اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
یہ حروف مقطعات ہیں ‘ اور جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے ‘ حروف مقطعات کا حقیقی اور یقینی مفہوم کسی کو معلوم نہیں اور یہ کہ ان تمام حروف کے مفاہیم و مطالب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان راز کا درجہ رکھتے ہیں۔ البتہ یہ نوٹ کرلیجیے کہ قرآن مجید کی دو سورتیں ایسی ہیں جن کے شروع میں چار چار حروف مقطعات آئے ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہی سورة الاعراف ہے اور دوسری سورة الرعد ‘ جس کا آغازا آآّرٰسے ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے تین حروف مقطعات اآآّ سورة البقرۃ اور سورة آل عمران میں آچکے ہیں۔
آیت 2 کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ رسول اللہ ﷺ دعوت کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کر رہے تھے ‘ مگر آپ ﷺ کی سالہا سال کی جدوجہد کے باوجود مکہ کے صرف چند لوگ ایمان لائے۔ یہ صورت حال آپ ﷺ کے لیے باعث تشویش تھی۔ ایک عام آدمی تو اپنی غلطیوں کی ذمہ داری بھی دوسروں کے سر پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کو بھی دوسروں کے کھاتے میں ڈال کر خود کو صاف بچانے کی فکر میں رہتا ہے ‘ لیکن ایک شریف النفس انسان ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر اس کی کوشش کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں تو اس میں اس کی طرف سے کہیں کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ اس سوچ اور احساس کی وجہ سے وہ اپنے دل پر ہر وقت ایک بوجھ محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا جب حضور ﷺ کی مسلسل کوشش کے باوجود اہل مکہ ایمان نہیں لا رہے تھے تو بشری تقاضے کے تحت آپ ﷺ کو دل میں بہت پریشانی محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے آپ ﷺ کی تسلی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس قرآن کی وجہ سے آپ ﷺ کے اوپر کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ لِتُنْذِرَ بِہٖ وہی لفظ ہے جو ہم سورة الانعام کی آیت 19 میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ وہاں فرمایا گیا تھا : وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط اور یہ قرآن میری طرف اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تمہیں بھی خبردار کروں اور جس جس کو یہ پہنچے۔ یہاں مزید فرمایا کہ یہ اہل ایمان کے لیے ذِکْرٰی یاد دہانی ہے۔ یعنی جن سلیم الفطرت لوگوں کے اندر بالقوۃ potentially ایمان موجود ہے ان کے اس سوئے ہوئے dormant ایمان کو بیدار activate کرنے کے لیے یہ کتاب ایک طرح سے یاددہانی ہے۔ جیسے آپ کو کوئی چیز بھول گئی تھی ‘ اچانک کہیں اس کی کوئی نشانی دیکھی تو فوراً وہ شے یاد آگئی ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کے حصول کے لیے اس کائنات کی نشانیوں کو یاد دہانی ذکریٰ بنا دیا ہے۔
آیت 3 اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ پچھلی آیت میں حضور ﷺ سے صیغہ واحد میں خطاب تھا فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ جب کہ یہاں اِتَّبِعُوْا جمع کا صیغہ ہے۔ یعنی یہاں خطاب کا رخ عام لوگوں کی طرف ہے اور انہیں وحئ الٰہی کی پیروی کا حکم دیا جا رہا ہے۔ وَلاَ تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآءَط قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ ۔ یعنی اپنے رب کو چھوڑ کر کچھ دوسرے اولیاء دوست ‘ سرپرست بنا کر ان کی پیروی مت کرو۔
آیت 4 وَکَمْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا فَجَآءَہَا بَاْسُنَآ بَیَاتًا اَوْ ہُمْ قَآءِلُوْنَ۔۔ چو ن کہ اس سورة مبارکہ کے موضوع کا عمود التّذکیر بِاَیَّام اللّٰہ ہے ‘ لہٰذا شروع میں ہی اقوام گزشتہ پر عذاب اور ان کی بستیوں کی تباہی کا تذکرہ آگیا ہے۔ یہ قوم نوح علیہ السلام ‘ قوم ہود علیہ السلام ‘ قوم صالح علیہ السلام علیہ السلام اور قوم شعیب علیہ السلام کی بستیوں اور عامورہ اور سدوم کے شہروں کی طرف اشارہ ہے۔
آیت 5 فَمَا کَانَ دَعْوٰٹہُمْ اِذْ جَآءَ ہُمْ بَاْسُنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ واقعتا ہمارے رسولوں نے تو ہماری آنکھیں کھولنے کی پوری کوشش کی تھی مگر ہم نے ہی اپنی جانوں پر زیادتی کی جو ان کی دعوت کو نہ مانا۔
آیت 6 فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ یہ فلسفہ رسالت کا بہت اہم موضوع ہے جو اس آیت میں بڑی جلالی شان کے ساتھ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی طرف رسول کو اس لیے بھیجتا ہے تاکہ وہ اسے خبردار کردے۔ یہ ایک بہت بھاری اور حساس ذمہ داری ہے جو رسول پر ڈالی جاتی ہے۔ اب اگر بالفرض رسول کی طرف سے اس میں ذرا بھی کوتاہی ہوگی تو قوم سے پہلے اس کی پکڑ ہوجائے گی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آپ نے ایک اہم پیغام دے کر کسی آدمی کو اپنے کسی دوست کے پاس بھیجا کہ وہ یہ کام کل تک ضرور کردے ورنہ بہت نقصان ہوگا ‘ لیکن آپ کے اس دوست نے وہ کام نہیں کیا اور آپ کا نقصان ہوگیا۔ اب آپ غصّے سے آگ بگولہ اپنے دوست کے پاس پہنچے اور کہا کہ تم نے میرے پیغام کے مطابق بروقت میرا کام کیوں نہیں کیا ؟ اب آپ کا دوست اگر جواباً یہ کہہ دے کہ اس کے پاس تو آپ کا پیغام لے کر کوئی آیا ہی نہیں تو اپنے دوست سے آپ کی ناراضی فوراً ختم ہوجائے گی ‘ کیونکہ اس نے کوتاہی نہیں کی ‘ اور آپ کو شدیدغصہ اس شخص پر آئے گا جس کو آپ نے پیغام دے کر بھیجا تھا۔ اب آپ اس سے باز پرس کریں گے کہ تم نے میرا اتنا اہم پیغام کیوں نہیں پہنچایا ؟ تم نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دے کر میرا اتنا بڑا نقصان کردیا۔ اسی طرح کا معاملہ ہے اللہ ‘ رسول اور قوم کا۔ اللہ نے رسول کو پیغام بر بنا کر بھیجا۔ بالفرض اس پیغام کے پہنچانے میں رسول سے کوتاہی ہوجائے تو وہ جوابدہ ہوگا۔ ہاں اگر وہ پیغام پہنچا دے تو پھر وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوجائے گا۔ پھر اگر قوم اس پیغام پر عمل درآمد نہیں کرے گی تو وہ ذمہ دار ٹھہرے گی۔ چناچہ آخرت میں امتوں کا بھی محاسبہ ہونا ہے اور رسولوں کا بھی۔ امت سے جواب طلبی ہوگی کہ میں نے تمہاری طرف اپنا رسول بھیجا تھا تاکہ وہ تمہیں میرا پیغام پہنچا دے ‘ تم نے اس پیغام کو قبول کیا یا نہیں کیا ؟ اور مرسلین سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے میرا پیغام پہنچایا یا نہیں ؟ اس کی ایک جھلک ہم سورة المائدۃ آیت 109 میں مَاذَآ اُجِبْتُمْ ط کے سوال میں اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ قیامت کے دن ہونے والے مکالمے کے ان الفاظ میں بھی دیکھ آئے ہیں : وَاِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط آیت 116 اور جب اللہ پوچھے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے کہا تھا لوگوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو بھی الٰہ بنا لینا اللہ کے علاوہ ؟ اب ذرا حجۃ الوداع 10 ہجری کے منظر کو ذہن میں لائیے۔ محمد رسول اللہ ﷺ ایک جم غفیر سے مخا طب ہیں۔ اس تاریخی موقع کے پس منظر میں آپ ﷺ کی 23 برس کی محنت شاقہ تھی ‘ جس کے نتیجے میں آپ ﷺ نے جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں پر اتمام حجت کر کے دین کو غالب کردیا تھا۔ لہٰذا آپ ﷺ نے اس مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا : اَلاَ ھَلْ بَلَّغْتُ ؟ لوگوسنو ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ اس پر پورے مجمع نے یک زبان ہو کر جواب دیا : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ 1۔ ایک روایت میں الفاظ آتے ہیں : اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَّ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ کہ ہاں ہم گواہ ہیں آپ ﷺ نے رسالت کا حق ادا کردیا ‘ آپ ﷺ نے امانت کا حق ادا کردیا یہ قرآن آپ ﷺ کے پاس اللہ کی امانت تھی جو آپ ﷺ نے ہم تک پہنچا دی ‘ آپ ﷺ نے امت کی خیر خواہی کا حق ادا کردیا اور آپ ﷺ نے گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں کا پردہ چاک کردیا۔ حضور ﷺ نے تین دفعہ یہ سوال کیا اور تین دفعہ جواب لیا اور تینوں دفعہ انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر پکارا : اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اے اللہ تو بھی گواہ رہ ‘ یہ مان رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا۔ اور پھر فرمایا : فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَاءِبَ 2 کہ اب پہنچائیں وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں ان لوگوں کو جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ گویا میرے کندھے سے یہ بوجھ اتر کر اب تمہارے کندھوں پر آگیا ہے۔ اگر میں صرف تمہاری طرف رسول بن کر آیا ہوتا تو بات آج پوری ہوگئی ہوتی ‘ مگر میں تو رسول ہوں تمام انسانوں کے لیے جو قیامت تک آئیں گے۔ چناچہ اب اس دعوت اور تبلیغ کو ان لوگوں تک پہنچانا امت کے ذمہ ہے۔ یہی وہ گواہی ہے جس کا منظر سورة النساء میں دکھایا گیا ہے : فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا۔ ۔ پھر اس روز حجۃ الوداع کے موقع والی گواہی کا حوالہ بھی آئے گا کہ اے اللہ میں نے تو ان لوگوں کو تیرا پیغام پہنچا دیا تھا ‘ اب یہ ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ چونکہ معاملہ ان پر کھول دیا گیا تھا ‘ لہٰذا اب یہ لوگ لاعلمی کے بہانے کا سہارا نہیں لے سکتے۔آیت 6 فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ کی طرح اگلی آیت بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔
آیت 7 فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْہِمْ بِعِلْمٍ وَّمَا کُنَّا غَآءِبِیْنَ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کس قدر جدوجہد کر رہے تھے اور آپ ﷺ کے صحابہ رض کس طرح کے مشکل حالات میں آپ ﷺ کا ساتھ دے رہے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ابوجہل اور ابو لہب کی کارروائیوں کو بھی دیکھ رہا تھا کہ وہ کس کس طریقے سے حضور ﷺ کو اذیتیں پہنچا رہے تھے اور اسلام کی مخالفت کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دِن ہم ان کے سامنے اپنے علم کی بنیاد پر تمام احوال بیان کردیں گے ‘ کیونکہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو ہم وہاں سے غیر حاضر تو نہیں تھے۔ سورة الحدید آیت 4 میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط کہ وہ اللہ تمہارے ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہوتے ہو۔
آیت 8 وَالْوَزْنُ یَوْمَءِذِ نِ الْحَقُّ ج اس روز اللہ تعالیٰ ترازو نما کوئی ایسا نظام قائم کرے گا ‘ جس کے ذریعے سے اعمال کا ٹھیک ٹھیک وزن ہوگا ‘ مگر اس دن وزن صرف حق ہی میں ہوگا ‘ یعنی صرف اعمال صالحہ ہی کا وزن ہوگا ‘ باطل اور برے کاموں میں سرے سے کوئی وزن نہیں ہوگا ‘ ریاکاری کی نیکیاں ترازو میں بالکل بےحیثیت ہوں گی۔ وَالْوَزْنُ یَوْمَءِذِ نالْحَقُّ ج کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ اس دن وزن ہی حق ہوگا ‘ وزن ہی فیصلہ کن ہوگا۔ اگر دو پلڑوں والی ترازو کا تصور کریں تو جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگا نجات بس اسی کے لیے ہوگی۔
آیت 10 وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ ط قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ تم لوگوں کو تو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ زمین کے وسائل انسان کے مسلسل استعمال سے ختم نہ ہوجائیں ‘ انسانی و حیوانی خوراک کا قحط نہ پڑجائے۔ مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے خزانے ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ ہم نے تمہیں اس زمین میں بسایا ہے تو یہاں تمہارے معاش کا پورا پورا بندوبست بھی کیا ہے۔ اس دنیوی زندگی میں تمہاری اور تمہاری آئندہ نسلوں کی ہر قسم کی جسمانی ضرورتیں یہیں سے پوری ہوں گی۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اگلے دوسرے رکوع میں بھی اسی مضمون یعنی تمکن فی الارض کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔
آیت 11 وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ق نظریۂ ارتقاء Evolution Theory کے حامی اس آیت سے بھی کسی حد تک اپنی نظریاتی غذا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کے بارے میں مختلف نوعیت کی تفصیلات ملتی ہیں۔ ایک طرف تو انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ مثلاً سورة آل عمران آیت 59 میں بتایا گیا ہے کہ انسانِ اوّل کو مٹی سے بنا کر کُنْ کہا گیا تو وہ ایک زندہ انسان بن گیا فَیَکُوْن۔ یعنی یہ آیت ایک طرح سے انسان کی ایک خاص مخلوق کے طور پر تخلیق کی تائید کرتی ہے۔ جب کہ آیت زیر نظر میں اس ضمن میں تدریجی مراحل کا ذکر ہوا ہے۔ یہاں جمع کے صیغے وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس سلسلہ کی کچھ انواع species پہلے پیدا کی گئی تھیں۔ گویا نسل انسانی پہلے پیدا کی گئی ‘ پھر ان کی شکل و صورت کو finishing touches دیے گئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم تو ایک تھا ‘ پھر یہ جمع کے صیغے کیوں استعمال ہو رہے ہیں ؟ اس سوال کے جواب کے لیے سورة آل عمران کی آیت 33 بھی ایک طرح سے ہمیں دعوت غور و فکر دیتی ہے ‘ جس میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے چنا تھا : اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔ گویا یہ آیت بھی کسی حد تک ارتقائی عمل کی طرف اشارہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ بہر حال اس قسم کی رض heories کے بارے میں جیسے جیسے جو جو عملی اشارے دستیاب ہوں ان کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ‘ اور آنے والے وقت کے لیے اپنے options کھلے رکھنے چاہیں۔ ہوسکتا ہے جب وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مزید حقائق اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے انسانی علم میں آئیں تو ان آیات کے مفاہیم زیادہ واضح ہو کر سامنے آجائیں۔