سورہ مائدہ (74): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Muddaththir کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المدثر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ مائدہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Muddaththir
سُورَةُ المُدَّثِّرِ
صفحہ 575 (آیات 1 سے 17 تک)

سورہ مائدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ مائدہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha almuddaththiru

اردو ترجمہ

اٹھو اور خبردار کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qum faanthir

آیت 2{ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ } ”آپ ﷺ اٹھئے اور لوگوں کو خبردار کیجیے۔“ یہ ہے وہ کٹھن ذمہ داری جس کے بارے میں سورة المزمل کی آیت { اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا۔ } میں حضور ﷺ کو بہت پہلے اشارہ دے دیا گیا تھا ‘ یعنی انذارِ آخرت کی ذمہ داری ‘ جس کے لیے تمہیدی کلمات میں قیام اللیل کے مقابلے میں ”قیام النہار“ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ دراصل انبیاء و رسل - کی دعوت کے حوالے سے جو اصطلاح قرآن مجید میں بہت تکرار کے ساتھ آئی ہے وہ ”انذار“ ہی ہے۔ اسی لیے حضور ﷺ کو بھی بار بار حکم دیا گیا کہ آپ ﷺ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو خبردار کریں : { وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ } الانعام : 19 اینبی ﷺ ! آپ ان لوگوں کو بتائیں کہ قرآن مجھ پر نازل ہی اس لیے ہوا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم لوگوں کو خبردار کر دوں۔ تم اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ ترین مخلوق ہو ‘ تمہارے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی ہے۔ یہ روح اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم امانت ہے جس کی ذمہ داری کے بوجھ سے زمین ‘ پہاڑ اور آسمان تک ڈر گئے تھے۔ اسی امانت کے حوالے سے تمہارا احتساب ہونا ہے۔ اس احتساب کے لیے مرنے کے بعد تمہیں پھر سے زندہ کیا جائے گا : وَاللّٰہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ ، ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَـیْقِظُوْنَ ، ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ، ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبالسُّوْئِ سُوْئً ، وَاِنَّھَا لَجَنَّــۃٌ اَبَدًا اَوْ لَـنَارٌ اَبَدًا 1”اللہ کی قسم ‘ تم سب مر جائو گے جیسے روزانہ سو جاتے ہو ! پھر یقینا تم اٹھائے جائو گے جیسے ہر صبح بیدار ہوجاتے ہو۔ پھر لازماً تمہارے اعمال کا حساب کتاب ہوگا ‘ اور پھر لازماً تمہیں بدلہ ملے گا اچھائی کا اچھائی اور برائی کا برائی ‘ اور وہ جنت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے دائمی !“ بہرحال آیت زیر مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کی دعوت کا نقطہ آغاز ”انذارِ آخرت“ ہے۔ اب اگلی آیت میں اس دعوت کے ہدف کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے حضور ﷺ کی دعوت کا ہدف نہ تو خانقاہی نظام کی تشکیل ہے اور نہ ہی صرف تعلیم و تعلّم کے نظام کا قیام ہے ‘ بلکہ اس کا ہدف یہ ہے :

اردو ترجمہ

اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Warabbaka fakabbir

آیت 3{ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ } ”اور اپنے رب کو بڑا کرو !“ غور کیجیے ! رب کو بڑا کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ وہ تو اپنی ذات میں خود ہی سب سے بڑا ہے۔ ہم انسان اس کو بھلا کیا بڑا کریں گے ؟ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اس زمین میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی عملاً تسلیم نہیں کی جارہی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو محدود اختیار عطا فرمایا تھا اس کے بل پر اس نے اسی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ ظلم اور فساد کا بازار گرم ہوگیا ہے : { ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ } الروم : 41 ”بحر و بر میں فساد رونما ہوچکا ہے ‘ لوگوں کے اعمال کے سبب“۔ چناچہ اب جو کوئی بھی اللہ کو اپنا الٰہ اور اپنا رب مانتا ہے ‘ اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پارٹی حزب اللہ کا ممبر اور اس کی فوج کا سپاہی بن کر لوگوں سے اس کی بڑائی کو منوانے اور اس کی کبریائی کو عملی طور پر دنیا میں نافذ کرنے کی جدوجہد میں اپنا تن من اور دھن کھپا دے ‘ تاکہ اللہ کی بات سب سے اونچی ہو : { وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِج } الانفال : 39 ”اور دین ُ کل کا کل اللہ کے لیے ہوجائے“۔ یہ ہے ”تکبیر ِرب“ یا رب کو بڑا کرنے کے مفہوم کا خلاصہ۔ گویا ان دو لفظوں میں حضور ﷺ کی بعثت کا مقصد اور آپ ﷺ کے مشن کا پورا فلسفہ بیان کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ”تکبیر رب“ کی اصطلاح کی حیثیت ایک ایسی گٹھلی کی ہے جس میں سے اقامت ِدین ‘ غلبہ ٔ دین ‘ اظہارِ دین حق ‘ حکومت ِالٰہیہ وغیرہ اصطلاحات کی کو نپلیں پھوٹی ہیں۔ سورت کی ان ابتدائی تین آیات میں حضور ﷺ کی زندگی کے اس دور کی جھلک بھی نظر آتی ہے جب آپ ﷺ پر تفکر و تدبر بلکہ تشویش اور فکر مندی کا غلبہ تھا۔ غارِ حرا کے اندر پہلی وحی کا نزول آپ ﷺ کے لیے بالکل ایک نیا تجربہ تھا جس پر آپ ﷺ بجا طور پر فکر مند تھے۔ پھر ورقہ بن نوفل نے آپ ﷺ کے آئندہ حالات کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا اس کی وجہ سے آپ ﷺ کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا۔ ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہ رض کے چچا زاد بھائی تھے۔ پہلی وحی کے واقعہ کے بعد حضرت خدیجہ رض حضور ﷺ کو خصوصی طور پر ان کے پاس لے کر گئیں۔ وہ صاحب بصیرت عیسائی راہب تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے غار حرا میں پیش آنے والے واقعہ کی تفصیل سننے کے بعد کہا کہ آپ ﷺ کے پاس وہی ناموس آیا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ حضور ﷺ نے ورقہ بن نوفل کی اس بات پر پریشانی اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا میری قوم مجھییہاں سے نکال دے گی ؟ آپ ﷺ کا مطلب تھا کہ وہ سب لوگ تو مجھ سے بیحد محبت کرتے ہیں ‘ مجھے صادق اور امین مانتے ہیں ‘ اور میرے قدموں میں اپنی نگاہیں بچھاتے ہیں ‘ بھلا وہ مجھے کیوں شہر بدر کریں گے ؟ اس پر ورقہ بن نوفل نے جواب دیا کہ اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کی یہ ذمہ داری جس کسی کو بھی ملی اس کی قوم اس کی دشمن بن گئی ‘ ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ حضور ﷺ سے اس ملاقات کے بعد جلد ہی ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا۔ اس واقعہ سے حضور ﷺ کی نبوت اور رسالت کا فرق بھی واضح ہوجاتا ہے۔ ورقہ بن نوفل نے حضور ﷺ کی نبوت کی تصدیق تو کردی تھی لیکن اس وقت تک حضور ﷺ کو اپنی دعوت کی تبلیغ کا حکم نہیں ملا تھا۔ یعنی اس وقت تک صرف آپ ﷺ کی نبوت کا ظہور ہوا تھا ‘ رسالت کی ذمہ داری ابھی آپ ﷺ کو نہیں ملی تھی۔ اسی لیے حضور ﷺ نے انہیں ایمان کی دعوت بھی نہیں دی اور اسی لیے ورقہ بن نوفل کا شمار صحابہ میں بھی نہیں ہوتا۔

اردو ترجمہ

اور اپنے کپڑے پاک رکھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wathiyabaka fatahhir

آیت 4{ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ۔ } ”اور اپنے کپڑوں کو صاف رکھنے کا اہتمام کیجیے۔“ جس طرح آپ ﷺ کی زندگی کا مقصد پاکیزہ ہے اسی طرح آپ ﷺ کا لباس بھی پاک اور صاف ہوناچاہیے۔ اس آیت کی صوفیانہ انداز میں ایک تعبیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ”ثیاب“ سے صرف کپڑے ہی نہیں بلکہ اخلاق و کردار بھی مراد ہے۔ گویا اس حکم میں ظاہری طہارت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت بھی شامل ہے۔

اردو ترجمہ

اور گندگی سے دور رہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalrrujza faohjur

آیت 5{ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔ } ”اور ہر قسم کی گندگی سے دور رہیے۔“ یعنی ظاہری اور باطنی نجاستوں سے خود کو بچا کر رکھئے۔ ظاہر ہے باطنی گندگیوں میں سب سے بڑی گندگی شرک ہے۔ اسی لیے بعض مترجمین نے الرُّجْزَ کا ترجمہ ”بتوں کی گندگی“ کیا ہے۔

اردو ترجمہ

اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tamnun tastakthiru

آیت 6{ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ۔ } ”اور زیادہ لینے کے لیے کسی پر احسان نہ کیجیے۔“ اس آیت کا عام اور معروف مفہوم تو یہی ہے کہ کسی پر احسان کرتے ہوئے بدلے کی توقع نہ رکھو ‘ بلکہ احسان برائے احسان کرو۔ لیکن مجھے ذاتی طور پر اس آیت کا وہ ترجمہ پسند ہے جو مولانا اصلاحی صاحب نے کیا ہے : ”اور اپنی سعی کو زیادہ خیال کر کے منقطع نہ کر !“ مَنَّ یَمُنُّ مَنًّا کے معانی احسان کرنا اور احسان جتلانا کے علاوہ توڑنے اور کاٹنے کے بھی ہیں۔ اصلاحی صاحب نے اپنے ترجمے میں اسی معنی کو اپنایا ہے۔ چناچہ اس معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے نبی ﷺ ! آپ اپنے فرضِ منصبی سے متعلق جدوجہد کو منقطع نہ کرنا ‘ یقینا آپ ﷺ کی اس دعوت کے بڑے بڑے نتائج نکلیں گے۔ کچھ عرصے تک آپ ﷺ کو انتظار تو ضرور کرنا پڑے گا لیکن بالآخر آپ ﷺ کی تحریک کامیاب ہوگی اور آپ ﷺ کو ڈھیروں کامیابیاں ملیں گی۔

اردو ترجمہ

اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walirabbika faisbir

آیت 7{ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ۔ } ”اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔“ یہ اس آیت کا وہ ترجمہ ہے جو عام طور پر کیا جاتا ہے۔ لیکن میں قبل ازیں متعدد بار یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ صبر کے ساتھ جب ”ل“ آتا ہے تو اس کے معنی میں انتظار کا مفہوم آجاتا ہے۔ چناچہ اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجیے اور جو بھی حکم آئے اس پر عمل کیجیے۔ سورت کا پہلا حصہ ان ابتدائی سات آیات پر مشتمل ہے اور اس حصے میں حضور ﷺ سے خطاب تھا۔ اب اگلی آیت سے اس سورت کے دوسرے حصے کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ حصہ تین مختصر آیات پر مشتمل ہے اور ان آیات میں قیامت کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

اچھا، جب صور میں پھونک ماری جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha nuqira fee alnnaqoori

آیت 10{ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ۔ } ”کافروں پر وہ ہلکا نہیں ہوگا۔“ اس کے مقابل سورة المزمل میں قیامت کے دن کا ذکر اس طرح آیا تھا : { فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَانِ - السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌم بِہٖط کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلًا۔ } ”اب اگر تم بھی کفر کرو گے تو تم کیسے بچ جائو گے اس دن جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ آسمان اس کے ساتھ پھٹ پڑنے کو ہے۔ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔“ اس کے بعد سورت کے تیسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ ان آیات کا لہجہ اور انداز بہت سخت ہے۔

اردو ترجمہ

وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fathalika yawmaithin yawmun AAaseerun

اردو ترجمہ

کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAala alkafireena ghayru yaseerin

اردو ترجمہ

چھوڑ دو مجھے اور اُس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tharnee waman khalaqtu waheedan

آیت 1 1{ ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا۔ } ”آپ چھوڑ دیجیے مجھے اور جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا۔“ ذَرْنِیْکا یہ انداز ہم قبل ازیں سورة ن اور سورة المزمل میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ خَلَقْتُ وَحِیْدًا کا مفہوم یہ ہے کہ جب میں نے اسے پیدا کیا تھا اس وقت یہ تنہا تھا ‘ کوئی مال ‘ اولاد یا جائیداد وغیرہ لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ ان آیات کے بارے میں مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ ولید بن مغیرہ کے حق میں نازل ہوئی ہیں۔ اس شخص کی مکہ اور طائف دونوں شہروں میں بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔ اللہ نے اسے بہت سے بیٹوں سے بھی نواز رکھا تھا۔

اردو ترجمہ

بہت سا مال اُس کو دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAaltu lahu malan mamdoodan

آیت 12{ وَّجَعَلْتُ لَہٗ مَالًامَّمْدُوْدًا۔ } ”اور اسے میں نے بہت سا مال دیا پھیلا ہوا۔“ ان الفاظ میں اشارہ ہے اس شخص کی ان جائیدادوں کی طرف جو زمینوں ‘ باغوں ‘ گھروں وغیرہ کی صورت میں مکہ اور طائف دونوں شہروں میں پھیلی ہوئی تھیں۔

اردو ترجمہ

اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wabaneena shuhoodan

آیت 13{ وَّبَنِیْنَ شُہُوْدًا۔ } ”اور نگاہوں کے سامنے رہنے والے بیٹے دیے۔“ کسی کے بیٹوں کا گھر میں حاضر و موجود رہنا بھی اس کی تونگری اور خوشحالی کی علامت ہے۔ ورنہ فکر معاش جوان بیٹوں کو گھر میں چین سے کہاں بیٹھنے دیتی ہے۔ آج ”حاضر باش“ بیٹوں جیسی نعمت کی قدر پوچھنی ہو تو ان والدین سے پوچھیں جن کے نوجوان بیٹے روزی کی تلاش میں امریکہ اور یورپ میں دھکے کھا رہے ہیں اور وہ محض انہیں ایک نظر دیکھنے کی امید پر جی رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamahhadtu lahu tamheedan

اردو ترجمہ

پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma yatmaAAu an azeeda

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla innahu kana liayatina AAaneedan

آیت 17{ سَاُرْہِقُہٗ صَعُوْدًا۔ } ”میں اسے عنقریب ایک سخت چڑھائی چڑھوائوں گا۔“ اس سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی شدت ہر آن بڑھتی چلی جائے گی۔ اسی نوعیت کے عذاب کا ذکر سورة جن میں بھی آچکا ہے : { یَسْلُکْہُ عَذَابًا صَعَدًا۔ } ”تو وہ ڈال دے گا اس کو چڑھتے عذاب میں۔“ ولید بن مغیرہ بنیادی طور پر بہت ذہین اور سمجھ دار شخص تھا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ قرآن اللہ ہی کا کلام ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘ لیکن اپنے ضمیر کی اس آواز پر لبیک کہہ کر وہ اپنی چودھراہٹ اور دنیوی ٹھاٹھ باٹھ کی قربانی نہیں دے سکتا تھا۔ اس لحاظ سے وہ واقعتا بہت مشکل میں تھا۔ اپنی اس مشکل کا حل اسے کسی درمیانی راہ میں نظر آتا تھا۔ چناچہ قریش میں سب سے بڑھ کر اس شخص نے حضور ﷺ پر سمجھوتے compromise کے لیے دبائو ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے لیے اس نے حضور ﷺ کو ہمدردانہ انداز میں بھی سمجھایا ‘ پرکشش پیشکش کا حربہ بھی آزمایا اور برادری کے معاملات کا واسطہ بھی دیا کہ قریش اگر آپس میں تقسیم ہوجائیں گے تو ان کی بنی بنائی ساکھ ختم ہو کر رہ جائے گی۔ غرض اس نے ہر طرح سے کوشش کی کہ حضور ﷺ کچھ اپنی بات منوا لیں ‘ کچھ قریش کی مان لیں اور اس طرح فریقین کے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے ختم کردیا جائے۔ آئندہ آیات میں ایک خاص واقعہ کے حوالے سے اس شخص کی ایک خاص کیفیت کی تصویر دکھائی گئی ہے۔ تفاسیر میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ ایک محفل میں قریش کے بڑے بڑے سردار جمع تھے۔ زیربحث موضوع یہ تھا کہ محمد ﷺ کے بارے میں ہمیں ایک متفقہ موقف اپنانا چاہیے۔ جب ہم میں سے کوئی اسے شاعر سمجھتا ہے ‘ کوئی جادوگر کہتا ہے ‘ کوئی کاہن قرار دیتا ہے تو اس سے خود ہمارا موقف کمزور ہوجاتا ہے کہ ہم خود کسی بات پر متفق نہیں۔ بحث مباحثے کے بعد انہوں نے ولید بن مغیرہ کو حضور ﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ جائے اور آپ ﷺ سے تفصیلی بات چیت کر کے انہیں اپنی حتمی رائے سے آگاہ کرے۔ جب وہ حضور ﷺ سے ملاقات کرکے واپس آیا تو انہوں نے اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا پایا۔ دراصل حضور ﷺ سے گفتگو کرنے کے بعد وہ پوری طرح قائل ہوچکا تھا کہ آپ ﷺ واقعی اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور جو کلام آپ ﷺ پیش کر رہے ہیں وہ بلاشبہ اللہ ہی کا کلام ہے۔ لیکن یہ بات سردارانِ قریش کے سامنے تسلیم کرنا اسے کسی قیمت پر گوارا نہیں تھا۔ چناچہ جب انہوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کس نتیجے پر پہنچا ہے ؟ کیا ہم محمد ﷺ کو محض ایک شاعر سمجھیں ؟ تو اس نے کہا : نہیں ان ﷺ کا کلام شعر نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا تو کیا پھر ہم اسے ﷺ کاہن کہہ سکتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا : نہیں ‘ کاہنوں کے قول و کردار کو میں خوب جانتا ہوں۔ وہ ذومعنی باتیں کرتے ہیں جبکہ یہ ﷺ تو دو ٹوک اور سیدھی بات کرتے ہیں۔ اس پر سردارانِ قریش نے کہا کہ لوجی ! یہ تو گیا ! اس پر بھی محمد ﷺ کا جادو چل گیا ! اب اس نے اہل محفل کے جو تیور دیکھے تو فوراً پینترا بدل کر بولا کہ ہاں اس کے کلام کے بارے میں آپ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جادو ہے ‘ جو پچھلے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ اب ظاہر ہے ولید بن مغیرہ جیسے معتبر اور ّمدبر شخص کا ایک بات پر پوری طرح سے قائل ہونے کے بعد زبان سے اس کی علی الاعلان نفی کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ چناچہ اس موقع پر وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دباتے ہوئے ‘ زبان سے جھوٹ کہتے ہوئے اور اس دوران اپنی پریشانی اور خفت کو چھپاتے ہوئے جس کرب سے گزرا ہے ‘ ان آیات میں اس کی اس پوری کیفیت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید کا یہ مقام فصاحت و بلاغت کی معراج اور لفظی منظر کشی کی بہترین مثال ہے۔

اردو ترجمہ

میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواؤں گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Saorhiquhu saAAoodan

آیت 18{ اِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَ۔ } ”اس نے غور کیا اور کچھ اندازہ کیا۔“ اس نے سوچا کہ دل کی بات زبان پر لانے یعنی حق کو مان لینے سے کیا ہوگا اور نہ ماننے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ پھر جب اسے اپنے دنیوی مفادات خطرے میں پڑتے نظر آئے تو اس نے ضمیر کی آواز کو دبالینے کا فیصلہ کرلیا۔

575