سورۃ الحدید (57): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hadid کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحديد کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الحدید کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hadid
سُورَةُ الحَدِيدِ
صفحہ 537 (آیات 1 سے 3 تک)

سورۃ الحدید کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الحدید کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے، اور وہی زبردست دانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sabbaha lillahi ma fee alssamawati waalardi wahuwa alAAazeezu alhakeemu

آیت 1 { سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے۔“ ان سورتوں المُسَبِّحات کا یہ مضمون بہت اہم ہے۔ آگے چل کر سورة الحشر اور سورة الصف میں یہ آیت ”مَا فِیْ“ کے اضافے کے ساتھ اس طرح آئے گی : { سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِج } اور پھر سورة الجمعہ اور سورة التغابن میں مزید ُ پرزور انداز میں فعل مضارع کے ساتھ یوں آئے گا : { یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ }۔ کائنات کی ہرچیز کس طرح اللہ کی تسبیح کرتی ہے ؟ اس کی ایک صورت تو ”تسبیح حالی“ کی ہے جو ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ ہرچیز اپنی زبان حال سے اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ اس کی مثال ایک تصویر ہے جو اپنے مصور کے کمال فن یا عدم مہارت پر دلالت کرتی ہے۔ چناچہ جس طرح ایک خوبصورت تصویر زبان حال سے اپنے مصور کی تعریف کرتی نظر آتی ہے اسی طرح اس کائنات کا ذرّہ ذرّہ اپنے وجود سے گواہی دے رہا ہے کہ میرا پیدا کرنے والا ‘ میرا صانع ‘ میرا خالق ‘ میرا مصور ہر عیب سے پاک ‘ ہر نقص سے بالا اور ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہے ‘ اس کے علم ‘ اس کی قدرت اور اس کی حکمت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دوسری صورت ”زبانی تسبیح“ کی ہے جو کہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ سورة حٰمٓ السَّجدۃ کی آیات 20 اور 21 میں قیامت کے اس منظر کا ذکر ہے جب انسانوں کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے۔ اس پر وہ لوگ حیرت سے اپنی کھالوں سے پوچھیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ؟ جواب میں ان کی کھالیں کہیں گی : { اَنْقَطَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْئٍ } آیت 21 کہ آج اس اللہ نے ہمیں بھی زبان دے دی ہے جس نے ہر شے کو زبان دی ہے۔ اس کے علاوہ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو اپنی تسبیح کے لیے ایک طریقہ تفویض کر رکھا ہے : { تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ } آیت 44”اسی کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور وہ تمام مخلوق بھی جو ان میں ہے۔ اور کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ تسبیح کرتی ہے اس کی حمد کے ساتھ ‘ لیکن تم نہیں سمجھ سکتے ان کی تسبیح کو۔“ بہرحال کائنات کی ہرچیز اپنی زبان حال سے بھی اللہ کی تسبیح کر رہی ہے اور اللہ کی عطا کردہ اپنی مخصوص زبان سے بھی اس کی تعریف و توصیف میں مشغول و مصروف ہے۔ اس کے علاوہ اس کی تسبیح کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں جو کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ } ”اور وہ بہت زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا۔“ ان سورتوں میں اللہ تعالیٰ کے یہ دو اسماء اکٹھے ایک ساتھ بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ اسمائے حسنیٰ کا یہ جوڑا معنوی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ العزیز وہ ہستی ہے جس کا اختیار مطلق ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی سطح پر مطلق العنانیت کا تجربہ ہمیشہ بہت تلخ رہا ہے۔ عملی طور پر ہمارے ہاں ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ جہاں مطلق العنانیت آتی ہے ‘ وہاں اختیارات کا ناجائز استعمال ضرور ہوتا ہے۔ بلکہ پولیٹیکل سائنس کا تو اس حوالے سے آزمودہ فارمولا یہ ہے : " Authority tends to corrupt and absolute authority corrupts absolutely."چنانچہ جب کسی ملک کا آئین بنایا جاتا ہے اور معاشرے کے لیے قوانین وضع کیے جاتے ہیں تو متعلقہ ماہرین کی ساری کوشش اختیارات کو مشروط کرنے اور ان میں توازن قائم کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ایسی صاحب اختیار ہستی ہے جس کے اختیارات کی نہ تو کوئی حد ہے اور نہ ہی اس کے اختیارات کسی شرط سے مشروط ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ”الحکیم“ بھی ہے۔ وہ اپنے مطلق اختیارات میں خود ہی اپنی حکمت سے توازن قائم رکھتا ہے۔ چناچہ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ زبردست ہے ‘ وہ اپنی تمام مخلوقات پر غالب ہے ‘ اس کے اختیارات مطلق ہیں ‘ لیکن اس کا کوئی کام ‘ اس کا کوئی عمل اور اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

اردو ترجمہ

زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahu mulku alssamawati waalardi yuhyee wayumeetu wahuwa AAala kulli shayin qadeerun

آیت 2 { لَـہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”اسی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی۔“ آیت کے آغاز میں جو حرفِ جار ”ل“ آیا ہے یہ تملیک کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور استحقاق کے لیے بھی۔ یعنی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی de facto بھی اسی کی ہے اور de jure بھی۔۔۔ اسی کو حاکمیت کا حق پہنچتا ہے اور بالفعل بھی وہی حاکم ہے۔ اسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ مالک ہو اور بالفعل بھی وہی مالک ہے۔ اس سورة مبارکہ میں دین کا ذکر خصوصی طور پر بطور ایک نظام کے کیا گیا ہے اور یہ نظام صرف حکومت الٰہیہ کے زیر سایہ ہی قائم ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اللہ کی ایسی صفات بار بار نمایاں کی گئی ہیں جن کا تعلق طاقت ‘ حکومت ‘ قدرت اور اختیار سے ہے۔ { یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔ } ”وہی زندہ رکھتا ہے ‘ وہی مارتا ہے۔ اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“ اس سورة مبارکہ کی پہلی چھ آیات پورے قرآن حکیم میں اس اعتبار سے منفرد و ممتاز ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا ذکر فلسفے اور منطق کی سطح پر جامع ترین انداز میں ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ موقع ایسی تفصیلات میں جانے کا نہیں۔

اردو ترجمہ

وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa alawwalu waalakhiru waalththahiru waalbatinu wahuwa bikulli shayin AAaleemun

آیت 3{ ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ } ”وہی اول ہے ‘ وہی آخر ہے ‘ وہی ظاہر ہے ‘ وہی باطن ہے۔“ ایک انسان کے لیے اس کیفیت کو سمجھنا یقینا مشکل ہے کہ ہر زمان ‘ ہر مکان اگر وہ ہی وہ ہے تو پھر باقی سب کیا ہے۔ غالب ؔنے اس صورت حال سے متعلق انسانی حیرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : ؎جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟اس آیت کے بارے میں امام رازی رح کا درج ذیل قول بہت فکر انگیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس آیت کو پڑھ کر وہ جلالِ ذات کے رعب کے باعث ساکت و ششدر ہوئے کھڑے ہیں۔ لکھتے ہیں : اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذا المَقامَ مقامٌ غامِضٌ عمیقٌ مُہیبٌ”جان لو کہ یہ بہت مشکل ‘ بہت گہرا اور بڑا ُ پرہیبت مقام ہے !“ اس کی حقیقت کا سمجھنا آسان کام نہیں ہے۔ گویا بقول شاعر ع ”ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را !“ اس راستے پر خبردار ہو کر چلنا ‘ اب تمہار اپائوں تلوار کی دھار پر آگیا ہے ! صوفیاء نے ”وحدت الوجود“ کا فلسفہ اسی آیت سے اخذ کیا ہے ‘ لیکن یہ فلسفے کا بھی مشکل ترین مسئلہ ہے۔ ”وحدت الوجود“ کی تعبیر میں کچھ لوگوں نے ”ہمہ اوست“ کا تصور گھڑا ہے جس کے کفر و شرک ہونے میں کسی اہل علم کو اختلاف نہیں ہے۔ بہرحال ”وحدت الوجود“ کے بارے میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ البتہ میں نے اپنے مذکورہ دروس میں اپنی حد تک اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم 1896۔ 1984 ئ سے مجھے اپنی اس وضاحت کی سند بھی مل چکی ہے۔ ایک مرتبہ اسی سورت کے میرے ایک درس میں پروفیسر صاحب بھی موجود تھے۔ درس کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ اس ”وحدت الوجود“ کے مسئلے کو پڑھتے پڑھاتے اور سمجھتے سمجھاتے مجھے پچاس برس ہوگئے ہیں ‘ لیکن آپ نے اس ایک درس میں اسے جس انداز میں واضح کیا ہے میں آج تک نہیں کرسکا۔ یہاں ان سطور میں اس مسئلے کی وضاحت کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ تفصیل معلوم کرنے کے خواہش مند حضرات سورة الحدید پر میرے متعلقہ دروس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ بہرحال اس آیت کا آسان مفہوم یہ ہے کہ یہ کائنات ”حادث“ ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ موجود نہیں تھی اور جب یہ موجود نہیں تھی اس وقت کون موجود تھا ؟ ظاہر ہے اللہ اس وقت بھی موجود تھا۔ تو اس کائنات کا آغاز کہاں سے ہوا ؟ اللہ سے ! پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اس کائنات میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ { کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۔ } الرحمن ”جو کوئی بھی اس زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے۔“ تو جب یہ سب کچھ نہیں رہے گا تو اس وقت کون موجود ہوگا ؟ { وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ۔ } الرحمٰن ”اور باقی رہے گا صرف تیرے رب کا چہرہ جو بہت بزرگی والا اور بہت عظمت والا ہے۔“ تو جب کچھ نہیں رہے گا تو اللہ اس وقت بھی موجود ہوگا۔ تو پھر ”آخر“ کون ہوا ؟ ظاہر ہے کہ اللہ ! اب یوں سمجھیں کہ اول اور آخر کے مابین ظاہر بھی وہ ہے اور باطن بھی وہ ہے۔ اس مشکل مضمون کو درج ذیل حدیث نے عام لوگوں کے لیے آسان کردیا ہے۔ حضور ﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ‘ رَبَّـنَا وَرَبَّ کُلَّ شَیْئٍ ‘ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ‘ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ ‘ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ ‘ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ اْلآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ 1 ”اے اللہ آسمانوں اور زمین کے رب ! اے عرش عظیم کے مالک ! اے ہمارے رب اور ہرچیز کے پروردگار ! اے دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے اور تورات ‘ انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے ! میں ہرچیز کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضہ قدرت میں ہے۔ اے اللہ ! تو ہی اوّل ہے ‘ پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور تو ہی آخر ہے ‘ تیرے بعد کوئی چیز نہ ہوگی ‘ اور تو ہی ظاہر ہے ‘ تجھ سے بالاتر کوئی چیز نہیں ‘ اور تو ہی ایسا باطن ہے کہ تجھ سے مخفی کوئی چیز نہیں۔“ { وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ } ”اور وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔“ جب ہر زمان ‘ ہر مکان وہ ہی وہ ہے ‘ وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی تو کائنات کی کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ کیسے ہوسکتی ہے ! بلکہ وہ تو انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی آگاہ ہے۔ اس حوالے سے سورة قٓ کی یہ آیت ہم پڑھ چکے ہیں : { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ } ”اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ‘ اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں“۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہرچیز پر قادر عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہونے کا اعلان ہوا ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیت میں اس کے علم ِکل ُ کا بیان ہے کہ اسے ہرچیز کا علم ہے وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفات ایسی ہیں جن کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔

537