سورۃ الماعون (107): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Maa'un کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الماعون کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الماعون کے بارے میں معلومات

Surah Al-Maa'un
سُورَةُ المَاعُونِ
صفحہ 602 (آیات 1 سے 7 تک)

سورۃ الماعون کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Araayta allathee yukaththibu bialddeeni

یہ چھوٹی سی سورت جو صرف سات آیات پر مشتمل ہے اور آیات بھی چھوٹی چھوٹی ہیں ، ایک عظیم حقیقت پر مشتمل ہے ۔ اس کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ یہ گویا شعائر اسلام کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور اس پر غور کرنے سے انسان کو ایمان وکفر کا مفہوم مکمل طور پر بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سے آگے یہ سورت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اسلامی نظریہ حیات کا مزاج کیا ہے۔ اور اس میں انسانیت کے لئے کس قدر عظیم خیر اور بھلائی پوشیدہ ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کے لئے اپنا آخری مشن بھیج کر اللہ نے اس پر کتنا عظیم رحم کیا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ دین چندظاہری رسوم عبادات اور دینی شعائر ہی کا نام نہیں ہے۔ اس میں دینی مرام اور شعائر اور عبادات اس وقت تک مفید نہیں ہوتے جب تک ان میں خلوص نہ ہوئے اور ان کی ادائیگی صرف رضائے الٰہی کے لئے نہ ہو۔ اور جب ان کی وجہ سے قلب انسانی میں ایسے آثار پیدا نہ ہوں جو انسان کو عمل صالح پر ابھارتے ہیں اور جب تک یہ آثار ایسا طرز عمل اختیار نہ کریں جن کے ذریعہ انسانی زندگی اصلاح آخرت پذیر ہو۔ اور اس دنیا میں بھی ان کے نتیجے میں اصلاح اور ترقی نہ ہو۔

پھر یہ دین چند متفرق اجزاء اور ٹکڑوں میں بٹا ہوا دین نہیں ہے کہ انسان ان میں سے جس جزء کو چاہے لے کر نکل جائے اور جس جزء کو چاہے ترک کردے۔ یہ ایک مکمل نظام زندگی ہے اور منہاج حیات ہے۔ اس کے مراسم عبودیت اور اس کے شعائر باہم پیوست ہیں ، اس کے انفرادی فرائض اور اجتماعی احکام باہم مربوط اور معاون ہیں۔ اس کے تمام اجزاء کا مقصد ایک ہے اور وہ انسانیت کے ساتھ متعلق ہیں ، یہ کہ انسانیت کو قلبی اور روحانی تطہیر نصب ہو۔ ان کی زندگی سنور جائے ۔ لوگ باہم معاون ہوں ، ایک دوسرے کے کفیل ہوں ، اور بھلائی ، ترقی اور اصلاحات کی راہ میں ہمقدم ہوں۔ اور ان کی زندگی اللہ کی رحمتوں کا نمونہ ہو۔

انسان اپنی زبان سے کہتا ہے کہ میں مسلم ہوں ، وہ مسلمان ہے اور دین اسلام کے تمام احکام اور فیصلوں کو قبول کرتا ہے ، وہ نماز پڑھتا ہے ، نماز کے علاوہ دوسرے مراسم عبودیت بھی سرانجام دیتا ہے ، لیکن اس کے باوجود حقیقت ایمان اور دین و ایمان کی تصدیق اس سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ اس لئے کہ حقیقت ایمان کے کچھ آثا ہوتے ہیں ، یہ آثار بتاتے ہیں کہ ایمان کی حقیقت موجود ہے ۔ جب یہ آثار نہ ہوں تو کوئی کس طرح کہہ سکتا ہے کہ ایمان کی حقیقت موجود ہے۔ اگر آثار نہ ہوں تو محض اقرار ایمان ہے اور چند ظاہری مراسم عبودیت ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جب ایمان کی حقیقت کسی دل میں پوری طرح بیٹھ جائے تو وہ فوراً عمل صالح کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے سورة العصر میں تفصیلات دی ہیں۔ اگر کسی کا ایمان اس اسلوب سے متحرک نہیں ہوتا تو ظاہری علامت تو یہ ہوگی کہ ایمان اصلا موجود ہی نہیں ہے۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے جس کو یہ سورت ایک مکمل قرار داد کی شکل میں پیش کرتی ہے۔

ارءیت الذی ................................ المسکین (1:107 تا 3) ” تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزاوسزا کو جھٹلاتا ہے ؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا “۔ آغاز ایک ایسے سوال سے ہوتا ہے کہ تمام اس کی طرف متوجہ ہوجائیں تاکہ ایسے شخص کی بابت علم حاصل کرسکیں کہ کون ہے وہ شخص جو دین کی تکذیب کرتا ہے اور اس بات کی صراحت قرآن مجید کررہا ہے کہ ایسا شخص مکذب دین ہے۔ چناچہ جواب آتا ہے۔

فذلک الذی ................................ المسکین (2:107 تا 3) ” وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا “۔

ایمان اور دین کی جو روایتی تعریف ہے اس کو دیکھتے ہوئے قرآن کی یہ صراحت بادی النظر میں انوکھی معلوم ہوسکتی ہے ، لیکن یہ اصل حقیقت ہے کہ جو شخص یتیم کو دھکے دیتا ہے وہ دراصل دین کی تکذیب کرتا ہے۔ یتیم کو دھکے دینے کا مطلب اسے ایذا دینا اور اس کی توہین کرنا ہے۔ اور

ولا یحض (3:107) کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسرے لوگوں کو اس کام پر نہیں اکساتا اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتا۔ اگر اس نے صداقت کے ساتھ دین اسلام کو قبول کیا ہوتا اور اس کے دل میں حقیقی تصدیق ہوتی تو وہ یتیم کو دھکے نہ دیتا ، اور مساکین کو کھانے کے لئے اکسانے اور تحریک چلانے پر لوگوں کو آمادہ کرتا۔

حقیقت یہ ہے کہ دین کا اقرار اور تصدیق صرف ربانی فعل نہیں ہے بلکہ وہ ایک ذہنی اور قلبی انقلاب ہے جس کے نتیجے میں انسان خود بخودبنی نوع انسان پر رحم اور نیکی کرنے لگتا ہے۔ ان لوگوں پر جو امداد اور مراعات کے مستحق ہوں۔ اللہ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ لوگ اپنی زبان سے محض چند کلمے جپتے جائیں ۔ ان کلمات کے ساتھ ساتھ اللہ کا مطالبہ کچھ اعمال کا بھی ہے جو یہ تصدیق کریں کہ ایمان موجود ہے ، ورنہ ایمان محض ایک ہوائی ذرہ ہوگا جو فضا میں ادھر ادھر اڑتا رہتا ہے۔

ان تین آیات میں اس حقیقت کو جس طرح نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اس کی مثال پورے قرآن میں نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلامی نظریہ حیات کی روح ہے اور اس دین کا یہ مزاج ہے۔

ہم یہاں اسلام اور ایمان کی فقہی تعریفات اور ان کے حدود وقیود کے مباحث اور اختلافات میں داخل ہونا نہیں چاہتے۔ یہ تعریفات اس لئے کی جاتی ہیں کہ ان پر شرعی اور قانونی حقوق وفرائض کا فیصلہ کیا جاسکے۔ اس سورت میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس حقیقت نفس الامری کا اظہار کرتی ہے جو اللہ کے ہاں معتبر ہے اور جو اللہ کے معیار کے مطابق ناپی تولی جاتی ہے۔ اللہ کے ہاں جو حقائق ہوتے ہیں وہ ان حقائق سے الگ ہوتے ہیں جن کے مطابق شرعی اور قانونی معاملات طے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس حقیقت اور اس اصول کے مطابق بعض عملی صورتوں کا ذکر کیا جاتا ہے :

فویل ................................ الماعون (4:107 تا 7) ” پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں ، جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں “۔ یہ ان لوگوں کے لئے بددعا ہے یا دھمکی ۔ ان لوگوں کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ وہ لوگ جو ریاکاری کرتے ہیں اور جو معمولی ضرورت کی چیزیں بھی دوسروں کو نہیں دیتے۔

یہ لوگ نماز تو پڑھتے ہیں مگر نماز کو قائم نہیں کرتے ، یہ نماز کے اندر نہیں ہوتا۔ ان کی روح نماز کی حقیقت سے بیگانہ ہوتی ہے۔ ان کی سوچ ان معانی سے دور ہوتی جو وہ پڑھتے ہیں۔ جو قرات ، جو دعائیں اور جو ثنائیں وہ پڑھتے ہیں اس سے ان کی روح دور ہوتی ہے ، گویا وہ اپنی نماز سے جسے وہ پڑھ رہے ہوں ، غافل ہوتے ہیں۔ اسے صحیح طرح ادا نہیں کرتے۔ اللہ کے ہاں مطلوب یہ ہے کہ نماز کو صحیح طرح قائم کیا جائے۔ فقط ادائیگی مطلوب نہیں ہے اور نماز قائم تب ہوتی ہے کہ اسے دینی روح اور اس کے معانی کے ساتھ پڑھاجائے اور جس میں اللہ کی ذات مستحضر ہو۔

یہی وجہ ہے کہ جس نماز کو وہ پڑھ رہے ہوتے ہیں ان کی زندگی میں اس نماز کے آثار پیدا نہیں ہوتے کیونکہ وہ نماز کی حرکات کے دوران غافل ہوتے ہیں۔ چناچہ یہ لوگ معمولی ضرورت کی چیز (ماعون) بھی دوسروں کو نہیں دیتے۔ دوسروں کے ساتھ کوئی امداد نیکی ، بھلائی نہیں کرتے۔ حالانکہ نماز کا تقاضا یہ ہے کہ وہ نمازی اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرے اور ان سے معمولی ضرورت کی چیز نہ روکے۔ اس لئے جو لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں وہ دراصل حقیقی نماز نہیں ادا کررہے ہوتے۔ لہٰذا اللہ کے نزدیک حقیقی اور سچی عبادت کا معیار یہ ہے کہ ایک انسان اپنے بنی نوع انسان سے معمولی ضرورت کی اشیاء نہ روکے ۔ ان کی معاونت سے دستکش نہ ہو۔

یوں ہم دین کی ایک دوسری لانیفک حقیقت کو سامنے اپنے آپ کو کھڑا پاتے ہیں اور یہ اسلامی نظریہ حیات کا تقاضا ہے وہ یہ کہ ایک قرآنی آیت نمازیوں کو کھلی دھمکی دے رہی ہے کہ وہ ہلاکت سے دوچار ہوں گے کیونکہ وہ نماز کو صحیح طرح قائم نہیں کررہے۔ بلکہ وہ ایسی حرکات کررہے ہیں جن میں کوئی روح نہیں ہے۔ وہ ان حرکات میں اللہ کے دربار میں حاضر نہیں ہوتے۔ خالص اللہ کے نہیں ہوتے ، بلکہ محض لوگوں کے دکھاوے کے ئے وہ نماز پڑھتے ہیں ، اس لئے ان کی نماز سے وہ آثار نمودار نہیں ہوتے جو حقیقی نماز سے ہوتے ہیں ، نہ اس ان کے دل پر نماز کا اثر ہوتا ہے ، نہ ان کی عملی دنیا پر وہ اثرانداز ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ نماز ذرہ بےقیمت ہے ، ایک غبار ہے بلکہ نمازی کے لئے یہ نماز ایک وبال وہلاکت ہے۔

ان تصریحات کے بعد ہماری سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آجاتی ہے کہ اللہ لوگوں کے پاس رسول کیوں بھیجتا ہے اور لوگوں سے کیوں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایمان لائیں اور بندگی کریں ؟.... اس ساری جدوجہد سے اللہ کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ وہ تو غنی بادشاہ ہے۔ اس لئے مقصود یہ ہے کہ خود انسانوں کی زندگی سنور جائے ان کی بھلائی مقصود ہے۔ ان کے قلوب پاک ہوں اور زندگی کامیاب ہو ، وہ ان کے لئے ایک ایسی ندگی چاہتا ہے جو پاکیزہ شعور اور اعلیٰ نظریات پر قائم ہو۔ جس کے اندر لوگ ایک دوسرے سے کفیل ہوں جن کی ذہنیت شریفانہ ہو ، جن کے اندر محبت اور بھائی چارہ ہو ، جن کا تصور اور طرز عمل دونوں پاک ہوں۔

اے کاش ! انسانیت اس بھلائی کو چھوڑ کر کدھر جارہی ہے۔ اس رحمت کو چھوڑ کر کہاں بھکٹ رہی ہے اور اس خوبصورت اور حسین و جمیل مقام بلند کو چھوڑ کر کن پستیوں میں گری ہوتی ہے یا کہاں وہ جاہلیت کے پیچیدہ اور تاریک راہوں میں گم گشتہ ہے حالانکہ اس کے سامنے نور ، اسلام کا نور ، مرکزی چوک میں موجود ہے۔

اردو ترجمہ

وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fathalika allathee yaduAAAAu alyateema

اردو ترجمہ

اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اکساتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala yahuddu AAala taAAami almiskeeni

اردو ترجمہ

پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fawaylun lilmusalleena

اردو ترجمہ

جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena hum AAan salatihim sahoona

اردو ترجمہ

جو ریا کاری کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena hum yuraoona

اردو ترجمہ

اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WayamnaAAoona almaAAoona
602