سورۃ الملک (67): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Mulk کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الملك کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الملک کے بارے میں معلومات

Surah Al-Mulk
سُورَةُ المُلۡكِ
صفحہ 562 (آیات 1 سے 12 تک)

تَبَٰرَكَ ٱلَّذِى بِيَدِهِ ٱلْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْمَوْتَ وَٱلْحَيَوٰةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْغَفُورُ ٱلَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَٰوَٰتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِى خَلْقِ ٱلرَّحْمَٰنِ مِن تَفَٰوُتٍ ۖ فَٱرْجِعِ ٱلْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ ثُمَّ ٱرْجِعِ ٱلْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ ٱلْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ وَلَقَدْ زَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِمَصَٰبِيحَ وَجَعَلْنَٰهَا رُجُومًا لِّلشَّيَٰطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ ٱلسَّعِيرِ وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ إِذَآ أُلْقُوا۟ فِيهَا سَمِعُوا۟ لَهَا شَهِيقًا وَهِىَ تَفُورُ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ ٱلْغَيْظِ ۖ كُلَّمَآ أُلْقِىَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَآ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ قَالُوا۟ بَلَىٰ قَدْ جَآءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ ٱللَّهُ مِن شَىْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِى ضَلَٰلٍ كَبِيرٍ وَقَالُوا۟ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِىٓ أَصْحَٰبِ ٱلسَّعِيرِ فَٱعْتَرَفُوا۟ بِذَنۢبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَٰبِ ٱلسَّعِيرِ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِٱلْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ
562

سورۃ الملک کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الملک کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tabaraka allathee biyadihi almulku wahuwa AAala kulli shayin qadeerun

آیت 1{ تَبٰـرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ } ”بہت ہی بابرکت ہے وہ ہستی جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے“ یہ دین اسلام کے سیاسی منشور کی بنیادی شق ہے۔ یعنی پوری کائنات کا اقتدار اور اختیار کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے۔ دنیا میں اگر انسانوں کے ہاں اللہ تعالیٰ کے احکام سے کہیں بغاوت دکھائی دیتی ہے تو وہ بھی دراصل اسی کے عطا کردہ اختیار کی وجہ سے ہے۔ اس میں ایمان کے دعوے داروں کا امتحان بھی ہے کہ وہ بھلا اللہ کے اقتدار کو چیلنج کرنے والوں کے مقابلے میں کیا طرزعمل اختیار کرتے ہیں۔ ورنہ سورج ‘ چاند ‘ ستارے ‘ کہکشائیں ‘ ہوائیں اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند اور تابع ہے۔ پوری کائنات پر اللہ تعالیٰ کی حکومت اور قدرت کی کیفیت یہ ہے کہ کہیں کوئی ایک ذرہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا اور حرکت کرتا ہوا کوئی ذرہ اس کی مشیت کے بغیر ساکن نہیں ہوسکتا۔ اپنی تمام مخلوق میں صرف انسان کو اس نے ایک حد تک ارادے اور عمل کا اختیار دیا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ اس میں انسان کی آزمائش مقصود ہے۔ لیکن انسان ہے کہ ہلدی کی یہ گانٹھ مل جانے پر پنساری بن بیٹھا ہے۔ اب کہیں وہ فرعون بن کر اللہ کے مقابلے میں ”میری حکومت ‘ میرا ملک اور میرا مثالی نظام“ جیسے دعو وں کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے تو کہیں کسی فرعون کی چاکری اور وفاداری کی دھن میں مقتدر حقیقی کے احکام کو پامال کرتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں انسان کی بےبسی کا عالم یہ ہے کہ خود اپنے جسم پر بھی اسے کوئی اختیار نہیں۔ ظاہر ہے انسان کے جسم کی فزیالوجی اور اناٹومی کا سارا نظام بھی تو اللہ تعالیٰ کے طے کردہ قانون کے تابع ہے۔ اگر کوئی شخص چاہے کہ وہ اپنے دل کو آرام دینے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے بند کردے اور پھر اپنی مرضی سے دوبارہ رواں کرلے تو اس کے لیے یہ ممکن نہیں۔ { وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ۔ } ”اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“

اردو ترجمہ

جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee khalaqa almawta waalhayata liyabluwakum ayyukum ahsanu AAamalan wahuwa alAAazeezu alghafooru

آیت 2 { نِ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا } ”جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔“ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ۔ } ”اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی۔“ یہ ہے انسانی زندگی اور موت کی تخلیق کا اصل مقصد۔ جو کوئی اس فلسفے کو نہیں سمجھے گا اسے زندگی ‘ موت اور موت کے بعد پھر زندگی کی یہ باتیں محض افسانہ معلوم ہوں گی۔ جیسے ایک معروف جاہلی شاعر نے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہا تھا : حَیَاۃٌ ثُمَّ مَوْتٌ ثُمَّ بَعْثٌ حَدِیْثُ خَرَافَۃٍ یا اُمَّ عَمرو !”کہ یہ زندگی ‘ پھر موت ‘ پھر زندگی ‘ اے اُم عمرو ! یہ کیا حدیث خرافات ہے ؟“ معاذ اللہ ! انسانی زندگی کا سفر دراصل عالم ارواح سے شروع ہو کر ابد الآباد کی سرحدوں تک جاتا ہے۔ انسان کی دنیوی زندگی ‘ موت اور بعث بعد الموت اس طویل سلسلہ ٔ حیات کے مختلف مراحل ہیں۔ جیسا کہ اس آیت میں آیا ہے : { وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْـکُمْ ثُمَّ اِلَـیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔ } البقرۃ ”اور تم مردہ تھے ‘ پھر اس نے تمہیں زندہ کیا ‘ پھر وہ تمہیں مارے گا ‘ پھر جلائے گا ‘ پھر تم اسی کی طرف لوٹا دیے جائو گے“۔ زندگی کے اس تسلسل کے اندر موت کے مرحلے کی توجیہہ میر تقی میر نے ان الفاظ میں بیان کی ہے : ؎موت اِک زندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر !بہرحال انسان کی دنیوی زندگی ایک وقفہ امتحان ہے اور موت اس وقفے کے اختتام کی گھنٹی ہے : { نَحْنُ قَدَّرْنَا بَـیْـنَـکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ۔ } الواقعۃ۔ اس وقفہ امتحان کا انداز بالکل اسکولوں اور کالجوں کے امتحانات جیسا ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ ان امتحانات کے لیے چند گھنٹوں کا وقت دیا جاتا ہے ‘ جبکہ انسانی زندگی کے حقیقی امتحان کا دورانیہ اوسطاً تیس چالیس برس پر محیط ہے۔ ظاہر ہے انسان کی زندگی کے ابتدائی بیس پچیس برس تو بچپنے اور غیر سنجیدہ رویے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر کسی کو بڑھاپا دیکھنا نصیب ہو تو اپنی آخری عمر میں وہ { لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْم بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا } الحج : 5 کی عبرت ناک تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ لے دے کر ایک انسان کو عمل کے لیے شعور کی عمر کے اوسطاً تیس چالیس سال ہی ملتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم خضر راہ میں ”زندگی“ کے عنوان کے تحت زندگی کے اس فلسفے پر کمال مہارت سے روشنی ڈالی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :؎برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم ِجاں ہے زندگی !؎تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی !؎قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند ِحباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی !ان اشعار میں علامہ اقبال نے دراصل قرانی آیات ہی کی ترجمانی کی ہے۔ مندرجہ بالا آخری شعر قلزمِ ‘ ہستی… آیت زیر مطالعہ کے مفہوم کا ترجمان ہے ‘ جبکہ پہلے شعر میں سورة البقرۃ کی آیت 154 { وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَـآئٌ …} کا بنیادی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ ظاہر ہے عام طور پر تو زندہ جان کو ہی زندگی کا نام دیا جاتا ہے ‘ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقی اور دائمی زندگی جان دے دینے تسلیم ِجاں سے حاصل ہوتی ہے۔

اردو ترجمہ

جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee khalaqa sabAAa samawatin tibaqan ma tara fee khalqi alrrahmani min tafawutin fairjiAAi albasara hal tara min futoorin

آیت 3{ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاط } ”وہ اللہ کہ جس نے بنائے سات آسمان ایک دوسرے کے اوپر۔“ یہ آیت آیات متشابہات میں سے ہے۔ ابھی تک انسان سات آسمانوں کی حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ { مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰـوُتٍ } ”تم نہیں دیکھ پائو گے رحمن کی تخلیق میں کہیں کوئی فرق۔“ اس کائنات کا نظام اور اس میں موجود ایک ایک چیز کی تخلیق اس قدر خوبصورت ‘ محکم ‘ مربوط اور کامل ہے کہ اس میں کسی خلل ‘ نقص ‘ رخنے ‘ بدنظمی یا عدم تناسب کا کہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت کی گواہی نسل انسانی نے اپنے اجتماعی علم کی بنیاد پر ہر زمانے میں دی ہے۔ ہر زمانے کے سائنس دانوں نے فلکیات ‘ ارضیات ‘ طبیعیات ‘ حیوانیات ‘ نباتات غرض سائنس کے تمام شعبوں میں حیران کن تحقیقات کی ہیں ‘ لیکن آج تک کوئی ایک محقق یا سائنسدان یہ نہیں کہہ سکا کہ قدرت کی بنائی ہوئی فلاں چیز میں فلاں نقص ہے یا یہ کہ فلاں چیز اگر ایسے کی بجائے ویسے ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتی۔ { فَارْجِعِ الْبَصَرَلا ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ۔ } ”پھر لوٹائو نگاہ کو ‘ کیا تمہیں کہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے ؟“

اردو ترجمہ

بار بار نگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma irjiAAi albasara karratayni yanqalib ilayka albasaru khasian wahuwa haseerun

آیت 4{ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَـیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّہُوَ حَسِیْرٌ۔ } ”پھر لوٹائو نگاہ کو بار بار کوئی رخنہ ڈھونڈنے کے لیے ‘ پلٹ آئے گی نگاہ تمہاری طرف ناکام تھک ہار کر۔“ اندازہ کیجیے کہ کس قدر ُ پرزور اسلوب ہے اور کتنا بڑا چیلنج ہے ! بار بار دیکھو ‘ ہر پہلو اور ہر زاویے سے دیکھو ! اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تمہیں کہیں کوئی خلل ‘ نقص یا رخنہ نظر نہیں آئے گا ! ظاہر ہے یہ چیلنج پوری انسانیت کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ بہرحال آج تک کوئی سائنس دان اور کوئی دانشور اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکا۔ گویا اب تک پوری نوع انسانی اس نکتے پر متفق ہے کہ یہ کائنات اور اس کی ایک ایک تخلیق مثالی اور کامل ہے۔ دراصل دنیا بھر کے دانائوں اور دانشوروں کی توجہ اس مثالی تخلیق کی طرف دلا کر انہیں پیغام تو یہ دینا مقصود ہے کہ اے عقل کے اندھو ! کائنات کی خوبصورتی اور کاملیت کو دیکھ کر اس پر حیرت کا اظہار کرنے کے بجائے اس کے خالق کو پہچانو اور اس کی عظمت کے سامنے اپنا سر نیازخم کرو۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ ستاروں اور کہکشائوں کی دنیا کے اسرار و عجائب کا کھوج لگانے والے بڑے بڑے سائنسدان اور ماہرین فلکیات بھی اس معاملے میں اپنے ناک تلے کے پتھر سے ٹھوکریں کھاتے رہے۔ ان لوگوں نے اپنی تحقیقات کے دوران بہت کچھ دریافت بھی کیا اور بہت کچھ دیکھا بھی۔ لیکن اس ساری چھان بین میں انہیں اگر نہیں نظر آیا تو اس کائنات کا خالق کہیں نظر نہیں آیا۔ بقول اقبال : ؎ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا !

اردو ترجمہ

ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور اُنہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے اِن شیطانوں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کر رکھی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad zayyanna alssamaa alddunya bimasabeeha wajaAAalnaha rujooman lilshshayateeni waaAAtadna lahum AAathaba alssaAAeeri

آیت 5{ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ } ”اور ہم نے سب سے قریبی آسمان کو سجا دیا ہے چراغوں سے“ یعنی زمین سے قریب ترین آسمان کو ستاروں سے مزین کردیا گیا ہے۔ { وَجَعَلْنٰـہَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ } ”اور ان کو بنا دیا ہے ہم نے شیاطین کو نشانہ بنانے کا ذریعہ“ ان ستاروں میں ایسے میزائل نصب کردیے گئے ہیں جو غیب کی خبروں کی ٹوہ میں عالم بالا کی طرف جانے والے شیاطین ِجن کو نشانہ بناتے ہیں۔ { وَاَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ۔ } ”اور ان کے لیے ہم نے تیار کر رکھا ہے جلا دینے والا عذاب۔“

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walillatheena kafaroo birabbihim AAathabu jahannama wabisa almaseeru

آیت 6{ وَلِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ عَذَابُ جَہَنَّمَط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ } ”اور جو لوگ اپنے رب کا کفر کریں چاہے وہ انسان ہوں یا جنات ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے ‘ اور وہ بہت ہی ُ برا ٹھکانہ ہے۔“

اردو ترجمہ

جب وہ اُس میں پھینکے جائیں گے تو اسکے دھاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے اور وہ جوش کھا رہی ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha olqoo feeha samiAAoo laha shaheeqan wahiya tafooru

آیت 7{ اِذَآ اُلْقُوْا فِیْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِیْقًا وَّہِیَ تَفُوْرُ۔ } ”جب وہ اس میں جھونکے جائیں گے تو اسے سنیں گے دھاڑتے ہوئے اور وہ بہت جوش کھا رہی ہوگی۔“ جہنم انہیں دیکھ کر غصے سے دھاڑرہی ہوگی جیسے کوئی بھوکا بھیڑیا اپنے شکار پر جھپٹتے ہوئے غراتا ہے۔ سورة قٓ میں جہنم کے غیظ و غضب کی ایک کیفیت یوں بیان ہوئی ہے : { یَوْمَ نَـقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ۔ } ”جس دن کہ ہم پوچھیں گے جہنم سے کہ کیا تو بھر گئی ؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟“

اردو ترجمہ

شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اُس کے کارندے اُن لوگوں سے پوچھیں گے "کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Takadu tamayyazu mina alghaythi kullama olqiya feeha fawjun saalahum khazanatuha alam yatikum natheerun

آیت 8{ تَـکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ } ”قریب ہوگا کہ وہ غصے سے پھٹ جائے۔“ ایسے معلوم ہوگا کہ ابھی شدت غضب سے پھٹ پڑے گی۔ { کُلَّمَآ اُلْقِیَ فِیْہَا فَوْجٌ سَاَلَہُمْ خَزَنَتُہَآ اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَذِیْرٌ۔ } ”جب بھی ڈالا جائے گا اس میں کسی ایک گروہ کو تو اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے : کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟“ قیامت کے دن ہر قوم کا علیحدہ علیحدہ حساب ہوگا ‘ جیسا کہ سورة النمل کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے : { وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّـکَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَـہُمْ یُوْزَعُوْنَ۔ } ”اور ذرا تصور کرو اس دن کا جس دن ہم جمع کریں گے ہر امت میں سے ایک فوج ان لوگوں میں سے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے ‘ پھر ان کی درجہ بندی کی جائے گی“۔ گویا جیسے جیسے حساب ہوتا جائے گا ‘ اسی ترتیب سے ہر قوم کے مجرمین کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ ہر گروہ کے پہنچنے پر جہنم پر متعین فرشتے ان سے سوال کریں گے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟

اردو ترجمہ

وہ جواب دیں گے "ہاں، خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا، مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے، تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo bala qad jaana natheerun fakaththabna waqulna ma nazzala Allahu min shayin in antum illa fee dalalin kabeerin

آیت 9{ قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَآئَ نَا نَذِیْـــرٌ 5} ”وہ کہیں گے کیوں نہیں ! ہمارے پاس خبردار کرنے والا آیا تھا“ { فَکَذَّبْنَا } ”لیکن ہم نے اسے جھٹلا دیا“ { وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ } ”اور ہم نے کہا کہ اللہ نے کوئی شے نہیں اتاری۔“ ہم نے اپنے رسولوں علیہ السلام سے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف کوئی کتاب وغیرہ نہیں بھیجی ‘ بلکہ ہم نے تو انہیں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ : { اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ کَبِیْرٍ۔ } ”تم تو کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگئے ہو۔“

اردو ترجمہ

اور وہ کہیں گے "کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اِس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں میں نہ شامل ہوتے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo law kunna nasmaAAu aw naAAqilu ma kunna fee ashabi alssaAAeeri

آیت 10{ وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ } ”اور وہ کہیں گے کہ اگر ہم سنتے اور عقل سے کام لیتے“ { مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔ } ”تو ہم نہ ہوتے ان جہنم والوں میں سے۔“ اس آیت میں انبیاء و رسل علیہ السلام کی تکذیب کرنے والوں کے اصل گناہ کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید کا یہ مقام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے تمام لوگوں کا بنیادی اور اصل جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی دعوت سنی اَن سنی کردی تھی۔ اس دعوت پر انہوں نے کبھی سنجیدگی سے غو رہی نہ کیا اور نہ ہی پیغمبروں کی باتوں کو کبھی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی زحمت گوارا کی۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیکھنے ‘ سننے ‘ سمجھنے وغیرہ کی صلاحیتیں اسی لیے تو دی ہیں کہ وہ ان صلاحیتوں کو کام میں لائے اور اپنے نفع و نقصان کے حوالے سے درست فیصلے کرے۔ اسی بنیاد پر آخرت میں انسان کی ان تمام صلاحیتوں کا احتساب بھی ہوگا : { اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً۔ } بنی اسرائیل ”یقینا سماعت ‘ بصارت اور عقل سبھی کے بارے میں بازپرس کی جائے گی“۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو یہ صلاحیتیں استعمال میں لانے کے لیے دی ہیں ‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ حق کی دعوت کے جواب میں اکثر لوگ ان صلاحیتوں سے بالکل بھی کام نہیں لیتے۔ بلکہ اگر بات سمجھ میں آبھی جائے اور دل اس کی صداقت کی گواہی بھی دے دے ‘ تب بھی عملی طور پر قدم آگے نہیں بڑھتا۔ صرف اس لیے کہ آباء و اَجداد کے اعتقادات و نظریات ہیں ‘ برادری کے رسم و رواج ہیں ! انہیں کیسے چھوڑ دیں ؟ اور اگر چھوڑیں گے تو لوگ کیا کہیں گے ؟ اسی نوعیت کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ پرانے مسلک سے روگردانی بھلا کیونکر ممکن ہے ؟ اتنے عرصے سے اس جماعت میں ہیں ‘ اب یکدم اس سے کیسے بےوفائی کردیں ؟

اردو ترجمہ

اس طرح وہ اپنے قصور کا خود اعتراف کر لیں گے، لعنت ہے ان دوزخیوں پر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FaiAAtarafoo bithanbihim fasuhqan liashabi alssaAAeeri

آیت 1 1{ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِہِمْ } ”پس وہ اپنے اصل گناہ کا اعتراف کرلیں گے۔“ { فَسُحْقًا لاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔ } ”پس پھٹکار ہے جہنمی لوگوں کے لیے۔“ اب تقابل کے طور پر آگے اہل جنت کا تذکرہ آ رہا ہے۔

اردو ترجمہ

جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں، یقیناً اُن کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yakhshawna rabbahum bialghaybi lahum maghfiratun waajrun kabeerun
562