل ہی دل میں اسلام کی حقانیت کے قائل تھے۔ وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ سچے ہیں اور یہ دین حقیقی دین ہے۔

امام احمد نے روایت کی ہے اسماعیل ابن یزید زرقی سے ، انہوں نے ابو یزید سے ، انہوں نے فرات سے ، انہوں نے عبدالکریم ابن مالک جزری سے ، انہوں نے عکرمہ سے ، انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ ابوجہل ملعون نے یہ کہا کہ اگر میں نے محمد کو خانہ کعبہ میں دیکھا تو میں اس پر حملہ کردوں گا یہاں تک کہ میں اس کی گردن دبادوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس نے ایسا کیا ہوتا تو فرشتے اسے اعلانیہ پکڑ لیتے اور اگر یہودی موت کی تمنا کرتے تو وہ مرجاتے۔ اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے کہ جہنم میں ان کے مقامات کیا ہیں اور جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے دعوت مباہلہ دی تھی اگر وہ نکلتے تو جب واپس آتے تو نہ ان کا مال ہوتا اور نہ ان کے اہل و عیال موجود ہوتے۔ (بخاری ، ترمذی)

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آیت ان کے لئے مباہلے کا چیلنج نہ ہو ، محض چیلنج ہو۔ کیونکہ ان کا زعم تھا کہ وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اللہ کے محبوب اور دوست ہیں تو کیوں نہیں جلدی کرتے کہ اللہ کے ہاں انعامات پائیں۔ دوست تو دوست کی ملاقات کے لئے بےتاب ہوتا ہے۔

اس کے بعد ان کے اس دعوے پر تبصرہ کیا گیا کہ یہ جھوٹے ہیں اور جو دعویٰ کر رے ہیں ان میں وہ سچے نہیں ہیں۔ ان کو یہ یقین نہیں ہے کہ انہوں نے دنیا میں آخرت کے لئے کوئی اچھا عمل کیا ہے ، جس پر ان کو اجروثواب ملنے والا ہے۔ انہوں نے تو برے کام ہی آگے بھیجے ہیں ، جن کی وجہ سے وہ موت سے بہت ڈرتے ہیں۔ اور جس شخص کے پاس زاد راہ نہ ہو ، وہ سفر پر نہیں نکلتا۔

اردو ترجمہ

لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں، اور اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala yatamannawnahu abadan bima qaddamat aydeehim waAllahu AAaleemun bialththalimeena

ولا یتمنونہ ................ بالظلمین (26 : 7) ” لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں ، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے “۔

اب آخری دور میں موت کی حقیقت ان کو بتادی جاتی ہے۔ یہ جو موت سے ڈرتے ہیں اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ موت تو ایک قطعی امر ہے اور اس سے کوئی ڈر نہیں ہے۔ کوئی مضر نہیں ہے ، موت کے بعد تو اللہ کی طرف جانا ہے ، اور پھر اللہ کے ہاں حساب و کتاب دینا ہے ، جس میں کوئی شک نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

اِن سے کہو، "جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آ کر رہے گی پھر تم اس کے سامنے پیش کیے جاؤ گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے، اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul inna almawta allathee tafirroona minhu fainnahu mulaqeekum thumma turaddoona ila AAalimi alghaybi waalshshahadati fayunabbiokum bima kuntum taAAmaloona

قل ان .................... تعملون (26 : 8) ” ان سے کہو ، ” جس موت سے تم بھاگتے ہو ، وہ تو تمہیں آکر رہے گی۔ پھر تم اس کے سامنے پیش کیے جاﺅ گے جو پوشیدہ وظاہر کا جاننے والا ہے ، اور وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو “۔

یہ ایک توجہ دلاﺅ نوٹس ہے ، مسلمانوں کو ، اور غیر مسلموں سب کو کہ ایک حقیقت کو اپنے دل و دماغ میں تازہ کرلو۔ اور لوگ اس اٹل حقیقت کو بھول جاتے ہیں ، یا بھلانے کی کوشش کرتے ہیں ، موت تو آنے والی ہے۔ یہ زندگی ختم ہونے والی ہے۔ اس دنیا میں تم جس قدر اس سے بھاگو ، تم موت کے منہ میں پہنچ جاﺅ گے۔ لہٰذا کوئی جائے پناہ اللہ کے سوا نہیں ہے ، وہاں حساب و کتاب دینے سے کوئی بھاگنے کی جگہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

طبری نے اپنے معجم میں معاذ ابن محمد ھذلی کی حدیث روایت کی ہے۔ یونس سے ، انہوں نے حسن سے ، انہوں نے حضرت سمرة سے ، مرفوع صورت میں کہ ” جو شخص موت سے بھاگتا ہے ، اس کی مثال لومڑی جیسی ہے جس سے زمین اپنا قرضہ مانگ رہی تھی ، تو وہ بھاگنے لگی یہاں تک کہ بھاگتے بھاگتے تھک گئی اور اس کے لئے بھاگنا ممکن نہ رہا تو وہ اپنے سوراخ میں جا گھسی تو وہاں زمین نے اس سے کہا : ” اے لومڑی میرا قرضہ ؟ “

اب اس سورت کا آخری مقطع آتا ہے او یہ جمعہ کی نماز کے بارے میں ہے ، یہ اس موقعہ کی نسبت سے جو واقعہ ہوا شاید ایسا واقعہ ایک سے زائد مرتہ ہوتا ہوگا کیونکہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہوتا رہتا تھا۔

553