اس صفحہ میں سورہ Saba کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ سبإ کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1 { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ } ”کل حمد اور کل شکر اس اللہ کے لیے ہے جس کی ملکیت ہے ہر وہ شے جو آسمانوں اور زمین میں ہے“ { وَلَہُ الْحَمْدُ فِی الْاٰخِرَۃِط وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ } ”اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہوگی ‘ اور وہ کمال حکمت والا ‘ ہرچیز سے باخبر ہے۔“ آخرت کی حمد کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : لِوَائُ الحَمْدِ یَوْمَئِذٍ بِیَدِیْ 1 ”اس دن یعنی میدانِ حشر میں حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا“۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس روز میں جو حمد کروں گا وہ آج نہیں کرسکتا۔ -۔ - آخرت کی اس حمد کا اس آخری امت کے ساتھ خاص تعلق ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے اسمائے مبارک محمد ‘ احمد اور حامد کا تعلق بھی لغوی طور پر لفظ ”حمد“ کے ساتھ ہے اور اسی لیے اس امت کو بھی ”حَمَّادُون“ بہت زیادہ حمد کرنے والے کہا گیا ہے۔
آیت 2 { یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا } ”وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے نازل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔“ { وَہُوَ الرَّحِیْمُ الْغَفُوْرُ } ”اور وہ نہایت رحم کرنے والا ‘ بہت بخشنے والا ہے۔“
آیت 3 { وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُ } ”اور یہ کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت کبھی نہیں آئے گی۔“ عام طور پر ”السَّاعۃ“ کا ترجمہ قیامت ہی کردیا جاتا ہے ‘ مگر جیسا کہ سورة لقمان کی آیت 34 کے ضمن میں بھی بتایا جا چکا ہے السَّاعۃ اور قیامت دو مختلف الفاظ ہیں اور دونوں کے معانی بھی الگ الگ ہیں۔ السَّاعۃ سے مراد وہ خاص گھڑی ہے جب زمین میں ایک عظیم زلزلہ برپا ہوگا ‘ ستاروں اور سیاروں کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور دنیا مکمل طور پر تباہ ہوجائے گی۔ جبکہ القیامۃ اس کے بعد کی کیفیت کا نام ہے جب دنیا دوبارہ نئی شکل میں پیدا ہوگی اور تمام انسانوں کو زندہ کر کے ایک جگہ اکٹھے کرلیا جائے گا۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ کائنات ابدی ہے اور اس کا اختتام ممکن نہیں ‘ لیکن اب فزکس کے میدان میں نئی نئی تحقیقات کی روشنی میں سائنسدانوں کا جو نیا موقف سامنے آیا ہے وہ بھی یہی ہے کہ یہ کائنات ابدی نہیں ہے ‘ اس کا اختتام ایک ّمسلمہ حقیقت ہے اور یہ کہ جس طرح اپنے آغاز کے بعد یہ ایک پھلجھڑی کی طرح پھیلتی رہی ہے ‘ اسی طریقے سے اختتام پذیر ہوجائے گی۔ { قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ عٰلِمِ الْغَیْبِ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے ‘ کیوں نہیں ! میرے رب کی قسم ‘ جو تمام پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے ‘ وہ تم پر ضرور آکر رہے گی۔“ { لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ } ”اس سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ذرّہ برابر بھی کوئی چیز نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں“ { وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرُ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ } ”اور نہ کوئی اس سے چھوٹی چیز اور نہ بڑی ‘ مگر وہ ایک روشن کتاب میں لکھی ہوئی موجود ہے۔“ یہ قیامت کیوں آئے گی ؟ اس کا منطقی جواز کیا ہے ؟ اس کا جواب اگلی آیات میں دیا گیا ہے۔
آیت 4 { لِّیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ } ”تاکہ وہ جزا دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے۔“ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ ملے۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے دنیوی لذائذ کو چھوڑا ‘ اپنی آسائشوں کو قربان کیا ‘ حق کا َعلم بلند کرنے کے لیے اپنا دنیوی مستقبل دائو پر لگا دیا ‘ اپنی جان جوکھوں میں ڈالی اور اللہ کے راستے میں جہاد و قتال کیا ‘ اگر انہیں ان کی کوششوں کا بھر پور صلہ نہیں دیا جاتا اور انہیں انعام و اکرام سے نہیں نوازا جاتا تو ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی اور ناانصافی ہوگی۔ چناچہ تمام انسانوں کو ان کے اعمال کے مطابق بھر پور صلہ دینے کے لیے ایک دوسری دنیا کا قیام نا گزیر ہے۔ { اُولٰٓئِکَ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ} ”یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں مغفرت بھی ہوگی اور بہت با عزت روزی بھی۔“
آیت 5 { وَالَّذِیْنَ سَعَوْ فِیْٓ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مِّنْ رِّجْزٍ اَلِیْمٌ} ”اور جو لوگ ہماری آیات کو شکست دینے کے لیے کوشاں رہے ان کے لیے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے۔“
آیت 6 { وَیَرَی الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ہُوَ الْحَقَّ } ”اور تا کہ دیکھ لیں وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ پر جو چیز نازل کی گئی ہے آپ ﷺ کے رب کی طرف سے وہ حق ہے“ { وَیَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ } ”اور وہ راہنمائی کرتی ہے ‘ نہایت غالب ‘ لائق ِحمد و ثنا ہستی کے راستے کی طرف۔“
آیت 7{ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہَلْ نَدُلُّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ یُّنَبِّئُکُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍلا اِنَّکُمْ لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ } ”اور یہ کافر کہتے ہیں : کیا ہم تمہیں ایک ایسے شخص کے بارے میں بتائیں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مٹی میں مل کر بالکل ریزہ ریزہ ہو جائو گے تو پھر تمہیں از سر ِنو پیدا کردیا جائے گا۔“ یہ اور اس کے بعد والی آیت اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان دونوں کے مضامین کا حوالہ آیت 46 کے ضمن میں بھی آئے گا۔ اگرچہ حضور ﷺ کی مخالفت نبوت کے ابتدائی زمانے سے ہی شروع ہوگئی تھی اور مشرکین اپنی محفلوں میں حضور ﷺ کے بارے میں استہزائیہ جملے بھی دہراتے رہتے تھے ‘ لیکن سات آٹھ سال تک وہ لوگ آپ ﷺ کے بارے میں مسلسل الجھن اور شش و پنج کا شکار رہے کہ یکایک آپ ﷺ میں یہ کیسی تبدیلی آگئی ہے ! اگلی آیت ان کی اس کیفیت کا واضح اظہار کر رہی ہے :