سورۃ الملک (67): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Mulk کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الملك کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الملک کے بارے میں معلومات

Surah Al-Mulk
سُورَةُ المُلۡكِ
صفحہ 562 (آیات 1 سے 12 تک)

تَبَٰرَكَ ٱلَّذِى بِيَدِهِ ٱلْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْمَوْتَ وَٱلْحَيَوٰةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْغَفُورُ ٱلَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَٰوَٰتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِى خَلْقِ ٱلرَّحْمَٰنِ مِن تَفَٰوُتٍ ۖ فَٱرْجِعِ ٱلْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ ثُمَّ ٱرْجِعِ ٱلْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ ٱلْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ وَلَقَدْ زَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِمَصَٰبِيحَ وَجَعَلْنَٰهَا رُجُومًا لِّلشَّيَٰطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ ٱلسَّعِيرِ وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ إِذَآ أُلْقُوا۟ فِيهَا سَمِعُوا۟ لَهَا شَهِيقًا وَهِىَ تَفُورُ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ ٱلْغَيْظِ ۖ كُلَّمَآ أُلْقِىَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَآ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ قَالُوا۟ بَلَىٰ قَدْ جَآءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ ٱللَّهُ مِن شَىْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِى ضَلَٰلٍ كَبِيرٍ وَقَالُوا۟ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِىٓ أَصْحَٰبِ ٱلسَّعِيرِ فَٱعْتَرَفُوا۟ بِذَنۢبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَٰبِ ٱلسَّعِيرِ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِٱلْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ
562

سورۃ الملک کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الملک کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tabaraka allathee biyadihi almulku wahuwa AAala kulli shayin qadeerun

اس سورت کے آغاز میں اللہ کب برکات پر مشتمل یہ سپاس نامہ اس بات پر دال ہے کہ اللہ کی برکتیں اور اللہ کے کرم ، اور اللہ کے فیوض کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اللہ کی برکتیں اللہ کی سلطنت میں ہیں اور اس کی بادشاہت میں کوئی کمی نہیں۔ اللہ کی ذات اور اللہ کی صفات کی برکات کا فیض عام اس پوری کائنات میں جاری وساری ہے اور یہ پوری کائنتا اس کی حمد گا رہی ہے اور اس لاانتہا وجود کی وادیوں میں اس کی گونج ہے۔ قلب مومن ان برکتوں سے لبالب ہے اور یہ کائنات اس کتاب الٰہی کے ذریعہ قلب مومن پر نازل ہوتی ہے اور اس پوری کائنات میں ان کا ظہور ہے۔

بیدہ الملک (76 : 1) ” جس کے ہاتھ میں سلطنت ہے “۔ وہ اس کائنات کا مالک ہے ، اس کا اس نے احاطہ کررکھا ہے۔ اس کی چوٹی کے بال اس کے ہاتھ میں ہیں ، وہ اس میں متصرف ہے۔ یہ ہے اصل حقیقت کہ اس پوری کائنات کا بادشاہ وہی ہے جب یہ حقیت انسانی ضمیر میں بیٹھ جاتی ہے تو یہ اپنی راہ خود بخود متعین کردیتی ہے اور اس کے بعد پھر کوئی بھی اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کے لئے فارغ نہیں ہوتا۔ پھر وہ ایک ہی آقا ، ایک معبود اور ایک ہی بادشاہ کا قائل ہوتا ہے۔

وھو علی ............ قدیر (76 : 1) ” اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے “۔ کوئی چیز اس پر غالب نہیں ہے ، کوئی چیز اس کے ارادے کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتی ، اس مشیت کی حدود وقیود سے باہر ، جو چاہتا ہے ، تخلیق کرتا ہے ، جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جو چاہے کرسکتا ہے ، جو حکم دے اس کی تعمیل کرواسکتا ہے۔ اس کی قدرت بےحدو بےقید ہے۔ جب یہ حقیقت ذہن میں بیٹھ جائے تو ہمارے احساسات ، تصورات اور عقل میں کسی قوت کے لئے کوئی سوچ جاتی ہے تو اس کی نفی ہوجاتی ہے۔ انسان جو کچھ بھی سوچ سکتا ہے اس کی قدرت اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ انسان کا تصور بہت ہی محدود ہے کیونکہ انسان کی ذات اور اس کی فکری کائنات محدود ہے۔ انسان اپنے ماحولیات اور معلومات کے محدود دائرے میں سوچنے کا عادی ہے جو بہت ہی محدود ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ انسان کو اس محدود دائرے سے نکالتی ہے۔ انسان یقین کرتا ہے کہ اللہ کی قدرت لامحدود ہے تو انسان اپنے آپ کو اس کے حوالے کرتا ہے اور یوں وہ اس محدود سوچ سے لامحدود سوچ کی طرف نکل جاتا ہے ورنہ انسان حاضر وموجود کے محدود تصور ہی کا غلام ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee khalaqa almawta waalhayata liyabluwakum ayyukum ahsanu AAamalan wahuwa alAAazeezu alghafooru

یہ کہ وہ قادر مطلق ہے اور اپنی مملکت میں ہر قسم کے تصرفات کرتا ہے ، تو اس کے آثار قدرت اور نمونہ تصرفات ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے موت وحیات کی تخلیق کی۔ موت میں وہ حالت بھی شامل ہے جو کسی زندہ چیز کو حیات دینے سے پہلے ہوتی ہے۔ اور وہ حالت بھی شامل ہے ، جو حیات واپس لینے کے بعد طاری ہوتی ہے۔ اور حیات میں بھی پہلی زندگی شامل ہے اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے والی زندگی بھی شامل ہے۔ یہ سب حالات اللہ کی تخلیقات میں آتے ہیں۔ ذہن انسانی میں یہ حقیقت بٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ اے انسان تجھے بےمقصد نہیں پیدا کیا گیا تو ایک ذمہ دار مخلوق ہے۔ یہ نہیں ہے کہ بس یونہی اتفاقاً تو آگیا ہے اور بس یونہی ایک دن مرکر مٹی ہوجائے گا۔ اور یہ کام اور یہ عظیم تخلیقی عمل بےمقصد نہیں ہے بلکہ یہ انسانوں کو آزمانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ اللہ کے علم میں جن انسانوں کو جو مظاہرہ کرنا تھا وہ سامنے آجائے ، جس کا اللہ کو پہلے سے علم تھا۔ اور وہ اپنے اعمال پر مناسب جزاء وسزا کے حقدار ہوجائیں۔

لیبلوکم ................ عملاً (76 : 2) ” تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے “۔ جب یہ عقیدہ ذہن میں بیٹھ جائے تو انسان بیدار ، محتاط ، چوکنا اور سمجھدار ہوجاتا ہے۔ وہ دل میں چھوٹے بڑے کاموں کے بارے میں سوچنا ہے اور پوشیدہ اور ظاہری باتوں کے بارے میں غور کرتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو غفلت میں نہیں چھوڑتا۔ نہ مطمئن اور بےفکر چھوڑتا ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے۔

وھوالعزیز الغفور (76 : 2) ” اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی “۔ اس اختتامیہ سے یہ اطمیانان دلانا مطلوب ہے کہ بیشک اللہ قدیر ہے اور زبردست ہے لیکن وہ غفور بھی ہے۔ وہ بندوں پر سختی نہیں کرتا۔ جب انسان کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ میرا امتحان ہے تو وہ ہر وقت خائف رہتا ہے کہ کیا نتیجہ نکلے گا لیکن جب وہ یہ سوچے گا کہ اللہ تو غفور ورحیم ہے تو اسے امید بندھ جائے گی اور وہ ثبات وقرار کے ساتھ صراط مستقیم پر چلے گا۔

اسلام نے انسانوں کے سامنے خدا کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ جو ہر وقت انسانوں کا پیچھا کرتا ہے ، نہ ایسا ہے کہ اسے عذاب دینے میں مزا آتا ہے ، وہ عذاب دینے کو پسند کرتا ہے بلکہ اللہ ہر وقت یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ تمہارا ایک مقصد وجود ہے ، اس کو نظروں سے اوجھل ہونے نہ دو ، اپنی حقیقت کے مقام تک اپنے آپ کو بلند کرو ، اور جس طرح اللہ نے اپنی روح تم میں پھونک کر تمہیں ایک بلند مرتبہ دیا۔ اس پر فائز ہو کر اللہ کی مخلوقات سے اپنے آپ کو افضل ثابت کرو ، جب لوگ اس مقصد کو پالیں تو پھر ان پر اللہ کی رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ قدم قدم پر ان کی معاونت کی جاتی ہے اور حساب و کتاب میں عفو و درگزر سے کام لیا جاتا ہے۔

یہ کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اسی نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ لوگوں کو آزمائے تو اس حقیقت کا مطالعہ ایک طرف اس پوری کائنات کے میدان میں کرایا جاتا ہے اور دوسری طرف حشر کے میدان میں اس کے مظاہردکھائے جاتے ہیں۔

اردو ترجمہ

جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee khalaqa sabAAa samawatin tibaqan ma tara fee khalqi alrrahmani min tafawutin fairjiAAi albasara hal tara min futoorin

” ان شیطان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کررکھی ہے۔ جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے لئے جہنم کا عذاب اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ جب وہ اس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دہاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے اور وہ جوش کھارہی ہوگی ، شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا ، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے ” کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟ “ وہ جواب دیں گے ” ہاں ! خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیات تھا مگر ہم نے اسے جھٹلادیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے ، تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو “۔ اور کہیں گے ” کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں نہ شامل ہوتے “۔ اس طرح وہ اپنے قصور کا خود اعتراف کرلیں گے ، لعنت ہے ان دوزخیوں پر “۔

ان آیات میں جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ پہلی آیت کا مفہوم ہیں اور اس کی مثالیں ہیں۔ اللہ اپنی بادشاہت کو جس طرح چلاتا ہے اس کے مظاہر ہیں اور اللہ کی بےقید قدرت کے آثار ہیں۔ اور پھر تفصیلات میں انسان کی آزمائش اور جزاوسزا کی۔ تہہ بہ تہہ سات آسمانوں کا مطلب ہم موجودہ فلکی نظریات سے اخذ نہیں کرسکتے کیونکہ فلکی نظریات ، جوں جوں ہمارے آلات مشاہدہ آگے بڑھتے ہیں ، بدلتے رہتے ہیں۔ آیت سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ فقط اس قدر ہے کہ اوپر کی کائنات کے سات ایسے طبقے ہیں جو ایک دوسرے سے ایک فاصلے پر ہیں ، اس لئے انہیں طبقات کہا گیا ہے۔

قرآن مجید ہماری نظر کو زمین و آسمان کی تخلیق کی طرف مبذول کرتا ہے اور انسانوں کو یہ چیلنج کرتا ہے کہ ذرا زمین و آسمان کے اس نظام کو دیکھو ، اس میں کوئی نقص بھی ہے۔ تمہارا مشاہدہ تھک تھکا کر عاجز رہ جائے گا اور اسے کوئی نقص نظر نہ آئے گا۔

ماتری .................... تفوت (76 : 3) ” تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بےربطی نہ پاﺅ گے “۔ اللہ کی مخلوقات میں نہ کہیں خلل ہے ، نہ نقص ہے اور نہ اضطراب ہے۔

فارجع البصر (76 : 3) فارجع ” پھر پلٹ کر دیکھو “۔ دوبارہ کوشش کرو ، اچھی طرح معلوم کرنے کی کوشش کرو۔

ھل تری من فطور (76 : 3) ” کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے “۔ کیا تمہاری نظروں نے کوئی شگاف دیکھا ، کوئی نقص اور کوئی خلل دیکھا ؟

اردو ترجمہ

بار بار نگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma irjiAAi albasara karratayni yanqalib ilayka albasaru khasian wahuwa haseerun

ثم ارجع البصر کرتین (76 : 4) ” بار بار نگاہ دوڑاﺅ“۔ شاید کوئی چیز دیکھنے سے رہ گئی ہو ، اور تم معلوم نہ کرسکے ہو ، لہٰذا پھر بھی نگاہ ڈالو۔

ینقلب .................... حسیر (76 : 4) ” تمہاری نگاہ تھک کرنا مراد پلٹ آئے گی “۔ یہاں چیلنج یہ ہے کہ ان آسمانوں اور اللہ تمام کی تمام مخلوقات کو ذرا گہری نظر سے دیکھو ، اس کائنات کا سنجیدہ مطالعہ کرو ، اور اس میں تامل و تدبر کرو ، اور اس چیز اور اس صفت ہی کو دراصل قرآن کریم انسانوں میں عام کرنا چاہتا ہے کہ تم اس کائنات کا گہرا مشاہدہ کرو۔ یہ کائنات دراصل بہت عجیب و غریب اور نہایت ہی خوبصورت ہے اور اس کے اندر معجزات و کمالات موجود ہیں لیکن ہم اس کے اندر اس قدر مانوس ہوگئے ہیں کہ اس کا انوکھا پن ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ اور اس کی عظیم خوبصورتی ہمیں کوئی خوبصورتی نظر نہیں آتی۔ حالانکہ یہ اس قدر خوبصورت ہے کہ نظر اس کی خوبصورتی کو دیکھ دیکھ کر سیر ہی نہ ہو اور اس کے اندر جو سبق اور اشارات ہیں ہمارے قلب ونظر کو اس سے سیر ہی نہ ہو۔ اور عقل تدبر کرتی ہی رہ جائے اور اس کے نظام کی بوقلمونیاں ختم ہی نہ ہوں۔ اس نقطہ نظر سے اگر انسان اس کائنات کا مطالعہ کرے تو اسے یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ اور سجائی ہوئی حسین و جمیل نمائش گاہ نظر آئے ، جس کا انوکھا پن اور جس کی خوبصورتی کبھی پرانی نہ ہو کیونکہ اس طرح عقل ونظر کے لئے اس کی خوبصورتی ہر روز نئی ہوگی۔

جو لوگ اس کائنات کی حقیقت سے قدرے واقف ہیں اور وہ جدید سائنسی علوم کے مطابق اس کے بعض پہلوﺅں کے حالات اور اس کے نظام کو کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں وہ تو حیران رہ جاتے ہیں اور ان کی عقل چکرانے لگتی ہے۔ لیکن اس کائنات کی خوبصورتی کے مشاہدے کے لئے کسی بڑی مقدار علم کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان پر اللہ کا یہ کرم ہے کہ اس کو اللہ نے ایسی صلاحیت دی ہے کہ وہ معمولی مشاہدے اور غوروفکر کے ساتھ اس کائنات کے ہمقدم اس طرح چل سکتا ہے جس طرح ایک زندہ آدمی دوسرے زندہ آدمی کے ساتھ چلتا ہے۔ انسان کا قلب براہ راست اس کائنات کے پیغام کو پاتا ہے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھتا ہے ، بشرطیکہ وہ آنکھیں اوپر کرکے دیکھے اور دل کھول کر کچھ اخذ کرے۔ اور وہ اس کائنات کو ایک زندہ مخلوق سمجھ کر اس کا رفیق بن جائے ، قبل اس کے کہ وہ اپنے نور فکر اور اپنی صد گاہوں سے اس عظیم اور عجیب کائنات کے رازوں کو افشا کرے۔

چناچہ قرآن مجید لوگوں کو اس کائنات کے حوالے کرتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں کائنات کی کھلی کتاب پکڑاتا ہے ، کہ اس کائنات کی آواز سنو ، اس کے تناظر اور عجائبات کی سیر کرو ، اس لئے کہ قرآن مجید کے مخاطب صرف سائنس دان نہیں ہیں ، بلکہ ہر دور اور ہر سطح کے انسان ہیں۔ قرآن کو ایک جنگلی اور صحراوی بھی پڑھتا ہے اور شہر میں بسنے والا اور سمندروں میں سفر کرنے والا بھی پڑھتا ہے ۔ وہ ایک ان پڑھ سے بھی مخاطب ہے ، جس نے ایک حرف بھی نہیں پڑھا۔ اور اسی طرح وہ باہر علم نجوم وفلکیات سے بھی مخاطب ہے۔ وہ ماہر طبیعیات سے بھی ہمکلام ہے اور ماہ رفلسفی سے بھی۔ ہر ایک کو قرآن میں عجائبات ملتے ہیں ، جن میں وہ تامل کرتا ہے اور قرآن ان سب کے غوروفکر کی قوتوں کو بیدار کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور اُنہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے اِن شیطانوں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کر رکھی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad zayyanna alssamaa alddunya bimasabeeha wajaAAalnaha rujooman lilshshayateeni waaAAtadna lahum AAathaba alssaAAeeri

کمال کی طرح اس کائنات کی ہر چیز میں جمال بھی مقصود بالذات ہے بلکہ کمال اور جمال ایک ہی حقیقت کے دو نام یا دو پہلو ہیں ، کسی چیز میں کمال ہی اس کی خوبصورتی کا اعلیٰ درجہ ہوتا ہے۔ چناچہ قرآن نے پہلے آسمانوں کی خوبصورتی کی طرف متوجہ کیا اور اس کے بعد کمال کی طرف۔

ولقد .................... بمصابیح (76 : 5) ” اور ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے “۔ یہ سمائے دنیا کہلاتا ہے۔ شایدہ یہ وہ بلندی ہے جو زمین کے مکان اور قرآن کے مخاطب انسانوں کے فہم کے قریب ہے۔ مصابیح اور چراغوں سے مراد ستارے اور سیارے ہیں جو ہمیں نظر آتے ہیں ، جن انسانوں سے قرآن مخاطب تھا وہ آسمانوں کو دیکھ کر یہی سمجھتے تھے کیونکہ ان کے پاس رصد گاہیں نہیں تھیں اور اس وقت بھی اور آج بھی کوئی آنکھوں سے آسمان کو دیکھے تو اس میں ستارے روشن چراغ نظر آتے ہیں۔

یہ منظر کس قدر خوبصورت ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں۔ اس قدر خوبصورت کہ انسان کے دل کو کھینچ لیتا ہے۔ اس منظر کے کئی رنگ ہیں۔ صبح وشام اس کا الگ الگ نظارہ ۔ طلوع اور غروب کا الگ نظارہ ہے۔ تاریک رات اور چاندنی ہے۔ گھڑی بھر میں مناظر بدلتے رہتے ہیں۔ جگہ کی تبدیلی سے مناظر بدلتے ہیں۔ زاویہ کی تبدیلی سے بدلتے ہیں لیکن جو منظر بھی سامنے آئے ذہن کو گرفت میں لے لیتا ہے۔

یہ اکیلا ستارہ جو دور افق پر چمک رہا ہے گویا وہ خوبصورت آنکھ ہے ، نہایت محبت سے پکارتی ہے۔ پھر وہ دو ستارے جو الگ نظر آتے ہیں ، یہ اژدحام سے دور محو گفتگو ہیں۔ اور وہ ستاروں کا جھرمٹ جو جگہ جگہ نظر آتا ہے وہ کائنات کے میلے کا ایک حلقہ یاراں ہے جو کبھی یہاں جمع ہوتا ہے تو کبھی وہاں !

یہ باریک چاند جو ایک رات ایک شاخ کی طرح ہوتا ہے اور ایک رات اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے اور پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر معدوم ہوجاتا ہے اور دوبارہ وہ ولادت پاتا ہے۔ ہر رات کو اس کا نیا روپ ہوتا ہے۔

یہ وسیع فضائے کائنات جس کی لمبائیوں اور دوریوں تک بینائی ساتھ نہیں دیتی۔ اور خوبصورت اس قدر کہ آنکھیں دیکھتی رہ جائیں۔ یہ ہے حقیقی خوبصورتی ، جس کا تصور بھی انسان نہیں کرسکتا ، لیکن انسان اگر ان خوبصورتیوں کو الفاظ کا جامہ پہنانا چاہے تو ممکن نہیں۔ انسانی عبارات اس سے قاصر ہیں۔

قرآن کریم انسانوں کو اس آسمان اور اس پوری کائنات کے جمال کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ کیونکہ جمال کائنات کا ادراک ہی ایک ذریعہ ہے جس کی وساطت سے انسان خالق کائنات کے جمال کا تصور کرسکتا ہے۔ اور یہی ادراک انسان کو اس بلند مقام تک پہنچاتا ہے ، جس تک انسان کبھی پہنچنے کی تمنا کرسکتا ہے کیونکہ اس یونٹ تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے آگے وہ ابدی حیات پاسکتا ہے۔ اب وہ ایک خوبصورت آزاد اور لازوال دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ زندگی اس دنیا کی آلودگیوں سے پاک ہوتی ہے اور انسانی زندگی کے وہ لمحات لازوال لمحات ہوتے ہیں جن میں کوئی انسان اس کائنات کے لازوال حسن کا ادراک کرلے ، ایسے ہی حالت میں وہ ذات باری کے قریب ترہوجاتا ہے اور ذات باری کے کمالات کا تصور کرسکتا ہے۔

اور اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ انسان کے یہ خوبصورت ستارے ایک دوسرا کام بھی کرتے ہیں۔ یہ شہاب ثاقی بن کر شیطانوں پر بمباری بھی کرتے ہیں۔

وجعلنھا ................ للشیطین (65 : 5) ” اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا “۔ ہم نے ” فی ظلال القرآن “ میں یہ رویہ اختیار کیا ہے کہ غیبی امور کے بارے میں بات کو اسی حد میں رکھیں جس حد تک قرآن کریم نے کہہ دی ہے۔ اس معاملے میں قرآن نے جو پہلو بتایا ہے اسی تک محدود رہیں۔ جس قدر قرآن نے کہہ دیا ہے وہ ایک مکمل بات ہے۔

ہمارا ایمان ہے کہ ایک مخلوق ہے ، جس کا نام شیطان اور شیاطین ہے ، قرآن میں ان شیطانوں کی بعض صفات وارد ہیں۔ ظلال القرآن میں اس موضوع پر پہلے بات ہوچکی ہے۔ اس پر مزید اضافے کی ضرورت نہیں ہے ، اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ شیطان جب عالم بالا میں جانے کی کوشش کرتے ہیں تو انکو شہاب ثاقب بھگاتے ہیں ، دوسری جگہ آیا ہے۔

وحفظا ................ مارد (7).................... الا من ........ شھاب ثاقب (73 : 01) ” اور ہر شیطان سرکش سے اس کو محفوظ کردیا .... تاہم اگر کوئی ان میں سے کچھ لے اڑے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے “۔

یہ شہاب ثاقب کس طرح پیچھا کرتا ہے۔ یہ شہاب کس قدر بڑا ہے۔ اس کی شکل کیا ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ نے تفصیلات ہمیں نہیں بتائی اور کوئی دوسرا ذریعہ علم انسانوں کے پاس نہیں ہے ، جس سے کوئی بات پوچھی جاسکے۔ بس جس قدر قرآن نے کہہ دیا اس پر اکتفا کرنا چاہئے۔ اور یہی یہاں مقصود ہے۔ اگر اس سے زیادہ بتانا مقصود ہوتا تو اللہ بتا دیتا۔ اس لئے جس چیز کو اللہ نے ہمارے لئے موجب خیروبرکت نہیں سمجھا ، اس کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ شیاطین کا رجم بھی اسیے ہی معاملات میں سے ہے ، جس کا تفصیلی علم ہمیں نہیں دیا گیا۔ اور دنیا میں شہاب ثاقب کی سزا کے علاوہ آخرت میں ان کے لئے اور سزا ہے۔

واعتدنا ................ السعیر (86 : 5) ” اور ان شیطانوں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کررکھی ہے “۔ یہ بمباری دنیا اور آگ کا عذاب آخرت میں۔

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walillatheena kafaroo birabbihim AAathabu jahannama wabisa almaseeru

وللذین ............................ المصیر (76 : 6) ” اور جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے لئے جہنم کا عذاب اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے “۔ اس کے بعد جہنم کے ایک منظر کی تفصیلات دی جاتی ہیں جس میں جہنم نہایت ہی غیض وغضب اور نہایت انتقامی حالت میں نظر آتی ہے۔

اردو ترجمہ

جب وہ اُس میں پھینکے جائیں گے تو اسکے دھاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے اور وہ جوش کھا رہی ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha olqoo feeha samiAAoo laha shaheeqan wahiya tafooru

اذا القوا .................... الغیظ (76 : 8) ” جب وہ اس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دہاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے اور وہ جوش کھارہی ہوگی ، شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی “۔ ذرا جہنم کو دیکھو ، یہ زندہ مخلوق کی طرح ہے۔ اسے غصہ آرہا ہے اور وہ اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے اور اس کی سانس پھول رہی ہے اور اس طرح اس کی سانس شدت غضب سے پھنکار کی شکل اختیار کررہی ہے۔ اس پر اس کے غصے ، کراہت اور نفرت کی وجہ سے اس قدر دباﺅ ہے کہ قریب ہے کہ وہ پھٹ پڑے۔

بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انداز بیان ایک مجازی تصویر کشی کا انداز ہے لیکن ہم اس کائنات کا جس قدرگہرا مطالعہ کریں گے ، معلوم ہوگا کہ اللہ کی مخلوقات میں سے ہر مخلوق زندہ ہے اور اس کی ایک مخصوص روح ہے۔ اور ہر مخلوق اپنے رب کو جانتی ہے۔ اور اس کی حمدوثنا کرتی ہے اور اللہ کی ہر مخلوق جب دیکھتی ہے کہ انسان رب تعالیٰ کا کفر کرتا ہے تو تمام مخلوقات خوفزدہ ہوجاتی ہیں کیونکہ ہر چیز کو اپنے خالق کی معرفت حاصل ہے اور ہر چیزمطیع فرمان ہے ، لہٰذا ہر چیز کو نافرمان مخلوق پر غصہ آتا ہے اور مخلوقات کی روح تمام منکرین سے نفرت کرتی ہے۔

قرآن کریم میں آتا ہے۔

تمسبح لہ………….. تسبیحھم (71 : 44) ” اس کی پاکی کو ساتوں آسمان و زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کررہی ہیں جو آسمان اور زمین میں ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو ، مگر تم اس کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو “۔ اور اسی طرح حضرت داﺅد (علیہ السلام) کے بارے میں ہے۔

یجبال……………. والطیر (43 : 01) ”(ہم نے حکم دیا) اے پہاڑو ! اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو اور یہی حکم ہم نے پرندوں کو دیا “۔

اور دوسری جگہ بھی صراحت کے ساتھ وارد ہے :

ثم استوی………….. طائعین (14 : 11) ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا ، اس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آجاﺅ تم چاہو یا نہ چاہو ، دونوں نے کہا : ہم آگئے فرماں برداروں کی طرح “۔

یہ تمام چیزیں ، جس حقیقت کی طرف اشارہ کررہی ہیں وہ یہ ہے کہ ہر چیز رب تعالیٰ پر ایمان لاتی ہے ، اس کی تسبیح کرتی ہے ، تعریف کرتی ہے اور جب یہ چیزیں دیکھتی ہیں کہ انسان خالق کائنات کی نافرمانی کرتا ہے تو یہ دہشت زدہ ہوجاتی ہیں۔ جب انسان ایک مختلف رویہ اختیار کرتا ہے تو یہ چیزیں غضب الٰہی کے خوف سے کانپ اٹھتی ہیں۔ اور ان کو اس قدر غصہ آتا ہے کہ شدت غضب کی وجہ سے قریب ہے کہ یہ ایک دھماکے کے ساتھ انسان پر حملہ آور ہوجائیں۔ جس طرح کوئی کسی شریف اور عزت نفس رکھنے والے شخص کو برا بھلا کہے۔ غضب کے مارے اس کا گلا گھٹ جاتا ہے اور سانس پھول جاتی ہے اور وہ بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پاتا ہے اور اسی طرح کی حالت جہنم کی بتائی گئی۔

وھی ……………. من الغیظ (76 : 8) ” وہ جوش کھارہی ہوگی اور شدت غضب سے پھٹی جارہی ہوگی “۔

اردو ترجمہ

شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اُس کے کارندے اُن لوگوں سے پوچھیں گے "کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Takadu tamayyazu mina alghaythi kullama olqiya feeha fawjun saalahum khazanatuha alam yatikum natheerun

اور جہنم کے نگرانوں کی حالت بھی یہی ہوگی۔

کلما .................... نذیر (76 : 8) ” ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا ، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے ” کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟ “ یہ بات واضح ہے کہ جہنم میں ان سے یہ سوال محض معلومات حاصل کرنے کے لئے نہ ہوگا ، یہ ان کی سرزنش کرنے اور ان کو دلیل کرنے کے لئے ہوگا ، گویا جہنم کے کارندے بھی جہنم کے ساتھ اس غیظ وغضب میں شریک ہوں گے ۔ جس طرح وہ دونوں ان کو عذاب دینے میں شریک ہیں اور کسی مصیبت زدہ اور پریشان شخص پر اگر سرزنش اور دھتکار کے کوڑے بھی لگیں تو اس کی تلخی کی تو حد ہی نہ ہوگی لیکن ذرا ان لوگوں کا جواب سنیں کہ یہ لوگ کس پدر ذلیل و خوار ہوگئے ہیں۔ اب وہ برخورداروں کی طرح اپنی غفلت اور حماقت کا اقرار کرتے ہیں ، جبکہ وہ پہلے بڑے غرور کے ساتھ رسولوں کو گمراہ کہتے تھے۔

اردو ترجمہ

وہ جواب دیں گے "ہاں، خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا، مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے، تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo bala qad jaana natheerun fakaththabna waqulna ma nazzala Allahu min shayin in antum illa fee dalalin kabeerin

قالو .................... السعیر (76 : 11) ” وہ جواب دیں گے ” ہاں ! خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیات تھا مگر ہم نے اسے جھٹلادیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے ، تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو “۔ اور کہیں گے ” کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں نہ شامل ہوتے “۔ اس طرح وہ اپنے قصور کا خود اعتراف کرلیں گے ، لعنت ہے ان دوزخیوں پر “۔

جو سنتا ہے اور عقل سے بات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے آپ کو اس پوزیشن میں نہیں ڈالتا۔ اور اس طرح انکار نہیں کرتا جو ان بدبختوں نے کیا۔ اور وہ رسولان برحق کو جھٹلانے کی جسارت نہیں کرتا اور نہ اس قدر بھونڈے انداز کی ساتھ ان پر گمراہی کا الزام لگاتا ہے ، بغیر کسی معقول وجہ کے ، الٹا یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اللہ نے کچھ نازل نہیں کیا ، تم جھوٹ بول رہے ہو ، جیسا کہ گویا وہ ابھی اللہ کے پاس سے آیا ہے۔

اردو ترجمہ

اور وہ کہیں گے "کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اِس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں میں نہ شامل ہوتے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo law kunna nasmaAAu aw naAAqilu ma kunna fee ashabi alssaAAeeri

اردو ترجمہ

اس طرح وہ اپنے قصور کا خود اعتراف کر لیں گے، لعنت ہے ان دوزخیوں پر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FaiAAtarafoo bithanbihim fasuhqan liashabi alssaAAeeri

فاعترفوا .................... السعیر (76 : 11) ” اس طرح وہ اپنے قصور کا خود اعتراف کرلیں گے ، لعنت ہے ان دوزخیوں پر “۔ سحق کے معنی بعد کے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کے لئے بددعا ہے۔ جب انہوں نے اعتراف کرلیا اور یہ اعتراف ، اس وقت کیا جب وہ منظر ان کے سامنے آگیا ، جس کے وقوع کا وہ انکار کررہے تھے۔ اور اللہ جس کے لئے بددعا کردے تو گویا ان کی بربادی کا فیصلہ ہوگیا۔ یہ لوگ رحمت خداوندی سے دور ہوگئے ، اب ان کو اللہ کی مغفرت کی کوئی امید نہیں رہی ہے۔ نہ عذاب سے چھوٹنے کی کوئی امید ہے۔ اب تو وہ دوزخ کے ساتھی ہیں۔ کیا ہی بری صحبت ہے اور کیا ہی بری ہم نشینی ہے ان کی اور کیا ہی برانجام !

یہ عذاب ، جہنم کا عذاب ، جو پھٹکاریں ماررہی ہے ، ایک شدید عذاب ہے۔ خوفناک عذاب ہے۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر نفس کے اندر اللہ نے ایمان کی حقیقت اور ایمان کے دلائل رکھ دیئے ہیں اس کے باوجود بھی اگر کو ئی نفس کے اندر اللہ نے ایمان کی حقیقت اور ایمان کے دلائل رکھ دیئے ہیں اس کے باوجود بھی اگر کوئی نفس اللہ کا انکار کرتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی بھلائی نہیں اور وہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم ہے۔ اسی طرح وہ اپنے وجود اور شخصیت کی تمام بنیادی صفات کا بھی وزن کھوبیٹھتی ہے۔ وہ اسی طرح ہے جس طرح جہنم میں پتھروں کو جلایا جائے۔ اس کی شخصیت نے اپنے آپ کو اپنے مکان سے گرا کر اس آگ میں ڈالا ہے حالانکہ اس کا فرض یہ تھا کہ وہ اس سے بھاگتی۔

جو متنفس اللہ کا انکار کرتا ہے وہ آگے بڑھنے کے بجائے الٹے پاﺅں پھرتا ہے اور اوندھے منہ گرتا ہے اور وہ زندگی کے ہر دوڑ میں گرتا ہی چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ انتہائی بری ، پسماندہ اور قابل نفرت شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آخرکار وہ ایک مکروہ جہنمی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ وہ اس قدر بدشکل ہوجاتا ہے کہ اس جہاں کی کوئی چیز بھی اس قدر کریہہ المنظر نہیں ہوتی۔ جس طرح کوئی چیز مسخ ہوجائے۔ تو ایسے متنفس کے سوا تمام جہاں ایک طرف ہوتی ہے۔ ہر چیز مومن ہے۔ اللہ کی ثناخواں ہے ، اور ہر چیز میں خیر موجود ہے اور تمام اشیاء کے اندر ایمان ایک رابطہ ہے۔ ماسوائے ان نفوس انسانی وشیطانی کے جو کفر اختیار کرتے ہیں۔ ان منکر اور بھٹکے ہوئے افراد کا ہر قسم کا تعلق جہاں بھی وہ ہوں ، ہر چیز سے کٹ جاتا ہے ، ماسوائے جہنم کے وہو کسی کام کے نہیں ہوتے۔ ان کے اندر کوئی معنی کوئی حقانیت اور کوئی عزت نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ نفوس جہنم کے مستحق ہوجاتے ہیں۔

قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ وہ صفات بالمقابل پیش کرتا ہے۔ جس طرح جہنم والوں کے مناظر دکھائے گئے۔ اس کے بالمقابل مومنین کے حالات بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اور یہ پورے قرآن کریم کا انداز ہے۔ چناچہ یہاں بھی آیات۔

اردو ترجمہ

جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں، یقیناً اُن کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yakhshawna rabbahum bialghaybi lahum maghfiratun waajrun kabeerun

ان الذین ................ اجرکبیر

غیب سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اپنے رب کو دیکھا نہیں اور اس سے ڈرتے ہیں ، اور یہ مراد بھی ہے کہ اس حالت میں بھی رب سے ڈرتے ہیں جب انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ ایک انسان جب چھپے ہوئے بھی برائی نہیں کرتا تو اس کا ضمیر زندہ ہوتا ہے اور وہ خدا کا صحیح طرح مومن ہوتا ہے۔ حافظ ابوبکر بزار نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے ، طالوت ابن عباد سے ، انہوں نے حارث ابن عبید سے ، انہوں نے ثابت سے ، انہوں نے انس سے وہ کہتے ہیں صحابہ کرام ؓ نے پوچھا اے رسول خدا .... ہم آپ کے پاس ایک حال میں ہوتے ہیں لیکن جب ہم آپ سے جدا ہوتے ہیں تو ہمارا حال اور ہوتا ہے۔ تو آپ نے فرمایا تم اور تمہارے رب کے ساتھ تعلق کیسا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ رب تو تنہائی میں اور محفل میں ہر جگہ ہمارا رب ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ یہ ” نفاق نہیں ہے “۔ لہٰذا اللہ کے ساتھ رابطہ حقیقی رابطہ ہے۔ جب اللہ پر یقین ہو تو ایسا شخص مومن ہے۔

یہ مذکورہ بالا آیت مضمون ماقبل اور مضمون مابعد دونوں کو آپس میں ملاتی ہے۔ یہ کہ اللہ کو ہر حالت کا علم ہے خواہ کوئی ظاہر ہو یا خفیہ ، تنہائیوں میں ہو۔ اللہ تعالیٰ پکار کر لوگوں کو کہتا ہے کہ میں نے تمہیں پیدا کیا اور میں تمہارے ظاہر و باطن دونوں سے واقف ہوں مجھے اپنی مخلوق کی تمام صلاحیتوں کا علم ہے۔

562