سورہ محمد (47): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Muhammad کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ محمد کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ محمد کے بارے میں معلومات

Surah Muhammad
سُورَةُ مُحَمَّدٍ
صفحہ 507 (آیات 1 سے 11 تک)

ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَصَدُّوا۟ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَٰلَهُمْ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَءَامَنُوا۟ بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّـَٔاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ٱتَّبَعُوا۟ ٱلْبَٰطِلَ وَأَنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّبَعُوا۟ ٱلْحَقَّ مِن رَّبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ ٱللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَٰلَهُمْ فَإِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَضَرْبَ ٱلرِّقَابِ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا۟ ٱلْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَآءً حَتَّىٰ تَضَعَ ٱلْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَآءُ ٱللَّهُ لَٱنتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَٱلَّذِينَ قُتِلُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَٰلَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ ٱلْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تَنصُرُوا۟ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَتَعْسًا لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَٰلَهُمْ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَٰلَهُمْ ۞ أَفَلَمْ يَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَٰفِرِينَ أَمْثَٰلُهَا ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ مَوْلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَأَنَّ ٱلْكَٰفِرِينَ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ
507

سورہ محمد کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ محمد کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena kafaroo wasaddoo AAan sabeeli Allahi adalla aAAmalahum

آیت 1 { اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ } ”جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا اور خود بھی رکے اللہ نے ان کی ساری جدوجہد کو رائیگاں کردیا۔“ صَدَّ یَـصُدُّ کے بارے میں قبل ازیں بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ یہ فعل لازم بھی ہے اور متعدی بھی۔ یعنی اس کے معنی خود رکنے اور باز رہنے کے بھی ہیں اور دوسرے کو روکنے کے بھی۔ یہ آیت اپنے مفہوم میں اہل ِایمان کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبری ہے کہ دعوت حق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اب تک مخالفین حق نے جو جدوجہد بھی کی ہے وہ سب اکارت ہوچکی ہے اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود انقلابِ نبوی ﷺ کا قافلہ عنقریب اپنی منزل مقصود پر خیمہ زن ہونے والا ہے۔

اردو ترجمہ

اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اُس چیز کو مان لیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہے اور ہے وہ سراسر حق اُن کے رب کی طرف سے اللہ نے ان کی برائیاں اُن سے دور کر دیں اور ان کا حال درست کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena amanoo waAAamiloo alssalihati waamanoo bima nuzzila AAala muhammadin wahuwa alhaqqu min rabbihim kaffara AAanhum sayyiatihim waaslaha balahum

آیت 2 { وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ } ”اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے اور جو ایمان لائے اس شے پر جو نازل کی گئی محمد ﷺ پر اور وہ حق ہے ان کے رب کی طرف سے“ { کَفَّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَاَصْلَحَ بَالَہُمْ } ”اللہ نے دور کردیں ان سے ان کی خطائیں اور ان کے حال کو سنوار دیا۔“ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رض کو مسلسل آزمائشوں کی بھٹیوں میں سے گزار کر ان کی شخصیات کو ُ کندن بنا دیا۔ اس کی نظر ِرحمت سے ان کی سیرتیں ایمان و یقین کے نور سے جگمگانے لگیں اور ان کے کردار ‘ اخلاق و عمل کی خوشبو سے مہک اٹھے۔

اردو ترجمہ

یہ اس لیے کہ کفر کرنے والوں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان لانے والوں نے اُس حق کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے اِس طرح اللہ لوگوں کو اُن کی ٹھیک ٹھیک حیثیت بتائے دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika bianna allatheena kafaroo ittabaAAoo albatila waanna allatheena amanoo ittabaAAoo alhaqqa min rabbihim kathalika yadribu Allahu lilnnasi amthalahum

آیت 3{ ذٰلِکَ بِاَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ } ”یہ اس لیے کہ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے باطل کی پیروی کی“ { وَاَنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّہِمْ } ”اور جو لوگ ایمان لائے انہوں نے حق کی پیروی کی ‘ جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے۔“ { کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَہُمْ } ”اسی طرح اللہ لوگوں کے لیے ان کی مثالیں بیان کرتا ہے۔“ اگلی آیت مشکلات القرآن میں سے ہے۔ اس کی بنیادی وجہ الفاظ کی وہ تقدیم و تاخیر ہے جو ہمیں قرآن کی آیات میں بعض جگہ نظر آتی ہے۔ جیسا کہ کئی مرتبہ وضاحت کی جا چکی ہے ‘ الفاظ کی یہ تقدیم و تاخیر قرآن کا خاص اسلوب ہے اور اس کا مقصد کلام کی روانی میں ایک خاص ردھم اور آہنگ کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ چناچہ قرآن میں جہاں کہیں بھی ایسا معاملہ ہو وہاں مفہوم کے درست ادراک کے لیے الفاظ کی اصل ترتیب کے بارے میں گہرے غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ چناچہ اس آیت کے مطالعے کے لیے بھی خصوصی توجہ درکار ہے۔

اردو ترجمہ

پس جب اِن کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے یہ ہے تمہارے کرنے کا کام اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اُس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha laqeetumu allatheena kafaroo fadarba alrriqabi hatta itha athkhantumoohum fashuddoo alwathaqa faimma mannan baAAdu waimma fidaan hatta tadaAAa alharbu awzaraha thalika walaw yashao Allahu laintasara minhum walakin liyabluwa baAAdakum bibaAAdin waallatheena qutiloo fee sabeeli Allahi falan yudilla aAAmalahum

آیت 4 { فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ”تو اے مسلمانو ! جب تمہاری مڈ بھیڑ ہو کافروں سے“ اب جبکہ تمہاری جدوجہد مسلح تصادم کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور تم لوگ تلوار کا جواب تلوار سے دینے کے لیے میدان میں اتر پڑے ہو تو جب ان کافروں سے تمہارے مقابلہ کی نوبت آئے : { فَضَرْبَ الرِّقَابِ } ”تو ان کی گردنیں مارنا ہے !“ اب میدان کارزار میں تمہاری پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ جو دشمن حق تمہارے سامنے آئے وہ بچ کر نہ جائے۔ لہٰذا ان کی گردنیں اُڑائو ‘ انہیں قتل کرو ! { حَتّٰٓی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ } ”یہاں تک کہ جب تم انہیں اچھی طرح سے ُ کچل دو تب انہیں مضبوطی کے ساتھ باندھو“ یعنی اس مرحلے پر تم بچے کھچے لوگوں کو قیدی بنا سکتے ہو۔ { فَاِمَّا مَنًّابَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا } ”پھر اس کے بعد تم انہیں چھوڑ سکتے ہو احسان کر کے یا فدیہ لے کر ‘ یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔“ اس آیت کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر کے اسلوب پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ الفاظ کی اصل ترتیب یوں ہے : ”فَضَرْبَ الرِّقَابِ ، حَتّٰٓی اِذَا اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ، حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا فَاِمَّا مَنًّابَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً“۔ گویا اس جملے کے مطابق مقابلے کے مختلف مراحل کی ترتیب یہ ہوگی : پہلے ان کی گردنیں مارو ‘ جب ان کی طاقت اچھی طرح کچل ڈالی جائے تب انہیں قید میں مضبوط باندھو۔ پھر جب جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد انہیں چھوڑا جاسکتا ہے ‘ چاہے احسان کر کے چھوڑو یا فدیہ لے کر۔ آیت کے درست مفہوم تک پہنچنے کے لیے اس اہم فلسفے کو بھی سمجھنا ضروری ہے جو یہاں ”حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا“ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اس کے لیے انگریزی کے دو الفاظ war اور battle کو ذہن میں رکھئے۔ war سے مراد دو فریقوں کی باہمی محاذ آرائی اور کشمکش ہے جو ایک فریق کے فتح یاب اور دوسرے کے سرنگوں ہونے تک جاری رہتی ہے ‘ جبکہ battle سے مراد اس محاذ آرائی کے دوران متعلقہ فریقوں کے درمیان ہونے والا کوئی خاص معرکہ ہے۔ گویا ایک جنگ war کے دوران میں کئی لڑائیاں battles ہوسکتی ہیں۔ اب رسول اللہ ﷺ کی جدوجہد کے حوالے سے اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ مدنی دور میں غلبہ دین کی جنگ war چھ سال تک مسلسل جاری رہی۔ -۔ - اس میں صرف صلح حدیبیہ کی وجہ سے کچھ مدت کے لیے ایک وقفہ آیا تھا۔ -۔ - اس جنگ کے دوران غزوئہ بدر Battle of Badar ‘ غزوئہ اُحد Battle of Uhad ‘ غزوہ احزاب Battle of Ahzaab ‘ غزوہ بنی مصطلق Battle of Bani Mustalaq اور بہت سی دوسری لڑائیاں لڑی گئیں۔ لیکن جنگ war نے مکمل طور پر ہتھیار اس وقت ڈالے جب پورے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کا دین اس حد تک غالب ہوگیا کہ اس کے مقابلے میں باطل کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت باقی نہ رہی۔ چناچہ زیر مطالعہ آیت میں جو حکمت بیان ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کے آخری مرحلے یعنی مسلح تصادم میں جب باطل قوتوں کو علی الاعلان للکارا جا چکاہو اور مردانِ حق اپنے سروں پر کفن باندھ کر میدانِ کارزار میں اتر پڑے ہوں تو یہ پنجہ آزمائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک باطل پوری طرح سرنگوں نہ ہوجائے۔ اس دوران کسی مہم یا کسی لڑائی میں پکڑے جانے والے قیدیوں کو کسی بھی شرط پر آزاد کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ انہیں اگلے معرکے میں دوبارہ اپنے مقابلے میں آنے کا موقع دے رہے ہیں۔ جیسے غزوہ بدر میں کفار کے ّستر 70 جنگجوئوں کے مارے جانے سے ان کی طاقت کو ایک حد تک تو نقصان پہنچا تھا ‘ مگر ان کی جنگی صلاحیت پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی۔ چناچہ ان کے 70 قیدیوں کی آزادی ان کے لیے پھر سے تقویت کا باعث بن گئی اور فدیہ دے کر آزاد ہونے والے قیدیوں میں سے اکثر افراد اگلے سال مسلمانوں کے مقابلے کے لیے پھر سے میدان میں تھے۔ دوسری طرف اس حوالے سے ایک نکتہ یہ بھی ذہن نشین کرلیجئے کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے سے متعلق حضور ﷺ کا فیصلہ ایک اجتہاد تھا ‘ جس کا تعلق جانچ judgement سے تھا۔ یعنی اس معاملے میں حضور ﷺ کا اندازہ تھا کہ کفار کی طاقت کچلی جا چکی ہے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ بہر حال اجتہاد کی دونوں صورتیں خطا اور صواب ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہیں اور دونوں پر ہی اجر بھی ملتا ہے۔ البتہ اجتہاد میں تصویب کی صورت میں دہرے اجر کا وعدہ ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں چونکہ قیدیوں کو فدیے کے عوض رہا کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اس لیے حضور ﷺ نے اس اختیار کی رو سے مذکورہ فیصلہ فرمایا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو بہتر طور پر معلوم تھا کہ کفر کی جنگی صلاحیت ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسی لیے سورة الانفال جو اس سورت کے بعد نازل ہوئی میں حضور ﷺ کے اس فیصلے سے متعلق یہ تبصرہ نازل ہوا تھا : { مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَاق وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ } ”کسی نبی کے لیے یہ روا نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی ہوں جب تک کہ وہ کافروں کو قتل کرکے زمین میں خوب خوں ریزی نہ کر دے۔ تم دنیا کا سازو سامان چاہتے ہو ‘ اور اللہ کے پیش نظر آخرت ہے ‘ اور اللہ عزیز اور حکیم ہے“۔ { لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ } ”اگر اللہ کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو جو کچھ فدیہ وغیرہ تم نے لیا ہے اس کے باعث تم پر بڑا سخت عذاب آتا“۔ یہاں ”کتاب“ سے مراد آیت زیر مطالعہ کا یہ حکم ہے جس میں فدیہ کے عوض قیدیوں کو چھوڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورة محمد ﷺ کی آیت 4 کا حکم پہلے سے نازل نہ ہوچکا ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تم پر سخت گرفت ہوتی۔ { فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلاً طَیِّبًاز وَّاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ ”تو اب کھائو جو تمہیں ملا ہے غنیمت میں سے کہ وہ تمہارے لیے حلال اور طیب ہے ‘ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ بخشنے والا ‘ رحم فرمانے والا ہے۔“ سورة الانفال کی یہ آیت بھی مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے بھی آیت زیر مطالعہ کی درست تفہیم ضروری ہے۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ کے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں خوب قتل کرو ‘ پھر جب کفر کی کمر پوری طرح ٹوٹ جائے تو ان کے بچے کھچے زندہ افراد کو قیدی بھی بنا یا جاسکتا ہے۔ پھر جب دشمن کی طرف سے مزاحمت بالکل ختم ہوجائے اور اس کے خلاف تمہاری جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے تو قیدیوں کو آزاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ‘ چاہے ان کے عوض فدیہ لے لو یا احسان کرتے ہوئے بلامعاوضہ انہیں رہا کر دو۔ { ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَآئُ اللّٰہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ } ”یہ ہے اس بارے میں حکم ‘ اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا“ { وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَا بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ } ”لیکن اللہ آزماتا ہے تمہارے بعض لوگوں کو بعض دوسروں کے ذریعے سے۔“ اللہ تعالیٰ ان کفار سے خود بھی انتقام لے سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو میدانِ بدر میں کفار کے ایک ہزار نفوس پر مشتمل لشکر کو آنِ واحد میں بھسم کر کے رکھ دیتا۔ لیکن اس نے تمہارے تین سو تیرہ افراد کو ایک ہزار کے طاقت ور لشکر کے مقابلے میں لا کر تمہارے صبر و ایمان اور جذبہ استقامت کا امتحان لینا پسند کیا۔ { وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ } ”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے تو اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔“ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا انہیں بھر پور صلہ دے گا۔

اردو ترجمہ

وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا، ان کا حال درست کر دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sayahdeehim wayuslihu balahum

آیت 5 { سَیَہْدِیْہِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ } ”وہ ان کی راہنمائی کرے گا اور ان کے احوال کو سنوار دے گا۔“

اردو ترجمہ

اور ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو واقف کرا چکا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayudkhiluhumu aljannata AAarrafaha lahum

آیت 6 { وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ } ”اور داخل کرے گا انہیں جنت میں جس کی ان کو پہچان کرا دی ہے۔“ یعنی جنت اور اس کی نعمتوں کا قرآن میں تفصیلی تعارف کرا دیا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo in tansuroo Allaha yansurkum wayuthabbit aqdamakum

آیت 7 { یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ } ”اے اہل ِایمان ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔“ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت اہم قانون ہے۔ اگر تم لوگ اللہ کے فرماں بردار بندے بن کر رہو گے ‘ اسی سے مدد مانگو گے ‘ اسی پر توکل ّکرو گے اور اس کے دین کے غلبے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنا لوگے تو وہ تمہیں بےسہارا اور بےیارومددگار نہیں چھوڑے گا ‘ بلکہ ایسی صورت میں ہر جگہ ‘ ہر گھڑی اس کی مدد آپ لوگوں کے شامل حال رہے گی۔ لیکن اس کے برعکس اگر تم لوگ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائو گے ‘ ان کی وفاداریوں کا دم بھرو گے ‘ انہیں اپنا حمایتی اور مدد گار سمجھو گے ‘ تو اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دے گا۔ پھر تم اللہ سے رو رو کر بھی دعائیں کرو گے تو اس کے حضور تمہاری شنوائی نہیں ہوگی۔ اس کی عملی مثال 1971 ء کی پاک بھارت جنگ میں سامنے آئی تھی۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کی کامیابی کے لیے مسجد الحرام اور مسجد نبوی ﷺ کے اندر تو اتر کے ساتھ قنوت نازلہ پڑھی جاتی رہی ‘ مگر عین اسی وقت ہمارے حکمرانوں کی حالت یہ تھی کہ وہ مدد اور حمایت کے لیے اللہ کے دشمنوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر ان کی مدد کا انتظار کر رہے تھے۔ یعنی دعائیں تو اللہ سے مانگی جا رہی تھیں لیکن بھروسا امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے پر تھا۔ لہٰذا دنیا نے دیکھ لیا کہ حرمین شریفین کے اندر مانگی گئی دعائیں بھی اللہ کے حضور درجہ قبولیت حاصل نہ کرسکیں اور سقوط ڈھا کہ کا بدترین سانحہ رونما ہو کر رہا۔ اس صورت حال کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ قومی و ملکی سطح پر اتنی بڑی ہزیمت اور ذلت اٹھانے کے بعد بھی ہم نے اپنی روش تبدیل نہیں کی۔ چناچہ آج بھی ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نے بدستور اللہ کے باغیوں کے سامنے مدد کے لیے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں۔ ہمارے حکمران آج بھی انہی کو اپنا سرپرست سمجھتے ہیں اور انہیں کی مدد پر بھروسا کیے بیٹھے ہیں۔ ادھر پورے ملک کی معیشت ہے کہ بڑے دھڑلے ّسے سود پر چل رہی ہے۔ گویا ملک کے اندر ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کھلم کھلا اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں بھلا کیونکر سنے گا اور کیونکر اس کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی ؟ بہر حال آیت زیر مطالعہ میں اس حوالے سے ہمارے لیے راہنمائی بھی ہے اور خوشخبری بھی کہ اگر تم اللہ کی اطاعت میں مخلص رہو گے ‘ اس کے دین کے جھنڈے کو تھامے رکھوگے اور اقامت دین کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن لگانے کے لیے آمادہ رہو گے تو وہ تمہاری مدد کے لیے ہر جگہ تمہارے ساتھ موجود ہوگا اور تمہارے دشمنوں کے مقابلے میں تمہارے قدم جمائے رکھے گا۔

اردو ترجمہ

رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے، تو اُن کے لیے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena kafaroo fataAAsan lahum waadalla aAAmalahum

آیت 8 { وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّہُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ } ”اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تو ان کے لیے نا کامی ہے اور وہ ان کے تمام اعمال کو برباد کر دے گا۔“ تَعْسکا معنی ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنا ہے ‘ گویا ناکام و نامراد اور ذلیل و رسوا ہونا۔ اور اس سے مراد ہلاکت بھی ہے۔ یعنی جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی وہ دنیا کی زندگی میں بھی خائب و خاسر اور ذلیل و رسوا ہوں گے ‘ ٹھوکریں کھا کر منہ کے بل گرنا ان کا مقدر ہوگا۔ قیامت کے دن ایسے لوگ راندئہ درگاہ کردیے جائیں گے اور حصول دنیا کے لیے کی جانے والی ان کی تمام جدوجہد ان کے کسی کام نہیں آسکے گی۔

اردو ترجمہ

کیونکہ انہوں نے اُس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے، لہٰذا اللہ نے اُن کے اعمال ضائع کر دیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika biannahum karihoo ma anzala Allahu faahbata aAAmalahum

آیت 9 { ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَرِہُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ } ”یہ اس لیے کہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جو اللہ نے نازل کی تو اس نے ان کے تمام اعمال کو ضائع کردیا۔“ ایسے لوگوں کے نامہ ہائے اعمال میں جو نیک اعمال ہوں گے وہ بھی سب کے سب ضائع کردیے جائیں گے۔ جیسے مشرکین میں سے بعض لوگ غریبوں کو کھانا کھلاتے تھے اور حاجیوں کی مہمان نوازی کا خصوصی اہتمام کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ بہت نیکی کے کام کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سورة التوبہ کی آیت 19 میں دو ٹوک انداز میں بتادیا گیا : { اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط لاَ یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِط } ”کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد ِحرام کو آباد رکھنے کو برابر کردیا ہے اس شخص کے اعمال کے جو ایمان لایا اللہ پر اور یوم آخرت پر اور اس نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں ؟ یہ برابر نہیں ہوسکتے اللہ کے نزدیک“۔ بہر حال یہ اللہ کا حتمی فیصلہ اور اٹل قانون ہے کہ اگر کوئی اللہ کے نازل کردہ قرآن کو ناپسند کرتا ہے تو اس کے تمام نیک اعمال بھی برباد ہوجائیں گے اور توشہ آخرت کے طور پر اس کے پاس کچھ بھی نہ بچے گا۔

اردو ترجمہ

کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہ تھے کہ اُن لوگوں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ اللہ نے اُن کا سب کچھ اُن پر الٹ دیا، اور ایسے نتائج اِن کافروں کے لیے مقدر ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afalam yaseeroo fee alardi fayanthuroo kayfa kana AAaqibatu allatheena min qablihim dammara Allahu AAalayhim walilkafireena amthaluha

آیت 10 { اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَـیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ”تو کیا یہ زمین میں گھومے پھرے نہیں کہ وہ دیکھتے کہ کیا انجام ہوا ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے !“ { دَمَّرَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَلِلْکٰفِرِیْنَ اَمْثَالُہَا } ”اللہ نے ان پر ہلاکت کو مسلط کردیا ‘ اور ان کافروں کے لیے بھی ان ہی کی مثالیں ہوں گی۔“ جن نتائج سے پہلے گزرنے والی کافر اقوام دوچار ہوئیں ویسے ہی ہلاکت خیز نتائج ان کافروں کا مقدر ہیں۔

اردو ترجمہ

یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر اللہ ہے اور کافروں کا حامی و ناصر کوئی نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika bianna Allaha mawla allatheena amanoo waanna alkafireena la mawla lahum

آیت 11 { ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَہُمْ } ”یہ اس لیے کہ اللہ مولیٰ پشت پناہ ہے اہل ایمان کا اور یہ کہ کافروں کا کوئی مولیٰ ہے ہی نہیں۔“ اسی آیت کے الفاظ سے رسول اللہ ﷺ نے وہ نعرہ اخذ فرمایا تھا جس سے میدانِ اُحد میں کفار کے نعرے کا جواب دیا گیا تھا۔ میدانِ اُحد میں وقتی طور پر مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس دوران رسول اللہ ﷺ کچھ صحابہ رض کے ساتھ جبل احد پر تشریف لے گئے تھے۔ اس وقت ابو سفیان اور خالد بن ولید بعد میں دونوں حضرات ایمان لا کر صحابہ رض میں شامل ہوئے سمیت بہت سے سردارانِ قریش پہاڑ کے دامن میں موجود تھے۔ ان میں سے ابوسفیان نے حضور ﷺ اور مسلمانوں کو مخاطب کر کے ُ پر جوش انداز میں نعرہ بلند کیا تھا : اُعْلُ ھُبَل ، اُعْلُ ھُبَل ! ہبل کی جے ! یعنی آج ہمارے بت ُ ہبل کا بول بالا ہوا۔ -۔ - رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس نعرے کا جواب ان الفاظ سے دیں : اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَل ! یعنی اللہ ہی سب سے بلند مرتبہ اور بزرگ و برتر ہے ‘ اسی کا بول بالا ہے ! اس کے جواب میں ابوسفیان نے ایک اور نعرہ لگایا : لَنَا الْعُزّٰی وَلا عُزّٰی لَکُمْ کہ ہمارے لیے توعزیٰ ّجیسی دیوی مدد کے لیے موجود ہے لیکن تمہاری تو کوئی عزیٰ ہی نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے مسلمانوں کو اس کا جواب اس نعرے سے دینے کا حکم دیا : اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْکہ ہمارا مولیٰ مدد گار ‘ پشت پناہ اور کارساز تو اللہ ہے ‘ جبکہ تمہارا تو کوئی مولیٰ ہے ہی نہیں۔ 1

507