سورہ انفطار (82): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Infitaar کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الإنفطار کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ انفطار کے بارے میں معلومات

Surah Al-Infitaar
سُورَةُ الانفِطَارِ
صفحہ 587 (آیات 1 سے 19 تک)

إِذَا ٱلسَّمَآءُ ٱنفَطَرَتْ وَإِذَا ٱلْكَوَاكِبُ ٱنتَثَرَتْ وَإِذَا ٱلْبِحَارُ فُجِّرَتْ وَإِذَا ٱلْقُبُورُ بُعْثِرَتْ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْإِنسَٰنُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ ٱلْكَرِيمِ ٱلَّذِى خَلَقَكَ فَسَوَّىٰكَ فَعَدَلَكَ فِىٓ أَىِّ صُورَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِٱلدِّينِ وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَٰفِظِينَ كِرَامًا كَٰتِبِينَ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ إِنَّ ٱلْأَبْرَارَ لَفِى نَعِيمٍ وَإِنَّ ٱلْفُجَّارَ لَفِى جَحِيمٍ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ ٱلدِّينِ وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَآئِبِينَ وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا يَوْمُ ٱلدِّينِ ثُمَّ مَآ أَدْرَىٰكَ مَا يَوْمُ ٱلدِّينِ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْـًٔا ۖ وَٱلْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ
587

سورہ انفطار کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ انفطار کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

جب آسمان پھٹ جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha alssamao infatarat

اردو ترجمہ

اور جب تارے بکھر جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha alkawakibu intatharat

اردو ترجمہ

اور جب سمندر پھاڑ دیے جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha albiharu fujjirat

اردو ترجمہ

اور جب قبریں کھول دی جائیں گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha alqubooru buAAthirat

اردو ترجمہ

اُس وقت ہر شخص کو اُس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہو جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAalimat nafsun ma qaddamat waakhkharat

آیت 5{ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ۔ } ”اُس وقت ہر جان ‘ جان لے گی کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔“ اس دن ہر شخص کو واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ اس نے کیا کیا اچھے یا برے اعمال آگے بھیجے تھے اور ان کے آثار و نتائج کی شکل میں کیا کچھ وہ اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آیا تھا۔ اس مضمون کی وضاحت قبل ازیں سورة القیامہ کی آیت 13 کے تحت بھی کی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کو بتادیا جائے گا کہ اس نے کس شے کو آگے کیا تھا اور کس شے کو پیچھے رکھا تھا۔ یعنی دنیا اور آخرت میں سے اس نے کس کو مقدم رکھا تھا اور کس کو موخر کیا تھا۔ آیت کے اس مفہوم سے واضح ہوتا ہے کہ قیامت کے دن کسی انسان کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار کلی طور پر اس ”طرزِعمل“ پر ہے جو وہ اپنی زندگی میں دنیا اور آخرت کے بارے میں اختیار کرتا ہے۔ یعنی انسان کا ایک طرزعمل یہ ہوسکتا ہے کہ میرا اصل مطلوب و مقصود تو آخرت ہے ‘ دنیا کا کیا ہے جو مل گیا وہی غنیمت ہے اور اگر کبھی نہ بھی ملے تب بھی کوئی بات نہیں۔ دوسرا ممکنہ رویہ یہ ہے کہ میرا اصل مقصود تو دنیا ہے ‘ اس کے ساتھ ساتھ اگر آخرت بھی مل جائے تو اچھا ہے ‘ چاہے وہ کسی کی سفارش سے مل جائے یا کسی اور حیلے سے۔ لیکن میری پہلی ترجیح Ist priority بہرحال دنیا اور اس کا مال و متاع ہے ‘ اور زندگی میں میری ساری تگ و دو اسی کے لیے ہے۔

اردو ترجمہ

اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے اُس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alinsanu ma gharraka birabbika alkareemi

آیت 6{ یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ۔ } ”اے انسان ! تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے اپنے ربّ کریم کے بارے میں۔“ ظاہر ہے یہ کام شیطان لعین ہی کرتا ہے۔ وہی انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں دھوکے میں ڈالتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں بنی نوع انسان کو باربار خبردار کیا گیا ہے ‘ مثلاً سورة لقمان میں فرمایا : { وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَـرُوْرُ۔ } کہ وہ بڑا دھوکے باز تم لوگوں کو اللہ کے بارے میں کہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے ! لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام تر تنبیہات کے باوجود اکثر انسان شیطان کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے شیطان مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف چالیں اور حربے آزماتا ہے۔ مثلاً ایک دیندار شخص کو اہم فرائض سے ہٹانے کے لیے وہ نوافل اور ذکر و اذکار کا ُ پرکشش پیکج پیش کرسکتا ہے کہ تم اقامت دین اور دوسرے فرائض دینی کا خیال چھوڑو اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے راتوں کو جاگنے اور تہجد کی پابندی پر توجہ دو۔ عام مسلمانوں کے لیے اس کی بہت ہی تیر بہدف چال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفورٌ رحیم ہے ‘ وہ کوئی خوردہ گیر نہیں کہ اپنے مومن بندوں کو چھوٹی چھوٹی خطائوں پر پکڑے۔ وہ تو بہت بڑے بڑے گناہگاروں کو بھی معاف کردیتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بےعملی کی سب سے بڑی وجہ شیطان کی یہی چال ہے ‘ بلکہ اس دلیل کے سہارے اکثر لوگ گناہوں کے بارے میں حیران کن حد تک جری اور بےباک ہوجاتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ ہم میں سے ہر ایک کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ اے اللہ کے بندے ! تمہاری بےعملی کی وجہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ شیطان نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی شان غفاری کے نام پر دھوکے میں مبتلا کردیا ہے ؟

اردو ترجمہ

جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee khalaqaka fasawwaka faAAadalaka

آیت 7{ الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰٹکَ فَعَدَلَکَ۔ } ”جس نے تمہیں تخلیق کیا ‘ پھر تمہارے نوک پلک سنوارے ‘ پھر تمہارے اندر اعتدال پیدا کیا۔“ اللہ تعالیٰ نے تمہارے قوائے جسمانی اور قوائے نفسیاتی میں ہر طرح سے اعتدال اور توازن پیدا کیا ہے۔ گویا تمہاری تخلیق اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کی مظہر ہے۔ تمہاری تخلیق کے اندر توازن اور خوبصورتی کا یہ پہلو گویا اس حقیقت پر گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں عدل و اعتدال کو پسند فرماتا ہے اور یہ کہ وہ تم انسانوں کے ساتھ آخرت میں بھی عدل و انصاف کا معاملہ فرمائے گا ‘ تاکہ گناہگاروں کو قرار واقعی سزا مل سکے اور نیکوکار اپنی نیکیوں کا پورا پورا بدلہ پائیں۔ تمہاری مبنی براعتدال تخلیق و ترکیب کا تقاضا تو یہ تھا کہ تمہارے خیالات و اعمال بھی اعتدال اور توازن کا مظہر ہوتے ‘ مگر تم لوگ ہو کہ اپنے خالق کے بارے میں ہی دھوکے میں مبتلا ہوگئے ہو۔ تم اس کی شان غفاری کو تو بہت اہتمام سے یاد رکھتے ہو جبکہ اس کی صفت عدل سمیت بہت سی دوسری صفات کو بالکل ہی بھولے ہوئے ہو۔ تمہاری یہ بےاعتدالی تمہارے اس خالق کو بالکل پسند نہیں ہے جس نے تمہاری تخلیق کا خمیر ہی اعتدال سے اٹھایا ہے۔

اردو ترجمہ

اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fee ayyi sooratin ma shaa rakkabaka

آیت 8{ فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ۔ } ”پھر جس شکل میں اس نے چاہا تجھے ترکیب دے دیا۔“ اللہ تعالیٰ ہر انسان کی شکل اور اس کے مختلف اعضاء اپنی مرضی و مشیت کے مطابق بناتا ہے۔ ظاہر ہے اس معاملے میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں۔ اس موضوع کی مناسبت سے مجھے حضرت حسان بن ثابت رض کے نعتیہ اشعار یاد آگئے ہیں۔ آپ رض حضور ﷺ کی شان میں فرماتے ہیں :وَاَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْوَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَائُخُلِقْتَ مُبَرَّئً ‘ ا مِنْ کُلِّ عَیْبٍکَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَائُ”آپ ﷺ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا اور آپ ﷺ سے بڑھ کر جمیل عورتوں نے جنا ہی نہیں۔ آپ ﷺ ہر عیب اور نقص سے مبراپیدا ہوئے ہیں۔ گویا آپ ﷺ اس طرح پیدا ہوئے ہیں جس طرح آپ ﷺ نے خود چاہا۔“

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla bal tukaththiboona bialddeeni

آیت 9{ کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ۔ } ”ہرگز نہیں ! بلکہ اصل میں تم جزا و سزا کا انکار کر رہے ہو۔“ تم لوگ یہ جو اللہ تعالیٰ کی شان غفاری کے قصیدے پڑھ رہے ہو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم اس کی رحمت اور بخشش پر واقعتابہت پختہ یقین بھی رکھتے ہو ‘ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اپنے اس فلسفے کی آڑ میں تم جزا و سزاکا انکار کرنا چاہتے ہو۔ اسی طرح کے ایک ”قصیدے“ کی یہ جھلک ملاحظہ کیجیے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شان غفاری کا اقرار ہے یا اس کے فلسفہ جزا و سزا کا مذاق : ؎عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا پر تو نے دل آزردہ ہمارا نہ کیا ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا !اگر کوئی شخص واقعی پوری دیدہ دلیری سے جہنم کی تدبیر اور کوشش کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عدل کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس کی خواہش پوری کرتے ہوئے اسے جہنم میں جھونک دیاجائے۔ چناچہ ایسے خیالات و نظریات کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شان غفاری کی من مانی تشریح کر کے نہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ‘ بلکہ عملی طور پر جزا و سزا کے فلسفہ کا ہی انکار کر رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna AAalaykum lahafitheena

اردو ترجمہ

ایسے معزز کاتب

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kiraman katibeena

اردو ترجمہ

جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

YaAAlamoona ma tafAAaloona

آیت 12{ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۔ } ”وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کر رہے ہو۔“ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے بطور نگران مقرر کر رکھے ہیں جو اس کا ایک ایک عمل لکھ رہے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کا محاسبہ کرنا منظور نہیں ہے تو گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس کا فرشتوں کو بطور نگران مقرر کرنا اور ان فرشتوں کا ایک ایک انسان کے ایک ایک عمل کا ریکارڈ مرتب کرنا سب کا رعبث ہے۔ ایسے خیالات کے حامل لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ”کارِعبث“ اللہ کے شایانِ شان نہیں ‘ وہ احتساب ضرور کرے گا اور اس احتساب کے نتائج بھی ضرور نکلیں گے ‘ جن کا ذکر اگلی آیات میں ہے :

اردو ترجمہ

یقیناً نیک لوگ مزے میں ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna alabrara lafee naAAeemin

اردو ترجمہ

اور بے شک بدکار لوگ جہنم میں جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna alfujjara lafee jaheemin

اردو ترجمہ

جزا کے دن وہ اس میں داخل ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaslawnaha yawma alddeeni

اردو ترجمہ

اور اُس سے ہرگز غائب نہ ہو سکیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama hum AAanha bighaibeena

آیت 16{ وَمَا ہُمْ عَنْہَا بِغَـآئِبِیْنَ۔ } ”اور وہ اس سے کہیں غائب نہیں ہو سکیں گے۔“ ظاہر ہے جہنم سے بھاگ نکلنے کا نہ کوئی راستہ ہوگا اور نہ ہی کسی میں بھاگ جانے کی طاقت ہوگی۔

اردو ترجمہ

اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama adraka ma yawmu alddeeni

اردو ترجمہ

ہاں، تمہیں کیا خبر کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma ma adraka ma yawmu alddeeni

اردو ترجمہ

یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا، فیصلہ اُس دن بالکل اللہ کے اختیار میں ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma la tamliku nafsun linafsin shayan waalamru yawmaithin lillahi

آیت 19{ یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّـنَفْسٍ شَیْئًاط وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ۔ } ”جس روز کسی جان کو کسی دوسری جان کے لیے کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا ‘ اور امر ُ کل کا کل اس دن اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوگا۔“ اس دن سرمحشر پکارا جائے گا : { لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط } المومن 16 کہ اے نسل انسانی کے لوگو ‘ دیکھو ! آج حکومت ‘ اختیار اوراقتدارکس کے ہاتھ میں ہے ؟ اور اس سوال کا جواب بھی پھر خود ہی دیا جائے گا : { لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ } المومن : 16 یعنی آج کے دن اختیار کل کا کل اللہ ہی کے پاس ہے جو اکیلا ہے اور سب پر غالب ہے۔ اس دن انسانوں کی اکثریت کو بےبسی اور نفسانفسی کی جس کیفیت کا سامنا ہوگا ‘ سورة البقرۃ میں اس کا نقشہ یوں دکھایا گیا ہے : { وَاتَّقُوْا یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ۔ } ”اور ڈرو اس دن سے کہ جس دن کام نہ آسکے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی اور نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ کسی سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ انہیں کوئی مدد ہی مل سکے گی۔“ ژژژ

587