اس صفحہ میں سورہ At-Tur کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الطور کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ وَالطُّوْرِ۔ } ”قسم ہے طور کی۔“ طور عام پہاڑ کو بھی کہا جاتا ہے ‘ لیکن ”الطُّور“ سے مراد وہ خاص پہاڑ طور ِسینین٭ ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تھے۔
آیت 2 { وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ۔ } ”اور اس کتاب کی قسم جو لکھی ہوئی ہے۔“ اس بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ اس سے مراد تورات ہے ‘ کیونکہ تورات پتھر کی تختیوں پر لکھی ہوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی گئی تھی ‘ جبکہ قرآن قلب ِمحمد ﷺ پر براہ راست نازل ہوا تھا۔
آیت 3{ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ۔ } ”کشادہ ورق میں۔“ یعنی وہ تختیاں خوب کشادہ تھیں جن پر تورات کی عبارت تحریر تھی۔ گویا یہ تین قسمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات سے متعلق ہیں۔ کو ہِ طور پر آپ علیہ السلام کو مکالمہ الٰہی سے سرفراز فرمایا گیا اور آپ علیہ السلام کو ایک ایسی کتاب عطا کی گئی جو کشادہ تختیوں پر لکھی ہوئی تھی۔
آیت 4{ وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ۔ } ”اور قسم ہے آباد گھر کی۔“ ”البَیْتِ الْمَعْمُوْر“ سے بعض مفسرین بیت اللہ مراد لیتے ہیں کہ اس میں طواف اور عبادت کے لیے ہر وقت لوگ موجود رہتے ہیں۔ بعض دوسرے مفسرین کی رائے میں اس سے مراد خانہ کعبہ کے عین اوپر ساتویں آسمان میں فرشتوں کا کعبہ ہے جو ہر وقت ”معمور“ رہتا ہے ‘ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ بعض مفسرین کی رائے میں اس سے دنیا مراد ہے جو طرح طرح کی مخلوق سے معمور ہے اور مجھے ذاتی طور پر اس رائے سے اتفاق ہے۔ اس لیے کہ بعد والی قسم اسی مفہوم سے مناسبت رکھتی ہے۔
آیت 5{ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ۔ } ”اور قسم ہے اونچی چھت کی۔“ اس سے آسمان مراد ہے۔ پچھلی آیت کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ دنیا ایک گھر کی مانند ہے جس میں انسان آباد ہیں اور آسمان اس گھر کی چھت ہے۔
آیت 6{ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ۔ } ”اور قسم ہے ابلتے ہوئے سمندر کی۔“ اس سے سمندر کی وہ کیفیت مراد ہے جسے ہم اپنی زبان میں ”موج زن سمندر“ یا ”ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر“ کہہ کر بیان کرتے ہیں۔ سمندر کو دیکھنے سے واقعتا ایسے محسوس بھی ہوتا ہے جیسے یہ جوش سے ابل رہا ہے۔ بہرحال جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے ان قسموں کے معانی و مفاہیم کے بارے میں مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ ان قسموں کا مقسم علیہ وہی ہے جو کہ سورة الذاریات کی قسموں کا مقسم علیہ ہے۔
آیت 7{ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ۔ } ”تیرے رب کا عذاب یقینا واقع ہو کر رہے گا۔“ اس سے قیامت کا سخت دن مراد ہے جس کے اٹل ہونے کی حقیقت کو سورة الشوریٰ کی آیت 47 میں { یَوْمٌ لاَّ مَرَدَّ لَـہٗ } ”وہ دن جسے لوٹایا نہ جاسکے گا“ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
آیت 8{ مَّا لَہٗ مِنْ دَافِعٍ۔ } ”اسے کوئی روکنے والا نہ ہوگا۔“
آیت 9{ یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَآئُ مَوْرًا۔ } ”جس روز کہ آسمان بری طرح لرزے گا۔“
آیت 10{ وَّتَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا۔ } ”اور پہاڑ چل رہے ہوں گے جیسے چلا جاتا ہے۔“ پہاڑوں پر زمین کی گرفت برقرار نہیں رہے گی اور وہ ٹوٹ کر فضا میں بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔
آیت 1 1{ فَوَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔ } ”پس ہلاکت و بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔“
آیت 12{ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ خَوْضٍ یَّلْعَبُوْنَ۔ } ”وہ لوگ جو خوش گپیوں میں مصروف کھیل رہے ہیں۔“
آیت 13{ یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا۔ } ”جس دن ان کو دھکے دے دے کر جہنم کی طرف دھکیلاجائے گا۔“
آیت 14{ ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِیْ کُنْتُمْ بِہَا تُکَذِّبُوْنَ۔ } ”اور کہا جائے گا یہ ہے وہ آگ جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔“