اس صفحہ میں سورہ Saad کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ ص کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1 { صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ } ”ص ‘ قسم ہے اس قرآن کی جو ذکر والا ہے۔“یہاں پر پہلے حرف یعنی صٓ پر آیت مکمل نہیں ہوئی بلکہ یہ حرف پہلی آیت کا حصہ ہے۔ اسی طرح سورة قٓ اور سورة نٓ کے آغاز میں بھی ایک ایک حرف ہے اور ان دونوں سورتوں میں بھی ایسا ہی ہے کہ اکیلا حرف پہلی آیت کا حصہ ہے نہ کہ الگ مستقل آیت۔ البتہ کئی سورتوں میں آغاز کے دو حروف پر آیت مکمل ہوجاتی ہے۔ مثلاً طٰہٰ ‘ یٰسٓ اور حٰمٓ مستقل آیات ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسی سورتیں بھی ہیں جن کے آغاز میں تین تین حروف مقطعات ہیں لیکن وہ حروف الگ آیت کی حیثیت سے نہیں بلکہ پہلی آیت کا حصہ ہیں۔ مثلاً الٓــــرٰ۔ اس کے برعکس بہت سی سورتوں کے آغاز میں تین حروف مقطعات ایک مکمل آیت کے طور پر بھی آئے ہیں ‘ مثلاً الٓـــــمّٓ۔ یہاں ان مثالوں سے دراصل یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کے یہ معاملات توقیفی حضور ﷺ کے بتانے پر موقوف ہیں ‘ کسی کے اجتہاد یا گرامر کے کسی اصول سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ ”بیان القرآن“ کے آغاز میں تعارفِ قرآن کے عنوان کے تحت اس موضوع کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ جہاں تک سورة صٓ کی پہلی آیت کے مضمون کا تعلق ہے اس میں ”ذکر والے“ قرآن کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس سے پہلے ہم کئی ایسی آیات بھی پڑھ چکے ہیں جن میں قرآن کو ”الذِّکْر“ یا ”ذِکْر“ کہا گیا ہے۔ سورة الحجر کی یہ آیت اس حوالے سے بہت اہم ہے : { اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۔ ”یقینا ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں“۔ سورة الانبیاء میں فرمایا گیا : { لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ ”اے لوگو ! اب ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے ‘ اس میں تمہارا ذکر ہے ‘ تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے !“ بہر حال ”ذکر“ کے معنی یاددہانی کے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ میں القرآن ذی الذکرکا مفہوم یہ ہے کہ یہ قرآن یاد دہانی reminding کا حامل ہے ‘ یاد دہانی سے معمور ہے۔ قرآن کی قسم کے بارے میں یہاں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کا ”مقسم علیہ“ محذوف ہے۔ یعنی ذکر والے قرآن کی قسم کس بات پر کھائی گئی ہے ‘ اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت قبل ازیں سورة یٰسٓ کی آیت 3 کے تحت یوں کی جا چکی ہے کہ قرآن میں جہاں جہاں بھی قرآن کی قسم کے بعد اس قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے ‘ ان تمام مقامات پر سورة یٰسٓ کی آیت 3 ہی کو ان تمام قسموں کا مقسم علیہ تصور کیا جائے گا۔ سورة یٰسٓ کے آغاز میں قرآن کی قسم اور اس قسم کے مقسم علیہ کا ذکر یوں ہوا ہے : { یٰسٓ۔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ ”یٰسٓ‘ قسم ہے قرآن حکیم کی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقینا آپ مرسلین میں سے ہیں“۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے بعد بھی اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کے کلمات کو محذوف مانتے ہوئے پورے جملے کا مفہوم یوں تصور کیا جائے گا : ”اے محمد ﷺ یہ ذکر والا قرآن گواہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔“
آیت 2 { بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّۃٍ وَّشِقَاقٍ } ”لیکن جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی ہے وہ غرور اور ضد میں مبتلا ہیں۔“ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں ضدم ّضدا ایک موقف اختیار کرلیا ہے اور اب غرور اور جھوٹی اَنا کی وجہ سے اس پر اڑے ہوئے ہیں۔
آیت 3 { کَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ } ”کتنی ہی قوموں کو ہم نے ان سے پہلے ہلاک کیا ہے“ { فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ } ”تو عذابِ الٰہی کے وقت وہ لگے چیخنے ِچلانے ‘ حالانکہ تب خلاصی کا وقت نہیں رہا تھا۔“ اللہ تعالیٰ کے قاعدے اور قانون کے مطابق کسی شخص کی موت کے آثار ظاہر ہونے کے بعد اس کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب کسی قوم پر عذاب کے آثار ظاہر ہوجائیں تو اس وقت ان لوگوں کی اجتماعی توبہ انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اس قانون سے پوری انسانی تاریخ میں صرف قوم یونس علیہ السلام کو استثناء ملا تھا ‘ جس کا ذکر سورة یونس کی آیت 98 میں آیا ہے۔
آیت 4 { وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ } ”اور انہیں بڑا تعجب ہوا ہے کہ ان کے پاس آیا ہے ایک خبردار کرنے والا ان ہی میں سے“ { وَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ } ”اور کافر کہتے ہیں کہ یہ ساحر ہے ‘ کذاب ّہے۔“ یہ بہت سخت الفاظ ہیں ‘ لیکن قرآن نے مشرکین ِمکہ ّکے قول کے طور پر انہیں جوں کا توں نقل کیا ہے۔ ان الفاظ سے دراصل حضور ﷺ کی مخالفت کی اس کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے جو اس سورت کے نزول کے وقت مکہ کے ماحول میں پائی جاتی تھی۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے یہ معلومات اپنے حافظے میں پھر سے تازہ کرلیں کہ مکی سورتوں کے پچھلے گروپ کی آٹھ سورتیں الفرقان تا السجدۃ اور زیر مطالعہ گروپ کی تیرہ سورتیں سبا تا الاحقاف 4 نبوی ﷺ سے 8 نبوی ﷺ کے زمانے میں نازل ہوئیں۔ ان میں سے سورة الصّٰفّٰت البتہ اس دور کی سورت نہیں ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آیات پانچ رکوعوں میں 182 آیات ہیں اور ایک رکوع میں 53 آیات بھی ہیں اور تیز ردھم سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ابتدائی دور کی سورت ہے۔ بہر حال ان سورتوں کا نزول جس دور 4 تا 8 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوا ‘ اس دور میں حضور ﷺ کی مخالفت بہت شدت اختیار کرچکی تھی اور اسی نسبت سے آپ ﷺ پر ہونے والے حملوں کی نوعیت میں بھی تبدیلی آچکی تھی۔ ابتدا میں تو اکثر لوگوں نے آپ ﷺ کی باتوں پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس لیے اس زمانے میں اگر کوئی شخص آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا تو وہ آپ ﷺ کو مجنون وغیرہ کہہ دیتا ‘ بلکہ ابتدا میں تو بعض لوگوں کے ہاں اس حوالے سے آپ ﷺ کے ساتھ ہمدردی کا انداز بھی پایا جاتا تھا۔ اس وقت بعض لوگ تو واقعی سمجھتے تھے کہ غار حرا میں راتیں گزارنے کی وجہ سے آپ ﷺ پر کوئی آسیب وغیرہ آگیا ہے۔ چناچہ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ نے آپ ﷺ سے بہت ہمدردی کے انداز میں کہا تھا کہ اے میرے بھتیجے ! عرب کے بہت سے کاہنوں اور عاملوں کے ساتھ میرے تعلقات ہیں ‘ اگر تم کہو تو میں ان میں سے کسی کو بلا کر تمہارا علاج کرا دوں۔ البتہ جب مشرکین مکہ نے دیکھا کہ وہ آواز جس کو وہ محض ایک شخص کی پکار سمجھتے تھے اب گھر گھر میں گونجنے لگی ہے اور جس تحریک کو انہوں نے ایک مشت ِغبار سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا اب وہ ایک طوفان کا روپ دھار کر ان کے پورے معاشرے کو زیر و زبر کرنے والی ہے تو ان کی مخالفت میں بتدریج شدت آتی گئی۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ سٰحِرٌ کَذَّابٌ ایسے ہی شدید مخالفانہ جذبات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔
آیت 5 { اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِلٰہًا وَّاحِدًاج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} ”کیا اس نے تمام معبودوں کو بس ایک معبود بنا دیا ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے !“ جیسا کہ قبل ازیں بھی بتایا جا چکا ہے ‘ زیر مطالعہ گروپ کی ان سورتوں کا مرکزی مضمون توحید ہے جو اس آیت میں بڑے موثر اور زوردار انداز میں بیان ہوا ہے۔
آیت 6 { وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ } ”اور چل پڑے ان کے سردار یہ کہتے ہوئے کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔“ یہ آیت لفظی تصویر کشی word picture کا خوبصورت نمونہ پیش کرتی ہے۔ ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد مکہ کے مخصوص ماحول میں ایک مجمع کا نقشہ نگاہوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے ‘ جس سے رسول اللہ ﷺ خطاب فرما رہے ہیں۔ مجمع میں عام لوگوں کے ساتھ قریش کے چند سردار بھی موجود ہیں۔ سب لوگ حضور ﷺ کی باتیں بڑے دھیان سے سن رہے ہیں ‘ مگر تھوڑی دیر کے بعد ان کے سردار یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل پڑتے ہیں کہ چلو چلو یہاں سے ! تم لوگ کہاں کھڑے ہو ؟ کس کی باتیں سن رہے ہو ؟ کیا ان کے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں گے ؟ چھوڑو ان باتوں کو اور جائو اپنا اپنا کام کرو ! اور سنو ‘ ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب باتوں کے پیچھے ضرور ان کا کوئی مفاد پوشیدہ ہے۔ یہ دعوت تو اس غرض سے دی جارہی ہے کہ محمد ﷺ یہاں اپنا اقتدار قائم کر کے ہم پر حکم چلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے تم اپنے عقائد اور اپنے معبودوں کی پرستش پر مضبوطی سے جمے رہو اور ان باتوں پر دھیان مت دو !
آیت 7 { مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ } ”ہم نے ایسی کوئی بات پچھلے دین میں تو نہیں سنی ہے۔“ آخر ہمارا بھی اپنا ایک دین ہے جو ہم نے ورثے میں پایا ہے۔ پھر ہمارے باپ دادا کی روایات ہیں جو نسل در نسل ہم تک پہنچی ہیں۔ لیکن ہم نے ایسی باتیں اس سے پہلے نہ تو اپنے باپ دادا کے دین میں سنی ہیں اور نہ ہی پرانی روایات سے ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ { اِنْ ہٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ ”یہ تو نہیں ہے مگر ایک گھڑی ہوئی چیز۔“ اختلاق ”خلق“ سے باب افتعال ہے۔ یعنی یہ کوئی خواہ مخواہ بنائی ہوئی چیز ہے۔
آیت 8 { ئَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْم بَیْنِنَا } ”کیا اسی پر نازل ہوا ہے یہ ذکر ہمارے درمیان ؟“ اگر یہ واقعی اللہ کا کلام ہے تو کیا یہ محمد ﷺ پر ہی نازل ہونا تھا ‘ کیا اس کے لیے اللہ کو ہمارے بڑے بڑے سرداروں اور سرمایہ داروں سے کوئی ”اعلیٰ شخصیت“ نظر نہیں آئی ؟ { بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ ذِکْرِیْ } ”بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ میرے ذکر کے معاملے میں شک میں پڑگئے ہیں۔“ { بَلْ لَّمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ } ”بلکہ ابھی تک انہوں نے میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔“ اصل بات یہ ہے کہ ابھی تک انہوں نے میرے کسی عذاب کی مار نہیں چکھی ‘ اس لیے انہیں میرے اس کلام کے بارے میں شک ہے۔
آیت 9 { اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ الْعَزِیْزِ الْوَہَّابِ } ”کیا ان کے اختیار میں ہیں آپ کے رب کی رحمت کے خزانے ؟ جو بہت زبردست ‘ بہت عطا کرنے والا ہے۔“ کیا اللہ کی رحمت کے خزانوں کا اختیار ان لوگوں کے پاس ہے ؟ کیا اللہ ان لوگوں سے پوچھنے کا مکلف تھا کہ میں نبوت اور رسالت کے منصب پر کسے فائز کروں ؟
آیت 10 { اَمْ لَہُمْ مُّلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَاقف } ”کیا ان کے پاس ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس سب کی ؟“ { فَلْیَرْتَقُوْا فِی الْاَسْبَابِ } ”تو چاہیے کہ یہ چڑھ جائیں رسیاں تان کر آسمان پر۔“ اگر تمہارے لیے ممکن ہے تو اپنے تمام وسائل و ذرائع بروئے کار لا کر آسمان پر چڑھ جائو اور ربّ العالمین کی رحمت کے خزانوں اور اس کے اقتدار واختیار میں تصرف کر کے دکھائو !
آیت 11 { جُنْدٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ } ”یہ بھی ایک لشکر ہے پہلے ہلاک کیے گئے لشکروں میں سے ‘ جواَب یہاں ہلاک ہوگا۔“ اگلی آیات میں قوم نوح علیہ السلام ‘ قوم ہود علیہ السلام ‘ قوم لوط علیہ السلام ‘ قوم شعیب علیہ السلام اور آلِ فرعون کے عبرتناک انجام کا ذکر ہے۔ مطلب یہ کہ جو روش اختیار کر کے ماضی کی یہ اقوام ہلاکت سے دو چار ہوئیں ‘ وہی روش اب قریش ِمکہ ّبھی اپنائے ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی مذکورہ اقوام جیسے انجام سے دو چار ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
آیت 12 { کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ } ”ان سے پہلے جھٹلایا تھا قوم نوح علیہ السلام ‘ قوم عاد اور میخوں والے فرعون نے۔“ کہا جاتا ہے کہ فرعون جب اپنے لشکروں کے ساتھ سفر کرتا تھا تو گھوڑوں اور خچروں کی ایک کثیر تعداد کو صرف خیموں کے کھونٹے اٹھانے کے لیے مختص کیا جاتا تھا ‘ اس لیے اسے فِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ کہا گیا ہے۔ اس میں کثرت افواج کی طرف اشارہ ہے۔
آیت 13 { وَثَمُوْدُ وَقَوْمُ لُوْطٍ وَّاَصْحٰبُ لْئَیْکَۃِط اُولٰٓئِکَ الْاَحْزَابُ } ”اور قوم ثمود ‘ قوم لوط علیہ السلام اور َبن والوں قومِ شعیب علیہ السلام نے ‘ یہ ہیں وہ ہلاک ہونے والے لشکر !“ یعنی یہ تمام اقوام اس سے پہلے اللہ کے رسولوں علیہ السلام کو جھٹلا کر ہلاک ہوچکی ہیں۔
آیت 14 { اِنْ کُلٌّ اِلَّا کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ } ”ان سب نے ہی رسولوں علیہ السلام کی تکذیب کی ‘ تو وہ میری سزا کے مستحق ہوگئے۔“
آیت 15 { وَمَا یَنْظُرُ ہٰٓؤُلَآئِ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً مَّا لَہَا مِنْ فَوَاقٍ } ”اور یہ لوگ بھی اب منتظر نہیں ہیں مگر صرف ایک چنگھاڑ کے جس میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا۔“ ماضی کی کئی اقوام پر اللہ کا عذاب ایک مسلسل تیز آواز اور چنگھاڑ کی صورت میں بھی آیا تھا۔ چناچہ اگر مشرکین ِمکہ ّاپنی ہٹ دھرمی پر اسی طرح قائم رہے تو ایسا ہی کوئی عذاب ان پر بھی آسکتا ہے۔ آج کی سائنس بھی تصدیق کرتی ہے کہ صوتی لہریں sound waves چونکہ انرجی ہی کی ایک قسم ہے ‘ اس لیے ایک انتہائی زور دار آواز کسی بھی مادی نظام کو درہم برہم کرنے اور ماحول میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ اگر کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہے تو یہ کام وہ صرف ایک زور دار آواز سے ہی کرسکتا ہے۔
آیت 16 { وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ } ”اور وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہمارا حصہ ُ تو ہمیں جلدی دے دے ‘ یومِ حساب سے پہلے۔“ یعنی تو ہمارا حساب روز حساب سے پہلے ہی چکا دے ! قِطّ کے معنی حصہ بھی ہیں اور یہ حساب کے رجسٹر چٹھا کے لیے بھی بولاجاتا ہے ‘ جس میں کسی کاروبار کی آمدن اور خرچ کا سالانہ حساب کتاب لکھا جاتا ہے اور اس سے اس کاروبار کی سالانہ بچت یا نقصان کا پتا چلتا ہے۔ یہ بات مشرکین مکہ استہزائیہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ یہ جو محمد ﷺ ہمیں ڈراتے رہتے ہیں کہ ہمیں مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا ‘ پھر ہمارے ایک ایک عمل کا حساب ہوگا اور اس کے بعد ہمیں سزا دی جائے گی ‘ تو اے ہمارے پروردگار ! اس کے لیے یوم حساب ہی کا انتظار کیوں ؟ یہ کام ابھی کیوں نہ ہوجائے ! اس لیے بہتر ہوگا کہ تو ہمارا حساب کتاب ابھی کرلے اور ہمارا چٹھا Balace Sheet ابھی اسی زندگی میں ہی ہمارے ہاتھ میں تھما دے۔