اس صفحہ میں سورہ Al-Qaari'a کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القارعة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
بات کا آغاز ایک منفرد لفظ سے ہوتا ہے القارعہ۔ گویا یہ ایک گولہ ہے جو آکر گرتا ہے اس کی کوئی صفت یا کوئی خبر سیاق کلام میں نہیں ہے۔ یہ اس لئے تاکہ یہ لفظ اپنی آواز ، اپنے اثر اور اپنی شدت سے فضا میں ایک گونج پیدا کردے ، جس کا ایک طویل اشارہ ہے۔ اس کے فوراً بعد پھر ایک سوال آتا ہے :
ما القارعة (2:101) ” کیا ہے وہ کھٹکھٹانے والی ؟ “ گویا وہ ایک نامعلوم ، پوشیدہ اور خوفناک بات ہے جو کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اس کے بعد پھر ایک سوال کے ذریعہ پہلے سوال کا جواب دیا جاتا ہے کہ تم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہے ؟
وما ادرک ................ القارعة (3:101) ” تم کیا جانو کہ وہ عظیم حادثہ کیا ہے ؟ “ یہ اس قدر عظیم حادثہ ہوگا کہ تمہارے قیاس وادراک کے دائرہ سے باہر ہے۔ تمہارا تصور اسے نہیں چھوسکتا۔
اب اس عظیم حادثہ کے کچھ واقعات بتاکر اس کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے۔ اس کی تعریف اور حقیقت بیان نہیں کی جاتی۔ کیونکہ اس کی حقیقت کا ادراک ممکن ہی نہیں ہے جیسا کہ پہلے کہہ دیا گیا اور واقعات یہ ہیں :
یہ تو تھا اس کھٹکھٹانے والی اور عظیم حادثے کا پہلا منظر۔ اس کو دیکھتے ہی دل ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اڑنے لگتا ہے۔ انسان پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور وہ یوں محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس دنیا کی ہر وہ چیز جس کا سہارا وہ لے سکتا تھا ، اڑی اڑی سی جارہی ہے۔ وہ ہوا میں اس طرح اڑتی ہے جس طرح ذرے اڑ رہے ہوتے ہیں اور اچانک آخری اور مکمل خاتمہ سامنے آجاتا ہے۔
ترازو کے پلڑوں کے بھاری ہونے اور خفیف ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ پیمانے جن کا اللہ کے ہاں اعتبار ہے اور وہ پیمانے جن کا اللہ کے ہاں کوئی وزن نہیں ہے ، یہی بات قرآن کریم کے مجموعی انداز بیان سے معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم !
رہے وہ عقلی اور لفظی مباحث جو ان امور کے بارے میں مفسرین ومتکلمین کرتے ہی۔ یہ قرآن کریم کے ساتھ ناانصافی ہے۔ یہ مباحث وہی لوگ کرتے ہیں جو قرآن کریم کی حقیقی ترجیحات اور اہتمامات سے واقف نہیں ہوتے۔
فاما من ................ موازینہ (6:101) ” پھر جس کی قدریں اہم ہوں گی “ اور اللہ کے ہاں وہ درست ہوں گی۔
فھو فی .................... راضیة (7:101) ” وہ دل پسند عیش میں ہوگا “ اور عیش کی تفصیلات مجمل چھوڑ دی گئی ہیں۔ یعنی ایسا عیش ہوگا جس پر وہ راضی ہوگا ، بہترین نعمت یہ ہے کہ کسی حالت پر انسان راضی ہو۔
فامامن ................ موازینہ (8:101) ” جس کے پیمانے ہلکے ہوئے “۔ اللہ کے اعتبار اور معیار کے مطابق۔
فامہ ھاویة (9:101) ” تو اس کی ماں گہرائی کھائی ہے “۔ ماں دراصل بچے کی جائے پناہ ہوتی ہے ، تو ایسے لوگوں کی جائے پناہ جہنم کی گہری کھائی ہوگی اس لئے یہ ان کی ماں ہوئی۔ کیا ہی خوب انداز تعبیر ہے جو موقع ومقام کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ یہاں عذاب کو مجمل رکھا گیا ہے تاکہ آیت مابعد میں اس کی وضاحت ایسے انداز میں کی جائے جو بہت ہی موثر ہو۔
وما ادرک ماھیہ (10:101) ” اور آپ کو کیا خبر کہ وہ کیا چیز ہے “۔ یہ قرآن کریم کا معروف انداز بیان ہے کہ کسی چیز کو ہولناک بنانے کے لئے یہ کہ دینا کہ تمہیں کیا معلوم کہ وہ کیا ہے ؟
اور پھر اس کے بعد ایک جواب آتا ہے اور یہ آخری نچ ہوتا ہے۔
نارحامیة (11:101) ” یہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے “۔ اور جن لوگوں کے پیمانے ہلکے اور ناقابل اعتبار ہوئے ، یہ گرم آگ ان کی ماں ہوگی ۔ اس ماں کی جھولی میں وہ آرام کریں گے اور وہاں آرام و راحت پائیں گے یا تم سمجھ گئے کہ اس ماں کے ہاں وہ کیا آرام پائیں گے جو گہری کھائی ہے اور جس کے اندر گرم آگ ہے۔ یہ اچانک طنزیہ انداز اس قدری حقیقی ہے اور اس قدر تلخ ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔