اس صفحہ میں سورہ Ibrahim کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ ابراهيم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
الۗرٰ اس مقام پر حروف مقطعات کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ مکی سورتوں کے اس سلسلے کے پہلے ذیلی گروپ کی تینوں سورتوں یونس ، ہود اور یوسف کا آغاز الۗرٰ سے ہو رہا ہے ‘ جبکہ دوسرے ذیلی گروپ کی پہلی سورة الرعد ا آمآرٰ سے اور دوسری دونوں سورتیں ابراہیم اور الحجر پھر الۗرٰ سے ہی شروع ہورہی ہیں۔كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ قرآن کریم میں اندھیرے کے لیے لفظ ”ظُلُمات“ ہمیشہ جمع اور اس کے مقابلے میں ”نُور“ ہمیشہ واحد استعمال ہوا ہے۔ چونکہ کسی فرد کی ہدایت کے لیے فیصلہ اللہ کی طرف سے ہی ہوتا ہے اس لیے فرمایا کہ آپ کا انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کا یہ عمل اللہ کے حکم اور اس کی منظوری سے ہوگا۔
آیت 3 الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ یہ آیت ہم سب کو دعوت دیتی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنی ترجیحات کا تجزیہ کرے کہ اس کی مہلت زندگی کے اوقات کار کی تقسیم کیا ہے ؟ اس کی بہترین صلاحیتیں کہاں کھپ رہی ہیں ؟ اور اس نے اپنی زندگی کا بنیادی نصب العین کس رخ پر متعین کر رکھا ہے ؟ پھر اپنی مشغولیات میں سے دنیا اور آخرت کے حصے الگ الگ کر کے دیکھے کہ دنیوی زندگی مَتاع الغُرُوْر کو سمیٹنے کی اس بھاگ دوڑ میں سے اصل اور حقیقی زندگی خَیْرٌ وَّاَبْقٰی کے لیے اس کے دامن میں کیا کچھ بچتا ہے ؟وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ اللہ کے راستے سے روکنے کی مثالیں آج بھی آپ کو قدم قدم پر ملیں گی۔ مثلاً ایک نوجوان کو اگر اللہ کی طرف سے دین کا شعور اور متاع ہدایت نصیب ہوئی ہے اور وہ اپنی زندگی کو اسی رخ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اس کے والدین اور دوست احباب اس کو سمجھانے لگتے ہیں ‘ کہ تم اپنے کیرئیر کو دیکھو ‘ اپنے مستقبل کی فکر کرو ‘ یہ تمہارے دماغ میں کیا فتور آگیا ہے ؟ غرض وہ کسی نہ کسی طرح سے اسے قائل کر کے اپنے اسی رستے پر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جس پر وہ خود اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔
آیت 4 وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ یعنی ہر قوم کی طرف مبعوث رسول پر وحی اس قوم کی اپنی ہی زبان میں آتی تھی تاکہ بات کے سمجھنے اور سمجھانے میں کسی قسم کا ابہام نہ رہ جائے ‘ اور ابلاغ کا حق ادا ہوجائے۔ جیسے حضرت موسیٰ کو تورات دی گئی تو عبرانی زبان میں دی گئی جو آپ کی قوم کی زبان تھی۔فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اس کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ گمراہ کرتا ہے اسے جو چاہتا ہے گمراہ ہونا اور ہدایت دیتا ہے اس کو جو چاہتا ہے ہدایت حاصل کرنا۔
آیت 5 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَآاَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَذَكِّرْهُمْ ڏ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ یہ ”التّذکیر بایّام اللّٰہ“ کی وہی اصطلاح ہے جس کا ذکر شاہ ولی اللہ دہلوی کے حوالے سے قبل ازیں بار بار آچکا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی مشہور کتاب ”الفوز الکبیر“ میں مضامین قرآن کی تقسیم کے سلسلے میں ”التذکیر بایام اللّٰہ“ کی یہ اصطلاح استعمال کی ہے یعنی اللہ کے ان دنوں کے حوالے سے لوگوں کو خبردار کرنا جن دنوں میں اللہ نے بڑے بڑے فیصلے کیے اور ان فیصلوں کے مطابق کئی قوموں کو نیست و نابود کردیا۔ اس کے ساتھ شاہ ولی اللہ نے دوسری اصطلاح ”التذکیر بآلاء اللّٰہ“ کی استعمال کی ہے ‘ یعنی اللہ کی نعمتوں اور اس کی نشانیوں کے حوالے سے تذکیر اور یاد دہانی۔اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ صَبَّار اور شَکُور دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبر اور شکر یہ دونوں صفات آپس میں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی complementary نوعیت کی ہیں۔ چناچہ ایک بندۂ مؤمن کو ہر وقت ان میں سے کسی ایک حالت میں ضرور ہونا چاہیے اور اگر وہ ان میں سے ایک حالت سے نکلے تو دوسری حالت میں داخل ہوجائے۔ اگر اللہ نے اس کو نعمتوں اور آسائشوں سے نوازا ہے تو وہ شکر کرنے والا ہو اور اگر کوئی مصیبت یا تنگی اسے پہنچی ہے تو صبر کرنے والا ہو۔حضرت صہیب بن سنان رومی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِاَحَدٍ الاَّ لِلْمُؤْمِنِ ‘ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ 1”مؤمن کا معاملہ تو بہت ہی خوب ہے ‘ اس کے لیے ہر حال میں بھلائی ہے ‘ اور یہ بات مؤمن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہے۔ اگر اسے کوئی آسائش پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے ‘ پس یہ اس کے لیے بہتر ہے ‘ اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے ‘ پس یہ اس کے لیے بہتر ہے۔“